fatawaulamaedeoband | Unsorted

Telegram-канал fatawaulamaedeoband - فتاوی علمائے دیوبند

2132

اس چینل میں علماء دیوبند کے منتخب مضامین و فتاوی حسبِ فرصت ارسال کیے جاتے ہیں ل۔ فتاوی علماء دیوبند فیسبک پیج⁦⬇️⁩ https://www.facebook.com/FatawaUlamaeDeoband/ سنہری تحریریں ٹیلیگرام چینل⁦⬇️⁩ @SunehriTehriren ⁦⬇️⁩⁦درر علماء الهند⁦ @UlamaUlHind

Subscribe to a channel

فتاوی علمائے دیوبند

*📚 کتاب دوستی اور ذوقِ مطالعہ*
*(خصوصی واٹس ایپ گروپ)*
============

اس گروپ کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ دور حاضر میں جو کتاب سے دوری کا مرض بڑھ رہا ہے، اس کا کچھ معالجہ ہوجائے۔عموما آج اکثر لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، اسی میں کھو کر کتاب سے دور ہوجاتے ہیں۔سوچا اسی سوشل میڈیا کو آگاہی کا ذریعہ بنایا جائے؛ تاکہ کتاب سے ٹوٹتے تعلق کو جوڑنے کی ایک چھوٹی سی کاوش کی جائے۔
(ماخوذ از تحریر مولانا احتشام الحسن بتغیر)

*🌹گروپ کے اصول و ضوابط:*

▪️اس گروپ میں کتب بینی اور مطالعہ کا شوق دلانے والی مفید تحریریں شامل کی جائیں گی۔

▪️مستند شخصیات کے کتب پر کیے گئے عمدہ تبصرے نقل کیے جائیں گے۔

▪️وقفے وقفے سے مستند دینی و اصلاحی کتب بشکل پی ڈی ایف ارسال کی جائیں گی، تاکہ جو لوگ کسی وجہ سے کتاب نہ خرید سکیں وہ بھی ذوقِ مطالعہ سے محروم نہ ہوں۔
(ان کتب کا مطالعہ کرنا، ان سے نفع اٹھا کر اوقات کو قیمتی بنانا ہی اس گروپ کا اصل مقصد ہے)

▪️ اکابر علماء کی کتب سے قیمتی اقتباسات نقل کیے جائیں گے، تاکہ ان کو پڑھ کر مکمل کتاب پڑھنے کا شوق ہو۔

▪️بسا اوقات ممبر کی فرمائش پر کسی خاص موضوع سے متعلق پی ڈی ایف کتاب حتی الامکان ارسال کی جائے گی۔

▪️ ایک ماہ میں گروپ میں ارسال کی جانے والی کتب میں سے سب سے زیادہ صفحات کا مطالعہ کرنے والے ممبر کو تشجیعی انعام سے نوازا جائے گا۔

▪️ اس کے علاوہ بھی بہت سی مفید چیزیں شئیر کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ

🌸 *نوٹ:*
گروپ کو سنجیدہ اور دلچسپ بنانے کے لیے ماہانہ معمولی فیس بھی (100 روپئے) رکھی گئی ہے جس کی ادائیگی پیشگی لازم ہے۔
تاکہ صرف ذہنی طور پر محظوظ ہونے کے بجائے حقیقتاً کتاب سے رشتہ جوڑنے، ذوقِ مطالعہ پانے اور وقت کو قیمتی بنانے کی فکر جائے۔

مزید معلومات اور *کتاب دوستی گروپ* سے منسلک ہونے کے لیے پیشگی فیس کی ادائیگی کا ارادہ رکھنے والے شائقین ِ مطالعہ رابطہ فرمائیں
🪀Wa.me/919580635638
(از راہ کرم پڑوس ملک کے احباب رابطہ نہ کریں)
========
اپنے دوست واحباب کو بھی یہ پوسٹ شئیر کر سکتے ہیں۔

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

*📚 کتاب دوستی اور ذوقِ مطالعہ*
*(خصوصی واٹس ایپ گروپ)*
============

اس گروپ کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ دور حاضر میں جو کتاب سے دوری کا مرض بڑھ رہا ہے، اس کا کچھ معالجہ ہوجائے۔عموما آج اکثر لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، اسی میں کھو کر کتاب سے دور ہوجاتے ہیں۔سوچا اسی سوشل میڈیا کو آگاہی کا ذریعہ بنایا جائے؛ تاکہ کتاب سے ٹوٹتے تعلق کو جوڑنے کی ایک چھوٹی سی کاوش کی جائے۔
(ماخوذ از تحریر مولانا احتشام الحسن بتغیر)

*🌹گروپ کے اصول و ضوابط:*

▪️اس گروپ میں کتب بینی اور مطالعہ کا شوق دلانے والی مفید تحریریں شامل کی جائیں گی۔

▪️مستند شخصیات کے کتب پر کیے گئے عمدہ تبصرے نقل کیے جائیں گے۔

▪️وقفے وقفے سے مستند دینی و اصلاحی کتب بشکل پی ڈی ایف ارسال کی جائیں گی، تاکہ جو لوگ کسی وجہ سے کتاب نہ خرید سکیں وہ بھی ذوقِ مطالعہ سے محروم نہ ہوں۔
(ان کتب کا مطالعہ کرنا، ان سے نفع اٹھا کر اوقات کو قیمتی بنانا ہی اس گروپ کا اصل مقصد ہے)

▪️ اکابر علماء کی کتب سے قیمتی اقتباسات نقل کیے جائیں گے، تاکہ ان کو پڑھ کر مکمل کتاب پڑھنے کا شوق ہو۔

▪️بسا اوقات ممبر کی فرمائش پر کسی خاص موضوع سے متعلق پی ڈی ایف کتاب حتی الامکان ارسال کی جائے گی۔

▪️ ایک ماہ میں گروپ میں ارسال کی جانے والی کتب میں سے سب سے زیادہ صفحات کا مطالعہ کرنے والے ممبر کو تشجیعی انعام سے نوازا جائے گا۔

▪️ اس کے علاوہ بھی بہت سی مفید چیزیں شئیر کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ

🌸 *نوٹ:*
گروپ کو سنجیدہ اور دلچسپ بنانے کے لیے ماہانہ معمولی فیس بھی (100 روپئے) رکھی گئی ہے جس کی ادائیگی پیشگی لازم ہے۔
تاکہ صرف ذہنی طور پر محظوظ ہونے کے بجائے حقیقتاً کتاب سے رشتہ جوڑنے، ذوقِ مطالعہ پانے اور وقت کو قیمتی بنانے کی فکر جائے۔

مزید معلومات اور *کتاب دوستی گروپ* سے منسلک ہونے کے لیے پیشگی فیس کی ادائیگی کا ارادہ رکھنے والے شائقین ِ مطالعہ رابطہ فرمائیں
🪀Wa.me/919580635638
(از راہ کرم پڑوس ملک کے احباب رابطہ نہ کریں)
========
اپنے دوست واحباب کو بھی یہ پوسٹ شئیر کر سکتے ہیں۔

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

غسل
نماز کے شرائط
(1) بدن کا پاک ہونا

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

ٹینکی میں کیڑے مکوڑوں کا گر جانا

سوال
اگر زیرِ زمین پانی کے ٹینک میں کنچلا ،کنکھجورا گرجائے اور مرجائے تو کیا پانی ناپاک ہو جائے گا؟ دوسرا یہ کہ پانی کے ٹینک کی دیواروں پر کاکروچ ہیں، اِن کی وجہ سے پورا ٹینک صاف کروایا، مگر ایک دو پھر آگئے، اِس صورت میں کیا ہمیں پھر ٹینک صاف کروانا ہوگا ؟

جواب
واضح رہے کہ وہ حشرات الارض جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتا ان کا پانی میں گر جانا پانی کو ناپاک نہیں کرتا، حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کیڑے میں خون نہ ہو اس کا پانی میں مر جانا پانی کو نجس نہیں کرے گا۔

لہذا اگر کنکھجورا، یا کنچلا یا لال بیگ پانی میں زندہ گر جائے اور پانی سے باہر نکال دیا جائے یا پانی میں مر بھی جائےتو بھی پانی پاک رہے گا، اس کو ہر طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، طبعی کراہت کی وجہ سے استعما ل نہ کیا جائے تو اور بات ہے۔

اور اگر یہ کیڑے پانی میں مر جائیں اور ان کے اجزاء پانی میں بکھر جائیں تو چوں کہ حشرات الارض کا کھانا ممنوع ہے اور عموماً گھروں میں پانی کا ٹینک ماءِ جاری/ کثیر کے حکم میں نہیں ہوتا؛ اس لیے ایسا پانی کھانے پینے میں استعمال کرنا درست نہیں ہو گا، البتہ کھانے کے علاوہ دیگر خارجی استعمال میں لا سکتے ہیں۔

بہشتی زیور میں ہے:

’’کیڑے مکوڑے اور خشکی کے جملہ وہ جانور جن میں دم سائل نہ ہو،پاک ہیں، جیسے حشرات الارض بچھو ،تیتے،چھوٹی چھپکلی جس میں دم سائل نہ ہو،چھوٹا سانپ جس میں دم سائل نہ ہو،خارجاً ان کا استعمال ہر طرح درست ہے اور داخلاً سب حرام ہیں،سوائے ٹڈی کے۔‘‘

(بہشتی زیور ،نواں حصہ، ص۱۰۴ط:میر محمد کتب خانہ)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

’’وقال ابن القاسم عن مالك: لا بأس بأكل الضفدع. قال ابن القاسم: وقياس قول مالك أنه لا بأس بأكل خشاش الأرض وعقاربها ودودها؛ لأنه قال: موته في الماء لايفسده. وقال الشافعى: كل ما كانت العرب تستقذره فهو من الخبائث، فالذئب والأسد والغراب والحية والحدأة والعقرب والفأرة؛ لأنها تقصد بالأذى فهي محرمة من الخبائث، وكانت تأكل الضبع والثعلب؛ لأنهما لايعدوان على الناس بأنيابهما، فهما حلال. قال بكر: قال اللَّه تعالى: {ويحرم عليهم الخبائث}

قال: حدثنا محمد بن بكر، قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا إبراهيم بن خالد أبو ثور قال: حدثنا سعيد بن منصور قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد عن عيسى بن نميلة عن أبيه قال: كنت عند ابن عمر، فسئل عن أكل القنفذ، فتلا: {قل لا أجد فى ما أوحى إلى محرماً على طاعم يطعمه} الآية، فقال شيخ عنده: سمعت أبا هريرة يقول: ذكر عند النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلم، فقال: خبيثة من الخبائث، فقال ابن عمر: إن كان قال رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وآله وسلم هذا فهو كما قال، فسماه النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلم خبيثةً من الخبائث، فشمله حكم التحريم بقوله تعالى: { ويحرم عليهم الخبائث}، والقنفذ من حشرات الأرض، فكل ما كان من حشراتها فهو محرم قياساً على القنفذ. وروى عبد اللَّه بن وهب قال: أخبرنى ابن أبى ذئب عن سعيد بن خالد عن سعيد بن المسيب عن عبد الرحمن قال: ذكر طبيب الدواء عند رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وآله وسلم وذكر الضفدع يكون في الدواء، فنهى النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلم عن قتله. وهذا يدل على تحريمه؛ لأنه نهاه أن يقتله؛ فيجعله في الدواء، ولو جاز الانتفاع به لما كان منهياً عن قتله للانتفاع به، وقد ثبت عن النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلم أخبار مستفيضة رواها ابن عباس وابن عمر وأبو سعيد وعائشة وغيرهم أنه قال: يقتل المحرم في الحل والحرم الحدأة والغراب والفأرة والعقرب، وفي بعض الأخبار: والحية. ففي أمره بقتلهن دلالة على تحريم أكلهن؛ لأنها لو كانت مما تؤكل لأمر بالتوصل إلى ذكاتها فيما تتأتى فيه الذكاة منها، فلما أمر بقتلها والقتل إنما يكون لا على وجه الذكاة ثبت أنها غير مأكولة‘‘.

(أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (4 / 190): سورۃ الانعام، آیت : 145، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

بدائع میں ہے:

(أما) الذي ليس له دم سائل: فالذباب والعقرب والزنبور والسرطان ونحوها، وأنه ليس بنجس عندنا، وعند الشافعي نجس، إلا الذباب والزنبور فله فيهما قولان، (واحتج) بقوله تعالى {حرمت عليكم الميتة} [المائدة: 3] والحرمة لا للاحترام - دليل النجاسة.
(ولنا) ما روي عن سلمان الفارسي - رضي الله عنه - عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «موت كل حيوان ليس له نفس سائلة في الماء لايفسده»".

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 62)، [فصل في الطهارة الحقيقية]، (كتاب الطهارة)، الناشر: دار الكتب العلمية)

ہندیہ میں ہے:

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

حفاظت حمل اور ولادت میں آسانی کے لیے دعا
سوال:براہ کرم، حفاظت حمل اور ولادت میں آسانی کے لیے کوئی اچھی اور مجرب دعا بتائیں۔
جواب نمبر: 68598
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 566-497/SN=5/1438

(الف) ”یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیمٌ“ اس آیت کو ہر نماز کے بعد تین مرتبہ پڑھنا حفاظتِ حمل کے لیے مفید ہے۔ (اعمالِ قرآنی، ص: ۵۹)

(ب) ”وَألْقَتْ مَافِیْہَا وَتَخَلَّتْ، وأذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ“ گیارہ مرتبہ پڑھ کر کسی کھانے پینے کی چیز پر دم کرکے عورت کو کھلا پلادیں اور پانچ یا سات پینے کے تعویذ بنا کر اسے چٹائیں، ان شاء اللہ بہ آسانی ولادت ہو جائے گی۔ (تحفہٴ صندلیہ، ص: ۴۳)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

حاملہ عورت کے لیے اعمال

سوال
حالتِ حمل میں عورت کے لیے کوئی مخصوص عمل ہے یا نہیں؟ ہر ماہ میں الگ الگ سورہ پڑھنے کا کوئی عمل ہے؟

جواب
شرعاً حاملہ عورت کے لیے کسی خاص سورت کا پڑھنا لازم نہیں ہے، البتہ حمل اور حاملہ کی حفاظت اور دیگر فوائد کے حصول کے بعض بزرگوں کے بیان کردہ وظائف درج ذیل ہیں:

1- حمل کے دروان روزانہ سورۂ مریم کی تلاوت کرنا مفید ہے۔

2۔حمل کی حفاظت کے لیے {وَالشَّمْسِ وَضُحٰها} (پوری سورت) اجوائن اور کالی مرچ پر اکتالیس بار پڑھے اور ہر بار والشمس کے ساتھ درود شریف اور بسم اللہ پڑھے۔ اور دودھ چھوٹنے تک تھوڑی تھوڑی روزانہ حاملہ کوکھلائے۔

3۔ حفاظتِ حمل وبچہ:

{وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ () إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ () وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ}

حفاظتِ حمل اور بچہ صحیح وسالم پیدا ہونے کے لیے یہ آیتیں لکھ کر شروع حمل میں چالیس روز تک حاملہ عورت کے باندھ دیں، پھر کھول کر نویں مہینے پھر باندھ دیں، پھر بعد پیدائش وہ تعویذ کھول کر بچہ کے باندھ دیں۔

4۔۔حفاظتِ حمل: سورۃ الحاقہ، کو لکھ کر حاملہ کے باندھنے سے بچہ ہر آفت سے محفوظ رہے۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144108201848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

مغرب کے بعد خواتین اور بچوں کا گھر سے نکلنا جائز ہے یا نہیں ؟

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

سوئمنگ پول میں نہانے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت طلب ہے کہ ابھی گرمی کا سیزن چل رہا ہے اور لوگ اکثر سوئمنگ پول میں جاتے ہیں جس میں اکثر بے پردگی ہوتی ہے ستر کو چھپانے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے ستر پر بھی نظر پڑ جا تی ہے تو ایسی حالت میں کیا کِیا جائے بالتفصیل جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : زید یوسفی، پونے)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوئمنگ پول میں غسل کرنا فی نفسہ جائز ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ مردوں کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ ستر ہے جس کا چھپانا ضروری ہے۔ لہٰذا جو لوگ یہاں غسل کریں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کپڑے اس طرح کے پہنیں جس سے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ چھپ جائے ورنہ ایسے لوگ گناہ گار ہوں گے اور چونکہ کسی کا ستر دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا اس جگہ دوسروں کا جانا بھی جائز نہ ہوگا۔

لما روي أبوداود بإسناده عن عمرو بن شُعيب، عن أبيه عن جدِّه، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم "وإذا زوَّجَ أحد كم خادِمَه عبدَه أو أجيرَه، فلا يَنظُر إلى ما دونَ السُّرَّةِ وفوقَ الرُّكبة" (1/367 ،رقم: (496) وقال محققه الأرنؤوط إسناده حسن) وزاد الدارقطني : فإنما بين سرته وركبته من عورته . سنن الدار قطني 1/431،رقم:888
وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال: قال لي رسول الله صلي الله عليه وسلم : «لا تكشف عن فخذك فإن الفخذ من العورة» سنن الدار قطني 1/420،رقم :874)

وفي جامع الأحاديث (3/439، رقم:2534): إذا كان آخرُ الزمانِ حُرِّم فيه دخولُ الحمامِ على ذكورِ أمتى بمآزرها قالوا يا رسول الله لم ذاك قال لأنهم يدخلون على قومٍ عُراةٍ ويدخل عليهم أقوامٌ عراة ألا وقد لعن الله الناظرَ والمنظورَ إليه (ابن عساكر عن الزهرى مرسلاً)

وفي المغني لابن قدامة (1/413) والصالح في المذهب، أنها من الرجل ما بين السرة والركبة. نص عليه أحمد في رواية جماعة، وهو قول مالك، والشافعي، وأبي حنيفة وأكثر الفقهاء،

رُوِيَ فِي السُّنَنِ مُسْنَدًا إلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ «إنَّهَا سَتُفْتَحُ لَكُمْ أَرْضُ الْعَجَمِ وَسَتَجِدُونَ فِيهَا بُيُوتًا يُقَالُ لَهَا الْحَمَّامَاتُ فَلَا يَدْخُلُهَا الرِّجَالُ إلَّا بِالْإِزَارِ وَامْنَعُوهَا النِّسَاءَ إلَّا مَرِيضَةً أَوْ نُفَسَاءَ»۔ (شامی : ٦/٥٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1442
t.me/FatawaUlamaeDeoband

