fatawaulamaedeoband | Unsorted

Telegram-канал fatawaulamaedeoband - فتاوی علمائے دیوبند

2132

اس چینل میں علماء دیوبند کے منتخب مضامین و فتاوی حسبِ فرصت ارسال کیے جاتے ہیں ل۔ فتاوی علماء دیوبند فیسبک پیج⁦⬇️⁩ https://www.facebook.com/FatawaUlamaeDeoband/ سنہری تحریریں ٹیلیگرام چینل⁦⬇️⁩ @SunehriTehriren ⁦⬇️⁩⁦درر علماء الهند⁦ @UlamaUlHind

Subscribe to a channel

فتاوی علمائے دیوبند

فرض نماز پڑھنے والے کی اقتداء میں نفل کی نیت سے نماز پڑھنے کی صورت میں جماعت کا حکم
سوال
السلام علیکم، مفتی صاحب ! امام فرض پڑھ رہا ہو اور اس کی اقتداء میں صرف ایک مقتدی ہو، جو نفل نماز پڑھ رہا ہو، تو اس امام کو فرض جماعت سے پڑھنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟
جواب
جی ہاں! فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں اگر ایک مقتدی نفل نماز پڑھے، تو اس سے جماعت ادا ہو جائیگی اور ان شاءاللہ تعالیٰ جماعت کا ثواب بھی حاصل ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی الأشباہ والنظائر:
"وتحصیل فضیلۃ الجماعۃ بصلوتہ مع واحد (ای من الصبیان ) الا فی الجمعۃ فلا تصح بثلاثۃ منھم".
(الا شباہ والنظائر: احکام الصبیان، ص ۴۸۰)

وفی الشامیۃ:
"أقلھا ای الجماعۃ اثنان واحد مع الا مام ولو ممیز االخ فی مسجد أو غیرہ۔
لحدیث اثنان فما فو قھما جماعۃ".
( ردالمحتار علی الدر المختار: باب الا مامۃ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :3987

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

جماعت کی نماز میں امام کے لیے مقتدی عورت کی نیت کرنا

سوال
اگر عورتیں مسجد میں چلی جائیں اور مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک ہو جائیں تو کیا ان کی نماز ہوجائے گی؟ کیوں کہ امام نے ان کی امامت کی نیت کی یا نہیں؟ پتا نہیں! تو کیا نماز ہو گئی؟

جواب
عورتوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، لیکن اگر وہ مسجد میں امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو اس میں تفصیل یہ ہے:

اگر وہ مردوں کے ساتھ صفوں میں مل کریا مردوں سے آگے کھڑی ہوتی ہیں تو امام کے لیے عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے، اگر امام نے عورتوں کی نیت نہیں کی یا یہ معلوم نہ ہو کہ امام عورتوں کی نیت کرتا ہےیا نہیں تو عورتوں کی نماز نہیں ہوگی۔
اگر وہ مردوں کی صفوں میں مل کر یا مردوں سے آگے کھڑی نہیں ہوتیں، بلکہ مردوں کے پیچھے الگ صف میں کھڑی ہوتی ہیں تو امام کے لیے ان کی نیت کرنا ضروری نہیں، ان کی نماز ہوجائے گی۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’اگر محاذی مرد کے نہ کھڑی ہو تو امام کو اس کی امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے‘‘۔ (کتاب الصلاۃ 2 / 111 ط: دار الاشاعت)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 424):

"(والإمام ينوي صلاته فقط) و (لا) يشترط لصحة الاقتداء نية (إمامة المقتدي) بل لنيل الثواب عند اقتداء أحد به قبله كما بحثه في الأشباه (لو أم رجالا) فلا يحنث في لا يؤم أحدا ما لم ينو الإمامة (وإن أم نساء، فإن اقتدت به) المرأة (محاذية لرجل في غير صلاة جنازة، فلا بد) لصحة صلاتها (من نية إمامتها) لئلا يلزم الفساد بالمحاذاة بلا التزام (وإن لم تقتد محاذية اختلف فيه) فقيل يشترط وقيل لا كجنازة إجماعا، وكجمعة و عيد على الأصح خلاصة وأشباه، وعليه إن لم تحاذ أحدا تمت صلاتها وإلا لا".

و في الرد:

"(قوله: كجنازة) فإنه لا يشترط لصحة اقتداء المرأة فيها نية إمامتها إجماعا لأن المحاذاة فيها لاتفسدها (قوله: على الأصح) حكوا مقابله عن الجمهور (قوله: وعليه) أي على القول بأنه لايشترط لصحة اقتدائها نية إمامتها فيصح اقتداؤها لكن إن لم تتقدم بعد ولم تحاذ أحدا من إمام أو مأموم بقي اقتداؤها وتمت صلاتها، وإلا: أي وإن تقدمت وحاذت أحداً لايبقى اقتداؤها ولاتتم صلاتها، كما في الحلية فليس ذلك شرطاً في الجمعة والعيد فقط، فافهم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 424):

"إذا نوى أن يؤم الرجال دون النساء فلايجزيهن كما في النتف".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (3 / 117):

"وأما في حق النساء فإنه لايصح اقتداؤهن إذا لم ينو إمامتهن؛ لأن في تصحيحه بلا نية إلزاماً عليه بفساد صلاته إذا حاذته من غير التزام منه وهو منتف وخالف في هذا العموم بعضهم، فقالوا: لايصح اقتداء النساء وإن لم ينو الإمام إمامتهن في صلاة الجمعة والعيدين، وصححه صاحب الخلاصة والجمهور على اشتراطها في حقهن لما ذكرناه، وأما صلاة الجنازة فلايشترط في صحة اقتدائها به فيها نية إمامتها بالإجماع، كذا في الخلاصة". فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144103200115
تاریخ اجراء :04-11-2019

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

https://telegra.ph/عید-الفطر-کے-لیے-مختصر-خطبے-مع-چند-ضروری-مسائل-05-23

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

سجدہ تلاوت کی دعا
سوال
سجدہ تلاوت کی کوئی خاص دعاہے یا اس میں بھی نماز کے سجدہ والی دعاء پڑھی جائے گی؟ قرآن حدیث کی روشنی میں جواب دیں ۔خیرا
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:206-158/L=2/2017
سجدہٴ تاوت میں سجدہ کی تسبیح کم ازکم تین مرتبہ پڑھ لینا کافی ہے، ترمذی شریف میں سجدہٴ تلاوت میں پڑھنے کی ایک دعا بھی مذکور ہے، اس دعا کا پڑھنا بھي بہتر ہے، دعا پر مشتمل حدیث یہ ہے:
عن عائشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول في سجود القرآن باللیل سجد وجہي للذي خلقہ وشق سمعہ وبصرہ بحولہ وقوتہ (ترمذی) زاد الحاکم: فتبارک اللہ أحسن الخالقین․
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز پڑھتے ہوئے قرآن کے سجدوں میں یہ کلمات پڑھتے تھے: سجد وجہی للذی خلقہ وشق سمعہ وبصرہ بحولہ وقوتہ فتبارک اللہ احسن الخالقین ”میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کے لیے جس نے اس کو پیدا کیا اور اس کے کان اور آنکھیں بنائیں“ پس بابرکت ہے اللہ بہترن خالق۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :155949
تاریخ اجراء :Nov 14, 2017

