اس چینل میں علماء دیوبند کے منتخب مضامین و فتاوی حسبِ فرصت ارسال کیے جاتے ہیں ل۔ فتاوی علماء دیوبند فیسبک پیج⬇️ https://www.facebook.com/FatawaUlamaeDeoband/ سنہری تحریریں ٹیلیگرام چینل⬇️ @SunehriTehriren ⬇️درر علماء الهند @UlamaUlHind
زانی کی امامت کا کیا حکم ہے
سوال:نمبر 1 ۔جو شخص زنا کرتا ہو اس کی امامت کا کیا حکم ہے اور اس پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ نمبر 2۔مشت زنی کرنے والے کی امامت کا کیا حکم ہے اور اس پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ نمبر 3۔فحش فلمیں دیکھنے والے کی امامت کا کیا حکم ہے اور اس پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ نمبر 4۔کبیرہ گناہ کرنے والے کی امامت کا کیا حکم ہے اور اس پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ ذرا تفصیل سے جواب دیں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔آمین
جواب نمبر: 170599
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:789-688/sd=9/1440
(۱تا۴) ضابطہ یہ ہے کہ فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے ، لہذا اگر کوئی شخص گناہ کبیرہ میں ملوث ہواور توبہ نہ کرے ، تو فسق کی وجہ سے اس کی امامت مکروہ ہوگی ؛ لیکن شرعی تحقیق کے بغیر کسی کو مرتکب کبیرہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
جس جانور کے دانت نہ نکلے ہوں اس کی قربانی کرنا
سوال
قربانی کے جانور کا دانت اگرنہ نکل سکاہو یانکلنےکی امیدنہ ہوتواس جانور کی قربانی کاکیاحکم ہے؟
جواب
قربانی صحیح ہونے کی شرط جانور کی عمر کا پورا ہونا ہے، دانت نکلنا ضروری نہیں، لہذا عمر پوری ہونے کی صورت میں اگرچہ دانت نہ نکلے ہوں تب بھی قربانی صحیح ہوگی ؛ لہذا اگر بکرا بکری کی عمر ایک سال ،گائے بھینس کی عمر دو سال اور اونٹ اونٹنی کی عمر پانچ سال مکمل ہونے کے باوجود دانت نہ نکلے ہوں تو ان کی قربانی صحیح ہوگی، لیکن اس سلسلے میں صرف بائع کی بات کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ یا تو جانور سامنے پلا ہو اور یقین ہو کہ اس کی عمر مکمل ہوچکی ہے، یا بیچنے والا دیانت دار اور ایسا قابلِ اعتماد ہو جو جھوٹ نہ کہتاہو تو اس کی بات کا اعتبار کیا جاسکتاہے، جہاں شبہ ہو وہاں ایسے جانور کو چھوڑ کر مکمل دانت والے جانور کی قربانی کی جائے۔
واضح رہے کہ مذکورہ جواب سامنے کے دانت آنے یا نہ آنے کے اعتبار سے ہے، اگر اتفاقاً کسی جانور کے اکثر دانت ابھی تک آئے ہی نہ ہوں، یا اکثر دانت ٹوٹ چکے ہوں جس کی وجہ سے وہ چارہ نہ کھاسکے تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201610
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
:کیا اگر ہم مکروہ وقت میں کوئی نماز پڑھیں تو اس کو دہرانی پڑے گی؟
سوال:(۱) کیا اگر ہم مکروہ وقت میں کوئی نماز پڑھیں تو اس کو دہرانی پڑے گی؟ (۲) میں نماز پڑھنا شروع کرنا چاہتاہوں مگر نیت کے تعلق سے میرے ذہن میں شبہ پیدا ہورہاہے۔ براہ کرم، اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔
جواب نمبر: 154442
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1497-1515/L=1/1439
(۱) اوقاتِ مکروہہ (طلوع، استواء اور غروبِ شمس) کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، تاہم اگر کوئی ان اوقات میں نفل نماز ادا کرلے تو کراہت تحریمی کے ساتھ درست ہو جائے گی؛ البتہ فرض یا واجب نماز پڑھ لے تو ادا نہ ہوگی اور ان اوقات میں پڑھی گئی فرض یا واجب نماز کا اعادہ لازم ہوگا، البتہ خاص اسی دن کی عصر غروب کے وقت پڑھ سکتے ہیں۔
(۲) نیت کے تعلق سے شبہ کی ضرورت نہیں، اگر دل میں استقرار نہ ہوتا ہو تو آپ زبان سے کہہ لیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
t.me/FatawaUlamaeDeoband/1335
ذوالنورین نام رکھنا
سوال
میں اپنے بیٹے کا نام ذالنورین رکھنا چاہتا ہوں، اس کا مطلب کیا ہے اور کیا میں یہ نام رکھ سکتا ہوں؟
جواب
ذوالنورین کا مطلب ہے دو نور والا، یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کالقب ہے اس لقب کی وجہ یہ ہے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اورحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھما یکے بعد دیگرے ان کے نکاح میں آئی تھیں۔ یہ نام رکھا تو جاسکتا ہے لیکن یہ بھی واضح رہے کہ یہ نام نہیں بلکہ لقب ہے ۔ واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143602200032
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
بچے کی پیدائش پہ ملنے والے پیسوں سے اس کا عقیقہ کرنا جائز ہے؟
جواب کے لیے دیکھیے
t.me/FatawaUlamaeDeoband/1330
نومولود کو ملنے والی رقم کا حکم
سوال
نومولود بچے کو بصورتِ رقم ملنے والے ہدیہ کا کیا مصرف ہے؟ کس کس استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟کیا یہ رقم عقیقہ کےلیے استعال ہو سکتی ہے ؟
جواب
نابالغ بچوں کو جو پیسے ملتے ہیں وہ اُن ہی کی ملکیت ہیں جسے اُن ہی کی ضروریات میں صرف کرنا چاہیے۔ والدین اپنی ضرورت میں استعمال نہیں کرسکتے۔ بچے کے پاس اگر مال آجائے تو اس کا نفقہ اسی کے مال میں ہے؛ لہذا اس کی جملہ ضروریات میں خرچ کردیں ۔ (امداد الفتاوی، ج: ۳، ص؛۴۸۰، ط: مکتبہ دارالعلوم،کراچی)
عقیقہ کا سنت ہونا باپ کے لیے ہے لہٰذا یہ بھی باپ کو اپنے ہی خرچہ سے کرنا چاہیے، البتہ ان پیسوں سے بچوں کا کھانا پینا وغیرہ خریدا جاسکتا ہے۔
"رجل اشتری لنفسه من مال ولده الصغیر أو استهلک مال ولده الصغیر، أو اغتصب حتی وجب علیه الضمان". (قاضي خان، الوصایا، فصل في تصرفات الوصي في مال الیتیم وتصرفات الوالد في مال ولده الصغیر، ۳/ ۳۹۲) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004201548