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

گٹر پر بچھائے گئے فرش پر نماز کا حکم
سوال
میرے کمرے کے فرش کے نیچے گٹر ہے، کیا اس فرش کے اوپر نماز پڑھنی جائز ہے؟

جواب
نماز کے لیے اس فرش کا پاک ہونا ضروری ہے جس فرش پر نماز پڑھی جا رہی ہو، باقی اس فرش کے نیچے گٹر یا نالا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لہذا آپ کے کمرے کے نیچے اگر گٹر ہے اور کمرے کے فرش کی سطح پر نجاست کی بدبو نہیں ہے تو اس پر نماز پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، نماز درست ہو جائے گی۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144112200912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
t.me/FatawaUlamaeDeoband

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

حالتِ حیض میں دعاء کے معنی پر مشتمل قرآنی آیات کا بطورِ دعاء یا وظیفہ پڑھنا

سوال
حالتِ حیض میں کلام الناس کے طور پر عورت آ یت کی کتنی مقدار پڑھ سکتی ہے ؟دلائل کی روشنی میں مطلوب ہے ،اور اس کا ضابطہ کیا ہوگا ؟

جواب
آپ کےسوال کامقصد یہ ہے کہ حالتِ حیض میں عورت دعا کے مضمون پر مشتمل قرآنی آیات کوبطورِ دعا یا بطور وظیفہ پڑھ سکتی ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عورت کے لیے حیض کے ایام میں قرآن کریم کی ان آیات کو جو دعا کے مضمون پر مشتمل ہوں ہاتھ لگائے بغیربطورِ دعا یا وظیفہ پڑھنا جائز ہے،البتہ یہ یاد رہے کہ اس حالت میں براہِ راست قرآن کریم کو بلا حائل ہاتھ لگانا جائز نہیں ، اور جن آیات میں دعا کا معنیٰ نہیں اُن آیات کو غیر قرآن کی نیت سے پڑھنا درست نہیں ہو گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به كما قدمناه عن العيون لأبي الليث وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية".

(رد المحتار، کتاب الحیض، ج:1 / ص:293، ط: سعید)

مجمع الأنہر میں ہے:

"(ولا قراءة القرآن ولو دون آية إلا ‌على ‌وجه ‌الدعاء أو الثناء) بأن لم يقصد القراءة فيقول: الحمد لله شكرا للنعمة فحينئذ يجوز بلا كراهة، وكذا قراءة الفاتحة ‌على ‌وجه ‌الدعاء هو المختار".

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، كتاب الطهارة، ج:1 / ص:26، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144401100311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

رمضان کے جانے کا افسوس نہیں کرنا چاہیے❣️⁩

بلکہ جب اللہ کریم خوشی دے رہے ہیں تو اسے خوشی سے منانا چاہیے۔۔

الشخ العرب والعجم عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب رحمہ اللہ

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

بچوں کو عیدی دینا بھی خوشی کا اظہار

عیدین کی نماز کا طریقہ
बच्चों को ईदी देना भी खुशी
✍️ مفتی محمد اسلم امروہی مدظلہم

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

احتلام کیسے کنٹرول ہو گا؟

سوال
ہمیں روزانہ احتلام ہوتا ہے جس سے میں بہت پریشان ہو گیا ہوں، اس کا کوئی اچھا طریقہ بتا دیں تا کہ اس پر قابو پایا جا سکے ،بتا دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔

جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 342-255/sn=4/1439
رات کوبالخصوص کھانے کی مقدار کم کردیں، سونے سے ایک دو گھنٹہ پہلے کھانے سے فارغ ہوجائیں، مطابق سنت باوضو سونے کی عادت ڈالیں، فحش اور گندی چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں؛ بہتر ہے ساتھ ساتھ کسی اچھے حکیم سے اپنا علاج بھی کرائیں ان شاء اللہ یہ شکایت جاتی رہے گی۔
--------------------
نوٹ: جواب درست ہے، سوتے وقت سورہٴوالطارق پڑھ کر سوئیں۔(د)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :156881
تاریخ اجراء :Dec 23, 2017

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨

*سلسلہ نمبر 618:*
🌻 *نماز کی پہلی اور تیسری رکعت میں بیٹھ جانے کا حکم*

📿 *نماز کی پہلی اور تیسری رکعت میں بیٹھ جانے کا حکم:*
اگر کوئی شخص نماز کی پہلی رکعت میں بھولے سے بیٹھ جائے تو محض بیٹھنے سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ ایک رکن کے بقدر یعنی تین بار ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ جتنی مقدار بیٹھا ہو تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے لیکن اگر اس سے کم ہو تو واجب نہیں ہوتا۔ یہ حکم چار رکعات والی نماز میں تیسری رکعت میں بھولے سے بیٹھنے کا بھی ہے۔
اس سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ نماز میں کسی فرض یا واجب میں مطلقًا تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا بلکہ جب تاخیر ایک رکن یعنی یعنی تین بار ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کے برابر ہو تو اُس وقت سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔ (فتاویٰ عثمانی)
☀ مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:
وتأخير القيام إلى الثلاثة بزيادة على التشهد، واختلفوا في قدر الزيادة فقال بعضهم: بزيادة حرف، وكلام المصنف يشير إلى هذا، وقال بعضهم: بقدر ركن وهو الصحيح كما في أكثر الكتب.

✍🏻۔۔۔مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
14 شوال المکرم 1442ھ/26مئی2021
03362579499

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

رات کو سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک پڑھنے کا وقت اور اس کے زبانی پڑھنے کے لیے وضو کرنے کا حکم
سوال
رات کے وقت سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک کس وقت پڑھنا بہتر ہے اور ان کو زبانی پڑھنے کے لیے کیا با وضو ہونا ضروری ہے؟

جواب
سورۂ ملک اور سورۂ واقعہ پڑھنے کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں:

حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص رات میں سورۂ واقعہ پڑھتا ہے وہ کبھی بھی فاقہ کی حالت کو نہیں پہنچتا، حضرت ابن مسعود ؓ اپنی صاحب زادیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ہر رات میں یہ سورت پڑھا کریں۔

مشكاة المصابيح (1/ 668):
"وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْوَاقِعَةِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ لَمْ تُصِبْهُ فَاقَةٌ أَبَدًا» . وَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَأْمُرُ بَنَاتَهُ يَقْرَأْنَ بهَا فِي كل لَيْلَة. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي شعب الْإِيمَان".