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

روزے میں زیر ناف بال صاف کرنا
سوال
کیا روزے میں ناف کے نیچے کے بال کاٹ سکتے ہیں ؟

جواب
روزہ کی حالت میں غیر ضروری (زیر ناف، بغل اور مونچھوں وغیرہ کے) بال کاٹنا جائز ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،ا سے روزہ فاسد یا مکروہ نہیں ہوتا۔(روزے کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا،ص:46،ط:بیت العمار) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144109202355
تاریخ اجراء :15-05-2020

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

عنوان:روزانہ کا ذکر کیا ہے جو ہمیں کرنا چاہئے
سوال:روزانہ کا ذکر کیا ہے جو ہمیں کرنا چاہئے اور کتنی مرتبہ ذکر کرنا چاہئے؟مثال کے طورپر سورة اخلاص ، سورة فلق اور سورة الناس صبح اور شام تین تین مرتبہ پڑھنا ؟
جواب نمبر: 147764
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 410-394/B=5/1438

صبح وشام ہرروز حسب ذیل تسبیحات پڑھنے کا معمول بنائیں:

(۱) استغفار ایک تسبیح یعنی ۱۰۰مرتبہ أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیَّ الْقَیُّومَ، وَأَتُوبُ إِلَیْہِ․

(۲) کلمہ طیبہ: ایک تسبیح یعنی ۱۰۰مرتبہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ․

(۳) درود شریف ایک تسبیح یعنی ۱۰۰مرتبہ چھوٹا بڑا جو درود بھی آپ کو یاد ہو پڑھ لیا کریں۔

(۴) تیسرا کلمہ: ایک تسبیح یعنی ۱۰۰مرتبہ سبحان اللہ والحمد للہ ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر ولا حول ولا قوة إلا باللہ العلي العظیم․

یہ چاروں تسبیحات اعلی درجہ کی مانی گئی ہیں، حضرت شیخ مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ترقیات کا زینہ ہیں۔ یعنی ان تسبیحات کو خلوص اور پابندی کے ساتھ پڑھنے سے دنیاوی، دینی، اخروی ہرطرح کی ترقی حاصل ہوتی ہے۔ مذکورہ تینوں سورتوں کا پڑھنا ہرچیز سے حفاظت کے لیے اکسیر ہے۔ اسے بھی پڑھتے رہیں۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

مقتدی کسی وجہ سے امام سے ناراض ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم

سوال
کیا کسی بد اخلاق امام یا زبردستی قابض امام کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے؟

جواب
امام کے بداخلاق اور قابض ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اگر کوئی وجہ ہے تو ثبوت کے ساتھ اسے مسجد کمیٹی کے سامنے پیش کریں، پھر اگر ضرورت ہو تو دارالافتاء میں آکر مسجد کے لیٹر ہیڈ پر سوال لکھ کر جمع کراکر شرعی حکم معلوم کرلیں، بغیر کسی ثبوت کے امام مسجد پر طعن وتشنیع کرنا درست نہیں ہے۔ اور بلاثبوت کسی کے بارے میں شرعی حکم اور فتویٰ بھی جاری نہیں کیا جاسکتا۔

باقی اگر کسی وجہ سے مقتدی امام سے ناراض ہو ں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے حکم کی تفصیل یہ ہے کہ :

امام سے اگر بغض اور ناراضی کسی دینی وجہ سے ہو، یعنی امام فاسق، فاجر یا لاپرواہ ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں کی رعایت نہ کرتا ہو اور مقتدی اس وجہ سے اس سے ناراض ہیں تو ایسی ناراضی کا اعتبار ہے اور ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی، اور اگر ناراضی دنیاوی دشمنی یا مخالفت کی وجہ سے ہو یا اس میں نفس کو دخل ہو تو ایسی ناراضی کا اعتبار نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے، بلکہ اس صورت میں مقتدی امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں، تاہم بہرصورت ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے نمازیں ادا کرنادرست ہے اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔

نیز یہ ملحوظ رہے کہ اگر مقتدی امام کی ناراضی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں، اور اس امام کے مقتدی زیادہ ہوں تو صرف ایک، دو یا دو ،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضی کا اعتبار نہیں ہوگا، نیز اگر اعتراض کرنےوالے زیادہ ہوں، لیکن وہ جاہل اور دین سے ناواقف لوگ ہوں تو ان کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، ہاں علم وفضل والے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں تو پھر اس امام کی امامت مکروہ ہوگی، ورنہ عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں، حال آں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے، اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط".فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200685
تاریخ اجراء :03-05-2019

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

"الوداعی جمعہ" اور "الوداعی خطبہ" کی شرعی حیثیت

از قلم: محمد زبیر ندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

سوال: ہمارے ملک میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے؛ اس لئے بعض لوگ نیا کپڑا سلاتے ہیں اور اس کا خطبہ بھی الگ طرح سے پڑھتے ہیں، شرعا اس کی کیا حیثیت ہے؟ (ایک دینی بھائی، بہرائچ، یوپی)

🎋بسم اللہ الرحمن الرحیم🎋

الجواب و بااللہ التوفيق والصواب

یہ نہایت افسوس کی بات ہے؛ کہ قرآن و سنت کی باتیں عام ہوجانے کے بعد بھی ہمارے ملک ہندوستان میں آج بھی بعض ایسی باتیں عوام ہی نہیں بلکہ علماء کے درمیان بھی باقی ہیں جن کا شریعت اسلامی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی قرآن و سنت اور معتبر علماء و فقہاء کی کتابوں میں ان کا ذکر ہے؛ بلکہ ان کی تردید میں علماء کرام نے صفحات کے صفحات سیاہ کردیئے ہیں، انہیں غیر ثابت اور خلاف دین و شریعت کاموں میں سے الوداعی جمعہ اور الوداعی خطبہ بھی ہے۔