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ’’جب نماز کے لئے اقامت ہوجائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں‘‘ تو پھر فجر كی سنتیں جماعت شروع ہونے كے بعد كیوں كر پڑھی جاتی ہیں؟
سوال:شعبہ نے ورقاء سے انھوں نے عمرو بن دینار سے ، انھوں نے عطاء بن یسار سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، " جب نماز کے لئے اقامت ہوجائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں۔ تو پھر فجر کے بارے میں کیا حکم ہے جب کہ علماء کہتے ہیں کہ ایک طرف ہو کر پڑھ سکتے ہیں اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔
جواب نمبر: 168474
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 614-519/B=05/1440
بہتر تو یہ ہے کہ فجر کی سنت اپنے گھر پڑھ کر آئے یا مسجد میں اتنی پہلے آئے کہ آرام سے فجر کی سنت جماعت شروع ہونے سے پہلے پڑھ لے۔ اور اگر کبھی اتفاق سے گھر نہیں پڑھ سکا اور مسجد میں بھی ایسے وقت آگیا کہ فجر کی نماز باجماعت شروع ہو گئی ہے اور فجر کی سنت نہیں پڑھی ہے تو اس کے لئے اجازت ہے کہ جس حصہ میں جماعت ہو رہی ہے اس سے دُور ہٹ کر یا کسی کھمبے یا پردے کے آڑ میں یا برابر والے دوسرے حصہ میں سنت پڑھ لے۔ جس جگہ فجر کی جماعت ہو رہی ہے وہاں سنت نہ پڑھے یہ مکروہ ہے اور دُور ہٹ کر یا کھمبے کی آڑ لے کر پڑھنا حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اس لئے احناف اس کی گنجائش دیتے ہیں۔ فجر کی سنت چونکہ بہت ہی زیادہ موٴکَّد ہے۔ یہاں تک کہ حدیث میں آیا ہے کہ فجر کی سنت نہ چھوڑو اگر چہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔ اس لئے حکم یہ ہے کہ اگر فجر کی نماز ملنے کی امید ہو تو کسی طرف آڑ لے کر یا بہت دُور ہٹ کر سنت ادا کرے اور پھر فرض میں شامل ہو جائے۔ إذا أقیمت الصلاة فلا صلاة إلا المکتوبہ والی حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر والی حدیث کی وجہ سے تھوڑی رعایت کی گئی ہے کیونکہ فجر کی موٴکد ہے اور ظہر کی سنت میں یہ رعایت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اتنی موٴکد نہیں ہے اور بعد میں پڑھی جاسکتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
سوال
ہمارے یہاں کچھ لوگ بہار سے آکر بسے ہیں ، وہ اس طرح کرتے ہیں کہ جب ان کی والدہ مرنے کے قریب ہوتی ہیں تو ان کے پاس ان کی اولاد جاتی ہے اور کہتی ہے کہ” امی جان ! آ پ نے مجھے دودھ پیلایا ہے ، آپ کا مجھ پر احسان ہے ، میں آپ کی خدمت کا جو مجھ پر حق تھا وہ نہیں ادا کرسکا ، مجھے معاف کردیجئے“ اس رواج کو دودھ معاف کرنا کہتے ہیں اور اس کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ کا پروگرام رکھے جاتے ہیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔
جواب نمبر: 27380
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 2012=1617-12/1431
یہ دودھ بخشوانا بے اصل ہے، قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں اور اس کے ساتھ کھانے پینے کا پروگرام رکھنا صرف رسم ورواج ہے اس کو ترک کردینا چاہیے۔البتہ والدین کے انتقال سے قبل اپنی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کو معاف کروالینا بہترہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
سفر سے وطن اصلی واپسی کے وقت راستہ مسافت شرعی سے کم ہونے کی صورت میں قصر کا حکم
سوال
اگر آدمی سفر شرعی کی مسافت کی دوری پوری کرچکا ہو اور اگر واپسی میں اس کا وطن اصلی سفر کی مسافت شرعی کی دوری پر نہ ہو تو کیا واپسی میں پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا؟ یعنی واپسی میں بھی قصر کے لیے مسافت شرعی کا ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟
جواب
اگر کوئی شخص مسافت شرعی(سوا ستتر کلومیٹر) طے کر کے مسافر بن چکا ہو اور سفر میں قصر کرتا رہا ہو، لیکن واپسی کے وقت جس جگہ سے اپنے وطن اصلی تک واپسی کا سفر طے کرنا ہو اس جگہ اور وطن اصلی کے درمیان شرعی مسافت سفر کے برابر فاصلہ نہ ہو (یا تو اس وجہ سے کہ وہ سفر کرتے کرتے واپسی سے پہلے ایسی جگہ آکر ٹھہرا ہو جو اس کے وطنِ اصلی سے مسافت شرعی سے کم مسافت پر واقع ہو یا اس وجہ سے کہ وہ واپسی کے وقت ایسے قریبی راستے کو اختیار کرے جو مسافت شرعی سے کم ہو ) تو اس کی دو صورتیں ہیں:
۱)جہاں ٹھہرا ہوا تھا اگر اس جگہ کم از کم پندرہ دن ٹھہر کر واپس ہورہا ہے تو اب واپسی میں قصر نہیں کرسکتا، کیوں کہ مقیم ہوجانے کے بعد سفر کا آغاز ہوا ہے، لیکن مسافت شرعی ( سوا ستتر کلومیٹر) سے کم ہے ، جب کہ اس صورت میں واپسی کے وقت قصر کے لیے سفر کی مسافتِ شرعی کا ہونا ضروری ہے۔
۲)لیکن اگر جس جگہ سے واپسی ہورہی ہے وہاں پندرہ دن قیام نہ کرنے کی وجہ سے مقیم نہیں تھا، بلکہ مسافر تھا اور قصر کر رہا تھا تو اب واپسی میں بھی وطنِ اصلی میں داخل ہونے سے پہلے پہلے قصر کرتا رہے گا، کیوں کہ اس صورت میں پہلے ہی سے مسافر تھا، نئے سرے سے سفر شروع نہیں کیا، اور مسافر جب تک وطنِ اصلی میں داخل نہ ہوجائے اس وقت تک وہ قصر کرتا ہے، اس صورت میں واپسی کے وقت قصر کے لیے سفر کی مسافتِ شرعی کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ دونوں صورتوں (یعنی چاہے مسافتِ شرعی ہو یا نہ ہو) میں وطنِ اصلی میں داخل ہونے سے پہلے پہلے قصر کرنا لازم ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 123):
"ولو لموضع طريقان: أحدهما مدة السفر، والآخر أقل، قصر في الأول لا الثاني.
