libraryb | Unsorted

Telegram-канал libraryb - ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

2766

ONLY SHARE BOOKS LINKS NOT ALLOWED

Subscribe to a channel

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آبِ رَواں ہے حاصِلِ عُمرِ شتاب رَو
لَوحِ فنا میں نقش نہیں ہے ثبات کا

اے بُت پرست! دیدۂ بینا سے دیکھ تو!
اِک ذات میں ظہوُر بہت سی صِفات کا

میرے بغل میں خواہشِ دُنیا کا بُت نہیں
کُچلا ہے میں نے لات سے سر اُس منات کا

رُخسارِ یار حلقۂ کاکُل میں ہے عیاں
یا چاند ہے سراؔج اَماوَس کی رات کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے جِگر کے درد کا چارا کب آئے گا
یک بار ہوگیا ہے، دوبارا کب آئے گا

پُتلی ، ہمارے نیں کے جھروکے میں بیٹھ کر !
بیکل ہو جھانکتی ہے، پیارا کب آئے گا

اُس مُشتری جبِیں کا مجھے غم ہُوا زُحل
طالع مِرے کا نیک سِتارا کب آئے گا

مُرجھا رہی ہے دِل کی کلی غم کی دُھوپ میں
گُلزارِ دِلبری کا ہزارا کب آئے گا

ہے شاد اپنے پُھول سےہر بُلبُل، اے سراؔج !
وہ یارِ نَوبہار ہمارا کب آئے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آج معروف کلاسیکل شاعر سراج اورنگ آبادی کا یومِ وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺳﺮﺍﺝ ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺁﺑﺎﺩﯼ ‏ ﺩﮐﻨﯽ ﺷﻌﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﻭﻟﯽ ﺩﮐﻨﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﮐﻠﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻟﯿﮟ، ﻗﺼﯿﺪﮮ، ﺭﺑﺎﻋﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﺜﻨﻮﯼ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺜﻨﻮﯼ ' ﺑﻮﺳﺘﺎﻥِ ﺧﯿﺎﻝ ' ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺰﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺳﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ 13 ﺻﻔﺮ 1124 ﮪ ﻣﻄﺎﺑﻖ 11 ﻣﺎﺭﭺ 1712 ﺀ ﮐﻮ ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ۔

ﻧﺎﻡ ﺳﯿﺪ ﺳﺮﺍﺝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺗﺨﻠﺺ ﺳﺮﺍﺝ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻤﺮ ﻭﮨﯿﮟ ﺑﺴﺮ ﮐﯽ۔ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﻭﺣﺸﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺑﺎﺭ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﮯ۔ ﻣﺪﺕِ ﻣﺪﯾﺪ ﺗﮏ ﯾﮧ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺭﮨﯽ۔ 1734 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺍﺝ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﭼﺸﺘﯽ ﺳﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺳﺮﺍﺝ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻭ ﺑﺎﮐﻤﺎﻝ ﺻﻮﻓﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍِﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﺗﮭﯽ۔ ‏

ﺳﺮﺍﺝ ﻧﮯ ﺳﺨﻦ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺻﻨﻒ ﻣﯿﮟ ﻃﺒﻊ ﺁﺯﻣﺎﺋﯽ ﮐﯽ۔ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺿﺨﯿﻢ ﮐﻠﯿﺎﺕ ، ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﺜﻨﻮﯼ ’’ ﺑﻮﺳﺘﺎﻥ ﺧﯿﺎﻝ ‘‘ ﺍﻥ ﮐﯽ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻧﯽ ﺻﻮﻓﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﮭﮯ

ﺳﺮﺍﺝ 1734 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﭼﺸﺘﯽؒ ﺳﮯ ﺑﯿﻌﺖ ہوئے ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﮔﻮﺋﯽ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﻨﮧ 1740 ﺀ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ﺧﯿﺮﺑﺎﺩ ﮐﮩﺎ۔

ﺳﺮﺍﺝ ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ 52 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﻭﺯ ﺟﻤﻌﮧ 4 ﺷﻮﺍﻝ 1177 ﮪ ﻣﻄﺎﺑﻖ 6 ﺍﭘﺮﯾﻞ 1764 ﺀ ﮐﻮ ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔

بشکریہ وکی پیڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر عارف مصباحی

سراج اورنگ آبادی کی شاعری غزل گوئی کے تناظر میں

ولی دکنی بقول محمد حسین آزاد "اردو شاعری کا بابائے آدم" کی شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے کہ جس کی شاعری کو دیکھ کر شمال ھند کے شعراء نے خود کوسنبھالا اور ریختہ جیسی گری پڑی زبان کی عظمت کے معترف ہوئے ایسے ہی ولی کی شاعری سے شمال ھند کے شعراءنے ریختہ میں ایک خوبصورت اور دلکش اشعار کہنے کا امتزاج بھی پیدا کیا جو ولی دکنی کی دین ہے بات یہ تھی کہ شمال ھند میں شاعری کا اصل امتزاج فارسی تھا اور فارسی بھی صرف خواص تک محدود تھی عام انسان سمجھنے سے یکسر قاصر تھے ڈاکٹر محی الدین قادری زور شمال ھند کی فارسی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ؛ کہ "شمال ھند کے کے لوگ فارسی شاعری سے اکتا گیے تھے اور ایک غیر ملک کی زبان میں کمال حاصل کرنے کے لیے انہیں بڑی محبت کرنی پڑتی تھی اور اس کے بعد بھی وہ ایرانی شعراء کے مقابے میں اپنے تئیں کمزور پاتے تھے"۔۔۔
"ھندوستانی لسانیات صفحہ ١١٨"
اس طرح ولی دکنی نے شمال ھند کے لوگوں کو اپنی شاعری سے بیدار کیا مگر یہ سورج افق شاعری پر کب تک حاوی رہتا آخر کار ایک دن ایسا آیا کہ یہ سورج کہ جس نے اپنے کلام سے ستاروں کو روشنی بخشی اُفُق شاعری کی بلند چوٹیوں کے پیچھے کہیں ہمشیہ کے لیے غروب ہو گیا اور پھر شاعری میں اپنا جانشین سراج جیسے صوفی اور بہ کمال شاعر کو چھوڑ گیا کیونکہ ولی کے بعد سراج نے شاعری میں وہی مقام حاصل کیا ہے جو پہلے کبھی ولی کو حاصل تھا جس سے یہ بات بھی بلکل صاف ہو جاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں سراج کی شاعری میں بھی ولی کی شاعری کی عمدہ جھلک اور اس کی صاف و شفاف عکاسی نظر آتی ہے اور ان کے کلام کا محور ولی کے کلام کے محور سے کسی حد تک مشابہ ہے۔۔۔
جیسے:

تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سے کہوں گا
جادو ہے تیرے نین غزالاں سے کہوں گا

پھر میری خبر لینے وہ صیّاد نہ آیا
شاید کہ اسے حال مرا یاد نہ آیا
(ولی)

دل لے گیا ہے مجھ کوں دے امید دل دہی
ظالم کبھی تو لائے گا میرا لیا ہوا

مرہم ترے وصال کا لازم ہے اے صنم
دل میں لگی ہے ہجر کی برچھی کی ہول آجا

نہ ملے جب تلک وصال اس کا
تب تلک فوت ہے مرا مطلب

سنا ہے جب سے تیرے حسن کا شور
لیا زاہد نے مسجد کا کنارا
(سراج)

یہ اشعار کس طرح عشق مجازی کی عکاسی کر رہے ہیں قاری خود اندازہ لگا سکتا کہ یہاں سراج ولی کا کیسا تعاقب کر رہے ہیں اور دونوں کے کلام کا محور بھی ایک ہی ہے۔۔۔۔

سراج اورنگ آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ ان پر بچپن سے ہی مجنونانہ کیفیت طاری رہا کرتی تھی جو تا عمر باقی رہی ان کا کم عمری کا بیش تر کلام جو مجنونانہ حالات میں لکھا تھا وہ حوادثات زمانہ کی وجہ سے کہیں ضائع ہو گیا ۔۔۔

سراج بکمال بزرگ تھے اس طرح ان کے مریدوں اور شاگردوں کی ایک اچھی خاصی لمبی فہرست ہے
سراج پر صوفیت کا غلبہ رہتا تھا اس لیے ان کے اکثر اشعار تصوف سے لبریز ہیں ۔۔۔۔
جیسے :

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

میرا_گاؤں_از_غلام_الثقلین_نقوی_۔۔_میر_بلوچ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

غلام_الثقلین_نقوی_کی_ناولٹ_نگاری_کا_جائزہ،_مقالہ_نگار؛_کومل_سلام.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

اگلے_وقتوں_کا_آدمی_غلام_الثقلین_نقوی_از_ڈاکٹر_انور_سدید_۔_میر_بلوچ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

گڑ_کی_بھیلی_افسانہ_غلام_الثقلین_نقوی_۔_میر_بلوچ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

سہ_ماہی_ادبیات_ڈاکٹر_نبی_بخش_بلوچ_نمبر.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

چچ نامہ __ نبی بخش بلوچ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

خلیفی صاحب کا رسالہ (خلیفہ نبی بخش کا کلام) سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1966ء
کلیاتِ حمل، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1953
سندھی موسیقی جی مختصر تاریخ ( سندھی موسیقی کی مختصر تاریخ)، شاہ عبد اللطیف ثقافتی مرکز بھٹ شاہ، 1978ء
سندھی صورتخطی اور خطاطی،سندھی لینگویج اتھارٹی، حیدرآباد، 1992ء
سندھی زبان کا اوائلی منظم زخیرہ، سندھی لینگویج اتھارٹی، حیدرآباد، 1993ء
سندھی زبان و ادب کی تاریخ، پاکستان اسٹڈی سینٹر، سندھ یونیورسٹی جامشورو، 1999ء

ناقدین کی رائے

ڈاکٹر مختارالدین احمد (سابق صدرشعبۂ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)

” ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اسلام آباد، حکومت پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ وہاں کی دو جامعات (سندھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی) کے وائس چانسلر ہوئے۔ ہجرہ کونسل، سندھی ادبی بورڈ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈکلچرل ریسرچ اور دوسرے علمی اداروں کے بڑے کامیاب سربراہ رہے۔ ان کی زندگی ترقیوں اور کامرانیوں سے معمور ہے۔ پاکستان میں کون صاحبِ علم و صاحبِ ذوق ایسا ہے جو ان کے علمی کارناموں سے واقف نہیں۔ ان کے کارنامے نہ سہی ان کے کارناموں کی خوشبو سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی یہاں (ہندوستان) بھی پہنچی۔“

ڈاکٹر عبد القادر جونیجو (سابق صدر شعبۂ سندھی سندھ یونیورسٹی و چیئرمین سندھی ادبی بورڈ)

” ڈاکٹر بلوچ صاحب کی زندگی اور جدوجہد کی داستان قابلِ تقلید ہے۔ افسر، پروفیسر، ماہرِ تعلیم و منتظم، وائس چانسلر اور وزیر کے عہدوں پر رہے۔ ہر کام ہمت، محنت، سلیقہ اور تیز رفتاری سے کیا۔ وقت کا صحیح استعمال کیا۔ ایسےقلم کا شہسوار کہ ان کا ہر پل تحقیق، تدوین، محنت اور مشقت کے لیے وقف ہے۔“

ڈاکٹر غلام علی الانا (ماہرِ لسانیات، محقق)

” اہلِ سندھ کو چاہیے کہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب سے زیادہ سے زیادہ اتفادہ کریں۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کو کرسیوں اور عہدوں کی پروا کبھی نہیں رہی۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اسلام آباد میں، لاہور میں، پشاور میں، بلوچستان ہی میں نہیں بلکہ بیرونِ پاکستان میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ “

اعزازات
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیاز اور صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ 2005ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے آپ کی گرانقدر ادبی خدمات کے صلے میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ کمال فن ادب انعام سے نوازا۔

وفات
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ 6 اپریل 2011ء کو حیدرآباد میں حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

بشکریہ وکی پیڈیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

کرسکا تھا۔ نبی بخش بلوچ نے محض چار سال کے عرصے میں 34 نئی کتابیں لکھوائیں جن میں سے 25 کتب شائع کرائیں۔ ان کتب میں سے پانچ سندھ سے متعلق ہیں جن میں مولانا عبد اللہ لغاری کی روایت کردہ مولانا عبیداللہ سندھی کی کابل کی ڈائری جسے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے مرتب کیا، شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو جلدوں پر مشتمل سندھ سے بمبئی کی علیٰحدگی کی تاریخی دستاویزات بھی شائع کیں۔ اس ادارے میں قیام کے دوران میں نبی بخش بلوچ نے بڑے پیمانے پرتاریخ کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا۔ دیگر تحقیقی منصوبے جن پر کام کا آغاز کیا وہ یہ ہیں:

پورے پاکستان کے تعمیراتی آثار کا مطالعہ
ٹھٹھہ اور مکلی قبرستان کی تعمیرات کا مطالعہ
اُچ شریف کی تعمیرات کا مطالعہ
لاہور کی تعمیرات کا مطالعہ
زیریں سندھ میں لکڑی کی تعمیرات کا مطالعہ

نبی بخش بلوچ نے مسلمانانِ پاک و ہند کی مستند، متعصبانہ آراء سے پاک اور صحیح تاریخ دنیا کے سامنے لانے کے ایک عظیم منصوبہ ترتیب دیا جس کی پہلی جلد فتح نامہ سندھ پر نبی بخش بلوچ نے خود شب و روز محنت کرکے اس کا مستند فارسی متن مع انگریزی مقدمہ تحریرکیا اور اس پر انگریزی میں مفید حواشی بھی تحریر کی۔ اس کتاب کا عربی میں ترجمہ دمشق سے کرایا اور وہیں سے کتاب 1983ء میں شائع کرائی۔ تاریخِ مسلمانانِ پاک و ہند کے اس منصوبے پر ابھی کام جاری ہی تھا کہ 1983ء میں نبی بخش بلوچ کو اس ادارے سے جدا کر دیا گیا اور یہ عظیم منصوبہ سرد خانے کی نذر ہو گیا اور یہ کام ادھورا رہ گیا۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی
نومبر 1980ء میں نبی بخش بلوچ کو اسلام آباد میں نئی قائم شدہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ یہ عہدہ نبی بخش بلوچ نے اے کے بروہی کی ایماء پر قبول کیا جو اس یونیورسٹی کے پہلے ریکٹر مقرر کیے گئے تھے۔ بلوچ صاحب نے 3 جنوری، 1981ء کو شاہ فیصل مسجد کمپلیکس کے ایک کمرے میں 81-1980ء کے تعلیمی سال کا آغاز اے کے بروہی صاحب سے کرایا۔ اس کے بعد شب و روز محنت کرکے اکتوبر 1981ء تک تمام ذیلی ادارے قائم کردیے جن میں بورڈ آف اسٹڈیز، سلیکشن بورڈ، اکیڈمک کونسل، فنانس کمیٹی وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ تعلیمی شعبے اور ان کے لیے اساتذہ کا انتخاب کیا۔ طلبہ کے لیے ہاسٹل اور یونیورسٹی کے عملے کے لیے رہائش کا انتظام کیا۔ شعبۂ قانون کے لیے علاحدہ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا، اس ادارے میں ججوں اور اعلیٰ پولیس افسروں کی تربیت کا آغاز کیا۔ اگست 1982ء میں بلوچ صاحب وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹا دیے گئے۔