اور سورہ ملک کے فضائل کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض تو مطلق ہیں یعنی کسی خاص وقت کی قید نہیں ہے، جب کہ بعض احادیث میں رات کو پڑھنے کا ذکر ہے، مثلاً یہ کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سورہ ملک پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے:

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سورہ سجدہ اور سورہ ملک پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے۔

سنن الترمذي ت بشار (5/ 15):

’’حدثنا هريم بن مسعر، قال: حدثنا الفضيل بن عياض، عن ليث، عن أبي الزبير، عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لاينام حتى يقرأ الم تنزيل، وتبارك الذي بيده الملك‘‘.

حاصل یہ ہے کہ سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک کی رات کو تلاوت کرنے کی فضیلت حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ کوئی مخصوص وقت حدیث میں منقول نہیں ہے، لیکن چوں کہ آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سونے سے پہلے الم سجدہ اور سورۂ ملک پڑھ کر سوتے تھے اور ظاہر ہے کہ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی سونے کا معمول تھا، اس لیے رات مغرب یا عشاء کے بعد کسی بھی وقت سورۂ واقعہ کی تلاوت کرلی جائے اور سوتے وقت سورۂ ملک کا اہتمام کیا جائے۔

ان سورتوں کو زبانی پڑھنے کے لیے وضو کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ باوضو ہوکر پڑھنا بہتر ہے۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144107200141
تاریخ اجراء :28-02-2020

============

سورہ واقعہ اور سورہ ملک عشاء کی سنت اور وتر میں پڑھنا

سوال

یہ جو سورت واقعہ اور سورت ملک رات کو پڑھنے کی ترغیب ہے تو کیا ان سورتوں کو عشاء کی دو سنت اور وتر میں پڑھنا کفایت کرے گا یا نہیں؟

جواب

احادیث میں  چوں کہ مذکورہ سورتوں کے پڑھنے کے اوقات  کی تعیین تو  کی گئی ہے، تاہم کیفیت کی تعیین نہیں کی گئی ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ دونوں سورتیں عشاء کی سنتوں اور وتر میں پڑھنا  حصولِ  فضیلت کے لیے کافی ہوگا۔  فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144208201147
تاریخ اجراء :05-04-2021

============

2 - سورہ ملک کے فضائل اور پڑھنے کا وقت ...
- دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
https://darulifta.info/d/banuritown/fatwa/jXZ

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

چار رکعت والی سنت کو دو دو کرکے پڑھنا؟
سوال
ظہر کی سنت چارکعت کو اگر جماعت کھڑی کا اندیشہ ہو تو دو رکعت سنت جماعت سے پہلے پڑھ کر باقی دو رکعت جماعت کے بعد پڑھ سکتے ہیں کیا؟ مطلب جماعت کے بعد دو رکعت پہلے کی بقیہ، اور بعد میں پھر دو بارہ دو رکعت سنت فرض کے بعد کے ( اس طرح پڑھ سکتے ہیں کیا)؟ کیوں کہ سعودی عرب میں اکثر اہل حدیث کے احباب ہمیں اعتراض کرتے ہیں کہ اگر جماعت نہیں ملتی تو دو دو کرکے بارہ رکعت نمازپڑھیں، روزانہ بارہ رکعت سنت پڑھ نے پر جو وعدے ہیں (اس حدیث شریف کو عربی ، انگلش، اور اردو زبان میں ترجمہ ہو تو بھیجیں)، اہل حدیث احباب کو دیکھ کر ہمارے ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھی بھی سنت موٴکدہ اور واجب الوتر کو بھی نہیں پڑھتے، اسی لیے ہمارے آفس کے پریئر روم (کمرہ جس میں نماز پڑھی جاتی ہے) میں وہ صحیح ترجمے کے ساتھ لگانا چاہتاہوں، تاکہ سبھی عربی اور فلپائن اور ایشاکے لوگ اس حدیث کو پڑھ کر عمل کرسکیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1022-1013/L=10/1440
ظہر سے پہلے ایک سلام سے چار رکعت پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے ،اگر کوئی شخص ان کو دودو کرکے پڑھتا ہے تو سنت ادا نہ ہوگی ،دورکعت پڑھنے کی صورت میں وہ نفل شمارہوں گی ۔
عن عائشة رضی اللہ عنہا: أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یدع أربعا قبل الظہر، ورکعتین قبل الغداة(صحیح البخاری:۱/۱۵۷) عن أبی أیوب، أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی قبل الظہر أربعا إذا زالت الشمس، لا یفصل بینہن بتسلیم، وقال: إن أبواب السماء تفتح إذا زالت الشمس(سنن ابن ماجہ: ۸۰،باب ما جاء فی الأربع الرکعات قبل الظہر) (وسن) مؤکدا (أربع قبل الظہر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدہا بتسلیمة) فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنة، ولذا لو نذرہا لا یخرج عنہ بتسلیمتین، وبعکسہ یخرج(الدر المختارمع رد المحتار: 2/ ۴۵۱،ط:زکریا دیوبند)جس روایت میں بارہ رکعت پر مداومت کی فضیلت مذکور ہے وہ درج ذیل ہے : عن أم حبیبة، قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: " من صلی فی یوم ولیلة ثنتی عشرة رکعة بنی لہ بیت فی الجنة: أربعا قبل الظہر، ورکعتین بعدہا، ورکعتین بعد المغرب، ورکعتین بعد العشاء، ورکعتین قبل صلاة الفجر صلاة الغداة "،: وحدیث عنبسة عن أم حبیبة فی ہذا الباب حدیث حسن صحیح(سنن الترمذی: ۱/ ۹۴،باب ما جاء فیمن صلی فی یوم ولیلة ثنتی عشرة رکعة من السنة، ما لہ فیہ من الفضل)
حضرت ام حبیبہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جو شخص دن اوررات میں بارہ رکعت نماز ادا کرے اس کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کیا جائے گا :چاررکعت ظہر سے پہلے،دورکتیں اس کے بعد ،دورکعت مغرب کے بعد ،دورکعت عشا کے بعد اور دورکعت فجر سے پہلے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :170447
تاریخ اجراء :Jul 7, 2019
t.me/FatawaUlamaeDeoband