(قوله: قصر في الأول) أي ولو كان اختار السلوك فيه بلا غرض صحيح خلافاً للشافعي، كما في البدائع".
الفتاوى الهندية (1/ 138):
"وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدة وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق".
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94):
"وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر".
الفتاوى الهندية (1/ 139):
"ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتى يترخص برخصة المسافرين وإلا لا يترخص أبداً ... ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية".
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 425):
"ولا يزال" المسافر الذي استحكم سفره بمضي ثلاثة أيام مسافراً "يقصر حتى يدخل مصره" يعني وطنه الأصلي "أو ينوي إقامته نصف شهر ببلد أو قرية" قدره ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم وإذا لم يستحكم سفره بأن أراد الرجوع لوطنه قبل مضي ثلاثة أيام يتم بمجرد الرجوع وإن لم يصل لوطنه لنقضه السفر؛ لأنه ترك بخلاف السفر لا يوجد بمجرد النية حتى يسير، لأنه فعل "وقصر إن نوى أقل منه" أي من نصف شهر "أو لم ينو" شيئاً "وبقي" على ذلك "سنين".
قوله: "في محل تصح إقامة فيه" شروط إتمام الصلاة ستة النية والمدة واستقلال الرأي واتحاد الموضع وصلاحيته وترك السير در قوله: "يقصر" جملة يقصر صفة مسافراً قوله: "يعني وطنه الأصلي" ومنتهى ذلك بالوصول إلى الربض، فإن الانتهاء كالابتداء والإطلاق دال على أن الدخول أعم من أن يكون للإقامة أولا، ولحاجة نسيها". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200424
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
چیونٹیاں کیسے ختم ہوں؟
سوال:ہمارے گھر میں لال رنگ کی چیونٹیاں بہت ہیں، کھانے اور کپڑے میں گھس جاتی ہیں کچا ہو یا پکا ہو، پانی میں بھی چلی جاتی ہیں، کپڑے کاٹ دیتی ہیں، فریج میں بھی ہیں چلی جاتی ہیں بہت پریشان کرتی ہیں۔ براہ کرم کوئی حل بتلائیں۔
جواب نمبر: 149949
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 779-692/sn=7/1438
چیونٹیاں کیسے ختم ہوں؟ اس کے لیے کیڑے مکوڑے ختم کرنے کی دوائیں جو لوگ بیچتے ہیں ان سے رابطہ کریں؛ باقی اعمالِ قرآنی( ص۲۹۲) میں اس کے لیے ایک عمل بھی لکھا ہوا ہے، اس پر بھی عمل کرسکتے ہیں، وہ عمل یہ ہے: یَا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُہُ وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ کسی کاغذ وغیرہ پر لکھ کر ان کے سوراخ میں رکھ دیں، ان شاء اللہ تعالیٰ سب چیونٹیاں اپنے سوراخ میں داخل ہوجائیں گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
حضرت حوا کی پیدائش کیسے ہوئی ہے؟
سوال:میرا سوال یہ ہے کہ حضرت حوا کی پیدائش کیسے ہوئی ہے؟ کتابوں اور بیان میں یہ سنا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کی پیدائش ہوئی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ ایک شیخ الحدیث کے بیان میں یہ سنا ہے کہ حضرت حوا کی پیدائش اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو بناتے وقت بچی ہوئی مٹی سے کی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب نمبر: 168200
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 545-55T/L=06/1440
جمہور مفسرین کی رائے کے مطابق حضرت حواء کی پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے ہوئی ہے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت حواء کی پیدائش اللہ تعالی نے حضرت آدم کو بناتے وقت بچی ہوئی مٹی سے کی ہے، لیکن پہلے والا قول ہی راجح ہے۔ فقط
منہما یعنی آدم وحواء ، قال مجاہد -رحمہ اللہ-: خلقت حواء من قصیري آدم ، وفي الحدیث: خلقت المرأة من ضلع عوجاء ۔ القرطبی: ۶/۶، سورة النساء : ۱، ط: موٴسسة الرسالة بیروت ، لبنان۔ وفی تفسیر روح المعانی: ”وخلق منہا زوجہا“ وہو عطف علی خلقکم داخل معہ في حیّز الصّلة، وأعید الفعل لإظہار مابین الخلقین من التفاوت لأن الأول بطریق التفریع من الأصل والثانی بطریق الإنشاء من المادة، فإن المراد من الزوج حواء وہی قد خلقت من ضلع آدم علیہ السلام الأیسر کما روي ذلک عن عمر - رضی اللہ عنہ- وغیرہ ۔ وروی الشیخان ”استوصوا بالنساء خیراً فإنہن خلقن من ضلع وإن أعوج شيء فی الضلع أعلاہ الخ“ وأنکر أبومسلم خلقہا من الضلع، لأنہ سبحانہ قادر علی خلقہا من التراب فأي فائدة فی خلقہا من ذلک، وزعم إن معنی ”منہا“ من جنسہا ․․․․․․ و وافقہ علی ذلک بعضہم مدّعیا أن بما ذکر یجر إلی القول بأن آدم - علیہ السلام- کان ینکح بعضہ بعضا ، وفیہ من الاستہجان مالایخفی ، وفي الہامش: وقیل إنہا خلقت من فضل طینہ ونسب للباقر ۔ روح المعاني: ۳/۱۸۱، الجزء الرابع ”مطلب فی الذي خلقکم من نفس واحدة الخ“ ط: مکتبة إمدادیة ، ملتان ، باکستان ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
موبائل اسکرین پر مقدس نام یا مقدس مقامات کی تصاویر لگانا کیسا ہے؟
(9541-No)
سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کسی شخص کا اپنے موبائل کی اسکرین میں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو، قرآن کی آیتوں کو یا کعبہ ومدینہ وغیرہ مقاماتِ مقدسہ کی تصویر کو رکھنا شرعاً کیسا ہے؟ اور اس کو لے کر استنجاء وبیت الخلاء میں جانا یا پاجامہ کی جیب میں رکھنا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب:
اگر بے ادبی کا اندیشہ نہ ہو اور مقدس ناموں اور مقدس مقامات کی شبیہ کے ادب کا اہتمام کیا جائے، مثلاً: بیت الخلاء جاتے وقت مقدس نام اسکرین پر نظر نہ آ رہا ہو، اس صورت میں موبائل اسکرین پر اللہ تعالیٰ یا رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام اور مکہ ومدینہ ودیگر مقدس مقامات کی تصاویر لگانے کی گنجائش ہے، البتہ موبائل اسکرین کھلی ہونے کی صورت اس کو پاجامہ کی جیب میں رکھنا خلاف ادب ہے۔
نیز ان مقدس چیزوں کے موبائل پر سامنے نظر آتے ہوئے، موبائل میں نامحرموں کی تصاویر دیکھنا، گیم کھیلنا یا ناچ گانے کی ویڈیو دیکھنا سخت بے ادبی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الواقعة، الآیة: 79)
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَo
الهندية: (38/1، ط: دار الفکر)
"(ومنها) حرمة مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه۔۔۔۔۔۔۔ولا يجوز مس شيء مكتوب فيه شيء من القرآن في لوح أو دراهم أو غير ذلك إذا كان آية تامة. هكذا في الجوهرة النيرة".
