ONLY SHARE BOOKS LINKS NOT ALLOWED
ماہنامہ نور کا مرتضیٰ ساحل تسلیمی نمبر
Читать полностью…صحرانورد_کے_خطوط_آٹھ_رومان_از_میرزا_ادیب_.pdf
Читать полностью…آنسو اور ستارے از میرزا ادیب .pdf
Читать полностью…اندھا دیوتا مترجم میرزا ادیب.pdf
Читать полностью…میرزا ادیب شخصیت و فن phd مقالہ از ثمینہ علیم ۔ میر بلوچ.pdf
Читать полностью…مطالعہ اقبال کے چند پہلو از میرزا ادیب.pdf
Читать полностью…پہاڑ کی چوٹی پر از میرزا ادیب .pdf
Читать полностью…آج اردو کے نامور افسانہ و ڈرامہ نگار، نقاد اور ادبی جریدے ادب لطیف کے سابق مدیر میرزا ادیب کا یوم پیدائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے نامور افسانہ و ڈرامہ نگار، نقاد اور ادبی جریدے ادب لطیف کے سابق مدیر میرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا اور وہ 4 اپریل 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے گریجویشن کیا، ابتدا میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا مگر پھر نثر کو اپنی شناخت بنالیا ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﭘﺮ ﮐﻤﺮﺑﺴﺘﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﻣﻘﺼﺪ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺎ۔
ﺍﻥ ﮐﺎ ﺧﺎﺹ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﮈﺭﺍﻣﺎ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﻧﮕﺎﺭ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﻣﯿﺮﺯﺍ ﺍﺩﯾﺐ ﻧﮯ اپنی 85 ﺳﺎﻟﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﻧﺜﺮﯼ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺻﻨﻒ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﺪ ﺁﻭﺭ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﭖ ﻧﮧ ﮨﻮ، ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ، ﮈﺭﺍﻣﺎ ، ﺳﻔﺮﻧﺎﻣﮧ، ﺗﻨﻘﯿﺪ ، ﺗﺮﺍﺟﻢ، ﺗﺎﻟﯿﻔﺎﺕ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ، ﻏﺮﺽ ﮨﺮ ﺻﻨﻒ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺯﺍ ﺍﺩﯾﺐ ﮐﯽ ﮔﺮﺍﮞ ﻗﺪﺭ ﺗﺨﻠﯿﻘﺎﺕ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﺗﻮﻗﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﯿﮟ۔
میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط، صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، حسرت تعمیر، متاع دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، فصیل شب، شیشے کے دیوار، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض اور ان کی خودنوشت سوانح ’’مٹی کا دیا‘‘ شامل ہیں۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺭﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺭﺕ ﮐﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﺳﺮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ( ﺍﺩﺏ ﻟﻄﯿﻒ ) ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ۔
ﻣﺮﺯﺍ ﺍﺩﯾﺐ ﺭﯾﮉﯾﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﺭﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﻓﯿﭽﺮ ﺍﻭﺭ ﮈﺭﺍﻣﮯ ﺭﯾﮉﯾﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﺸﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﺮﺕ ﻋﺎﻡ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﯽ۔
حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعزاز میں انہیں 1981ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے 6 مرتبہ رائٹرز گلڈ کے انعامات اور 3 مرتبہ گریجویٹ فلم ایوارڈز بھی حاصل کئے تھے۔
میرزا ادیب ایک وضعدار اور مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔
1935ءمیں بی اے کرنے کے بعد انہوں نے ادبی خدمات کو ہی ذریعہ روز گار بنایا۔
ان کے کالج کے ساتھیوں میں حمید نظامی، یردانی جالندھری اور ضمیر جعفری (مرحومین) اور ہم عصروں میں کرشن چندر، منٹو راجندر سنگھ بیدی اور کنہیا لال کپور صاحب جیسی شخصیات تھیں۔
31جولائی 1999ء کو میرزا ادیب لاہور میں وفات پاگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر شمائلہ حسین
میرزا ادیب نے ۴؍اپریل ۱۹۱۴ء کو لاہور میں جنم لیا۔ان کے والد کا نام مرزا بشیر علی تھا۔ مرزا ادیب کا اصل نام مرزا دلاور علی تھا جبکہ والدہ پیار سے ’’دلور‘‘ کہتی تھی۔ انہوں نے اپنا یہ تخلص اس وقت وضع کیا تھا جب وہ نویں کلاس کے طالب علم تھے اور پھر تاحیات یہی تخلص اپنائے رکھا اور اسی تخلص سے شہرت پائی۔
’’ادبِ لطیف‘‘ کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں مرزا ادیب نے اپنے نام سے تخلص تک کے سفر کو بیان کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:۔
’’دلاور علی تو میرا وہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھا اور ظاہر ہے کہ والدین ہی نام رکھا کرتے ہیں۔ میرزا ادیب میرا ادبی نام ہے۔ جو مَیں نے اس وقت اختیار کیا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس طرح تریسٹھ برس سے میں میرزا ادیب ہی ہوں۔‘‘
میرزا ادیب کا تعلق ایسے مغل گھرانے سے تھا جہاں غربت اور مسلسل جد و جہد کا راج تھا۔ اُن سمیت وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ مُغل خاندان سے ہونے کے باوجود ان کے والد اور تایا میں وہ خصوصیات موجود نہ تھیں جو مغل خاندان کا طرئہ امتیاز کہلائی جاتی ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں میرزا ادیب کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے۔ ان کے بعد اس خاندان میں علم و فضل کے دروازے گویا بند ہوچکے تھے۔ ان کی والدہ کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں دو بھائی تعلیم کے زیور سے جیسے تیسے آراستہ ہوگئے لیکن ان کی تین بہنوں نے کبھی کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:۔
’’میں مغل خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، دادا جان کے ’قلمی نسخے‘ میں لکھا تھا کہ ان کا خاندان افغانستان سے لاہور آیا تھا۔ میرے دادا اپنے زمانے کے عالم فاضل شخص تھے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔‘‘
’’مٹی کا دیا‘‘ میں وہ اپنی محرومیوں کے بارے میں رقمطراز ہیں:۔
’’تایا جی اور ابا جی کو اپنے مغل ہونے پر فخر تھا۔ یہ فخر ایک ایسا اثاثہ بن گیا تھا جسے وہ محرومیوں کے لق و دق صحرا میں بھی اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔‘‘
’’یہ تھی میری نسل جو آگے قدم نہیں اٹھاسکی تھی۔۔۔۔ یہ نسل ایک جگہ رُک گئی تھی جیسے ایک غار میں اُتر گئی ہو اور باہر نکلنے کا راستہ نہ جانتی ہو۔ یہ نسل میری نسل تھی، جو صرف جینا جانتی تھی اور یہ صرف اس وجہ سے کہ جینے پر محبور تھی۔ میں اس جمود زدہ نسل کا ایک فرد تھا جس کی پیدائش محض ایک عام واقعہ تھی۔‘‘