یہ عجیب بات ہے؛ کہ تلاش بسیار کے باوجود بھی الوداعی جمعہ کی کوئی الگ سے فضیلت پورے ذخیرۂ حدیث میں نہیں مل سکی اور نہ ہی اس خطبہ کی کوئی اصل مل سکی جسے اکثر ہمارے یہاں ائمہ خطبے میں پڑھتے ہیں؛ بلکہ متعدد اہل علم و فضل نے اسے بدعت اور واجب الترک قرار دیا ہے؛ چنانچہ فتاوی محمودیہ میں ہے:

رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں خطبہ الوداع پڑھنا قرونِ مشہود لہا بالخیر سے ثابت نہیں، فقہاء نے اس کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا، مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بدعتِ ممنوع ہونے کی تفصیل سے مدلل بیان فرمایا ہے(1)

رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "الوداع والفراق والسلام یا شھر رمضان" وغیرہ کے الفاظ سے خطبۂ الوداع پڑھنا آپ علیہ السلام , خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہل فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے، ابو الحسنات حضرت مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی نے "مجموعة الفتاوی" اور "خلاصتہ الفتاوی" کے حاشیہ میں اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے "فتاوی رشیدیہ" میں اور حضرت تھانوی نے "امدادالفتاوی" میں اورمفتی عزیز الرحمٰن نے "فتاوی دارالعلوم" میں اور مفتی محمود الحسن صاحب نے "فتاوی محمودیہ" میں اور مفتی شفیع صاحب نے "امدادالمفتیین" میں بدعت اور مکروہ لکھا ہے (2) .

اس لئے اس جمعہ کی الگ سے کوئی فضیلت سمجھنا غلط ہے اور اس قسم کے خطبہ کو چھوڑنا ضروری ہے فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📖📖والدليل علی ما قلنا📖📖*

(1) فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۹۵، مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۵۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۴۱۲، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

(2) خلاصة الفتاوی 329/4 فتاوی رشیدیہ ص 123 امداد الفتاوی 685/1 فتاوی دارالعلوم دیوبند 96/5 فتاوی محمودیہ 416/12 امداد المفتین ص 404

❖ t.me/Majlisulftawa ❖
—————«•»—————

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

تراویح کی چار رکعات پڑھادی اور دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا؟
سوال
ہمارے یہاں حافظ صاحب نے تراویح کی ۴/ رکعات پڑھادی، دو رکعات پر نہیں بیٹھے بلکہ آخری چوتھی رکعات میں بیٹھے اور سجدہٴ سہو کیا، ایسی حالت میں تراویح کی دو رکعات ہوئی یا چار رکعات ہوئی؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1129-981/D=10/1439
دو رکعت میں بیٹھنا فرض درجہ میں ہے لہٰذا اس کے ترک کرنے کی تلافی سجدہٴ سہو سے نہ ہوسکے گی بلکہ صورت مسئولہ میں دو رکعت فاسد ہوگئی اور صرف اخیر کی دو رکعت نماز صحیح ہوئی۔ لہٰذا دو رکعت کی قضا انفرادی طور پر کرلی جائے اور رمضان کا مہینہ باقی رہ جائے تو قرآن کا جس قدر حصہ دو رکعت فاسد میں پڑھا گیا ہے اسے بھی دہرالیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :162904
تاریخ اجراء :Jul 9, 2018

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

/channel/Basheerululoom

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

زکاۃ واجب ہونے کے لیے ہر ہر رقم پر سال کا گزرنا شرط نہیں
سوال
اگر ایک شخص کے پاس یکم رمضان کو 12تولے سونا ہے اور اگلے سال یکم رمضان کو 12تولہ سونا بھی ہے اور 2لاکھ روپے بھی ہیں،مگر 2لاکھ روپے پر ابھی سال پورا نہیں ہوا۔تو اب زکاۃ صرف سونے پر ہو گی یا دونوں پر؟

جواب
جو شخص صاحبِ نصاب ہو اس پر سالانہ بنیاد پر زکاۃ کی ادائیگی لازم ہے،اور زکاۃ کی ادائیگی میں ہر ہر رقم پر سال کا گزرناشرط نہیں، لہذا صاحبِ نصاب آدمی کے پاس زکاۃ واجب ہونے کے دن سے ایک دن قبل بھی مزید رقم آجائے تو اسے بھی زکاۃ کے مجموعی مال میں شامل کرکے اس کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔لہذا 12تولہ سونا اور دولاکھ روپے کی رقم دونوں پر زکاۃ لازم ہوگی ۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909200118
تاریخ اجراء :23-05-2018

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

مقروض کے پاس قرض ادا کرنے کے پیسے نہ ہوں اور قرض خواہ کے پاس قرض کے پیسوں کی زکاۃ ادا کرنے کے لیے رقم نہ ہوتو زکاۃ کا حکم

سوال
ایک آدمی کا ایک دوسرےآدمی پر قرض ہے اور قرض اتنا ہے کہ وہ نصاب تک پہنچتا ہے، لیکن نہ مقروض کے پاس پیسے ہیں کہ وہ قرض ادا کرسکے اور نہ قرض خواہ کے پاس زکاۃ ادا کرنے کے پیسے ہیں تو اب وہ کیا کرے؟

جواب
قرض خواہ پر فی الحال قرض کے ان پیسوں کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے، لیکن جب بھی قرض کے پیسے وصول ہوجائیں تو اس وقت ان پیسوں کی پچھلے تمام عرصے کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201241
تاریخ اجراء :19-05-2019

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

مقروض کو زکاۃ کی رقم دے کر قرض وصول کرنا

سوال
اپنے مقروض سے قرض واپس نہ ملنے کی صورت میں کیا زکاۃ کی رقم اسے دے کر قرض کی واپسی کی مد میں وصول کی جا سکتی ہے؟ یا اسے بتائے بغیر ہی قرض کی واپسی میں ایڈجسٹ کی جا سکتی ہے؟

جواب
واضح رہے کہ کسی غریب کو پہلے سے دیے ہوئے قرض کو زکاۃ کی مد میں تصور کرلینے یا نیت کرلینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیوں کہ زکاۃ کی ادائیگی کے وقت یا زکاۃ میں دیے جانے والے مال کو جدا کرتے وقت زکاۃ کی نیت کرنا ضروری ہے، کوئی مال کسی کو دینے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ مذکورہ صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کی دو جائز صورتیں ہیں:

1- اگر مقروض واقعۃً بہت مستحق ہے تو اسے زکاۃ کی رقم کا مالک بنائیں اور جب رقم اس کی ملکیت میں چلی جائے، تو اس سے اپنے قرضہ وصول کر لیں۔اس طرح دینے والے کی زکاۃ بھی ادا ہوجائے گی، اور مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔

2- زیادہ بہتر صورت یہ ہوگی کہ مقروض، قرض کے برابر رقم کسی تیسرے شخص سے ادہار لے کر قرض خواہ کو اپنا قرض ادا کرے، قرض خواہ قرض وصول کرنے کے بعد وہی رقم اپنی زکاۃ کی مد میں سابقہ مقروض کو ادا کردے، پھر یہ مقروض اس تیسرے شخص کو اس کی رقم لوٹا دے، جس سے اس نے عارضی طور پر ادہار لیا تھا۔ اس طرح اولاً قرض خواہ کا قرض وصول ہوجائے گا، لیکن مقروض پھر بھی مقروض اور مستحقِ زکاۃ رہے گا، پھر قرض خواہ جب اسے اپنی زکاۃ ادا کرے گا تو اس کی زکاۃ ادا ہوجائے گی اور قرض خواہ کے پاس اپنی زکاۃ میں دی گئی رقم کا کوئی حصہ واپس اپنی ملکیت میں بھی نہیں آئے گا، اور آخر میں مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144108201739
تاریخ اجراء :19-04-2020

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر مٹھائی بانٹنا
سوال
کیا ختم قرآن، تراویح کی محفل میں مٹھائی وغیرہ بانٹنے کا اہتمام کرنا ثواب ہے؟

جواب
تراویح میں تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم پر مٹھائی تقسیم کرنے کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہو اور بچوں کا رش اور شوروغل ہوتا ہو، مسجد کا فرش خراب ہوتا ہو یا اسے لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو تو اس کا ترک کردینا ضروری ہے، اور اگر یہ مفاسد نہ پائے جائیں، بلکہ کوئی اپنی خوشی سے، چندہ کیے بغیر تقسیم کردے یا امام کے لیے لے آئے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ خشک چیز تقسیم کی جائے؛ تاکہ مسجد کا فرش وغیرہ خراب نہ ہو اور مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔(مستفاد فتاوی رحیمیہ 6/243)

تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنے کا مستقل اجر وثواب کتابوں میں موجود نہیں ہے، اور اسے مستقل طور پر فضیلت کا باعث سمجھ کر تقسیم بھی نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم اگر کوئی ریا ونمود کے بغیر خلوصِ نیت کے ساتھ تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر (جب کہ شرکاء عموماً دعا میں شرکت کرتے ہیں اور عبادت میں شریک ہوتے ہیں) شیرینی یا کھانے کا انتظام کرے کہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے کچھ کھاپی کر خوش ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ مجھے اس پر اجر عطا فرمائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144109202438
تاریخ اجراء :16-05-2020

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

مساجد کووڈسینٹر بنانے کےمتعلق دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

جزاك الله‘‘ کے جواب میں کیا کہنا چاہیے؟

جواب

”جزاك الله خیرًا“ ایک دعائیہ جملہ ہے، محسن اور منعم سے اظہارِ تشکر اور اس کے احسان کے اچھے بدلے کی ادائیگی کے لیے اس دعا کی ترغیب حدیث میں وارد ہوئی ہے، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اور وہ احسان کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرے ”جزاك الله خیرًا“ (یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اس کا بہتربدلہ دے) تو اس نے اپنے محسن کی کامل تعریف کی ۔
"وعن أسامة بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "من صنع إليه معروف فقال لفاعله: جزاك الله خيرا فقد أبلغ في الثناء". رواه الترمذي". (مشکوۃ المصابیح)
اور اس جملہ کا جواب دینا واجب نہیں ہے، البتہ دعا پر ”آمین“ کہہ لیا جائے اور ساتھ میں دعا دینے والے کو بھی کوئی دعا یا یہی دعا دے دی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے، جیسے ”آمین! وَإِیَّاکُمْ“ یا ”آمین! بَارَكَ الله“ یا ”آمین! فَجَزَاكَ الله خَیْرًا“ وغیرہ۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144107200296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

شوال کے چھ روزے رکھنے کی شرعی حیثیت
سوال
شوال کے روزوں کی کیا حقیقت ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک اس کی کوئی حقیقت نہیں راہ نمائی فرمائیں!

جواب
شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ رسول ﷲصلی ﷲعلیہ وسلم کاارشادِ گرامی صحیح سندکے ساتھ حدیث کی مستندکتابوں میں موجودہے:

’’عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘. ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی )

ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھرشوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے‘‘۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔

شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 435):
"(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافاً للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال" .

(قوله: على المختار) قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعةً منهم من كرهه، والمختار أنه لا بأس به؛ لأن الكراهة إنما كانت؛ لأنه لايؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبهاً بالنصارى والآن زال ذلك المعنى اهـ ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث، والواقعات للحسام الشهيد، والمحيط البرهاني، والذخيرة. وفي الغاية عن الحسن بن زياد: أنه كان لايرى بصومها بأس،اً ويقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان اهـ وفيها أيضاً عامة المتأخرين لم يروا به بأساً.
واختلفوا هل الأفضل التفريق أو التتابع اهـ. وفي الحقائق: صومها متصلاً بيوم الفطر يكره عند مالك، وعندنا لايكره وإن اختلف مشايخنا في الأفضل.
وعن أبي يوسف أنه كرهه متتابعاً والمختار لا بأس به اهـ وفي الوافي والكافي والمصفى يكره عند مالك، وعندنا لايكره، وتمام ذلك في رسالة تحرير الأقوال في صوم الست من شوال للعلامة قاسم، وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول وأنه صحح ما لم يسبقه أحد إلى تصحيحه وأنه صحح الضعيف وعمد إلى تعطيل ما فيه الثواب الجزيل بدعوى كاذبة بلا دليل، ثم ساق كثيراً من نصوص كتب المذهب، فراجعها، فافهم. (قوله: والإتباع المكروه إلخ) العبارة لصاحب البدائع، وهذا تأويل لما روي عن أبي يوسف على خلاف ما فهمه صاحب الحقائق كما في رسالة العلامة قاسم، لكن ما مر عن الحسن بن زياد يشير إلى أن المكروه عند أبي يوسف تتابعها وإن فصل بيوم الفطر فهو مؤيد لما فهمه في الحقائق، تأمل.

