libraryb | Unsorted

Telegram-канал libraryb - ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

2766

ONLY SHARE BOOKS LINKS NOT ALLOWED

Subscribe to a channel

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ﺭﻭ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻼ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺷﯿﺮﯾﻨﯽ ﮨﮯ
ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﯾﻨﮕﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻋﺪﻡ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﺠﮭﮑﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ
ﺩﺭ ﺑﺪﺭ ﺟﺎﯾﻨﮕﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺧﺎﻟﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺟﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﮮ ﮔﺮﺩﺵ ﺍﯾﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

ﺳﺎﻗﯽ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﮎ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺗﻮ ﭘﻮ ﮔﯽ
ﺳﺎﻏﺮ ﮐﻮ ﺫﺭﺍ ﺗﮭﺎﻡ ، ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﻏﺒﺖ ﺗﮭﯽ ﺗﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺍﺏ ﺳﻦ ﮐﮯ ﺗﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

ﺍﺩﺭﺍﮎ ﺍﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﺍ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺩﮮ ﺑﺎﺩﮦ ﮔﻠﻔﺎﻡ ، ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

ﺣﻞ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﺿﺪ ﮐﺎ
ﺍﮮ ﮐﺜﺮﺕ ﺁﻻﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

ﭘﮭﺮ ﺁﺝ ﻋﺪﻡ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﻏﻤﮕﯿﮟ ﮨﮯ ﻃﺒﯿﻌﺖ
ﭘﮭﺮ ﺁﺝ ﺳﺮ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺳﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﮔﯿﺴﻮ ﮐﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ​
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﮌﺍ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ​

ﺍﮮ ﻭﺣﺸﺖ ﺧﯿﺎﻝ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﭙﺮﺩ​
ﺳﺎﻏﺮ ﮐﻮ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ​

ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﺰﻡ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﮯ ﺩﻟﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ​
ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﺭﻗﯿﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ​

ﺩﯾﺮ ﻭ ﺣﺮﻡ ﮐﯽ ﮔﺮﺩ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ​
ﺷﺎﯾﺪ ﮐﮯ ﻣﮯ ﮐﺪﮮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ​

ﻣﺠﮫ ﺳﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺩﮦ ﻟﻮﺡ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﮮ ﻋﺪﻡ​
ﻗﺼﺪﺍً ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﻟﮩﺮﺍ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﻡ ﺟﮭﻮﻡ ﮐﮯ ﻻ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﮯ ﻻ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﮯ ﻻ

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻋﻤﺮ ﺭﻓﺘﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﻟﻮﭨﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﺎ ﻣﮯ ﮐﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮯ ﻻ

ﺳﺎﻏﺮ ﺷﮑﻦ ﮨﮯ ﺷﯿﺦ ﺑﻼ ﻧﻮﺵ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ
ﺷﯿﺸﮯ ﮐﻮ ﺯﯾﺮ ﺩﺍﻣﻦ ﺭﻧﮕﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﮯ ﻻ

ﮐﯿﻮﮞ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺭﻭﭨﮫ ﮐﮯ ﺭﻧﮕﯿﻨﯽٔ ﺑﮩﺎﺭ
ﺟﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﻭﺭﻏﻼ ﮐﮯ ﻻ

ﺩﯾﮑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻟﮩﺮ
ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺟﺎ ﻋﺪﻡؔ ﮐﯽ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮯ ﻻ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں​
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں​

تیری محفل میں بیٹھنے والے​
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں​

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے​
راستے میں فقیر ہوتے ہیں​

زندگی کے حسین ترکش میں​
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں​

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں​
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں​

دیکھنے والا اک نہیں ملتا​
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں​

جن کو دولت حقیر لگتی ہے​
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں​

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو​
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں​

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن​
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں​