آغا حشر کاشمیری اور ان کے ڈراموں کا تنقیدی مطالعہ از محمد شفیع.pdf
Читать полностью…میرزا_ادیب_شخصیت_فن_ترتیب_و_انتخاب_رشید_امجد_ریختہ_بیگ_راج.pdf
Читать полностью…اردو کی 12انمول کتابیں میرزا ادیب.pdf
Читать полностью…گلی گلی کہانیاں(افسانے) میرزا ادیب.pdf
Читать полностью…غلاموں کی بغاوت(افسانے) میرزا ادیب.pdf
Читать полностью…صحرا نورد کے رومان(میرزا ادیب).pdf
Читать полностью…شیشے کی دیوار از میرزا ادیب .pdf
Читать полностью…یہ احساس محرومی اذیت بن کر تمام عمر ان کی تحریروں میں بھی جلوہ افروز ہوتا رہا۔ انہیں اپنی والدہ سے شدید محبت تھی۔ ان کی والدہ ایک سادہ سی اَن پڑھ خاتون تھیں جس کی زندگی محنت کرتے گزری اور ان کے بارے میں مرزا ادیب مٹی کا دیا میں لکھتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت کام میں مصروف رہتیں۔ سب کی خدمت کرتیں اور بدلے میں کبھی کسی سے کچھ نہ مانگتیں۔ اس کے برعکس مرزا ادیب اپنے والد سے ہمیشہ دور بھاگتے تھے جس کی وجہ ان کے مزاج کی سختی اور اکھڑ پن تھا اپنی آپ بیتی میں انہوں نے اپنے والد صاحب کی محرومیوں اور معذوری کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں میرزا ادیب کی تعلیم سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی۔ دو مرتبہ غصے کی حالت میں انہوں نے میرزا ادیب کا بستہ اٹھا کر سراج دین دھوبی کی بھٹی میں ڈال دیا تھا۔ اس کی وجہ میرزا ادیب ان میں محرومیوں کا شدید احساس ہونا بتاتے ہیں۔
بہر حال ان تمام تر حالات کے باوجود میرزا ادیب کی علم حاصل کرنے کی لگن میں کوئی کمی نہ ہوئی بلکہ یہ شوق اس وقت اور بھی بڑھ گیا۔ جب انہوں نے تجسس کے مارے اپنے دادا کا وہ صندوق کھول لیا جس میں ان کا علمی ورثہ بند تھا۔ اور یہی ورثہ انہیں ادب کی ان منزلوں تک لے جانے میں سنگِ میل ثابت ہوا جس پر پہنچتے پہنچتے میرزا ادیب افسانہ نگاری، خاکہ نگاری، سوانح نویسی اور ڈراما نویسی کے راستوں سے گزر کر ادب کی معراج کو پہنچے۔
میرزا ادیب نے تمام رسمی اور غیر رسمی تعلیم لاہور میں پائی۔ ۱۹۳۱ء میں میٹرک اور ۱۹۳۵ء میں اسلامیہ کالج سے بی اے آنرز کیا اور حصولِ معاش کے لیے پہلی ملازمت ’’ادبِ لطیف‘‘ میں کی۔ مجموعی طور پر ادب لطیف میں تقریباً ۱۷ سال ملازمت کی تھی۔ ادبِ لطیف کے بعد ایک فلمی و ادبی پرچہ مصور میں بھی کام کیا۔ اس کے بعد ریڈیو سے منسلک ہوئے اور یہاں بھی تقریباً ۱۶ سے ۱۷ سال کا عرصہ گزارا۔ حسن پرست کی ادارت بھی کی۔
میرزا ادیب کی شادی ۱۹۴۰ء میں ہوئی۔ اُن کی شریکِ حیات کا نام نجمہ تھا۔ مرزا ادیب کو خدا نے دو بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
انہوں نے ۳۱؍جولائی ۱۹۹۹ء میں وفات پائی۔میرزا ادیب نے رومانوی اسلوب کا شاہکار ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ لکھ کر ادب میں اپنی ممتاز حیثیت قائم کی۔ افسانہ نگاری میں جگہ بنائی۔ خاکہ نگاری بھی کی۔ کتابوں کے تراجم بھی کئے۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے، اور آخر میں ڈرامے کو اپنے قلم سے زینت بخشی نہ صرف سنجیدہ سٹیج ڈراما ان کی قلم سے تخلیق ہوا بلکہ بچوں کے ڈراموں میں بھی اچھا خاصا ذخیرہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔٭…٭…٭
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
Читать полностью…آغا حشر کاشمیری حیات اور کارنامے مسز شمیم ملک.pdf
Читать полностью…