مزید تفصیل کے لیے فتاوی بینات 3/87 پر تفصیلی فتویٰ بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ: دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144008201675
تاریخ اجراء: 29-05-2019

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

عیدی دینا کیسا ہے؟
سوال
السلام علیکم، مفتی صاحب! سوال یہ تھا کہ شرعا عیدی تقسیم کرنا کیسا ہے؟
جواب
عید کے دنوں میں عیدی کو اسلامی عبادت یا سنت سمجھے بغیر محض اپنی خوشی سے بچوں کو، ماتحتوں کو، ملازموں کو، ہدیہ کے طور پر دینا جائز ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد حضرت حماد رحمہ اللہ عید کے دن پانچ سو افراد کو ایک ایک جوڑا کپڑا اور ایک ایک سو درہم عنایت فرماتے تھے۔
واضح رہے کہ اگر کوئی کسی کی خوشی اورمرضی کے بغیر زبردستی عیدی لے یا کسی کو اس نیت سےعیدی دے کہ اس سے اس کے بدلے دگنا وصول کریگا تو یہ دونوں صورتیں جائز نہیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
قال اللہ سبحانہ و تعالی:
وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۠ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ۚ وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۔
(سورة الروم، ٣٩)

وفی الحدیث:
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرأ إلا بطیب نفس منہ۔ (مسند أحمد ۵؍۷۲، مشکوٰۃ المصابیح ۲۲۵ رقم: ۲۹۴۶)

کذا فی سیر اعلام النبلاء:
وقال احمد ابن عبداللہ العجلی: کان افقہ اصحاب ابراہیم، وکانت ربما تعتریہ موتة وھو یحدث۔ وبلغنا: ان حمادا کان ذا دنیا متسعة، وانہ کان یفطر فی شھر رمضان خمس مائة انسان، وانہ کان یعطیھم بعد العید لکل واحد مائة درھم۔ (ج: ۵ص: ٢٣۴، الطبقةالثالثة)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی


ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :2486

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

سجدہ تلاوت میں کیا پڑھنا چاہیے؟
سوال
مفتی صاحب! سجدہ تلاوت کے لیے کوئی مخصوص دعا ہے یا سبحان ربی الاعلیٰ پڑھنا چاہیے؟
جواب
سجدہ تلاوت میں سبحان ربی الاعلیٰ پڑھنا چاہیے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی الھندیۃ:

فإذا أراد السجود كبر ولا يرفع يديه وسجد ثم كبر ورفع رأسه ولا تشهد عليه ولا سلام، كذا في الهداية، ويقول في سجوده: سبحان ربي الأعلى ثلاثا ولا ينقص عن الثلاث كما في المكتوبة، كذا في الخلاصة.

(ج: 1، ص: 135، ط: دار الفکر)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی


ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :1616

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

نماز میں واجب قراءت کی مقدار

سوال
ایک بڑی آیت کتنی ہونی چاہیے کہ اس سے نماز درست ہوجائے؟

جواب
امام اور منفرد پر سنت، نفل اور وتر کی ہر رکعت میں اور فرض نمازوں کی ابتدائی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سی بھی سورت (چاہے وہ مختصر سورت ہو ) یا تین مختصر آیتیں یا ایک بڑی آیت پڑھنا واجب ہے۔ بڑی آیت کی مقدار یہ ہے کہ وہ کم سے کم تیس حروف سے زیادہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 537):
" [تنبيه] لم أر من قدر أدنى ما يكفي بحد مقدر من الآية الطويلة، وظاهر كلام البحر كغيره: أنه موكول إلى العرف لا إلى عدد حروف أقصر آية، وعلى هذا لو أراد قراءة قدر ثلاث آيات التي هي واجبة عند الإمام لا بد أن يقرأ من الآية الطويلة مقدار ثلاثة أمثال مما يسمى بقراءته قارئًا عرفًا، ولذا فرضوا المسألة بآية الكرسي وآية المداينة. وفي التتارخانية والمعراج وغيرهما: لو قرأ آيةً طويلةً كآية الكرسي أو المداينة، البعض في ركعة والبعض في ركعة، اختلفوا فيه على قول أبي حنيفة، قيل: لايجوز؛ لأنه ما قرأ آيةً تامةً في كل ركعة، وعامتهم على أنه يجوز؛ لأن بعض هذه الآيات يزيد على ثلاث قصار أو يعدلها فلاتكون قراءته أقل من ثلاث آيات. اهـ. لكن التعليل الأخير ربما يفيد اعتبار العدد في الكلمات أو الحروف، ويفيد قولهم: لو قرأ آيةً تعدل أقصر سورة جاز، وفي بعض العبارات تعدل ثلاثًا قصارًا أي كقوله تعالى:{ثم نظر} [المدثر: 21] {ثم عبس وبسر} [المدثر: 22] {ثم أدبر واستكبر} [المدثر: 23]، وقدرها من حيث الكلمات عشر، ومن حيث الحروف ثلاثون، فلو قرأ: {الله لا إله إلا هو الحي القيوم لاتأخذه سنة ولا نوم} [البقرة: 255]، يبلغ مقدار هذه الآيات الثلاث، فعلى ما قلناه لو اقتصر على هذا القدر في كل ركعة كفى عن الواجب، ولم أر من تعرض لشيء من ذلك، فليتأمل". فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144104201039
تاریخ اجراء :27-12-2019

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

مکروہ وقت میں سجدہ تلاوت کرنا

سوال
مکروہ وقت میں سجدہ تلاوت کر سکتے ہیں؟

جواب
تین مکروہ اوقات: یعنی سورج کے طلوع، غروب (یعنی سورج کے زردی مائل ہونے کے بعد سے غروب ہونے تک) اور زوال (نصف النہار) کے وقت میں اگر آیتِ سجدہ کی تلاوت کی گئی ہو تو اسی وقت سجدہ تلاوت کی ادائیگی جائز ہے، مگر مکروہِ تنزیہی ہے، بہتر یہی ہے کہ مکروہ وقت نکل جانے کے بعد سجدہ تلاوت ادا کیا جائے۔ اور اگر آیتِ سجدہ کی تلاوت مکروہ اوقات یعنی طلوع، غروب اور زوال کے علاوہ کسی اور وقت میں کی گئی تو اس کا سجدہ ان مکروہ اوقات میں کرنا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے۔



فجر کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے سے پہلے، اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے پہلے سجدہ تلاوت ادا کرنا جائز ہے، خواہ اس وقت تلاوت کیا ہو یا پہلے تلاوت کیا ہو۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):
"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة.
(قوله: أو تحريماً) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية.
(قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلا، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج حضرت " وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه وبخلاف سجدة التلاوة؛ لأن التعجيل لا يستحب فيها مطلقا اهـ أي بل يستحب في وقت مباح فقط فثبتت كراهة التنزيه في سجدة التلاوة دون صلاة الجنازة".