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

▪️سلام کے درست الفاظ:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهٗ ✅
وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهٗ ✅

▪️سلام کے غلط الفاظ:
اسلام علیکم ❌
اسلام وعلیکم ❌
السلام وعلیکم ❌
وعلیکم اسلام ❌

✍️مفتی مبین الرحمٰن صاحب دام ظلہم
t.me/FatawaUlamaeDeoband

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

"[الباب الثاني في بيان ما يؤكل من الحيوان وما لا يؤكل]
(الباب الثاني في بيان ما يؤكل من الحيوان وما لا يؤكل) الحيوان في الأصل نوعان: نوع يعيش في البحر ونوع يعيش في البر، أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان يحرم أكله إلا السمك خاصةً فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وأما الذي يعيش في البر فأنواع ثلاثة: ما ليس له دم أصلا وما ليس له دم سائل وما له دم سائل، فما لا دم له مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والخنفساء والعقرب والببغاء ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة، وكذلك ما ليس له دم سائل مثل الحية والوزغ وسام أبرص وجميع الحشرات وهو أم الأرض من الفأر والجراد والقنافذ والضب واليربوع وابن عرس ونحوها ولا خلاف في حرمة هذه الأشياء إلا في الضب فإنه حلال عند الشافعي - رحمه الله تعالى -".

(الفتاوى الهندية :الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان ،ص:۲۸۹،ج:۵،کوئٹہ)

فقط و الله اعلم

فتوی نمبر : 144211200778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

بچہ کی ولادت میں آسانی کے لیے عمل

سوال
اگر عورت کے ڈلیوری کے دن نزدیک ہوں تو کیا دعا پڑھنی چاہیے؟

الجواب حامدا و مصلیا
سورہ یاسین پڑھنی چاہیے اور سورہ انشقاق (پارہ عم) کی پہلی چار آیتوں کو لکھ کر ولادت کے وقت عورت کی بائیں ران پر باندھ دیں، ان شاء اللہ ولادت میں آسانی ہوگی اور جیسے ہی ولادت ہوجائے تو فوراً اس تعویذ کو کھول کر الگ کردیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب!

واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبه المُفتي
شیراز علی نواز عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

حفاظتِ حمل کے لیے وظیفہ
سوال
الحمد للہ ہماے 2 بچے ہیں اور تیسرے بچے کی عن قریب امید ہے۔چوں کہ دوسری بچی آپریشن سے ہوئی تھی، اب ہماری خواہش ہے کہ آنے والا بچہ بغیر آپریشن کے نارمل ڈیلیوری سے ہوجائے، اس کے لیے کوئی وظیفہ بتا دیں جس کو ہم شروع کریں!

جواب
1- آپ کی اہلیہ کو چاہیے کہ روزانہ سورہ مریم کی تلاوت کریں۔

2۔حمل کی حفاظت کے لیے {وَالشَّمْسِ وَضُحٰها} (پوری سورت) اجوائن اور کالی مرچ پر اکتالیس بار پڑھے اور ہر بار والشمس کے ساتھ درود شریف اور بسم اللہ پڑھے۔ اور دودھ چھوٹنے تک تھوڑی تھوڑی روزانہ حاملہ کوکھلائے۔ (اشرف العملیات)

3۔ حفاظتِ حمل وبچہ:

وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ () إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ () وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ

حفاظتِ حمل اور بچہ صحیح وسالم پیدا ہونے کے لیے یہ آیتیں لکھ کر شروع حمل میں چالیس روز تک حاملہ عورت کے باندھ دیں، پھر کھول کر نویں مہینے پھر باندھ دیں، پھر بعد پیدائش وہ تعویذ کھول کر بچہ کے باندھ دیں۔(اعمال قرآنی)

4۔۔حفاظتِ حمل: سورۃ الحاقہ، اس کو لکھ کر حاملہ کے باندھنے سے بچہ ہر آفت سے محفوظ رہے۔(اعمال قرآنی) فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144012200691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

جیب میں خون کے سیمپل کی بوتل کے ساتھ نماز پڑھنا

سوال
اگر جیب میں خون کے سیمپل کی بوتل ہو یا پیشاب کے سیمپل کی بوتل ہو جو باہر سے ناپاک نہ ہو تو نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب
اگر کسی شخص کی جیب میں خون، پیشاب یا اس جیسی کسی ناپاک چیز کے سیمپل کی بوتل ہو اور اس بوتل میں خون یا پیشاب وغیرہ موجود ہو تو ایسی بوتل کے جیب میں ہوتے ہوئے نماز درست نہیں ہوگی، ہاں! اگر بوتل خالی ہو اور اُس میں خون یا پیشاب ایک درہم کی مقدار سے زیادہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز ہو جائے گی، تاہم اس صورت میں بھی اس کے ساتھ نماز پڑھنا پسندیدہ نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 62):

"في النصاب: رجل صلّى وفي كمّه قارورة فيها بول لاتجوز الصلاة سواء كانت ممتلئةً أو لم تكن؛ لأن هذا ليس في مظانه ومعدنه بخلاف البيضة المذرة؛ لأنه في معدنه ومظانه وعليه الفتوى. كذا في المضمرات".