اے عدم احتیاط لوگوں سے​
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

امام بخش ناسخ انتخاب کلام.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

دیوان_ناسخ_نسخہ_بنارس_امام_بخش_ناسخ،_تقدیم؛_حنیف_نقوی_۔۔_سیالوی.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ہوئے۔ بھٹے کھانے بیٹھے تو گُلّیوں کے ڈھیر لگادیئے اور یہ اکثر کھایا کرتے تھے۔ دودھیا بھٹے چنے جاتے۔ چاقوسے دانوں پر خط ڈال کر لون مرچ لگتا، سامنے بھنتے ہیں، لیموں چھڑکتے ہیں اور کھاتے جاتے ہیں، میوہ خوری ہرفصل میں دوتین دفعہ، بس۔ اور اس میں دوچار دوست بھی شامل ہوجاتے تھے۔ کھانا اکثر تخلیے میں کھاتے تھے۔ سب کو وقت معلوم تھا۔ جب ظہر کا وقت قریب ہوتا تھا تو رخصت ہوجاتے تھے۔ (رغمی سلمہ اللہ فرماتے ہیں) مجھے چند مرتبہ ان کے ساتھ کھانے کا اتفاق ہوا۔ اس دن نہاری اور نان تافتان بھی بازار سے منگائی تھی۔ پانچ چار پیالوں میں قورمہ کباب، ایک میں کسی پرندے کا کباب تھا۔ شلغم تھے ، چقندر تھے، ارہر کی دال، دھوئی ماش کی دال تھی اور وہ دستر خوان کا شیر اکیلا تھا ، مگر سب کو فنا کردیا، یہ بھی قاعدہ تھا کہ ایک پیالے میں سے جتنا کھانا ہے خوب کھالو اسے خدمتگار اٹھالے گا، دوسرا سامنے کردے گا۔ یہ نہ ہوسکتا تھا کہ ایک نوالے کو دوسالنوں میں ڈال کر کھالو، کہا کرتے تھے کہ ملا جلا کھانے میں چیز کا مزاجاتا رہتا ہے۔ آخر میں پلائو یا چلائو یا خشکہ کھاتے تھے۔ پھر دال اور 6-5نوالوں کے بعد ایک نوالہ چٹنی یااچار یا مربے کا کہا کرتے تھے کہ تم جوانوں سے تو میں بڈھا ہی اچھا کھاتا ہوں ، دستر خوان اٹھا تھا۔ تو خوان فقط خالی باسنوں کے بھرے اٹھتے تھے۔ قوی ہیکل بلونت جوان تھے۔ ان کی صورت دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ 5-4سیر کھانا کے لیے مال ہے۔ زمانے کی زبان کون پکڑ سکتا ہے؟ بے ادب گستاخ دم کٹے بھینسے کی پھبتی کہا کرتے تھے۔ اسی رنگ وروغن کی رعایت سے خواجہ صاحب نے چوٹ کی ؎

روسیہ دشمن کایوں پاپوش سے کیجئے فگار
جیسے سلہٹ کی سپر پر زخم ہو شمشیر کا

شیخ صاحب نے خود بھی اس کاعذر کیا ہے اور شاگرد بھی روغن قازمل مل کر استاد کے رنگ کو چمکاتے تھے اور حریف کے رنگ کو مٹاتے تھے فقیر محمد خاں گویا نے کہا تھا:

ہے یقیں گل ہو جو دیکھے گیسوئے دلبر چراغ
آگے کالے کے بھلا روشن رہے کیونکر چراغ
میں گو کہ حسن سے ظاہر میں مثل ماہ نہیں
ہزار شکر کہ باطن مرا سیاہ نہیں
فروغ حسن پہ کب زورِ زلف چلتا ہے
یہ وہ چراغ ہے کالے کے آگے جلتا ہے

پہلوان سخن زورآزمائی کے چرچے اور ورزش کی باتوں سے بہت خوش ہوتے تھے رغمی سلمہ اللہ کے والد بھی اس میدان کے جوانمرد تھے۔ رغبتوں کے اتحاد ہمیشہ موافقت صحبت لے لیے سبب ہوتے ہیں اس لیے محبت کے ہنگامے گرم رہتے تھے۔
(’’آبِ حیات‘‘ از مولانا محمد حسین آزاد)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:نوٹ: ناسخ کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات میں تذکرہ نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے. کچھ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش 1771ء یا 1773ء تھی. اسی طرح وفات میں کہیں 15 اگست 1838ء تو کہیں 16،اگست 1838ء لکھا گیا ہے. واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتخب کلام:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جان ہم تجھ پہ دیا کرتے ہیں
نام تیرا ہی لیا کرتے ہیں