مشیر قومی ہجرہ کونسل اسلام آباد
نبی بخش بلوچ نے اے کے بروہی کے ایما پرقومی ہجرہ کونسل میں مشیر کا عہدہ قبول کیا۔ اس علمی منصوبے کے بارے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ فرماتے ہیں

” گزشتہ 1400 برسوں کے دوران مسلمانوں نے علم کے ہر شعبے میں خدمات انجام دیں۔ ان کی علمی و تحقیقی کتب میں سے بہت سی فنا ہو چکی ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جو کتب بچ گئی ہیں ان میں سے 100 کتب کا عمدہ انتخاب کیا جائے، پھران کتب کے معیاری انگریزی تراجم شائع کیے جائیں اور 100 کتب کی یہ اسلامی لائبریری دنیا کے آگے پیش کی جائے جس سے دنیا کو اندازہ ہو کہ مسلمانوں نے کن کن شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ابتداء میں منصوبے میں جان ڈالنے کے لیے 100 عظیم کتب کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ ایک نازک اور مشکل مرحلہ تھا جس کے لیے دنیا بھر کے محققین اور عالموں سے مشورے کیے۔ ان کتب کے انتخاب کے لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم مقیم پیرس نے ہماری بڑی مدد کی۔ اس منصوبے کے تحت چار کتب میں نے شائع کرائیں اور نو کتب پر کام مکمل کرایا تھا، اس کے ساتھ ہے چار مزید کتب شروع ہونے والی تھیں کی اس ادارے سے ہٹا دیا گیا۔ “

ان 100 عظیم کتب کے تعارف کے لیے نبی بخش بلوچ نے انگریزی میں ایک کتاب Books of Islamic Civilization (اسلامی تہذیب کی عظیم کتابیں) کے نام سے لکھی جسے قومی ہجرہ کونسل نے1989ء میں شائع کیا۔ بلوچ صاحب نے ان 100 عظیم کتب کے مخطوطات کے حصول کے لیے جن کتب خانوں سے معاونت حاصل کی ان میں سلیمانیہ کتب خانہ استنبول، ظاہری کتب خانہ دمشق اور شاہی کتب خانہ رباط شامل ہیں۔ ان 100 عظیم کتب میں عالمِ اسلام کے جن محققین، حکماء، سائنس دان، ریاضی دان اور علما کی بہترین کتب کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں شاہ ولی اللہ، الخوارزمی، ابو ریحان البیرونی، ابن سینا، یعقوب ابن اسحاق الکندی، ابن نفیس، ابن رشد، المقدسی، اصطخری، الفارابی، عمر خیام، محمد ابن زکریا الرازی شامل تھے۔ 1989ء نبی بخش بلوچ نے سبکدوشی حاصل کی۔

سندھی زبان کا بااختیار ادارہ
15 فروری، 1991ء میں بلوچ صاحب کو سندھی زبان کابااختیار ادارہ کا اولین چیئرمین مقرر کیا گیا۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے اس ادارے کے قیام کے وقت تین مقاصد قرار دیے تھے جویہ ہیں،

سندھی زبان کی تعلیم
سندھی زبان کا فروغ
سندھی زبان کا استعمال

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ عبقری اپریل 2023(1).pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

🔰 سلسلۂ خطاب جمعہ نمبر 166 🔰

🗓 تاریخ: 07 اپریل 2023 مطابق 15 رمضان المبارک 1444

🎯 زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر

صفحات: 6
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
🎁 منجانب: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
⬇️

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ نور رامپور سالنامہ ۱۹۷۹

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ نور رامپور سالنامہ ۱۹۹۱

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ نور رامپور دلچسپ کہانی نمبر ٢٠١٣

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

خبر تحیر عشق! سن ،نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تُو تُو رہا،نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
شہِ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی،نہ جنوں کی پردہ دری رہی
کیا خاکِ آتشِ عشق نے دل بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، مگر ایک بے خطری رہی