فقط والله أعلم

فتوی نمبر : 144203201255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

دورانِ نفاس عورت کا باہر جانا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان اکرام کہ بچے کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک عورت کا گھر سے باہر نکلنا بازار جانا شادی بیاہ میں شرکت کرنا کیسا ہے ؟

جواب نمبر: 157205
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:389-283/sn=4/1439

جی ہاں! پیدائش کے بعد چالیس دن کے دوران عورت اپنی ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہے، یعنی جن کاموں کے لیے اور جن تقریبات میں عورت کا جانا عام دنوں میں جائز ہے، بچہ پیدا ہونے کے بعد مدتِ نفاس میں بھی ان کاموں کے لیے جانا یا ان تقریبات میں شرکت کرنا شرعاً جائز ہے۔

-------------------------

جواب درست ہے، طبی نقطہء نظر سے احتیاط کرنے کی بات میں حکیم وڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ (د)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

سویممنگ پول میں نہانے کا hukm

سوال:ایک ایسا سوئیمنگ پول )حوض جس میں تیر ا جائے(جس کا پانی روز تبدیل کیا جاتا ہو اور اس میں آدمی اور عورتیں دونوں نہاتے ہوں اس میں صبح کے وقت جب پانی تبدیل کیا جاتا ہے تو اس وقت نہانے کا کیا حکم ہے اگر کوئی اور وہاں پر نہ نہا رہا ہو؟

جواب نمبر: 36168
بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی(ھ): 73=55-2/1433 صبح کے وقت جب پانی تبدیل کیا جاتا ہو اگر اُس وقت وہاں کوئی نہ ہو اور آپ نہالیں تو گنجائش ہے تاہم ایسی جگہ میں نہانا پھر بھی کراہت سے خالی نہیں۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

*ماہِ شوال کے چھ نفلی روزوں کی فضیلت:*

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ (اجر وثواب میں) سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔
(صحیح مسلم: باب اسْتِحْبَابِ صَوْمِ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ اتِّبَاعًا لِرَمَضَانَ)
شوال کے مہینے میں چھ نفلی روزے رکھنا مستحب اور بڑی فضیلت کا باعث ہے، یہ چھ روزے عید الفطر کے دوسرے دن سے لے کر مہینے کے آخر تک ایک ساتھ بھی رکھنا درست ہے اور الگ الگ بھی۔
(رد المحتار، اعلاء السنن ودیگر کتب فقہ)

✍️ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

والدین کا بچوں کی عیدی وغیرہ خود استعمال کرنا!
t.me/FatawaUlamaeDeoband

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

عیدین کے موقع پر سلام سے متعلق ایک غفلت پر شیخ الاسلام مد ظلہم کی تنبیہ
ई़द के मौक़े पर सलाम
t.me/SunehriTehriren

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

قعدۂ اخیرہ میں التحیات اور درود شریف پڑھنے کے بعد
دیر تک خاموش رہنا؟

سوال(۳۸۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی نے قعدۂ اخیرہ میں التحیات، درود شریف پڑھنے کے بعد سلام نہیں پھیرا؛ بلکہ کسی سوچ میں دیر تک خاموش رہا، تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ (مسائل سجدہ سہو بحوالہ کبیری ۴۳۷)
کیا مذکورہ مسئلہ صحیح ہے؟ جب کہ اصول یہ ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں التحیات کے بعد سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو واجب نہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل ۳؍۳۶۸)
التحیات کے بعد قعدۂ اخیرہ میں دیر تک خاموش رہا تو اس پر سجدۂ سہو وجب نہیں۔ (مسائل نماز، بحوالہ شامی ۷۰۷، فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۹، عالمگیری ۱؍۸۲) مذکورہ نمبر ۲؍اور ۳؍ میں سے کونسا مسئلہ صحیح ہے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
مسائل سجدۂ سہو سے جو مسئلہ کبیری کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے، اس کی عبارت یہ ہے:
وإن سہا عن السلام یعني بالسہو عن السلام بأنہ أطال القعدۃ الأخیرۃ ساکتاً قدر أداء رکن أو أکثر علی ظن أنہ خرج من الصلاۃ ثم علم أنہ لم یخرج ولم یسلم فسلم یسجد للسہو لتاخیرہ الواجب۔ (کبیري ۴۳۷، مسائل سجدۂ سہو ۷۲)
اور آپ کے مسائل اور ان کا حل ۲؍۳۶۸ میں جو اصول لکھا گیا ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں التحیات کے بعد سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو واجب نہیں، یہ بغیر کسی حوالہ کے مذکور ہے۔ نیز عربی کتابوں میں بھی ایسا کوئی اصول نظر سے نہیں گذرا۔
اور ’’مسائل نماز‘‘ میں جن کتابوں کے حوالہ سے مذکورہ صورت میں سجدۂ سہو کا وجب نہ ہونا لکھا ہے، یہ صحیح نہیں ہے؛ کیوںکہ شامی میں سجدۂ سہو کے وجوب کا اثبات ہے۔
کما قال الشامي: فقیل ما لزم منہ تاخیر الواجب أو الرکن عن محلہ بأن قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر أداء رکن وہو الأصح۔
وقال أیضاً: ودخل في قولہ أو عن أداء واجب ما لو شغلہ عن السلام لما في الظہیریۃ: لو شک بعد ما قدر التشہد أصلیّٰ ثلاثاً أو أربعاً حتی شغلہ ذٰلک عن السلام ثم استیقن وأتم صلاتہ فعلیہ السہو…، وعللہ في البدائع: بأنہ أخر الواجب وہو السلام۔ (بدائع الصنائع ۲؍۵۶۲، شامي ۲؍۵۶۲ زکریا)
کما قال: وإذا قعد المصلي في صلاتہ وتشہد ثم شک أنہ صلی ثلاثاً أم أربعاً حتی شغلہ ذٰلک عن التسلیم ثم استیقن أنہ صلی أربعاً فأتم صلاتہ فعلیہ سجود السہو۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۲۹)
اور فتاویٰ رحیمیہ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ غلط ہے؛ بلکہ اسی نوعیت کا مسئلہ فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۸ پر موجود ہے، جس میں سجدۂ سہو کے وجوب کی نفی کے بجائے اثبات ہے۔
لہٰذا مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مسائل سجدۂ سہو کا مسئلہ صحیح ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ۱۹؍۴؍۱۴۲۰ھ
الجواب صحیح:شبیر احمد عفا اللہ عنہ
(کتاب النوازل یونیکوڈ 370/3)

============

قعدہ اخیرہ میں التحیات کے بعد تاخیر کی بنا سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟

سوال

مفتی حبیب الرحمن صاحب نے اپنی کتاب " سجدہ سہو کے مسائل" کے صفحہ نمبر 63 پر لکھا ہے: "کسی نے قعدہ اخیرہ میں التحیات، دروشریف اور دعا پڑھ لینے کے بعد سلام نہیں پھیرا، بلکہ کچھ سوچ میں دیر تک خاموش رہا تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہے.(شامی : 707) اور مفتی انعام الحق قاسمی صاحب نے اپنی کتاب "نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا" کی جلد ایک میں صفحہ نمبر 218 پر لکھا ہے: " اگر قعدہ اخیرہ مین التحیات پڑھ کر دیر تک خاموش رہا تو اس پر سجدہ واجب ہوگا". ان دونوں مسائل کی وضاحت فرمادیجیے.

