🌸 *کھانے سے پہلے کیا پڑھیں؟*
🔹 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھائے تو اللہ کا نام لے، اگر شروع میں ( اللہ کا نام ) بسم اللہ بھول جائے تو اسے یوں کہنا چاہیئے بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ (اس کی ابتداء و انتہاء دونوں اللہ کے نام سے) ۔*🔹
📗«سنــن ابــو داٶد-3767»
🍁 *اگر کوئی روزہ دار سے بدکلامی کرے!*
🔹 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی ( ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا۔*🔹
📗«صحیح بخاری -1904»
⚠ *••• یہ روزہ مکمل نہ کرنے والے کی سزا ہے ؛ تو اس کی کیا سزا ہو گی جو ویسے ہی روزہ چھوڑ دیتا ہے !! •••*
👈 سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
"میں سویا ہوا تھا کہ (خواب میں) میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے میرے بازو سے پکڑ کر ایک دشوار گزار پہاڑی پر لے گئے اور کہا: چڑھیں! میں نے کہا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا! وہ کہنے لگے: آپ چڑھیے، ہم آپ کیلیے چڑھنا آسان کر دیں گے ...
⛔ *ثمَّ انطلَق بي، فإذا أنا بقومٍ مُعلَّقينَ بعراقيبِهم، مُشقَّقةٍ أشداقُهم، تسيلُ أشداقُهم دَمًا !*
پھر وہ مجھے ایک ایسی قوم کے پاس لے گئے جنہیں ان کی ایڑھیوں کے بل لٹکایا گیا تھا، اور ان کی بانچھیں چیری ہوئی تھیں اور ان سے خون بہہ رہا تھا!
میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا:
*هؤلاءِ الَّذينَ يُفطِرونَ قبْلَ تحِلَّةِ صومِهم!*
یہ افطاری کا وقت ہونے سے پہلے روزہ افطار کرنے والے لوگ ہیں ..."
[ یعنی وہ لوگ فرضی روزہ رکھتے تھے مگر درمیان میں ہی بغیر عذر کے جان بوجھ کر افطار کر لیتے تھے (روزہ توڑ دیتے تھے) ]
📚 *|[ صحيح ابن حبان : ٧٤٩١ ، السنن الكبرى للنسائي : ٣٢٨٦ ، صحيح ابن خزيمة : ١٩٨٦ ]|*
✍ امام البانی رحمہ اللہ اس حدیث کو سلسلہ صحیحہ میں درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
"یہ ایسے شخص کی سزا ہے جس نے روزہ تو رکھا لیکن اسے وقت سے پہلے ہی کھول لیا! *تو اس شخص کا حال کیا ہو گا جس نے سرے سے روزہ رکھا ہی نہیں!!* ہم اللہ تعالی سے دنیا و آخرت میں سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں."
📘 *|[ سلسلة الأحاديث الصحيحة : ٣٩٥١ ]|*
✨ - *ماہ مُقدس رمضان المبارک میں ہر دن اور ہر رات دعا کی قبولیت ...*
سيدنا جابر بن عبد الله رضى الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
*”إنَّ للهِ عُتقاءَ في كلِّ يومٍ و ليلةٍ - يعني في رمضانَ - لكلِّ عبدٍ منهم دعوةٌ مُستجابةٌ.“*
"بلاشبہ اللہ تعالی (رمضان المبارک میں) ہر دن اور ہر رات بہت سے لوگوں کو (جہنم سے) آزاد کرتا ہے، ان میں سے ہر ایک کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے۔"
📋 - *[ مسند احمد : ٧٤٥٠ ، صححه الألباني ]*
🍁 *"نعمتِ رمضان کی قدر کیجیے!"*
✍ امام ابنِ جوزي رحمه الله فرماتے ہیں :
*" تالله، لو قيل لأهل القبور تمنوا ؛ لتمنوا يوماً من رمضان.! "*
"الله کی قسم! اگر قبر والوں سے کہا جائے کہ آرزو کرو تو وہ رمضان کے ایک دن کی آرزو کریں!"
📙 - *|[ التبصرة - ٢/٨٥ ]|*
👈 - *اصلاحِ اعمال کے دن یہی ہیں ...*
✍️ حافظ ابن رجب رحمه الله فرماتے ہیں :
🔅 "اے عرصہ دراز سے راہیں جدا کر لینے والے، صلح کے دن آ پہنچے ہیں !! اے دائمی گھاٹے میں پڑے ہوئے انسان، نفع بخش تجارت کے دن آ گئے !
🔅 جو اس مہینے میں بھی نفع نہ کمائے تو وہ کب نفع کمائے گا ؟! جو اس مہینے میں بھی اپنے رب کے قریب نہ ہو تو وہ ہمیشہ دور ہی رہے گا !
🔅 تمہیں کتنا پکارا گیا : "آؤ فلاح کی طرف" مگر تم نے خسارے کا سودا کیا ؟! کتنا ہی بھلائی کی طرف دعوت دی گئی مگر تم فساد کی روش پر قائم رہے ! ..."