کلیات سراج میں ویسے تو غزلیں، مثنویاں، قصیدے اور رباعیات وغیرہ شامل ہیں کہا جاے تو انکا سارا کا سارا کلام شعریت سے بھر پورہے لیکن سراج کی دوامی شہرت میں کلیدی کردار ان کی مثنوی بوستان خیال کا ہے جس نے سراج کو اردو شاعری کی دنیا میں عدم سے وجود میں حیات لا فانی کا مالک بنایا ہے ان کی یہ مثنوی 1160 اشعار پر مشتمل ہے جو ان کی صرف دو دن کی کاوش کا ثمرہ ہے اور پھر یہ مثنوی اور مثنویوں کی طرح خیالی نہیں ہے بلکہ سراج نے اس میں اپنی آپ بیتی لکھی ہے اسی لیے یہ مثنوی اور مثنویوں سے بلکل جدا گانہ ہے کہ جس کے مطالعہ کے بعد شاعر اور ان کی حیات عشق مجازی کی دلکش اور عمدہ تصویر آنکھوں کے سامنے رقص کرتی نظر آتی ہے۔۔۔

نہیں ہے تاب مجھے سامنے تیرے جاناں
کہاں سر آج کہاں آفتاب عالم تاب
مدت سے گم ہوا ہے دل بے گانہ سراج
شاید کہ جا لگا ہے کسی آشنا کے ساتھ

سراج اورنگ آبادی اپنی غزلوں کی بنا پر بھی خاصے مقبول رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں بھی الفاظ و معانی اور جذباتیت میں تعاقبِ ولی تو سامنے آتا ہے مگر ان کا انداز اور الفاظ کو اس کے اصل قالب میں ڈھال کر پیش کرنا ولی سے جدا بھی کرتا ہے اور ان کی ایک الگ شعری حیثیت کو بھی سامنے لاتا ہے سراج کے یہاں غزلوں میں جنسیت اور شہوانیت کا نام و نشان کسی حد تک موجود نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی غزلوں میں اپنے احساسات و جذبات کی بہترین عکاسی اور دلکش منظر نگاری کی ہے۔
کچھ اشعار یہ ہیں:

ہجر کی رات میں شمار نہیں
اے سراج اشک کی قطاروں کا

فرشِ مخمل سے مجھ کو بہتر ہے
غم کے کانٹوں کی سیج پر سونا

آشنائی کا نام ہے لیکن
آشناؤوں میں آشنائی نہیں

ڈوب جاتا ہے مرا جی،جو کہوں قص ہ درد
نیند آتی ہے مجھی کو مرے افسانے میں

سراج کے یہاں اگرچہ غزلوں میں عشق و محبت کی باتیں اور ان کا برملا اظہار پایا جاتا ہے مگر ان کی شاعری کا رنگ و روغن جو اس عہد کے دوسرے شعراء کی شاعری میں سطحی جذباتیت اور جنسی کیفیت پائ جاتی تھی اس سے بلکل مختلف تھا اور اس سطحی جذباتیت کے بجائے سراج کے یہاں ایک طرح کی سرمستی اور سرشاری کا احساس ملتا ہے۔۔۔
کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

یار کو بے حجاب دیکھا ہوں
میں سمجھتا ہوں خواب دیکھا ہوں

اب ہوا سب سے فارغ التحصیل
بے خودی کی کتاب دیکھا ہوں

اے سراج آتشِ محبت میں
دل کو اپنے کباب دیکھا ہوں

بلا شبہ سراج اورنگ آبادی کو ہم ولی کے بعد اردو شاعری کے سنگ میل میں سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتخب کلام:

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاناں پہ جی نثار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
اُس راہ میں غُبار ہُوا کیا بَجا ہُوا

مُدّت سے رازِ عِشق مِرے پر عیاں نہ تھا
یہ بَھید آشکار ہُوا، کیا بَجا ہُوا

تازے کِھلے ہیں داغ کے گُل، دِل کے باغ میں !
پِھر موسمِ بہار ہُوا، کیا بَجا ہُوا

دِل تجھ پری کی آگ میں سِیماب کی مثال
آخر کو بیقرار ہُوا، کیا بَجا ہُوا

کِشوَر میں دِل کے تھا عَمَلِ صُوبہ دار عیش
اب غم کا اِختیار ہُوا، کیا بَجا ہُوا

آہوئے دِل، کہ وحشیِ صحرائے عقل تھا !
تجھ زُلف کا شِکار ہُوا، کیا بَجا ہُوا

وہ آفتاب، آج مِرے قتل پر سِراؔج !
شب دیز پر سوار ہُوا، کیا بَجا ہُوا​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس کو مزا لگا ہے تِرے لب کی بات کا
ہرگز نہیں ہے ذَوق اُسے پِھر نبات کا

دیکھے سے اُن لبوں کے جسے عُمرِ خضر ہے
پیاسا نہیں ہے چشمۂ آبِ حیات کا

اے شوخ! بزمِ ہجر میں روشن ہے شمعِ آہ
قصّہ نہ پُوچھ مجھ سے جُدائی کی رات کا

یا رب! طلب ہے داغِ محبّت کی مُہر کی
مُدّت سے کام بند ہے دِل کی برات کا

جو ہے شہیدِیار، وہ ہے زندۂ مُدام
ہر زخم رُوح بخش ہے ظالم کی ہات کا

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

غلام_الثقلین_نقوی،شخصیت_ور_فن_از_ڈاکٹر_انور_سدید.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