جواب

اگر نماز کے دوران بھول کر کسی کام کے کرنے یا سوچنے کی وجہ سے نماز کے کسی فرض یا واجب میں ایک رکن کی مقدار (یعنی تین بار سبحان اللہ پڑھنے کے بقدر) دیر لگ جائے تو سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے، اس لیے اصولی طور مفتی بہ قول کی بنا پر مذکورہ صورت میں التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ لینے کے بعد ایک رکن کی مقدار خاموش رہنے سے سلام میں تاخیر کی بنا پر سجدہ سہو واجب ہوگا، مفتی حبیب الرحمن صاحب کی کتاب کو ملاحظہ کیا گیا لیکن اس میں مسئلہ کی تائید کے لیے مذکور شامی کا حوالہ نامکمل ہے، جبکہ شامی کے متعلقہ باب سجود السہو میں مذکور جزئیات سے اس صورت میں سجدہ سہو کا وجوب ہی معلوم ہوتا ہے. واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143708200028
تاریخ اجراء :20-05-2016

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

دار العلوم دیوبند کا فتویٰ
_________________________
جس میں حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرف منسوب مشہور خطبے کی وضاحت کی گئی ہے

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

اذان کے بعد مسجد سے نکلنا

سوال
اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کا حکم کیا ہے؟

جواب
جو شخص کسی مسجد کے اندر موجود ہو اور اس میں اذان ہوجائے تو اذان کے بعد مسجد سے بغیرکسی شدید مجبوری کے نکلنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ کسی شرعی یا فطری مجبوری کی وجہ سے نکلنا مکروہ نہیں، اس کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1- قضاءِ حاجت کے لیے نکلنا، یا وضو کرنے کے لیے جانا۔

2- مسجد سے نکلنے والا شخص کسی دوسری مسجدکا امام یامؤذن یا متولی ہو ۔

3-دوسری مسجد کا امام یا مؤذن یا متولی تو نہ ہو، لیکن اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جارہا ہو اور وہاں اب تک نماز بھی نہ ہوئی ہو۔ اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اگر ضروری کام نہ ہو تو اُسی مسجد میں نماز ادا کرے جہاں اذان کے وقت موجود تھا۔

4- اپنے استاذ کی مسجد میں نماز ادا کرنے اورشریکِ درس ہونے یا وعظ سننے کے لیے جارہاہو۔

5- اپنی کسی ضرورت ( شدید بھوک وغیرہ کی وجہ سے کھانا کھانے) کی غرض سے نکلے، اورجماعت کے لیے واپس آنے کا ارادہ بھی ہو۔

6- وقتی فرض نماز ادا کرچکا ہو اور ابھی اقامت شروع نہ ہوئی ہو، البتہ فجر، عصر یا مغرب کی نماز ادا کرلی ہو تو اقامت کے دوران یا نماز شروع ہونے کے بعد بھی مسجد سے نکلنا مکروہ نہیں۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ المُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: خَرَجَ رَجُلٌ مِنَ المَسْجِدِ بَعْدَ مَا أُذِّنَ فِيهِ بِالعَصْرِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «أَمَّا هَذَا فَقَدْ عَصَى أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».

وَفِي البَابِ عَنْ عُثْمَانَ، حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. [ص: 398] وَعَلَى هَذَا العَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ: أَنْ لَا يَخْرُجَ أَحَدٌ مِنَ المَسْجِدِ بَعْدَ الأَذَانِ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ: أَنْ يَكُونَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، أَوْ أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ.

وَيُرْوَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: «يَخْرُجُ مَا لَمْ يَأْخُذِ المُؤَذِّنُ فِي الإِقَامَةِ». وَهَذَا عِنْدَنَا لِمَنْ لَهُ عُذْرٌ فِي الخُرُوجِ مِنْهُ. وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ سُلَيْمُ بْنُ أَسْوَدَ، وَهُوَ وَالِدُ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، وَقَدْ رَوَى أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ هَذَا الحَدِيثَ، عَنْ أَبِيهِ. ( بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الخُرُوجِ مِنَ المَسْجِدِ بَعْدَ الأَذَانِ، ١ / ٣٩٧، رقم الحديث: ٢٠٤، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفي البابي الحلبي)

العرف الشذي للكشميري میں ہے:

"يكره الخروج بعد الأذان تحريماً لمن كان داخل المسجد، وهذا الحكم مقتصر على من كان داخل المسجد". (باب ما جاء في كراهية الخروج من المسجد بعد الأذان، ١ / ٢١٩، رقم :٢٠٤، ت: أحمد شاكر)

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار میں ہے:

"(وكره) تحريماً للنهي (خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه) جرى على الغالب، والمراد دخول الوقت أذن فيه أو لا (إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لاستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ، أو لحاجة ومن عزمه أن يعود. نهر (و) إلا (لمن صلى الظهر والعشاء) وحده (مرةً) فلايكره خروجه بل تركه للجماعة (إلا عند) الشروع في (الاقامة) فيكره لمخالفته الجماعة بلا عذر، بل يقتدي متنفلا لما مر (و) إلا (لمن صلى الفجر والعصر والمغرب مرةً) فيخرج مطلقًا (وإن أقيمت) لكراهة النفل بعد الأوليين، وفي المغرب أحد المحظورين البتيراء، أو مخالفة الإمام بالإتمام". ( ص: ٩٦) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144107200868
تاریخ اجراء :17-03-2020

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

/channel/Basheerululoom

Читать полностью…
Subscribe to a channel