چاک کرنے کے لیے اے ناصح
ہم گریبان سیا کرتے ہیں

ساغرِ چشم سے ہم بادہ پرست
مئے دیدار پیا کرتے ہیں

زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

سنگِ اسود بھی ہے بھاری پتھر
لوگ جو چوم لیا کرتے ہیں

کل نہ دے گا کوئی مٹی بھی انہیں
آج زر جو کہ دیا کرتے ہیں

تیرا کیا ذکر مرے داغوں سے
مہر و مہ کسبِ ضیا کرتے ہیں

خط سے یہ ماہ ہیں محبوبِ قلوب
سبزے کو مہر گیا کرتے ہیں

ملتے ہیں تلووں سے گلگشت میں گل
زر کو وہ خاک کیا کرتے ہیں

اُن سے ہیں مخفیِ عصیاں بہتر
جو عبادت میں ریا کرتے ہیں

دفن محبوب جہاں ہیں ناسخ
قبریں ہم چوم لیا کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر قیامت زا ہوا ہلنا لب خاموش کا
پھر نظر آنے لگا موسم جنوں کے جوش کا
پھر مرے سر نے کیا ہے داغ سودا کو کلاہ
پھر لیا کام آبلوں سے پاؤں نے پاپوش کا
شوق عریانی نے پھر کیں پیرہن کی دھجیاں
پھر اُتروایا جنوں نے بوجھ میرے دوش کا
لگ گئی ہے پھر جو ان روزوں میں چُپکی سی مجھے
آگیا ہے دھیان پھر اک کافر خاموش کا
نعرہ زن جا جا کے گلزاروں میں پھرہوتا ہوں میں
برگ گل پر پھر گمان ہونے لگا ہے گوش کا
پھر پڑا رہتا ہوں میں بے ہوش بدمستوں کی طرح
پھر تصور بندھ گیا مجھ کو کسی مے نوش کا
آئے پھر ایام سرما پھر ہوا شوق وصال
چادر تربت سا پھر عالم ہے بالا پوش کا
کوبکو پھر دوڑتا پھرتا ہوں دیوانوں کی طرح
پھر کوئی انداز رم سیکھا ہے میرے ہوش کا
آگئی ہے یاد مجھ کو وصل کی پھر مے کشی
پھر ہوا میرے لہو میں طور مے کے جوش کا
کر گیا ہے پھر کوئی خالی مرے آغوش کو
پھر خیال آیا ہے مجھ کو گور کی آغوش کا
اُس مسیحا نے کیا پھر بام پر آنے کا قصد
پھر جنازہ بار ہوگا دوستوں کے دوش کا

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

کلیات خلیل جبران .pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

خلیل جبران کے عظیم افسانے دوم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

اپنا_اپنا_دیس_مصنف_جبران_خلیل_جبران.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

خلیل جبران کے خطوط .pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

خلیل جبران (فلسفہ اور حکایات).pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

محبت کے افسانے از خلیل جبران.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

لبنان میں ایک پرفضا مقام لبنان سیڈار میں جبران خلیل کی یادگار کی تعمیر۔
امریکا کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں جبران خلیل کے نام پر باغ۔
بوسٹن میں جبران خلیل کی یادگار کی تنصیب۔
بروک لین، نیویارک میں جبران خلیل انٹرنیشنل اسکول کے نام سے تعلیمی ادارے کا قیام۔
رومانیہ میں خلیل جبران پارک کا قیام۔
برازیل کی عرب میموریل بلڈنگ میں جبران خلیل کے مجسمے کی تنصیب۔

بشکریہ وکی پیڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آج لبنانی نژاد امریکی مصنف،شاعر اور مصور جبران خلیل جبران کا یوم وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جبران 6 جنوری 1883ء کو مسیحی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے۔
جبران کے والد ایک مسیحی پادری تھے جبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہے کملہ کے تیسرے شوہر تھے۔

غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔

جبران کے والد پہلے مقامی طور پر نوکری بھی کرتے تھے، لیکن بے تحاشہ جوا کھیلنے کی وجہ سے قرض دار ہوئے اور پھر سلطنت عثمانیہ کی ریاست کی جانب سے مقامی طور پر انتظامی امور کی نوکری کی۔اس زمانے میں جس انتظامی عہدے پر وہ فائز ہوئے وہ ایک دستے کے سپہ سالار کی تھی، جسے جنگجو سردار بھی کہا جاتا تھا