والله تعالٰی أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی
t.me/FatawaUlamaeDeoband
شیطان کے شر سے بچنے کے لیے تکیہ کے نیچے چاقو رکھنا/اوصیرم نام کا معنی
سوال
میرے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے،میں نے اس کا نام "اوصیرم "رکھا ہے، رہ نمائ فرمائیں،نیز یہ بھی بتلا دیں کہ بچے کے بستر کے نیچے کوئی چھری یا چاقو رکھنا شیطان سے بچنے کے لیےکیسا عمل ہے؟
جواب
1۔ اوصیرم: تلاشِ بسیار کے بعد بھی اس نام کا معنیٰ نہیں ملا،البتہ "اُصَیْرِم" نام عربی زبان میں ملتا ہے،اصیرم کا معنی ہے: "چھوٹی کاٹ دار تلوار"، یہ نام ایک صحابی کا لقب تھا، ان کا نام " عمرو بن ثابت" رضی اللہ عنہ تھا، قبیلہ اوس کی شاخ بنواشہل سے تھے، غزوہ احد میں مسلمان ہوئے اور احد کے میدان میں ہی شہادت پائی،لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اہلِ جنت میں سے ہے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ : بتلاؤ وہ کون شخص ہے جو جنت میں پہنچ گیا اور ایک نماز کبھی نہیں پڑھی، اور پھر خود ہی بتایا کہ وہ اصیرم ہے۔
2۔ بچے کے تکیے کے نیچے چھری یا چاقو شیطان کے شر سے بچنے کے لیے رکھنا جائز نہیں،شرعی طور پر اس کی کوئی صحیح بنیاد موجود نہیں ہے،اس سلسلہ میں شرعی طریقہ یہ ہے کہ بچوں پر دم کیا جائے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو دم کیا کرتے تھے،صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات سے دم کیا کرتے تھے:
"أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ."
تاج العروس من جواهر القاموس ميں ہے:
"(والصارم: السيف القاطع)."
(الجزء 32،ج:32،ص:499،ط: دار احياء التراث)
تهذيب اللغة ميں ہے:
"وسيفٌ صارِمٌ: أَي: قَاطع."
(ابواب الصاد والراء،ج:12،ص:131،ط:دار احياء التراث)
اسد الغابة في معرفة الصحابة ميں هے:
"ويقال: أصيرم، واسمه: عمرو بن ثابت بن وقش بن زغبة بن زعوراء بن عبد الأشهل بن جشم بن الحارث بن الخزرج بن عمرو بن مالك بن الأوس الأنصاري الأوسي الأشهلي.قتل يوم أحد، وشهد له النبي صلى الله عليه وسلم بالجنة، وسيذكر في عمرو، إن شاء الله تعالى، أتم من هذا.أخرجه ابن منده، وأبو نعيم."
(حرف الألف،باب الهمزة والصاد وما يثلثهما،ج:1،ص:252،ط:دار الكتب العلمية)
وفیہ ایضاً:
"عن أبي هريرة، أنه كان يقول: أخبروني عن رجل دخل الجنة، ولم يصل لله عز وجل صلاة، فإذا لم يعرفه الناس، يقول أصيرم بني عبد الأشهل: عمرو بن ثابت بن وقش،وذلك أنه كان يأبى الإسلام، فلما كان يوم أحد بدا له في الإسلام فأسلم، ثم أخذ سيفه فأثبتته الجراح، فخرج رجال بني عبد الأشهل يتفقدون رجالهم في المعركة، فوجدوه في القتلى في آخر رمق، فقالوا: هذا عمرو، فما جاء به؟ فسألوه: ما جاء بك يا عمرو؟ أحدبا على قومك أم رغبة في الإسلام؟ فقال: بل رغبة في الإسلام، أسلمت وقاتلت حتى أصابني ما ترون، فلم يبرحوا حتى مات، فذكروه لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " إنه لمن أهل الجنة. "
(حرف العين،باب العين الميم،ج:4،ص:190،ط:دار طوق النجاة)
صحیح بخاری میں ہے:
"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال «كان النبي صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين ويقول إن أباكما كان يعوذ بها إسماعيل وإسحاق أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة."
(كتاب أحاديث الأنبياء،ج:4،ص:147،ط: دار طوق النجاۃ)
فقط والله علم
فتوی نمبر : 144311101001
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
کیا سودی رقم مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلاء اور غسل خانہ کی تعمیر پر لگاسکتے ہیں؟
(7654-No)
سوال: اگر کسی کے پاس سودی رقم ہو اور وہ اسے مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلاء اور غسل خانہ کی تعمیر پر لگانا چاہے، تو کیا سودی رقم مسجد کے بیت الخلاء پر لگاسکتے ہیں؟
جواب: مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلاء اور غسل خانہ کی تعمیر پر سودی رقم لگانا جائز نہیں ہے، بلکہ سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو، تو وہ رقم اسے لوٹادی جائے اور اگر مالک معلوم نہ ہو، تو اس رقم کو ثواب کی نیت کئے بغیر کسی غریب کو صدقہ کردیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، 99/5، ط: سعید)
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".