غلام_الثقلین_نقوی_اور_ان_کے_افسانے_پہ_چند_تحریریں_۔_میر_بلوچ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

اندھا_کنواں_افسانہ_از_غلام_الثقلین_نقوی_عقابی_.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ارض_تمنا_کا_سفر_غلام_الثقلین_نقوی_از_ڈاکٹر_انور_سدید.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آج معروف افسانہ نگار اور ناول نگار غلام الثقلین نقوی کا یوم وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام الثقلین نقوی 12 مارچ، 1922ء کو چوکی ہنڈن، نوشہرہ، ریاست جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن، سینٹرل کالج لاہورسے بی ٹی کی ڈگریاں حاصل کیں اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔
نومبر 1968ء سے اپنی سبکدوشی تک وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک رہے۔

ادبی خدمات
غلام الثقلین نقوی بیک وقت افسانہ، سفرنامہ، مضامین اور ناول کی صنف میں طبع آزمائی کی لیکن وہ افسانہ نگاری کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئے۔ وہ حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف میں افسانوں کے مجموعے بند گلی، شفق کے سائے، سرگوشی، نقطے سے نقطے تک اور مضامین کا مجموعہ اک طرفہ تماشا ہے، ناولوں میں بکھری راہیں، میرا گاؤں، ناولٹ چاند پور کی نینا ، شیر زمان اور سفرنامہ چل بابا اگلے شہر کے نام سرفہرست ہیں۔

تصانیف

افسانوی مجموعے

دھوپ کا سایہ
سرگوشی
گلی کا گیت
نقطے سے نقطے تک
لمحے کی دیوار
نغمہ اور آگ
بند گلی
شفق کے سائے

ناولٹ

شیرا
شیرزمان
چاند پور کی نینا

ناول

بکھری راہیں
میرا گاؤں

سفرنامے

چل بابا اگلے شہر
ارض ِ تمنا
ٹرمنس سے ٹرمنس تک
مکہ و مدینہ

مضامین

ایک طرفہ تماشا ہے

وفات
غلام الثقلین نقوی 6 اپریل، 2002ء کو لاہور وفات پاگئے۔ وہ موضع بھڑتھ، ضلع سیالکوٹ، پاکستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

بشکریہ وکی پیڈیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

نبی_بخش_بلوچ_ـ_سندھی_زبان_و_ادب_کی_تاریخ_.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

سندھ میں اردو شاعری،نبی بخش بلوچ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

سندھی زبان کابااختیار ادارہ کی سربراہی کے دوران میں نبی بخش بلوچ نے اشاعتی پر وگرام پر بھرپور توجہ دی اورمحض 27 ماہ میں 25 علمی و تحقیقی کتب شائع کیں۔ ان کے علاوہ ادارہ چھوڑتے وقت 9 کتب زیرِ اشاعت تھیں۔ اشاعتی پروگرام کے تحت بلوچ صاحب نے نہ صرف نئی کتب لکھوائیں بلکہ بعض قدیم و نایاب کتب کے جدید ایڈیشن بھی شائع کرائے جس میں سندھی زبان و قواعد، سندھی رسم الخط، سندھی زبان میں سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ کی کتب شامل ہیں۔ نبی بخش بلوچ نے اس ادارے میں 6 مارچ، 1994ء تک خدمات انجام دیں۔

ادبی خدمات

جامع سندھی لغات
ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ بیک وقت پانچ زبانوں سندھی،اردو،انگریزی، عربی اور فارسی میں علمی و تحقیقی خدمات انجام دیں اور تقریباً 150 کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔

لغات کی تالیف

یک جلدی لغت
سندھی-اُردو لغت (بہ اشتراک ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان)
اُردو-سندھی لغت (بہ اشتراک ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان)
جامع سندھی لغات (پانچ جلدیں)
یک جلدی سندھی لغت

لوک ادب

سندھی صورتخطی
A Survey of Traditional Culture of and the Impact of Modern Development on Cultural Tradition: A Filed Study prepared for UNESCO 1956
سندھی لوک ادب (42 جلدیں) بحیثیت ڈائریکٹر و ایڈیٹر سندھی لوک ادب پروجیکٹ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

دائرۃ المعارف کے مقالات
دائرۃ المعارف بریطانیکا کے لیے بلوچستان اور سندھ پر مضامین۔
دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے لیے کندابل بلوچستان میں گندھارا پر مضمون۔

انگریزی کتب
انگریزی نام اردو نام سال اشاعت/ناشر

Advent of Islam in Indonesia
انڈونیشیا میں اسلام کی آمد 1980ء / قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، ا سلام آباد

Great Books of Islamic Civilization
اسلامی تہذیب کی عظیم کتابیں 1989ء / قومی ہجرہ کونسل

Al-Beruni's Geodical Experiment at Nandana Fort
البیرونی اور اس کے نندانہ قلعہ میں جغرافیہ کے تجربات 1983ء