1891ء یا اسی دور میں جبران کے والد پر عوامی شکایات کا انبار لگ گیا اور ریاست کو انھیں معطل کرنا پڑا اور ساتھ ہی ان کو اپنے عملے سمیت احتسابی عمل سے گزرنا پڑا۔ جبران کے والد قید کر لیے گئے۔اور ان کی خاندانی جائداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ اسی وجہ سے کملہ اور جبران نے امریکا ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں کملہ کے بھائی رہائش پزیر تھے۔گو جبران کے والد کو 1894ء میں رہا کر دیا گیا مگر کملہ نے جانے کا فیصلہ ترک نہ کیا اور 25 جون، 1895ء کو خلیل، اپنی بہنوں ماریانا اور سلطانہ، اپنے بھائی پیٹر اور جبران سمیت نیویارک ہجرت کی۔

امریکا میں جبران کا خاندان بوسٹن کے جنوبی حصے میں رہائش پزیر ہوا، اس حصے میں اس وقت شامی اور لبنانی نژاد امریکیوں کی کثیر تعداد رہائش پزیر تھی۔امریکا میں جبران کو اسکول میں داخل کروایا گیا اور اسکول کے رجسٹر میں ان کا نام غلطی سے خلیل جبران درج ہوا اور پھر یہی نام ان کا سرکاری کاغذات میں منتقل ہوتا رہا۔

جبران کی والدہ نے کپڑے کی سلائی کا کام شروع کیا اور لیس اور لینن کا کام کر کے گھر گھر جا کر بیچنا شروع کر دیا۔
جبران نے 30 ستمبر 1895ء کو اسکول کی تعلیم شروع کی۔ اسکول کی انتظامیہ نے انھیں ہجرت کرکے آنے والے طالب علموں کی مخصوص جماعت میں داخل کیا تاکہ وہ انگریزی زبان سیکھ سکیں۔ اسکول کے ساتھ ساتھ جبران نے اپنے گھر کے پاس ہی ایک فنون لطیفہ کے اسکول میں بھی داخلہ لے لیا۔ فنون لطیفہ کے اسکول میں ان کے استاد نے انھیں بوسٹن کے مشہور فنکار، مصور اور ناشر فریڈ ہالینڈ ڈے سے متعارف کروایا، جنھوں نے جبران کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا اور جبران کے فن میں حوصلہ افزائی کی۔ 1898ء میں پہلی بار جبران کی بنائی ہوئی مصوری کے نمونے ایک کتاب کے سرورق کے لیے استعمال کیے گئے۔

جبران کی ماں اور ان کے بڑے بھائی پیٹر چاہتے تھے کہ جبران اپنی لبنانی ثقافت کا پرچار کرے اور مغربی ثقافت جس سے جبران متاثر تھے کو ترک کر دے۔جبران کی مغربی ثقافت سے متاثر ہونے کی وجہ سے جبران کو واپس لبنان بجھوا دیا گیا جہاں انھوں نے مسیحی مارونات کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور بیروت میں اعلیٰ تعلیم کے لیے منتقل ہوئے۔ بیروت میں اپنے ایک ہم جماعت کے ہمراہ ایک ادبی رسالے کا اجرا کیا اور اپنے تعلیمی ادارے میں “کالج کے شاعر“ کے طور پر مشہور ہوئے۔ یہاں وہ کئی سال تک مقیم رہے اور 1902ء میں بوسٹن واپس چلے گئے۔ ان کی بوسٹن واپسی سے تقریباً دو ہفتے قبل ان کی بہن سلطانہ تپ دق میں مبتلا ہو کر چودہ سال کی عمر میں وفات پاگئی۔ اور اس کے اگلے ہی سال ان کے بھائی پیٹر تپ دق کی وجہ سے اور ماں کینسر میں مبتلا ہو کر فوت ہوئیں۔ جبران کی بہن ماریانہ نے جبران کی دیکھ بال کی اور ماریانہ ایک درزی کے پاس نوکری کرتی رہیں۔

فن اور شاعری
جبران خلیل نے اپنے فن پاروں کی پہلی نمائش 1904ء میں بوسٹس کے “ڈے سٹوڈیو“ میں کی۔ اسی نمائش میں جبران کی ملاقات میری الزبتھ ہاسکل سے ہوئی جو اس وقت تعلیمی ادارے کی سربراہ تھیں اور جبران سے دس سال بڑی تھیں۔ ان دونوں میں دوستی ہوئی اور یہ ساتھ جبران کی وفات تک رہا۔ گو ان کی دوستی معاشرے میں بدنام جانی گئی۔ ہاسکل نہ صرف جبران کی زندگی بلکہ ان کے فن پر بھی اثرانداز ہوئیں۔ 1908ء سے جبران پیرس میں آگسٹی روڈن کے ہمراہ دو سال کے لیے تعلیم حاصل کرتے رہے اور وہیں ان کی ملاقات اپنے ایک ہم جماعت یوسف ہوہاک سے ہوئی اور ان کی یہ دوستی بھی زندگی بھر جاری رہی۔ پیرس سے واپسی پر جبران نے بوسٹن میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️❤️‍🩹❤️‍🩹