و فیہ ایضاً: (385/6، ط: دار الفکر)
أن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اه
کذا فی فتاوی دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 1321-9/1431
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
زخم سے خون نکلنے سے وضو کا حکم
سوال
اگر زخم یا دانہ پر ہاتھ لگنے سے پانی ہاتھ پر لگ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟ خود سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟
جواب
واضح رہے کہ زخم یا دانہ پھٹنے سے اگر پانی یا خون ازخود نکل کر نہیں بہا بلکہ ہاتھ یا کپڑا لگنے سے پھیل گیا اور وہ اتنی مقدار میں نہیں تھا کہ خود بہنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وضو نہیں ٹوٹا، البتہ اگر ہاتھ سے لگ کر پھیلنے والا پانی یا خون اتنا ہو کہ اگر اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جاتا تو وہ زخم کی جگہ سے بہہ جاتا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
اور اگر پانی یا خون دانے کے سوراخ کے اوپر قطرے کی صورت میں ظاہر ہوگیا لیکن بہا نہیں، تب بھی راجح قول کے مطابق وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر پانی یا خون ازخود نکل کر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 134):
"(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201585
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
لیدر جیکٹ میں نماز پڑھنا | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
InstantView from Source
معیدہ نام رکھنا
سوال
"مُعِیْدَه"کے معنی کیا ہیں؟ معیدہ فاطمہ نام رکھنا کیسا رہے گا؟
جواب
"مُعِیْد" کا معنی ہے :" لوٹانے والا"۔ اور یہ اللہ کا صفتی نام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جس طرح پہلی مرتبہ پیدا کرنے والے ہیں اسی طرح قیامت کے دن دوبارہ زندگی لوٹائیں گے۔ لہذا بچی کا یہ نام رکھنا منا سب نہیں۔
لیکن لفظِ "معید" اپنے لغوی اور عمومی معنیٰ کے اعتبار سے چوں کہ باری تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ کسی بھی چیز کو لوٹانے کے معنٰی میں استعمال ہوتاہے، اس لیے اگر لڑکی کا نام "معیدہ" اس نیت سے رکھا جائےکہ "امانت کو لوٹانے والی" تو یہ نام رکھنے کی گنجائش ہے۔ فقط وللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
نماز کے مکروہ اوقات اور اس میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی وجہ | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
InstantView from Source
بیٹھ کر نماز پڑھنے والا نگاہ کہاں رکھے؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں اگر بیٹھ کر نماز پڑھی جائے تو نیت باندھنے کے بعد نگاہ کہاں ہونی چاہیے ؟برائے مہربانی جواب مدلل عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
جواب نمبر: 600055
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 73-48/B=02/1442
قعود کی حالت میں فقہاء کرام نے یہ ادب بتایا ہے کہ اپنی گود کی طرف نگاہ رکھے۔ درمختار میں ہے ولہا آداب ، ونظرہ إلی موضع سجودہ حال قیامہ ، وإلی ظہر قدمیہ حال رکوعہ ، وإلی أرنبة أنفہ حال سجودہ ، وإلی حجرہ حال قعودہ ۔ (درمختار، ص: ۴۷۷/۱، سعید)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
بچوں کے تحائف کا شرعی حکم
InstantView from Source
بچے کی پیدائش پہ ملنے والے پیسوں سے اس کا عقیقہ کرنا جائز ہے؟
جواب نمبر: 176951
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 581-887/B=01/1442
نابالغ بچہ کو جو پیسے ملتے ہیں ان پیسوں کا حقدار بچہ ہے، ان پیسوں کو بچہ کے عقیقے میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
========
نوٹ: اس میں مزید تفصیل بھی ہے اس لیے دیگر فتاوی بھی ضرور دیکھیں
جیسے:
t.me/FatawaUlamaeDeoband/1330
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1349:*
🌻 *غلط قرآن پڑھنے والے کے لیے تلاوت کا حکم*
📿 *غلط قرآن پڑھنے والا شخص تلاوت جاری رکھے یا ترک کردے؟*
1️⃣ ہر مسلمان پر قرآن کریم کا ایک بڑا حق یہ بھی ہے کہ وہ اس کو سیکھے اور اس سیکھنے میں بھی حتی الامکان تجوید کے قواعد کی رعایت کرے تاکہ وہ ٹھیک طریقے سے قرآن کریم کی تلاوت کرسکے۔
2️⃣ جو شخص قرآن کریم کی تلاوت تو کرسکتا ہو لیکن اس کی تلاوت پوری طرح تجوید کے مطابق نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی تلاوت کا معمول جاری رکھے اور اسی کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو پوری طرح تجوید کے موافق سیکھنے کی بھرپور کوشش کرے تاکہ اس کا یہ حق ادا ہوسکے۔
3️⃣ جس شخص کو ٹھیک طرح تلاوت نہ آتی ہو یعنی وہ صحیح اور غلط دونوں طریقوں سے تلاوت کرتا ہو تو وہ کسی عالم قاری کو اپنی تلاوت سنا دے، پھر اگر وہ فیصلہ کرے کہ اس کا غلط پڑھنا اس حد تک سنگین نہیں ہے کہ تحریفِ قرآن تک نوبت پہنچ جائے تو ایسی صورت میں ایسا شخص تلاوت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹھیک طرح قرآن کریم سیکھنے کی کوشش کرے، لیکن اگر وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس کا غلط پڑھنا اس حد تک سنگین ہے کہ تحریفِ قرآن تک نوبت پہنچ جاتی ہے تو ایسی صورت میں ایسا شخص تلاوت موقوف کرکے پہلے ٹھیک طرح قرآن کریم سیکھنے کی بھرپور کوشش کرے اور اس میں غفلت سے مکمل اجتناب کرے۔
(مأخذ: امداد الاحکام ودیگر کتب)