Reflection on Evolution (Allama I.I. Kazi's Thought) 1992ء
Votes for Women, Religion and Secular Dichotomy (Allama I.I. Kazi's Thought)
خواتین کے ووٹ: دینی و لادینی نکتۂ نظر (علامہ آئی آئی قاضی کے نظریات) 1999ء / علامہ آئی آئی قاضی میموریل سوسائٹی، سندھ یونیورسٹی

SINDH: Studies Cultural, Pakistan Study Centre
سندھ: ثقافتی مطالعہ 2004ء / انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی جامشورو

SINDH: Studies Historical, Pakistan Study Centre
سندھ: تاریخی مطالعہ 2004ء / انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی

Musical Instruments of Sindh
سندھ کے آلاتِ موسیقی 1967ء / مہران آرٹس کونسل، حیدرآباد

Development of Music in Sindh
سندھ میں موسیقی کا ارتقا 1973ء / سندھ یونیورسٹی پریس

Muslim Luminaries
مسلم مشاہیر 1989ء / قومی ہجرہ کونسل

Lands of Pakistan: Perspectives, historical and cultural
پاکستانی سرزمین: تاریخٰ و ثقافتی تناظر میں 1999ء / المشرقی فاؤنڈیشن

World of Work: Predicament of a Scholor 2007ء / انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی

فارسی کتب (تدوین و حواشی)
فتح نامۂ سندھ، قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، اسلام آباد، 1982ء
بیگلار نامہ، سندھی ادبی بورڈ،حیدرآباد، 1982ء
تاریخِ طاہری، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1964ء
لبِ تاریخِ سندھ، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1959ء
تکملتہ التکملہ

اُردو کتب

خطوطِ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ
طلبہ و تعلیم (قائد اعظم کے بیانات)، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد، 1976ء
سندھ میں اُردو شاعری، مجلس ترقی ادب، لاہور، 1977ء
دیوانِ صابر (تدوین وحواشی)، مرکزی اُردو بورڈ، لاہور، 1984ء
مولانا آزاد سبحانی، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، جامعہ پنجاب،لاہور، 1989ء
دیوانِ ماتم (تدوین وحواشی)، سندھی ادبی بورڈ جامشورو، 1990ء
خطوط ڈاکٹر نبی بخش بلو چ مرتب محمد راشد شیخ، محکمہ ثقافت حکومتِ سندھ
ایام گذشتہ کے چند اوراق (علمی اسفار کی یاداشتیں)، ترتیب، حواشی و تعلیقات ڈاکٹر محمد ادریس سومرو، محکمہ ثقافت حکومتِ سندھ، 2014ء

عربی کتب

نتف من شعر ابی عطاء السندی (تحقیق و تدوین)، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1961ء
غرۃ الزیجات (تحقیق و تدوین و حواشی) علمِ فلکیات پر البیرونی کی کتاب، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1973ء
جامع الکلام فی منافع الانام (خطوط) (تحقیق و تصحیح) سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

سندھی کتب

سندھی لوک ادب (42 جلدیں) سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
شاہ جو رسالو (تحقیق، ترتیب، حواشی) 10 جلدیں، محکمۂ ثقافت و سیاحت، کراچی
شاہ لطف اللہ قادری جو کلام، انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی، جامشورو، 1968ء
شاہ عنایت جو کلام، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1963

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آج معروف محقق، مؤرخ، ماہر سندھیات، ماہر لسانیات اور ماہر تعلیم ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا یوم وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ گوٹھ جعفر خان لغاری، ضلع سانگھڑ، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں 16 دسمبر 1917ءکو پیدا ہوئے۔
ان کے والد کا نام علی محمد خان تھا، لیکن نبی بخش کی ولادت کے محض چھ ماہ بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ والد نے آخر وقت میں وصیت کی کہ میرے بچے کو پڑھانا، جسے آپ کے چچا ولی محمد خان نے پورا کیا۔
اس زمانے میں گوٹھ جعفر خان لغاری میں کوئی باقاعدہ اسکول نہیں تھا اس لیے چچا نے انہیں گاؤں کے ہندو استاد سومل کے پاس ابتدائی تعلیم کے لیے بھیجا جہاں نبی بخش نے ابتدائی حروفِ تہجی اور اعداد سیکھے۔ اس کے بعد 1924ء میں گوٹھ پلیو خان لغاری کے پرائمری اسکول میں داخل ہوئے۔ مارچ 1929ء میں بلوچ صاحب مزید تعلیم کے لیے نوشہرو فیروز کے مدرسہ و ہائی اسکول میں داخل ہوئےاس کے بعد نبی بخش نے ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا، لیکن مالی مشکلات کی بنا پر یہاں تعلیم جاری نہ رکھ سکے چنانچہ نبی بخش جوناگڑھ پہنچے جہاں بہاء الدین کالج میں داخلہ لیا، یہاں نبی بخش کو کسی قسم کی مالی مشکلات کا سامنا نہیں ہوا۔
بہاء الدین کالج جوناگڑھ میں بلوچ صاحب کا قیام 1937ء سے 1941ء تک رہا، جہاں سے نبی بخش نے بی اے آنرز میں پہلی پوزیشن حاصل کی جس کی بنا پر ان کو ایک سو روپے ماہوار مہابت فیلو شپ وظیفہ (بنام نواب مہابت خان والئی ریاست جوناگڑھ) ملا۔