📒 - *|[ لطائف المعارف : ٢٨١ ]|*
🌺 *روزے کا مقصد؟*
🔹 *اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں ،جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو*🔹
📗«سورۃ البقرۃ-183»
”فرائض ہمیشہ نوافل پر مقدم ہوتے ہیں۔ تو جس شخص کے ذمہ واجب الادا قرض ہو اور وہ رمضان میں افطاریاں کرواتا پھرے، وہ درست روش پر قائم نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ پہلے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو۔“
(الشيخ حسين بن عبدالعزيز آل الشيخ حفظه الله - إمام وخطيب المسجد النبوي)
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو بہنوں کے حق مار کر ویلفیئر کی تنظیمیں چلا رہے ہیں، اور لوگوں کے اموال غصب کر کے حاتم طائی بنے ہوئے ہیں۔ بلا استثناء یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے انفاق فی سبیل اللہ کو بطورِ فیشن اختیار کیا ہے، اگر اللہ کا قرب مقصد ہوتا تو پہلے فرائض بجا لاتے۔
🍁 - *ماہِ رمضان کی برکات ...*
🍂 سیدنا ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
*”إذا كانَت أوَّلُ ليلةٍ من رمضانَ، صُفِّدتِ الشَّياطينُ ومَردةُ الجِنِّ، وغلِّقت أبَوابُ النَّارِ فلم يُفتَحْ منها بابٌ، وفُتِحت أبوابُ الجنَّةِ فلم يُغلَقْ منها بابٌ، ونادى منادٍ: يا باغيَ الخيرِ أقبِلْ، ويا باغيَ الشَّرِّ أقصِر، وللَّهِ عتقاءُ منَ النَّارِ وذلِك في كلِّ ليلةٍ.“*
"جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازه کھلا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اسکا کوئی دروازا بند نہیں رہتا، اور منادی کرنے والا پکارتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے بھلائی میں آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے برائی سے باز آ، اور کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کر دیتا ہے اور ایسا ہر رات کو ہوتا ہے۔"
📙 - *[ سنن ابن ماجه : ١٦٤٢، صحيح ]*
*بچے کو روزہ رکھوانے کی عمر ...*
سلف کی ایک جماعت کا موقف ہے کہ بچے کو روزہ رکھوانے کی عمر بھی نماز کی طرح دس سال ہے۔ فرق یہ ہے کہ روزے میں طاقت کی بھی شرط ہے۔ اگر دس سالہ بچہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو، مگر نہ رکھے تو اس پر سختی کی جائے گی۔
♦️ - (المغني لابن قدامة : ١٦١/٣)
"رمضان المبارک کی مبارک باد دینے کا حکم"
✍️ حافظ محمد طاھر
یقینا رحمتوں کے نزول، خیر و برکات سمیٹنے اور نیکیاں کمانے کے موسم رمضان المبارک کی آمد مسلمان کے لیے باعثِ مسرت وشادمانی ہے اور چونکہ عرفِ عام کی عادات میں شامل ہے کہ نعمت کے حصول یا خوشی کے مواقع پر لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں، اور معلوم شد کہ عادات میں بنیاد یہی ہے کہ جب تک کسی شرعی حکم کی مخالفت نہ ہو تو یہ جائز ہوتی ہیں اسی عمومی اصول کے تحت ہی دنیاوی مناسبات پر بالعموم اور دینی مناسبات پر بالخصوص مبارک باد دینا سلف صالحین سے منقول ہے جیسا کہ عید کے موقع پر تقبل اللہ منا ومنكم کے الفاظ منقول ہیں، اسی عمومی قاعدے کے تحت رمضان کی آمد پر مبارک باد اور باہمی دعاؤں اور نیک تمناؤں کا تبادلہ جائز و درست ٹھہرتا ہے، اگرچہ بعض علماء نے جن خاص وصریح احادیث سے استدلال کیا ہے وہ صحت وضعف کے اعتبار سے محلِ خلاف ہیں، لیکن عمومی قاعدہ اپنی اصل پر برقرار رہتا ہے، ذیل میں اسی کے متعلق بعض اہل علم کی آراء نقل کی جاتی ہیں.
✿ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کو (رمضان کی) خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا : تمہارے پاس بابرکت مہینہ آ گیا ہے... إلخ.
(مسند احمد : 2/ 385 ح : 8979 اس کی سند منقطع ہے.)
⇚ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ) فرماتے ہیں :
"لوگوں کی آپس میں رمضان پر مبارک باد دینے کی بنیادی دلیل یہ حدیث ہے."
(لطائف المعارف، ص : 148)
⇚علامہ جلال الدین سیوطی (911ھ) علیہ الرحمہ نے ابن رجب رحمہ اللہ کی یہ بات اپنے رسالے "وصول الأماني بأصول التهاني" میں استشہادا ذکر کی ہے.
(الحاوی الفتاوى : 90/1، طوق الحمامة للسيوطي، ص: 11)
⇚ علامہ ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ (1014ھ) فرماتے ہیں :
"مبارک مہینوں کے آغاز میں معروف مبارک باد دینے پر یہ حدیث بنیادی دلیل ہے."
(مرقاة المفاتيح : 1365/4)
⇚ امام ابن بطہ رحمہ اللہ (387ھ) نے حج وعمرہ اور عیدین وغیرہ کی مناسبت سے ایک دوسرے کو مبارک باد اور دعا دینے پر مسلمانوں کا سلف وخلف میں اجماع نقل کیا ہے.
(الابانة الكبرى : 2/ 871)
⇚امام ابن بطہ رحمہ اللہ کا یہ اجماع نقل کرنا عیدین کے علاوہ دیگر خوشی کے مواقع پر بھی مبارک باد دینے کی قطعی دلیل ہے.