مذکورہ تفصیل میں اُن لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ جنھیں قرآن کریم کی تلاوت نہیں آتی اور وہ پھر بھی بے فکر ہیں یا جو غلط قرآن کریم پڑھنے کے باوجود بھی مطمئن ہیں اور وہ ٹھیک طرح قرآن کریم سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان لوگوں کی یہ کوتاہی بڑے نقصان اور بڑی محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
6 ذو القعدہ 1444ھ/ 27 مئی 2023
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1347:*
🌻 *کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے بعد انھیں خشک کرنا*
📿 *کھانے سے پہلے ہاتھ دھولینے کے بعد انھیں خشک کرنے کا حکم:*
کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لینے کے بعد انھیں خشک نہ کرنا سنت یا مستحب نہیں، بلکہ انھیں خشک کرلینا جائز ہے، اس میں کوئی کراہت اور گناہ نہیں، البتہ متعدد علمائے امت نے کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لینے کے بعد انھیں خشک نہ کرنے کو آداب میں سے شمار کیا ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر ہاتھ دھو لینے کے بعد انھیں کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کرلیا جائے تو بسا اوقات اس کپڑے وغیرہ پر میل کچیل موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہاتھوں پر لگ جاتا ہے اور یوں ہاتھوں کی نظافت متأثر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کا مقصود فوت ہوجاتا ہے۔ جبکہ دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لینے کے بعد انھیں خشک نہ کیا جائے تاکہ کھانے کے وقت تک ہاتھ دھونے کا اثر باقی رہے اور یہی ظاہر ہو کہ یہ ہاتھ دھونا کھانے ہی کے لیے تھا۔ یہاں یہ پہلو بھی واضح رہے کہ یہ ساری تفصیل اُس وقت ہے جب ہاتھوں کو اپنے اختیار سے کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کیا جائے، البتہ اگر ہاتھ خود بخود خشک ہوجائیں تو ظاہر ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی مذکورہ تفصیل اس پر لاگو کی جاسکتی ہے۔
☀ الفتاوى الهندية:
وَلَا يَمْسَحُ يَدَهُ قَبْلَ الطَّعَامِ بِالْمِنْدِيلِ لِيَكُونَ أَثَرُ الْغَسْلِ بَاقِيًا وَقْتَ الْأَكْلِ، وَيَمْسَحُهَا بَعْدَهُ لِيَزُولَ أَثَرُ الطَّعَامِ بِالْكُلِّيَّةِ، كَذَا فِي «خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ».
(كِتَابُ الْكَرَاهِيَةِ: الْبَابُ الْحَادِيَ عَشَرَ فِي الْكَرَاهَةِ فِي الْأَكْلِ، وَمَا يَتَّصِلُ بِهِ)
☀ إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:
ولا ينشفها قبل الأكل؛ فإنه ربما يكون بالمنديل وسخ فيعلق باليد. (كتاب الأطعمة)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
4 ذو القعدہ 1444ھ/ 25 مئی 2023
مستورات کو پردے کی حالت میں پکنک پر لے جانا
سوال
آج کے دور میں مستورات کو پردے کی حالت میں پکنک والی جگہوں پر لے کر جانا کیسا ہے؟
جواب
اسلام خواتین کے لیے بلاضرورت گھر سے نکلنے کو پسند نہیں کرتا۔ حدیثِ مبارک میں ہے کہ " عورت چھپانے کی اور پردے کی چیز ہے، جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے نگاہ میں رکھتاہے"(تاکہ اس کے ذریعے مردوں کو فتنے میں مبتلا کرے)۔ تفریحِ طبع ایک انسانی ضرورت ہے ، لہذا اس کو بھی ضرورت کے دائرے میں ہی مقید رکھنا چاہیے، بلا ضرورت یا بار بار تفریح کے لیے جانا (خواہ پردے کے اہتمام کے ساتھ ہو) پسندیدہ نہیں۔ البتہ اگر کبھی جانا ہو تو درج ذیل باتوں کا خیال رکھتے ہوئے جانے کی اجازت ہوگی:
1۔ ایسی جگہ نہ جائیں جہاں کوئی ناجائز کام جیسے میوزک یا مردوں عورتوں کا بےمحابہ اختلاط ہو یا دیگر خرافات ہوں۔
2۔ خواتین مکمل شرعی پردہ میں جائیں۔
3۔ اپنے محارم کے ساتھ جائیں۔
4۔ آج کل تفریحی مقامات پر تصاویر کا کھینچنا عام ہے، اس سے بھی مکمل اجتناب کی ضرورت ہے۔
"وقوله تعالى: {وقرن في بيوتكن} روى هشام عن محمد بن سيرين قال: قيل لسودة بنت زمعة: ألا تخرجين كما تخرج أخواتك؟ قالت: والله لقد حججت واعتمرت ثم أمرني الله أن أقر في بيتي، فوالله، لا أخرج فما خرجت حتى أخرجوا جنازتها، وقيل: إن معنى:{وقرن في بيوتكن}كن أهل وقار وهدوء وسكينة، يقال: وقر فلان في منزله يقر وقورا إذا هدأ فيه واطمأن به، وفيه الدلالة على أن النساء مأمورات بلزوم البيوت منهيات عن الخروج. وقوله تعالى: {ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى} روى ابن أبي نجيح عن مجاهد: {ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى} قال: "كانت المرأة تتمشى بين أيدي القوم فذلك تبرج الجاهلية" وقال سعيد عن قتادة: {ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى} "يعني: إذا خرجتن من بيوتكن" قال: "كانت لهن مشية وتكسر وتغنج فنهاهن الله عن ذلك" وقيل: "هو إظهار المحاسن للرجال" وقيل: "في الجاهلية الأولى ما قبل الإسلام، والجاهلية الثانية حال من عمل في الإسلام بعمل أولئك" فهذه الأمور كلها مما أدب الله تعالى به نساء النبي صلى الله عليه وسلم صيانة لهن، وسائر نساء المؤمنين مرادات بها".
(أحكام القرآن للجصاص: سورة الأحزاب (3/ 471)،ط. دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة الأولى:1415هـ=1994م)
وفيه أيضا:
"قوله تعالى: يا أيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ...قال أبو بكر: في هذه الآية دلالة على أن المرأة الشابة مأمورة بستر وجها عن الأجنبيين، وإظهار الستر، والعفاف عند الخروج؛ لئلا يطمع أهل الريب فيهن".