الفتاوى الهندية (1/ 52):
"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع.
كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي".
الفتاوى الهندية (1/ 52):
"تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية۔۔۔ ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):
"(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به
(قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل". فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144104200513
تاریخ اجراء :13-12-2019

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

ختم قرآن کے بعد سورہ تراویح پڑھنے کا حکم

سوال

اگر تراویح میں قرآن مجید ختم ہو جائے تو اس کے بعد ''الم تر '' کی تراویح پڑھنا کیسا ہے ؟کیا اس میں کو ئی قباحت ہے؟ اور اگر کوئی  اس کا سختی سے انکار کرے تو ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

تراویح میں ایک قرآن مجید ختم کرنا سنت ہے، اور رمضان المبارک کے پورے  مہینہ میں تراویح پڑھنا  ایک الگ سنت ہے، اگر کسی نے رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن مجید پڑھ کر یا سن کر مکمل کرلیا تو اب  باقی تراویح وہ "الم تر" کے ساتھ یعنی سورۃ تراویح پڑھ سکتا ہے، اور اس کو دونوں سنتوں کے عمل کا ثواب مل جائے گا، "الم تر "سے تراویح  پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ پہلے ایک قرآن ختم کرلینا چاہیے، بلکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ نے یہ لکھا ہے کہ اگر کسی جگہ حافظ نہ ملتا ہو یا حافظ تو ہو لیکن وہ اجرت کے بغیر  تراویح نہ پڑھاتا ہوتو اس وقت  ''الم تر''  یعنی سورۃ تراویح پڑھی جائے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ "الم تر کیف"  سے تراویح پڑھنا  جائز ہے، اس پر نکیر کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔

"الم تر کیف" سے تراویح پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تراویح کی پہلی دس رکعتوں میں قرآن مجید کی آخری دس سورتیں پڑھیں  اور پھر آخری دس  میں دوبارہ ان سورتوں کر پڑھ لے،   اور اگر کوئی ان کے علاوہ کوئی اور سورۃ پڑھنا چاہے یا ایک بڑی سورت سے ہر رکعت میں چند آیات پڑھ لے تب بھی جائز ہے۔

تاہم یہ خیال رہے کہ  سورۃ تراویح میں بہت جلد بازی سے کام نہ لے جیساکہ آج کل  بہت سی جگہوں پر ہوتا ہے، بلکہ نماز کے تمام ارکان کو صحیح طریقہ سے ادا کرے، اگر کوئی شخص سورت تراویح میں تو قباحت کا قائل نہ ہو، لیکن وہ سورت تراویح میں ایسی جلد بازی پر نکیر کرتاہو جس میں نماز کے ارکان صحیح طریقے سے ادا نہ ہوتے ہوں تو یہ درست ہوگا۔ 

''فتاوی شامی''  میں ہے: 
'' (والختم) مرةً سنةٌ ومرتين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لا يثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لا يكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل.

(قوله: الأفضل في زماننا إلخ)؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، حلية عن المحيط. وفيه إشعار بأن هذا مبني على اختلاف الزمان، فقد تتغير الأحكام لاختلاف الزمان في كثير من المسائل على حسب المصالح، ولهذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذهب أن الختم سنة، لكن لا يلزم منه عدم تركه إذا لزم منه تنفير القوم وتعطيل كثير من المساجد خصوصاً في زماننا، فالظاهر اختيار الأخف على القوم.
(قوله: وفي المجتبى إلخ) عبارته على ما في البحر: والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلزم تعطيلها، فإن الحسن روى عن الإمام أنه إن قرأ في المكتوبة بعد الفاتحة ثلاث آيات فقد أحسن ولم يسئ، هذا في المكتوبة فما ظنك في غيرها؟'' اهـ.(2/ 46، 47 باب الوتر والنوافل، ط: سعید) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909200262
تاریخ اجراء :27-05-2018

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

معتکف کا سحری میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے اعلان کرنا اور مسجد میں مائک پر نعت ونظم پڑھنا

سوال
1۔ کیا معتکف سحری کے وقت لوگوں کو بیدار کرنے کی غرض سے اعلان کرسکتا ہے؟

2۔ کیا معتکف مسجدکے مائیک پر نعت ونظم کہہ سکتا ہے؟

جواب
1۔۔ اگر اعلان کرنے کے لیے مائیک کی جگہ وغیرہ مسجد کے حدود کے اندر ہے تو معتکف کا مسجد کی حدود کے اندر رہ کر سحری کا اعلان کرنے سے اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہوگا، اسی طرح اگر مائیک اذان خانے میں ہو اور اذان خانے کا راستہ مسجد کے اندر سے ہو تو اعلان کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا، البتہ اس صورت میں معتکف کو صرف اعلان کے لیے جانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور اگر اعلان کی جگہ مسجد کی حدود سے باہر ہو، یا اذان خانے کا راستہ مسجد سے باہر سے ہو تو اس غرض سے مسجد کے حدود سے باہر جانا جائز نہیں ہوگا۔ جانے کی صورت میں اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

2۔۔ مسجد کے اندر مائیک پر حمد ونعت پڑھنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا، اس لیے یہ اعتکاف فاسد ہونے والی چیزوں میں سے نہیں ہے، البتہ اگر کبھی مسجد میں حمد ونعت وغیرہ پڑھی جائے تو اس میں مائیک اور اسپیکر کا استعمال مسجد کی انتظامیہ یا چندہ دہندگان کی اجازت سے کیا جائے، اور اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ وہ نعت درست مضامین پر مشتمل ہو اور اس سے نمازیوں کی نماز، عبادت کرنے والوں کی عبادت ، اور دیگر معتکفین کی نیند وغیرہ میں خلل نہ آئے، ورنہ اس سے اجتناب کرنا ضروری ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 445):
"(أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذناً وباب المنارة خارج المسجد .

(قوله: لو مؤذناً) هذا قول ضعيف، والصحيح أنه لا فرق بين المؤذن وغيره كما في البحر والإمداد ح، (قوله: وباب المنارة خارج المسجد) أما إذا كان داخله فكذلك بالأولى، قال في البحر: وصعود المئذنة إن كان بابها في المسجد لايفسد وإلا فكذلك في ظاهر الرواية اهـ ولو قال الشارح: وأذان ولو غير مؤذن وباب المنارة خارج المسجد لكان أولى ح.