(تطريز جزء فى التهاني فى الأعياد وغيرها لابن حجر؛ للشيخ العصيمي مفرغة، ص: 35)
⇚ معروف امام عبد العظیم منذری رحمہ اللہ (656ھ) اپنے استاد امام ابو الحسن علی بن مفضل المقدسی رحمہ اللہ (611ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے ماہ وسال کے آغاز میں مبارک باد کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ بدعت ہے یا نہیں تو انہوں نے فرمایا : "لوگ ہمیشہ سے اس بارے میں دو رائے رکھتے ہیں جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مباح و جائز ہے، نہ تو سنت ہے اور نہ ہی بدعت."
(جزء فى التهاني فى الأعياد وغيرها لابن حجر، ص : 26)
⇚ حافظ ابو الفضل ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں :
"نعمت کے حصول اور مصیبت کے ٹل جانے پر بالعموم مبارک باد کے لیے سجدہ شکر سے بھی استدلال کیا جاتا ہے."
(جزء فی التهنئة في الأعياد وغيرها، ص : 46)
⇚ علامہ ابو العباس ابن حجر ہیتمی علیہ الرحمہ (974ھ) فرماتے ہیں :
"عید اور ماہ کے آغاز میں مبارک باد سنت ہے جیسا کہ ہمارے بعض ائمہ نے ذکر کیا ہے."
(الفتاوی الفقہیہ الکبری : 245/4)
⇚ شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ (1421ھ) فرماتے ہیں :
"ماہ رمضان کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں، یہ لوگوں میں عادت معروف ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اس مناسبت پر دعا دیتے ہیں، بعض اہلِ علم نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کو اس کی مبارک دیتے ہوئے فرماتے : "تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آگیا ہے." باقی یہ الفاظ جو لوگ مبارک دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ہر سال بخیر و سلامتی رہیں، مجھے جو سمجھ آتی ہے کہ لوگ اس سے دعا ہی مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو ہمیشہ خیریت سے رکھے لیکن اگر لوگ اس سے بھی زیادہ خاص اور اچھے الفاظ کہیں تو زیادہ بہتر ہے مثلا یوں کہہ لیں : اللہ تعالی آپ کو اس مہینے میں برکت دے اور اپنی اطاعت کرنے کی اعانت ومدد فرمائے. یا اس سے ملتے جلتے کوئی دوسرے الفاظ کہہ لیں."
(آڈیو، جلسات رمضانیہ، مفرغة : 11/1)
⇚ شیخ فرماتے ہیں :
"ماہ رمضان کی آمد کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس مہینے کی آمد کی یوں خوش خبری دیتے : عظیم اور مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہو چکا ہے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ سے اس ماہ کے فضائل کا ذکر فرماتے اور اسے غنیمت جاننے کا حکم دیتے."
(اللقاء الشھری : 70/ 29)
⇚ اسی طرح شیخ رحمہ اللہ کو سائل نے خط بھیجا جس کے آغاز میں رمضان کی مبارکباد دی گئی تھی تو شیخ نے جوابا اسے دعا دی.
(مجموع فتاوی ورسائل العثيمين : 107/19 ، 19/ 380)
imamdarimi.com (@imamdarimi
):
La ilaha illa Allaah may nafi aur isbat dono arkan zarori hain
#salafi #urdu #dawah #tawheed #توحید https://t.co/o9YikVkSML
https://twitter.com/imamdarimi/status/1634250835936034817
زلزلے
عبرت و نصیحت ، اسباب و علاج
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ
یقینا زلزلے اللہ کی طرف سے نازل شدہ نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں، جنہیں وہ ایک عظیم حکمت کے تحت زمین میں برپا کرتا ہے، اور شروع سے آخر تک ہمیشہ اسی کا حکم چلتا ہے،اور جو (چیز)چاہتا اور پسند کرتا ہے وہی کرتا ہے۔اور وہ اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے، اس کی رحمت اس کے غصے پر غالب ہے، بلکہ ہر چیز سے زیادہ وسیع ہے۔لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس کے ثواب پر ہی اعتماد کیا جائے اور سزا سے غافل ہوجائیں، اور نہ ہی اس کی رحمت پر (سب کچھ) جھاڑ دیا جائے اور اس کے غصے سے لا علمی اختیار کی جائے، اور نہ ہی اس کی معافی کی امید رکھتے ہوئے ناپسندیدہ کام کئے جائیں۔
مکمل پڑھیں۔۔!