(أحكام القرآن للجصاص: سورة الأحزاب (3/ 486)،ط. دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة الأولى:1415هـ=1994م)
المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:
"عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المرأة عورة، وإنها إذا خرجت استشرفها الشيطان، وإنها أقرب ما يكون إلى الله وهي في قعر بيتها»".
أخرجه الطبراني في الكبير (10/ 108) برقم (10115)، ط. مكتبة ابن تيمية ، القاهرة، الطبعة الثانية)
سنن ابی داود میں ہے:
"عن عائشة -رضي الله عنها- أنها كانت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر قالت: فسابقته فسبقته على رجلي، فلما حملت اللحم سابقته فسبقني فقال: «هذه بتلك السبقة»".
أخرجه الإمام أبوداود في سننه في باب السبق علي الرجل (3/ 29) برقم (2578)، ط. المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)
المفاتیح شرح المصابیح میں ہے:
"قوله: "هذه بتلك السبقة" يعني: تقدمي عليك في هذه النوبة في مقابلة تقدمك علي في النوبة الأولى.والمراد بإيراد هذا الحديث: بيان حسن أخلاقه - صلى الله عليه وسلم - أو تلطفه بنسائه؛ لتقتدي به أمته".
(المفاتيح شرح المصابيح: باب عشرة النساء وما لكل واحدة من الحقوق (4/ 87)، ط. دار النوادر،الكويت، الطبعة الأولى:1433 هـ =2012 م)
فقط واللہ اعلم
ماخذ: دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144308100278
کیا مکڑی کو مارنا جائز ہے؟
سوال:حضرت مفتی صاحب! کیا مکڑی کو مارنا جائز ہے؟
جواب نمبر: 157811
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:491-54T/L=4/1439
مکڑی جو گھروں میں جالا تنتی ہے وہ موذی نہیں ہے ،بلاضرورت اسے مارنا نہ چاہیے ؛البتہ اگر مکڑی کے جالے ہوگئے ہوں تو صاف کر سکتے ہیں۔
وقیل: لا یسن قتلہافقد أخرج الخطیب عن علیّ کرّم اللہ تعالی وجہہ قال: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم دخلت أنا وأبو بکر الغار فاجتمعت العنکبوت فنسجت بالباب فلا تقتلوہن ذکر ہذا الخبر الجلال السیوطی فی الدر المنثور،واللہ تعالی أعلم بصحتہ وکونہ مما یصلح للاحتجاج بہ، ونصوا علی طہارة بیتہا لعدم تحقق کون ما تنسج بہ من غذائہا المستحیل فی جوفہا مع أن الأصل فی الأشیاء الطہارة، وذکر الدمیری أن ذلک لا تخرجہ من جوفہا بل من خارج جلدہا، وفی ہذا بعد. وأنا لم أتحقق أمر ذلک ولم أعین کونہ من فمہا أو دبرہا أو خارج جلدہا لعدم الاعتناء بشأن ذلک لا لعدم إمکان الوقوف علی الحقیقة، وذکر أنہ یحسن إزالة بیتہا من البیوت لماأسند الثعلبی وابن عطیة وغیرہما عن علی کرّم اللہ تعالی وجہہ أنہ قال: طہروا بیوتکم من نسج العنکبوت فإن ترکہ فی البیوت یورث الفقر وہذا إن صح عن الإمام علی کرّم اللہ تعالی وجہہ فذاک، وإلا فحسن الإزالة لما فیہا من النظافة ولا شک بندبہا.( روح المعانی ط: دار الکتب العلمیة بیروت:/۱۰365)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
دودھ کے برتن میں چوہا گر کر زندہ نکل آئے تو پاکی و ناپاکی اور استعمال کا شرعی حکم
سوال
دودھ کے برتن میں چوہا گر کر زندہ نکل آئے تو پاکی و ناپاکی اور استعمال و عدم استعمال کا شرعی حکم؟
جواب
دودھ کے برتن میں چوہا گر کر زندہ نکل آئے اور چوہے کے بدن پر کوئی ظاہری نجاست موجود نہ ہو تو دودھ پاک ہے، البتہ چوں کہ چوہے کا جھوٹا مکروہ ہے ، اس لیے اس دودھ کا استعمال مکروہِ تنزیہی ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن وقع نحو شاة وأخرج حيًّا فالصحيح أنه إذا لم يكن نجس العين و لا في بدنه نجاسة و لم يدخل فاه في الماء لم يتنجس، وإن أدخل فاه فيه فمعتبر بسؤره فإن كان سؤره طاهرًا فالماء طاهر، و إن كان نجسًا فنجس فينزح كله، وإن كان مشكوكًا فمشكوك فينزح جميعه، وإن كان مكروهًا فمكروه فيستحب نزحها."
(كتاب الطهارة، الباب الثالث في المياه ،الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ (1/ 19)،ط. رشيديه)
وفيه أيضًا في الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ(1/ 24):
"وسؤر حشرات البيت كالحية والفأرة والسنور مكروه كراهة تنزيه، هو الأصح، كذا في الخلاصة."