قلت: بل ظاهر البدائع أن الأذان أيضاً غير شرط فإنه قال: ولو صعد المنارة لم يفسد بلا خلاف وإن كان بابها خارج المسجد؛ لأنها منه؛ لأنه يمنع فيها من كل ما يمنع فيه من البول ونحوه فأشبه زاوية من زوايا المسجد اهـ لكن ينبغي فيما إذا كان بابها خارج المسجد أن يقيد بما إذا خرج للأذان؛ لأن المنارة وإن كانت من المسجد، لكن خروجه إلى بابها لا للأذان خروج منه بلا عذر، وبهذا لايكون كلام الشارح مفرعاً على الضعيف، ويكون قوله: وباب المنارة إلخ جملة حالية معتبرة المفهوم، فافهم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660):
" وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفاً وخلفاً على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ". فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144008201692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

سوال
میں موئے زیر ناف
اور بغل کے بال کے بارے میں تفصیلی حکم جاننا چاہتاہوں۔ (۱)کیا
اس کو بنانے کے لیے وقت کی کوئی تحدید ہے جیسے کہ چالیس دن؟ کیا یہ فرض ہے، واجب
ہے یا سنت ہے؟ (۲)کیا یہ بات سچ ہے کہ اگر یہ بال چالیس دن
کے اندر نہ بنائے جائیں تو انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے؟ (۳)کیا ہم قینچی، ریزر اور کچھ دوسری تیز چیزوں
کے استعمال کے بجائے جن کا استعمال کرنا خطرناک ہوتا ہے، بال صاف کرنے والی کریم یا
لوشن کا استعمال کرسکتے ہیں؟ (۴)موئے زیر
ناف اور بغل کے بال کی حد جن کو صاف کیا جائے گا کیا ہیں؟ (۵)مقعد
کے اردگرد کے بال کے بارے میں کیا حکم ہے؟ برائے کرم واضح انداز میں جواب عنایت
فرماویں کیوں کہ یہ ایسا عمل ہے جس کو پابندی سے کیا جاتا ہے؟


جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1198=996/د

مستحب اور افضل یہ ہے کہ ہرہفتہ بروز جمعہ بال
صاف کرے ورنہ پندرہ روز میں کرے، البتہ چالیس روز میں ایک مرتبہ کاٹنا واجب ہے
ورنہ سخت گناہ ہوگا۔
( ۲) کسی صحیح حدیث سے اس کا ثبوت نہیں۔
( ۳) مردوں کے لیے استرہ وغیرہ استعمال کرنا اور
عورتوں کے لیے اکھاڑنا مستحب ہے، البتہ کریم پاوٴڈر کا استعمال دونوں کے لیے جائز
ہے۔
( ۴) ناف کے نیچے دائیں بائیں جو بال ہو نیز خصیتین
اور ذکر پر جو بال ہوں اس کے اردگرد اور اس کے مقابل رانوں کا وہ حصہ جس کے تلوث
کا خطرہ ہو سب کو صاف کرنا چاہیے۔
( ۵) نیز مقعد کے اردگرد کے بالوں کو صاف کرنا
چاہیے، بلکہ بعض فقہاء نے مقعد کے اردگرد بالوں کے بارے میں زیادہ تاکید کی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :14237

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

زکوۃ قیمتِ خرید پر ادا کرنی ہوتی ہے یا قیمت فروخت پر؟
سوال
زکوۃ قیمتِ خرید پر ادا کرنی ہوتی ہے یا قیمت فروخت پر؟

جواب
مالِ تجارت کی زکات کی ادائیگی میں قیمتِ فروخت کا اعتبار ہے، یعنی زکات کی ادائیگی کے وقت اس بازار میں اس کی جو قیمتِ فروخت ہے، اس حساب سے اس کی زکات ادا کی جائے گی، قیمت خرید کا اعتبار نہیں۔

المبسوط للسرخسي (2/ 190):
\"وكذلك زكاة مال التجارة تجب بالقيمة\".

الموسوعة الفقهية الكويتية (34/ 132):
\"قيمة
التعريف:
1 - القيمة في اللغة: الثمن الذي يقوم به المتاع، والقيمة واحدة القيم، وهي ثمن الشيء بالتقويم.
وفي الاصطلاح: ما قوم به الشيء بمنزلة المعيار من غير زيادة ولا نقصان ... \" الخ فقط والله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144107201141
تاریخ اجراء :23-03-2020

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

قبلہ کی طرف لیٹے ہوئے شخص کے سامنے نماز پڑھنا
سوال
کوئی بندہ کسی کمرے میں قبلہ کی طرف چارپائی لگا کے سویا ہوا ہے, کمرے کی حالت کچھ اس طرح ہے کوئی نماز پڑھنا چاہےتو وہ سویا ہوا سامنے اس طرح ہو جاتا ہے"جیسے نماز جنازہ "میں سامنے ہوجاتاہے۔ اسی حالت میں نماز پڑھنے کیا حکم ہے ؟

جواب
صورتِ مسئولہ میں جگہ کی تنگی کی بنا پر مذکورہ طریقے سے نمازی کے سامنے سوئے ہوئے شخص کے سامنے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سونے والے کا چہرہ نمازی کے چہرے کے سامنے نہ ہو، تاہم اگر بے دھیانی میں اس کا چہرہ سامنے ہو جائے تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رات کو تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔ اور میں آپ کے اور دیوارِ قبلہ کے درمیان میں اس طرح سامنے لیٹی رہتی تھی جیسے جنازہ سامنے رکھا جاتا ہے، پس جب آپ ﷺ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھ کو بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو نماز پڑھتے اور میں آپ ﷺ اور قبلہ کے درمیان جنازہ کی طرح لیٹی ہوئی ہوتی تھی۔(مسلم)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 651)
''(و) لا يكره (صلاة إلى ظهر قاعد) أو قائم ولو (يتحدث)، إلا إذا خيف الغلط بحديثه''۔

''(قوله: إلى ظهر قاعد إلخ) قيد بالظهر احترازاً عن الوجه، فإنها تكره إليه، كما مر، وفي قوله: يتحدث إيماء إلى أنه لا كراهة لو لم يتحدث بالأولى، ولذا زاد الشارح " ولو " وفي شرح المنية: أفاد به نفي قول من قال بالكراهة بحضرة المتحدثين، وكذا بحضرة النائمين ، وما روي عنه عليه الصلاة والسلام: «لا تصلوا خلف نائم ولا متحدث» فضعيف. وصح عن عائشة رضي الله عنها قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من صلاة الليل كلها وأنا معترضة بينه وبين القبلة، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوترت» ، روياه في الصحيحين، وهو يقتضي أنها كانت نائمةً، وما في مسند البزار أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «نهيت أن أصلي إلى النيام والمتحدثين»، " فهو محمول على ما إذا كانت لهم أصوات يخاف منها التغليط أو الشغل، وفي النائمين إذا خاف ظهور شيء يضحكه. اهـ''.