https://islamfort.com/zalzale-ibrat-o-nasihat-asbab-o-elaaj/
#turkey #earthquake #DesastresNaturales #Zalzala #khutbateharmain
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی خیر کا پہلو ہے اس کی بنیاد دو چیزوں پر ہے:
1 - علم
2 - عدل
استاد محترم شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ اپنے ایک درس میں علامہ ابن القیم کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھا جائے تو عدل بھی بغیر علم کے ممکن نہیں، اس طرح ہر طرح کے خیر کا مرجع "علم" ہی ہے۔
اگر کسی کے پاس علم ہی نہ ہو تو چاہے اس کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، وہ حقیقی خیر کو نہیں پا سکتا۔
اسی لئے امام بخاری نے باب باندھا ہے: باب العلم قبل القول والعمل
یہ جو آپ میدان دعوت میں اترنے والے بعض لوگوں کے نت نئے کرتب دیکھ رہے ہیں اس کی اصل وجہ یہی "علم کا نہ ہونا ہے"۔
الإنسان عدو لما جهل
بعض حضرات پہلے پہل ان کا دفاع کر رہے تھے، لیکن ان کرتبوں کو دیکھ کر وہ بھی اب افسوس صد افسوس کر رہے ہیں۔
میں نے پہلے ہی مع دلائل کہا تھا کہ دعوت کے میدان میں اترنے سے پہلے داعی کا شرعی علم سے لیس ہونا اولین شرط ہے، باقی چیزوں کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ اگر پہلی اور بنیادی شرط ہی ان میں مفقود ہے تو اس دعوت کا انجام کبھی بھی خیر نہیں ہو سکتا۔
ان شاء اللہ آہستہ آہستہ سب کی آنکھیں کھلیں گی، اور ہر ایک کے لئے واضح ہوگا کہ دعوت کے نام پر یہ چکا چوندھ، لیپاپوتی، ٹیپ ٹاپ محض ایک دھکوسلا اور فتنہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
✍ فاروق عبد اللہ نراین پوری
’’میاں بیوی کے واجبات‘‘
ایک جگہ حافظ نووی رحمہ اللہ کی عبارت گزری جس میں بتایا گیا تھا کہ فلاں فلاں چیزیں عورت پر واجب نہیں، اس پر مختصر کمنٹ ملاحظہ فرمائیے :
"یہ بات بالکل درست ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ سمیت فقہاء نے لکھا ہے کہ کپڑے دھونا، ہنڈیا پکانا، ساس سسر کی خدمت کرنا وغیرہ وغیرہ بیوی پر واجب نہیں، عورت یہ سارے کام احسان کرتے ہوئے اور حسن معاشرت کے جذبے کے تحت کرتی ہے، اللہ تعالی اسے اجر سے نوازے گا، لیکن یاد رہے کہ مرد پر عورت کے حقوق میں سے صرف یہ چیزیں واجب ہیں، دو وقت کا سادہ کھانا، دو کپڑے کے جوڑے جب تک کہ وہ اس قدر پھٹ نہ جائیں کہ پہننے کے قابل نہ رہیں اور ایک گھر چاہے وہ ایک کمرے پر مشتمل ہو، اس کے علاوہ باقی سب سہولیات مرد کی طرف سے بھی احسان اور حسن معاشرت کے تحت ہوتی ہیں، گھر میں گرمی سردی کی سہولیات، عید اور میکے کی شادیوں میں خرچے اور نت نئے جوڑے اور رشتہ داروں سے شادی بیاہ پر لین دین کے خرچے، میکے آنے جانے کے سفری اخراجات اور علاج معالجہ کی سہولتیں، روز روز نئی فرمائشیں اور شاپنگز، یہ سب بھی مرد پر واجب نہیں، اگر حسن معاشرت اور احسان سے ہٹ کر واجب واجب پر ہی رہنا ہے تو عورت بھی اپنا واجب لے تاکہ مرد اپنی تھوڑی سی آمدنی سے چار شادیاں کرے، دو چار نوکرانیاں رکھے اور جنت جیسی زندگی گزار لے ۔ اس لیے اگر بیوی نے واجب کے سوا کچھ نہیں کرنا تو پہلے موازنہ کر لے، خاوند کے احسان زیادہ ہیں، بہتر یہی ہے کہ جیسے معاشرہ ایک دوسرے پر احسان اور حسنِ معاشرت پر چل رہا ہے چلتا رہنے دیں، اسی میں دنیوی و اخروی بھلائی ہے ۔ إن شاء اللہ۔‘‘
(حافظ محمد طاھر)
اس قول کا مطلب یہ کہ شرعی احکام کا معیار ہماری ناقص عقل نہیں بلکہ فرمان نبوی ﷺ ہے۔ خواہ وہ بظاہر عقل کے خلاف بھی نظر آئے مگر حق و صداقت وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرما دیا۔ اسی کو مقدم رکھنا اور عقل ناقص کو چھوڑ دینا ایمان کا تقاضا ہے۔
⇚حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (٧٩٥هـ) فرماتے ہیں :
هذا يدل على أن هَذا مما لا يدرك بالرأي، ولا يهتدي الرَأي إلى وجه الفرق فيهِ.