اعلیٰ تعلیم
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ 1941ء سے 1945ء تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہے جہاں سے انہوں نے ایل ایل بی اوربعدازاں ایم اے (عربی) فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ صدر شعبۂ عربی پروفیسر علامہ عبدالعزیز میمن کی رہنمائی اور مسلسل محنت کے نتیجہ میں انہوں نے اُموی دور کے آخر کے ایک باغی قائد منصور بن جمہور کے سندھ پر تسلط پر اپنا پہلا تحقیقی مقالہ لکھا جو حیدرآباد دکن کے معروف علمی و تحقیقی رسالے Islamic Culture میں شائع ہوا جس کے لیے شعبۂ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد الرشید نے معاونت کی۔

1945ء میں برطانوی حکومت نے مرکزی سطح پر برِصغیر میں ڈاکٹریٹ کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کیا۔ بلوچ صاحب نے آل انڈیا سطح پر اس مقابلے میں کامیابی حاصل کی اور16 اگست،1946ء کو بمبئی سے امریکا روانہ ہوئے جہاں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں A Programme of Teacher Education for the New State of Pakistan کے نام سے تحقیقی مقالے کا آغاز کیا اور 1949ء میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کر کے تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے واپس پاکستان پہنچے۔

ملازمت

سندھ مسلم کالج
پیر الٰہی بخش اور ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کے اصرار پر بلوچ صاحب علی گڑھ چھوڑ کر سندھ مسلم کالج کراچی میں لکچرار ہو گئے۔

وزارت اطلاعات و نشریات
1950ء میں وزارت اطلاعات و نشریات پاکستان میں افسربکار خاص (Officer on Spacial Duty) کی حیثیت سے اور بعد ازاں اسی وزارت میں بیرونی نشریات کے شعبے میں قدرت اللہ شہاب کے ماتحت خدمات انجام دیں۔ 1951ء میں بلوچ صاحب کو ان کی اعلیٰ تعلیم اور صلاحیت کی بنیاد پر دمشق میں پاکستانی سفارتخانے میں پریس اتاشی مقرر کیا گیا۔

سندھ یونیورسٹی
ستمبر 1951ء میں علامہ آئی آئی قاضی کی ترغیب پر بلوچ صاحب نے سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم میں بحیثیت پروفیسر خدمات کا آغاز کیا۔
دسمبر 1973ء میں نبی بخش بلوچ کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور اسی سال آپ کو (National Merit Professor) کا درجہ بھی عطا کیا گیا۔
نبی بخش بلوچ نے دسمبر 1973ء سے جنوری 1976ء تک سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے طور پر خدمات انجام دیں۔
سندھ یونیورسٹی میں سندھی شعبہ کا آغاز بھی بلوچ صاحب نے کیا اور سندھ یونیورسٹی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی کے بانی بھی نبی بخش بلوچ ہی ہیں۔

وزارتِ تعلیم
جنوری 1976ء میں نبی بخش بلوچ کو وفاقی وزارت تعلیم حکومت پاکستان میں افسرِ بکارِ خاص (OSD) مقرر کیا گیا جس کا عہدہ وفاقی سیکریٹری کے برابر دیا گیا۔ اسی زمانے میں اس ادارے کے علاوہ بلوچ صاحب ٍFederal Pay Commission کے رکن بھی رہے۔

قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت
نبی بخش بلوچ نے جولائی 1979ء تا 1982ء اسلام آباد میں قائم قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آپ نے ادارے میں پہنچتے ہی علمی و تحقیقی منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے نبی بخش نے اعلیٰ معیار کے تحقیقی مجلے کا انگریزی زبان میں اجرا کیا۔ یہ مجلہ Journal of Historic and Culture کے نام سے شروع ہوا جس میں نبی بخش بلوچ نے بھی تحقیقی مقالات لکھے اور دیگر محققین سے لکھوائے۔ نبی بخش بلوچ سے پہلے یہ ادارہ چھوٹی بڑی دس بارہ کتابیں ہی شائع

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

مجلہ: ہفت روزہ پیغام سنت

سلسلہ نمبر: 154
عنوان: غزوہ بدر؛ دروس و نصائح

صفحات: 15
تاریخ: 07/ اپریل 2023ء جمعہ
ناشر: تحفظ شریعت ٹرسٹ
⬇️

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ نور رامپور سالنامہ ۲۰۰۴

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ نور رامپور سالنامہ ۱۹۸۶

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ نور رامپور
‌کہانی نمبر ۲۰۰۴

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ماہنامہ نور جنگل کی حیرتناک دنیا خاص نمبر ٢٠٠٦

Читать полностью…
Subscribe to a channel