فقط، والله اعلم
فتوی نمبر : 144208201167
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
مدرسہ کا سامان ذاتی استعمال میں لانا
سوال
مدرسہ کی کوئی چیز مدرسے کا کوئی پڑوسی ادھار کے طور پر لے جاتا ہے، مثلاً: سیڑھی، اسٹول وغیرہ تو مدرسے کی ان چیزوں کے ذریعے سے ان کی معاونت کرنا شرعاً جائز یا نہیں؟ کیوں کہ جب ہمیں مدرسہ کے لیے کوئی چیز چاہیے ہوتی ہے ادھار کے طور پر تو وہ بھی دے دیتے ہیں۔
جواب
مدرسہ کے لیے وقف شدہ سامان مدرسہ کے علاوہ کسی اور مقصد میں یا ذاتی استعمال لانا شرعاً جائز نہیں، خواہ مدرسہ انتظامیہ سے پوچھا ہو یا نہ ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ ضرورت پڑنے پر پڑوسی بھی عاریتاً چیز دے دیتا ہے وقف چیز کو غیر مصرف میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر اہلِ محلہ مدرسہ یا مسجد کا تعاون کرتے ہیں تو یہ ان کی سعادت ہے، اس تعاون کے بدلے یہ توقع رکھنا کہ مجھے بھی موقوفہ اموال یا اشیاء سے رعایت ملے گی، یا مدرسہ کے ذمہ داران اس وجہ سے موقوفہ اشیاء مدرسے سے باہر ذاتی استعمال کے لیے دیں کہ ناراض ہوگیا آئندہ تعاون نہیں کرے گا، یہ بالکل بھی درست نہیں ہے۔
البتہ اگر واقف نے مدرسہ انتظامیہ کو اپنی صواب دید پر استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہو تو اس صورت میں مدرسہ انتظامیہ پڑوسیوں کو عاریۃً یا بالاجرت دے سکتی ہے، اس وقت بھی بہتر یہی ہوگا کہ اجرت پر دی جائے اور حاصل شدہ اجرت ضروریات مدرسہ میں خرچ کرنا ضروری ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولاتجوز إجارة الوقف إلا بأجر المثل، كذا في المحيط السرخسي". ( كتاب الوقف، باب في ولاية الوقف و تصرف القيم، ٢ / ٤٠٢) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200687
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
اگر کسی بچے کے کان میں غسل سے پہلے ہی اذان واقامت کہہ دی گئی توكیا غسل كے بعد دوبارہ دی جائے گی؟
سوال:اگر پچے کے پیدائش کے بعد غسل سے پہلے اس کے کانوں میں اذان و اقامت کہہ دیا جائے تو کافی ہوگا -یا غسل کے بعد دوبارہاذان و اقامت دیا جائے ؟
جواب نمبر: 67680
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1082-1110/N=10/1437 افضل وبہتر یہ ہے کہ نو مولود بچہ یا بچی کے کان میں اذان واقامت غسل دے کر پاک وصاف ہوجانے کے بعد کہی جائے (فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۵: ۴۵۷، سوال: ۲۲۵۶، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل، اختری بہشتی زیور ۶: ۱۲ بحوالہ: محمود الفتاوی ۴: ۸۰۷، ۸۰۸) ، غسل سے پہلے جب بچہ یا بچی خون وغیرہ کی ناپاکی میں ہو تو اس کے کان میں اذان واقامت نہ کہی جائے ؛ کیوں کہ اذان واقامت دونوں ذکر خداوندی ہیں ، لیکن اگر کسی بچے کے کان میں غسل سے پہلے ہی اذان واقامت کہہ دی گئی تویہ خلاف افضل ہے، البتہ نفس سنت ادا ہوگئی ، غسل کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کسی بیماری کی وجہ سے طبی لحاظ سے بچہ کو نہلانا مضر ہو تو گندگی کی صفائی کے بعد اذان واقامت کہہ دی جائے، ایسی صورت میں غسل کی وجہ سے اذان واقامت میں تاخیر نہ کی جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
مسجد میں حرام پیسے صرف کرنے کا حکم
سوال
میرا بھائی بیس سال سے دبئی کے بینک میں منیجر کے طور پر ملازم ہے ۔انھوں نے اپنی تنخواہ میں سے ایک لاکھ روپے مسجد کے لیے دیے جو میں نے مسجد کے لنٹر میں خرچ کردیے اب مجھے معلوم ہوا کہ مسجد میں حرام پیسے لگانا جائز نہیں اب ایک آدمی نے مزید ایک لاکھ روپے مسجد کے لیے دیے ہے تو کیا میں یہ ایک لاکھ روپے غریبوں پر خرچ کروں یا اپنے بھائی کو واپس دوں ؟
جواب
مسجد خداکا مقدس اور پاکیزہ گھر ہے ثواب کی نیت سے اس میں رقم خرچ کی جاتی ہے اور ثواب کے حصول کے لیے مال کا حلال ہونا اور ہر قسم کے خبث سے پاک ہونا ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ کا ارشادہے کہ کوئی نماز پاکی کی بغیر قبول نہیں کی جاتی اور نہ کوئی صدقہ غنیمت میں چوری کیے ہوئے مال سے قبول کیاجاتا ہے اسی وجہ سے فقہائے کرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ہر قسم حرام کمائی خواہ سود کے پیسے ہو یا چوری وغیرہ کے مسجد میں استعمال کرنا ممنوع ہےاگرچہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حرام کمائی مسجد کے لٹرین وغیرہ میں خرچ کرنا درست ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ مسجد کے کسی مصرف میں حرام کمائی خرچ کرنا جائز نہیں لہذا تعمیر مسجد کے لیے حرام اور مشتبہ مال نہیں لیناچاہیے اگر کسی نے دے دیا تو اس کو واپس کردیا جائے اگر اس مال حرام سے تعمیر کرادی گئی ہوتو اگر ممکن ہو تو اس کی قیمت مالک کو واپس کرنی چاہیے اور اگر ممکن نہ ہو تو اتنی رقم فقراءاور غرباء پر بغیر نیت ثوا ب کے صدقہ کردی جائے ۔
صورت مسئولہ میں اگر سائل کو یہ معلوم ہو کہ میرے بھائی نے حرام کمائی میں سے ایک لاکھ روپے مسجد کے لیے دیے ہیں جو مسجد کے لنٹر میں خرچ کردیے گئے ہیں تو اب مسجد کو اس حرام مال سے پاک کرنے کے لیے یہ صورت اختیار کی جائے کہ اتنی ہی رقم کوئی صاحب خیر اپنی طرف سے یا مسجد کے چندہ کی طرف سے اصل مالک کو واپس کی جائے ۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺقال :"لا تقبل صلاۃ بغیر طھورولا صدقۃ من غلول "(سنن الترمذی ابواب الطھارۃ عن رسول اللہ ﷺج1ص53)
قال تاج الشریعۃ:اما لو انفق في ذالك مالا خبيثا و مالا سببه الخبيث و الطيب فيكره لان الله تعالى لا يقبل الا الطيب ، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله (رد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلوة، با ب ما يفسد الصلاة و يكره فيها ج2 ص431)
لو مات رجل و كسبه من ثمن الباذق و الظلم او اخذ الرشوة تعود الورثة ولا ياخذون منه شيا وهو الاولى و يردونه على اربابه ان عرفوهم والا يتصدقو به ،لان سبیل الكسب الخبيث التصدق اذا تعذر الرد (البحر الرائق كتاب الكراهية فصل في البيع ج8ص369)
فتویٰ نمبر : 4501/297/328
دارالا فتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
تاریخ تصدیق : 2020-09-22
زخم سے مسلسل خون کا بہنا اور کپڑوں پر لگنا
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
via www.banuri.edu.pk