’’یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عقل سے بالاتر بات ہے اور (نماز اور روزے کی قضا میں) اس فرق کی وجہ عقل نہیں سمجھا سکتی۔‘‘ (فتح البارى : ٢/ ١٣٤)
بعض اہل علم نے اس کی توجیہات بھی کی ہیں، مثلا بعض کا کہنا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی قضا اتنی مشکل نہیں ہے جتنی نماز کی ہے، کیونکہ روزے پورے سال میں صرف ایک بار آتے ہیں، چند دن ہوتے ہیں، ان کی گنتی آسانی سے یاد بھی رکھی جا سکتی ہے اور پھر عورت کے پاس اگلے رمضان سے پہلے پورا سال وقت ہوتا ہے جبکہ نمازیں ہر ماہ کئی چھوٹ جاتی ہیں، ان سب کی گنتی پورے حساب سے یاد رکھنا، پھر ہر ماہ ان کی قضا دینا بہت مشکل اور مشقت والا کام تھا اس لیے اللہ تعالی نے اپنی رحمت کرتے ہوئے، نماز معاف کر دی اور روزے کی قضا کو برقرار رکھا۔
بہرحال حکمت کوئی بھی ہو، ہم اسی چیز کے پابند ہیں جو اللہ تعالی نے ہمارے ذمے لگائی ہے، جیسے عبادات فرض ہیں ہم اسی طرح انہیں بجا لانے کے پابند ہیں ۔
...(حافظ محمد طاھر)
___
🍃 *|[ حرام سے بھی روزہ رکھیں ... ]|*
🖍 يحيى بن أبي كثير رحمه الله فرماتے ہیں:
*« يَصُومُ الرَّجُلُ عَنِ الْحَلالِ الطِّيِّبِ وَيُفْطِرُ عَلَى الْحَرَامِ الْخَبِيثِ لَحْمِ أَخِيهِ - يَعْنِي اغْتِيَابَهُ ».*
"آدمی پاکیزہ حلال چیز سے تو روزہ رکھ لیتا ہے مگر خبیث حرام سے افطار کیے رہتا ہے - یعنی غیبت کے ذریعے اپنے بھائی کا گوشت کھانے سے باز نہیں آتا !"
📗 *|[ حلية الأولياء : ٦٩/٣ ، سندہ حسن ]|*
🌺 *اللہ کیلئے محبت!*
🔹 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ۱؎-*🔹
📗«سنــن ابــو داٶد-4681»
🎉 - *ماہ مقدس رمضان المبارک میں ہر عمل کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے ...*
سيدنا ابوهريرة رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم نے فرمایا :
*”كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ : إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ : فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ وَلَخُلُوفُ فِيهِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ“*
" ابن آدم کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : سوائے روزے کے (کیونکہ) وہ (خالصتاً) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ وہ میری خاطر اپنی خواہش اور اپنا کھانا پینا چوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس کے (روزہ ) افطار کرنے کے وقت کی اور (دوسری) خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت کی۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔"
📚 - *[ صحيح مسلم : ١١٥١ ]*
🍃 - *روزے کی نیت کیسے کریں؟*
👈🏻 ام المؤمنين حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا :
*« لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ »*
اس شخص کا کوئی روزہ نہیں جس نے رات کو ہی اس کی نیت نہیں کی.
📗 - *|[ سنن ابنُ ماجه (١٧۰۰) صحَّحه الألبانيُّ في الإرواء : (۲٧/٤) ]|*
👈🏻 امام ابن تيميہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
*"كلّ من عَلِمَ أن غدا من رمضان ، وهو يُريدُ صَوْمَهُ، فقد نوى صَوْمَهُ."*
جس کسی کے علم میں ہو کہ کل رمضان (کا روزہ) ہے، اور اس کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو، تو یہی اس کی نیت ہے.
🖍 - *|[ الفتاوى الكبرى : ٤٦٩/٢ ]|*
🥡 - *متصدق علیہ (جسے صدقہ دیا جائے) کو اذیت سے بچانا ...*
عبدالعزيز بن بحير بن ریسان رحمہ اللہ قرونِ اولی میں ایک بزرگ گزرے ہیں جو کثرت کے ساتھ فقراء و مساکین کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ انہیں کہا گیا کہ بعض اہلِ شرف (اونچے گھرانوں کے لوگ جنہیں حالات نے فقر و فاقہ تک پہنچا دیا ہے) بھی آپ کے دسترخوان پر آتے ہیں مگر شرماتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ آئندہ کھانا تقسیم کرتے ہوئے چراغ بجھا دیا کرو۔
(تاريخ ابن يونس المصري : ٣١٩/١)
صدقہ دینے کا ایک بنیادی ادب قرآن نے بیان کیا ہے کہ جسے صدقہ دیا جائے اسے اذیت سے بچایا جائے، وگرنہ صدقہ باطل ہو سکتا ہے۔ *اذیت کی ایک بہت بڑی صورت عزتِ نفس کو مجروح کرنا ہے۔* اس لیے صدقہ دیتے ہوئے ان تمام امور سے بچنا چاہیے جو متصدق علیہ کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاتے ہوں، اور حتی المقدور غیر محسوس طریقے سے اعانت کرنی چاہیے۔
📍- *|[ اللهم صل على محمد ... ]|*
👈 سيدنا أنس بن مالك رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله - صلی الله عليه وسلم - نے فرمایا :
*❐ ’’أكثِروا الصَّلاةَ علي يومَ الجمُعةِ و ليلةَ الجمُعةِ ، فمَن صلَّى علي صلاةً صلَّى الله عليِه عَشرًا.‘‘*
"جمعے کے دن اور جمعے کی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو ؛ پس جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے الله اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے !"
📕 - *|[ صحيح الجامع : ١٢٠٩ ]|*
👈 امام *شافعی* رحمه الله فرماتے ہیں :
"مجھے ہر حال میں نبی صلی الله علیه وسلم پر کثرت سے دورد بھیجنا پسند ہے، مگر جمعہ کے دن اور رات کو بہت ہی محبوب ہے۔"
📕 - *|[ الأم : ٢٣٩/١ ]|*
👈 امام *ابن حجر* رحمه الله نقل کرتے ہیں :
"نبی صلی الله علیه وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا، وباؤں اور دیگر بڑی مصیبتوں کے خاتمے کا بہت بڑا سبب ہے !"