صحيح مسلم (1/ 366)
'' عن عروة، عن عائشة: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي من الليل وأنا معترضة بينه وبين القبلة، كاعتراض الجنازة ۔ »

عن عائشة، قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي صلاته من الليل كلها وأنا معترضة بينه وبين القبلة، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوترت۔»''

صحيح ابن خزيمة ط 3 (1/ 419)

'' عن عائشة قالت:كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا معترضة بين يديه، فإذا أردت أن أقوم أنسل من قبل رجلي.

عن عائشة قالت:ربما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالليل وسط السرير وأنا على السرير بينه وبين القبلة، تكون لي الحاجة فأنسل من قبل رجلي السرير كراهة أن أستقبله بوجهي''.فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201407
تاریخ اجراء :16-07-2018

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

قرض وصول ہونے کے بعدگزشتہ سالوں کی کتنی زکوۃ لازم ہوگی؟

سوال
میں نے ایک شخص کو دو لاکھ روپے ادھار دیا تھا،جو اس نے تیسرے سال مجھے لوٹایا ہے۔ اگر اس پر زکاۃ لازم ہے تو ان دو سالوں کی کتنی زکاۃ مجھ پر لازم ہے۔؟
جواب
آپ کو پہلے سال کی زکاۃ دو لاکھ روپے کے حساب سے پانچ ہزار روپے جبکہ دوسرے سال کی زکاۃ ایک لاکھ پچانوے ہزار روپے کے حساب سے چار ہزار آٹھ سو پچھتر روپے (4875)روپے یعنی کہ کل 9875 روپے زکاۃ ادا کرنی ہو گی۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 305)
(قوله: عند قبض أربعين درهما) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لا تجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج فكذلك لا يجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج.
وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 7)
وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة.وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية.ولو كانت عشرا وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة.ولو كانت الإبل خمسا وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه.

مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :62131
تاریخ اجراء :2019-03-20

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

عورت کا گھر میں اعتکاف اور دوران اعتکاف نہانا

سوال
کیا عورت گھر میں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے؟ اگر بیٹھ سکتی ہے تو کیا نہا سکتی ہے؟

جواب
جی ہاں عورت کا اعتکاف ہوتا ہی گھر میں ہے، گھر کے کسی کونے کو مخصوص کرکے اعتکاف میں بیٹھ جائے، جہاں سے وہ بغیرکسی طبعی اورشرعی ضرورت کے نہ اٹھے۔

البتہ دورانِ اعتکاف ٹھنڈک حاصل کرنے کی غرض سے غسل کے لیے نہیں نکل سکتی، نیز شادی شدہ ہے تو شوہر کے لیے اعتکاف کے دوران اسے سے تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ عورت کو سوتے ہوئے احتلام ہوجائے اور کپڑوں پر منی محسوس کرے تو غسل کے لیے جاسکتی ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 113):
"وأما المرأة فذكر في الأصل: أنها لاتعتكف إلا في مسجد بيتها، ولاتعتكف في مسجد جماعة". فقط و الله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144109200958
تاریخ اجراء :03-05-2020

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

اگر خون صاف کرلیا جائے تو وضو کا حکم / موبائل پر زکاۃ کا حکم / حوائجِ اصلیہ کیا ہیں؟
سوال
1- اگر کسی کاخون نکلا اور جگہ پر سے تجاوز نہیں کیا اور اس نے انگلی یا کوئی اور چیز لگائی جس سے انگلی وغیرہ پر لگ گیا تو کیا حکم ہے؟

2- کیا موبائل پر زکوۃ ہے؟

3- حوائج اصلیہ کس کو کہتے ہیں اور کون کون سی ہیں؟

4-اگر بیٹے کے پاس نصاب سے زائد مال ہے لیکن وہ باپ کے ساتھ رہتا ہے اور باپ پر بھی زکوۃ واجب ہے تو زکوت کا کیا حکم ہے؟

جواب
1-اگر خون اتنا تھا کہ اگر اسے انگلی وغیرہ سے صاف نہ کیاجاتاتو بہہ جاتا اس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا۔اور اگر اتنی مقدار میں نہیں تھا تو اس صورت میں انگلی وغیرہ سے اس کو ہٹانے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 135):

"لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج وكدمع وعرق إلا عرق مدمن الخمر فناقض على ما سيذكره المصنف".

2- موبائل اگر استعمال میں ہو تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہے۔

البتہ تجارت کی نیت سے رکھے ہوں تو اموالِ زکاۃ میں شمار ہوں گے، اس صورت میں صرف موبائل یا دیگر قابلِ زکات اموال کے ساتھ مل کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی مالیت تک پہنچ جائیں تو سالانہ زکات واجب ہوگی۔

3-ضرورتِ اصلیہ یا حوائج اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔اور ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔ مثلاً ایک سے زائد مکان ہوں، لیکن رہائش کے لیے ہوں، تو یہ ضرورت و استعمال میں داخل ہوں گے، اور ان کی مالیت زکات یا صدقہ فطر کے وجوب کے نصاب میں شامل نہیں کی جائے گی۔

3۔ شرعی اعتبار سے ہر فرد کی ملکیت کا الگ اعتبار ہے، جو شخص بھی صاحبِ نصاب ہوگا اس پر سالانہ بنیاد پر زکوۃ کی ادائیگی لازم ہے ، لہذااگر بیٹا اور والد دونوں صاحبِ نصاب ہیں تو اگرچہ بیٹا والد کے ساتھ رہتا ہو، والد اور بیٹے دونوں پر اپنے اپنے اموال کے بقدر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144108201643
تاریخ اجراء :18-04-2020

Читать полностью…

فتاوی علمائے دیوبند

بغیر اذان کے جماعت سے نماز پڑھنا
سوال
ہمارے دفتر میں جماعت سے نماز ہوتی ہے اور اذان بھی ہوتی ہے، لیکن آج ہم اذان دینا بھول گئے، برائے کرم راہ نمائی فرمائیں!

جواب
آپ نے جو نماز بغیر اذان کے پڑھی ہے وہ نماز ہوگئی ہے، اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ آئندہ جماعت سے نماز پڑھیں تو اذان دے دیا کریں۔ باقی اگر آپ کے دفتر کے قریب شرعی مسجد موجود ہے تو شرعی مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں، دفتر میں جماعت کرانے سے شرعی مسجد کی جماعت کا ثواب حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ قریب میں مسجد نہ ہو تو پھر دفتر میں ہی جماعت کا اہتمام کریں۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201028
تاریخ اجراء :14-05-2019

Читать полностью…
Subscribe to a channel