📕 - *|[ بذل الماعون : ٣٣٣ ]|*
⛔ - *رمضان کا روزہ چھوڑنا ...*
✍ - امام ذھبى رحمه الله فرماتے ہیں :
"اہلِ ایمان کے ہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ جو شخص رمضان کا روزہ بغیر کسی مرض یا عذر کے چھوڑے تو وہ زانی اور عادی شرابی سے ذیادہ برا شخص ہے. بلکہ مسلمان ایسے شخص کے اسلام کو مشکوک سمجھتے ہیں، اور اسے زندیق اور بے دین خیال کرتے ہیں!"
📕 - *[ كتاب الكبائر : ٦٤ ]*
مسکینوں کے لیے سب سے بہترین شخص حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، ہمیں اپنے گھر ساتھ لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا کھلا دیتے تھے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ گھی کا ڈبہ نکال کر لاتے اور اس میں کچھ نہ ہوتا، ہم اسے پھاڑ کر اس میں جو کچھ لگا ہوتا چاٹ لیتے تھے۔
راوی : سیدنا ابو ہریرہ ؓ
صحیح بخاری : ۵۴۳۲
- بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے کسی کو کھانا کھلانے جیسی نیکی سے باز رہتے ہیں کہ انکے ہاں مہمان کو کھلانے کے لیے کچھ خاص موجود نہیں ہوتا یا وہ گھر بنی معمولی چیز کو پیش کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ جبکہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ سیدنا جعفر بن ابی طالب ؓ کو 'بہترین شخص' ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ جو کچھ بھی ہوتا مسکینوں کے سامنے پیش کر دیتے حتی کہ نہ ہونے کے برابر چیز بھی آپ ان سے نہ چھپاتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ آپ میزبانی کے لیے خصوصی تکلف کا شکار نہ ہوتے تھے۔ اور نبی ﷺ کا بھی فرمان ہے کہ کوئی شخص اپنی طاقت سے زیادہ مہمان کے لیے تکلف نہ کرے۔ (الصحيحۃ رقم ٢٤٤٠)
- مہمان کو بھی چاہیے کہ میزبان کے ہاں جو کچھ بآسانی میسر ہو پہنچ کر کھا، پی لے۔ اگر ساتھ یہ ہوتا یا وہ ہوتا تو مزہ آ جاتا، کہہ کر میزبان کو شرمندہ نہ کرے یا اس کے حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی خاص کھانے کی تیاری سے متعلق یوں اصرار نہ کرے کہ وہ اسے خود پہ لازم سمجھتے ہوئے مشکل میں پڑ جائے !
⇚ شیخ ابن باز رحمہ اللہ (1420ھ) سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :
"اس میں کوئی حرج نہیں، میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کیوں کہ یہ بڑا معزز مہینہ ہے جس میں خیر عظیم ہے تو اس کی مبارک باد دینے میں بالکل اسی طرح کوئی حرج نہیں جس طرح کہ اولاد ، اچھی رہائش اور سفر سے بخیر و عافیت لوٹنے پر مبارک باد دی جاتی ہے."
مزید سوال کیا گیا کہ کیا اس طرح مبارک باد کے لیے کوئی خاص الفاظ بھی ہیں؟؟؟
تو شیخ نے فرمایا :
"یوں کہے : اللہ تمہارے لیے اس ماہ کو بابرکت بنائے یا تمہیں اس مہینہ کی آمد کی مبارک ہو یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہہ لے."
پوچھا گیا : یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو یہ مہینہ مبارک ہو؟؟؟
فرمایا : "جی سب ٹھیک ہے جیسے بھی کہہ لیں."
(فتاوی نور علی الدرب : 16/ 8)
⇚ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو ایک پاکستانی سائل نے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے خط بھیجا، آغاز میں رمضان کی مبارک باد دی تو شیخ رحمہ اللہ نے انہیں جوابا دعا دی.
(مجموع الفتاوی لابن باز : 98/15)
⇚ سعودی دائمی فتوی کمیٹی سے اس متعلق سوال ہوا تو انہوں جوابا فرمایا :
"آغازِ رمضان پر مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے."
(فتاوی اللجنہ الدائمہ-٢ : 9/ 8)
⇚شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
"ماہ رمضان کے شروع ہونے کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس مہینے کی آمد کی خوش خبری دیتے اور انہیں اس میں بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرنے کی ترغیب دیتے، اللہ تعالی فرماتے ہیں :
کہہ دیں کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی سے ہے لہذا اسی کے ساتھ پھر لازم ہے کہ وہ خوش ہوں۔ جو وہ جمع کرتے ہیں یہ اس سے بہتر ہے. (سورہ يونس: 58)
اس مہینے کی مبارک باد دینا اور اس کے آنے پر خوش ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انسان اس میں خیر و بھلائی کی رغبت رکھتا ہے، سلف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو ماہ رمضان کی آمد پر مبارکباد دیتے."
(المنتقی من فتاوی الشيخ صالح الفوزان : 123/3)
⇚ شیخ عبد العزيز آل شیخ فرماتے ہیں :
"جب یہ کریم مہینہ داخل ہو تو اس کے آغاز پر مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں. "
(رسائل و فتاوی عبد العزيز آل الشیخ، ص : 103)
⇚ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ماہ رمضان کے آغاز پر مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ تو شیخ نے فرمایا :
"میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، یہ عید کی مبارک باد کی طرح ہی ہے اور عید پر جب صحابہ ایک دوسرے کو ملتے تو تقبل اللہ منا ومنكم کہا کرتے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ رمضان ایک عظیم موقع ہوتا ہے اس پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا چاہیے اس کو غنیمت جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ آخرت کمانے کے دنوں میں سے دن ہیں لوگ اس موقع پر خوش ہوتے اور ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے ہیں، یوں ہونا چاہیے کہ مبارک باد بھی دعا کے ساتھ دی جائے، سب ایک دوسرے کے لیے دعا کریں کہ انہیں صیام وقیام کی توفیق ملے."
(شرح سنن ابو داود : 33/ 549 بحوالہ شاملہ)
⇚ شیخ صالح بن عبد اللہ العصیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
"مختار قول یہی ہے کہ رمضان کی خوش خبری دینا مستحب یا مباح ہے اسے بدعت کہنا بہت دور کی بات ہے."
(شرح فضل صيام رمضان وقيامه لابن باز ؛ مفرغة، ص : 29)
نیز فرماتے ہیں :
"رمضان کی مبارک باد والی احادیث کو ضعیف کہنے والے علماء بھی اس کی خوش خبری دینے سے منع نہیں کرتے کیوں کہ خوش خبری کا تعلق بھی مبارک باد سے ہے اور مبارک باد دینے میں اصل و بنیاد مباح وجواز ہی ہے."
(ایضا)
اسی طرح شیخ ایک جگہ فرماتے ہیں :
"مبارک باد کے متعلق اصل کلی قاعدہ جواز کا ہے."
(تطریز جزء فى التهنئة فى الأعياد وغيرها؛ مفرغة، ص : 35)
⇚شیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ، ماہ رمضان کی مبارکباد کے متعلق فرماتے ہیں :
"خوشی پر مبارک باد دینے کی شریعت میں اصل موجود ہے اور یہ مبارک باد کسی بھی الفاظ کے ساتھ دی جا سکتی ہے جن میں کوئی ممانعت نہ ہو."
(آڈیو، شرح زاد المستقنع؛ مفرغة : 2/ 1)
⇚ بعض اہلِ ادب و لغت نے رمضان کی مبارک باد کے لیے مختلف ادبی وفصیح الفاظ وجملے بیان کیے ہیں مثلا دیکھیے :
(1) ترتيب الامالي الخميسية للشجري (2/ 35 وسندہ حسن)
(2)علامہ ابو منصور عبد الملک ثعالبی (429ھ) کی سحر البلاغة وسر البراعة (ص : 101)
(3) علامہ احمد قلشقندی (821ھ) کی صبح الاعشی فی صنعة الإنشاء (9/ 42)
(4) علامہ ابو منصور ثعالبی (876ھ) کی لباب الآداب (ص : 55)
(5) ابو اسحاق القیروانی (453ھ) کی زهر الآداب وثمر الألباب (2/ 618) وغیرہ
وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت وإليه أنيب.
imamdarimi.com (@imamdarimi
):
La ilaha illa Allaah may nafi aur isbat dono arkan zarori hain
#salafi #urdu #dawah #tawheed #توحید https://t.co/o9YikVkSML
https://twitter.com/imamdarimi/status/1634250835936034817
اللہ رب العالمین کے شکر و احسان سے مجلہ "منہج سلف" کا دوسرا شمارہ آپ قارئین کی خدمت میں حاضر ہے، نیچے دئیے گئے لنک سے ڈاؤن لوڈ کریں، خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیں.
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم.
https://salafimanhaj.info/2023/1915/
ماہ رجب کی فضیلت کے بارے میں چند غیرثابت شدہ حدیثیں:
’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی:
رجب کی پہلی رات، پندرہ شعبان کی رات،جمعہ کی رات،عید الفطر کی رات اورعید الأضحی(قربانی) کی رات۔‘‘
اسے ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ احادیث ضعیفہ میں اسے ’’موضوع‘‘قراردیا ہے۔
یعنی: یہ جھوٹ ہے، اور نبیﷺ سےثابت نہیں ہے۔
Hasid shaks ki pehchan
Identifying a jealous person
حاسد شخص کی پہچان
مرکز الفرقان بحرین
قرآن و حدیث کی صحیح معلومات، دینی اصلاح کیلئے شیخ ڈاکٹر عبداللہ عبدالحمید السعدی (حفظہ اللہ)کا مکمل ویڈیو بیان دیکھنے کیلئے نیچے لنک پر کلک کریں
https://www.youtube.com/watch?v=jx9FIr3xOnk&t=14s
’’روافض کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سلوک‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میری وجہ سے دو قومیں گمراہ ہو کر جہنم میں جا گریں گی، ایک تو وہ ہوں گے جو میری محبت میں اس قدر غلو کریں گے کہ یہ غلو انہیں جہنم میں لے جائے گا اور دوسرے وہ لوگ کہ جو مجھ سے بغض رکھیں گے یہاں تک یہ بغض انہیں جہنم میں جا داخل کرے گا۔(1)
یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر انہیں نبی کریم ﷺ کی طرف سے بتلائی گئی تھی جو بعد میں من وعن پوری ہوئی۔
دو گروہ بنے رافضی اور ناصبی، ایک گروہ آپ رضی اللہ عنہ کو الٰہ یا امام معصوم بنا کر انبیاء سے اونچے مقام پر فائز کر بیٹھا اور دوسرا گروہ آپ کا بغض و دشمنی دل میں پال بیٹھا، دوسری قسم کے لوگ ہر دور میں موجود تو رہے لیکن اپنا کوئی منظم فرقہ نہ بنا سکے، ان کا ذکر محدثین نے اپنی کتب میں کیا اور کئی اشخاص کو انفرادی طور پر اس بری فکر سے منسوب کیا، جبکہ پہلی قسم کا تو باقاعدہ ایک مذہب بنا اور اس کے کئی فرقے ہوئے، البتہ اہل سنت/اہل حدیث کی پہچان کا طریقہ ایسا ہے کہ انہیں ناصبی فکر کے لوگ ہمیشہ رافضی یا رافضیت زدہ کہتے ہیں اور رافضی انہیں ناصبی کہہ کر پکارتے ہیں، اسی لیے اگر کوئی اہل سنت/اہل حدیث کو رافضی یا رافضیت زدہ کہے تو جان لیں وہ ناصبی ہے اور جو انہیں کو ناصبی کہہ کر پکارے تو جان لیں وہ پکا رافضی ہے۔
اب آتے ہیں رافضیت کی طرف اگرچہ انہیں یہ لقب بعد کے ادوار میں ملا پہلے دیگر مختلف ناموں سے معروف رہے، لیکن چونکہ یہ فرقہ اسی نام سے مشہور ہے اور متقدمین کے ہاں روافض اور شیعہ میں کچھ فرق تھا اس لیے یہی نام ان کے لیے موزوں ہے. اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں دیکھا جائے تو ان کے تین طرح کے گروہ تھے، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے :
1. غالی روافض :
یہ نہایت گمراہ فرقہ تھا، ان کا عقیدہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی در اصل الہ ومعبود ہیں، وہی اللہ و خالقِ کون ہیں، آپ نے انہیں زندہ جلا دیا تھا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ باہر کچھ لوگ آئے ہیں جن کا خیال ہے کہ آپ ہی ان کے پروردگار ہیں، آپ نے انہیں بلایا اور پوچھا : تمہاری ہلاکت ہو یہ تم کیا کہتے ہو ؟ جواب ملا : آپ ہی ہمارے رب اور خالق و رازق ہیں، فرمایا : ظالمو! میں تمہارے جیسا ہی اک انسان ہوں، تمہاری طرح کھاتا پیتا ہوں، اگر اللہ کی اطاعت کروں تو ثواب پاؤں اور اگر نافرمانی کر بیٹھوں تو اس کے عذاب سے خوف زدہ ہوں. اللہ سے ڈرو اور واپس چلے جاؤ.
لیکن انہوں نے جانے انکار کر دیا تو آپ نے زبردستی انہیں نکلوا دیا۔
اگلے دن پھر آئے یہی تکرار کیا۔
تیسرے روز بھی آ کر وہی رٹ لگا دی، سیدنا رضی اللہ عنہ نے فرمایا : باز آ جاؤ وگرنہ ایسی بری طرح قتل کروں گا کہ یاد کرو گے۔
انہوں نے پھر اپنی بات پر قائم رہنے کا اعلان کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ خندق کھود کر آگ جلا کر اس میں جھونکنے کا حکم دے دیا۔(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔(3)
2. سبائی روافض :
یہ عبداللہ بن سبأ زندیق کے پیروکار تھے اور شیعانِ علی ہونے کا دعوی کرتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کو منصبِ الوہیت پر فائز مانتے تھے، ابن سبأ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اعلانِ برأت کر رکھا تھا، اسی لیے فرمایا :
مالي ولهذا الحميت الأسود.
’’میرا اور اس کالے مٹکے کا کیا تعلق؟؟؟‘‘(4)
بعض روایات میں ہے :
مالي ولهذا الخبيث الأسود.
’’میرا اور اس کالے خبیث کا کیا تعلق ؟؟‘‘(5)
بلکہ اسے قتل کا ارادہ بھی فرمایا۔ (6)
روافض کے مطابق تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے جلا دیا تھا۔ (7)
3. تفضیلی شیعہ :
ان کا خیال تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ، شیخین یعنی سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے شان و مقام اور مرتبے میں افضل ہیں.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں حد المفتری یعنی اسّی کوڑے لگانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ (8)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کئی اسانید سے مروی ہے۔(9)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اس امت میں رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابو بکر ہیں اور پھر ان کے بعد عمر ہیں ۔ (10)
(تحریر : حافظ محمد طاھر)
----------------------------------------------
1۔ (فضائل الصحابہ لأحمد : 952 وسندہ صحیح ، وانظر فضائل الصحابہ : 964 وسندہ حسن)
2۔ (المخلصیات لأبي طاهر ، الجزء الثالث : 1/ 335)
3۔ (فتح الباری : 12/ 370، نیز دیکھئے : صحیح بخاری : 3017 وغیرہ)
4۔ (تاریخ الكبير لابن أبي خيثمة : 3/ 177 وسندہ صحیح)
5۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر [مختصر ابن المنظور] : 12/ 222)