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آج مشہور شاعر عبدالحمید عدم کا یوم پیدائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻤﯿﺪﻋﺪﻡ 10 ﺍﭘﺮﯾﻞ ، 1910 ﺀ ﮐﻮ ﮔﻮﺟﺮﺍﻧﻮﺍﻟﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﺎﺅﮞ ﺗﻠﻮﻧﮉﯼ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ۔ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ﮨﺎﺋﯽ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺑﮭﺎﭨﯽ ﮔﯿﭧ ﻻﮨﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﭘﺎﺱ ﮐﯿﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﭦ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﻒ ﺍﮮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﭩﺮﯼ ﺍﮐﺎﻭﻧﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﺯﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
1939 ﺀ ﻣﯿﮟ 10 ﺳﺎﻝ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻋﺮﺍﻕ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻋﺮﺍﻗﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ۔ 1941 ﺀ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺁﮔﺌﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺲ ﺍﮮ ﺍﯾﺲ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯﯼ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺱ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﻠﭩﺮﯼ ﺍﮐﺎﻭﻧﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﭘﺮ ﺑﺤﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔
ﻗﯿﺎﻡ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﺒﺎﺩﻟﮧ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺁﭖ 1948 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﭩﺮﯼ ﺍﮐﺎﻭﻧﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﮈﭘﭩﯽ ﺍﺳﺴﭩﻨﭧ ﮐﻨﭩﺮﻭﻟﺮ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﺮﯾﻞ ، 1966 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﮩﺪﮮ ﺳﮯ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﻋﺪﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺍﺭﺩﻭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﺧﺘﺮ ﺷﯿﺮﺍﻧﯽ ، ﺟﻮﺵ ﻣﻠﯿﺢ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺣﻔﯿﻆ ﺟﺎﻟﻨﺪﮬﺮﯼ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﻭﺷﻦ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺟﮕﻤﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻋﺪﻡ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺻﺮﻑ ﺭﻭﻣﺎﻧﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺭﻭﻣﺎﻧﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ 10 ﻣﺎﺭﭺ 1981 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ ۔ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮈﺭﺍﺋﯽ ﭘﻮﺭﭦ ﻣﻐﻞ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺋﮯ۔

شاعری:
ﻋﺪﻡ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﮔﻮ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺩ ﮔﻮ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﻠﺪﯼ ﻏﺰﻟﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺒﻠﺸﺮ ﮐﻮ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮉﻭﺍﻧﺲ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﻟﮯ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﻟﮑﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺗﺎﮨﻢ ﺟﻮ ﻏﺰﻟﯿﮟ ﻋﺪﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺟﮭﻠﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻠﮑﺎ ﺳﻮﺯ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺁﻧﭻ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ، ﺧﻢ ﻭ ﮔﯿﺴﻮ، ﮔﻞ ﻭ ﺑﻠﺒﻞ، ﺷﻤﻊ ﻭ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ، ﺷﯿﺸﮧ ﻭﺳﻨﮓ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﯿﺎ ﭘﻦ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﯾﮧ ﺳﺎﻣﻊ ﮐﻮ ﻧﯿﺎ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺩﮮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﻏﺰﻝ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺁﺑﺪﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔
وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ وہ شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے مگر غزل اور رباعی ان کی خاص پہچان تھی۔
ان کی شاعری کے لاتعداد مجموعے شائع ہوئے جن میں نقش دوام، زلف پریشاں، خرابات، قصر شیریں، رم آہو، نگار خانہ، صنم کدہ، قول و قرار، زیر لب، شہر خوباں، گلنار، جنس گراں، گردش جام، عکس جام، ساز و صدف، آب رواں، شہر فرہاد، آب زر، سر و سمن اور بط مے کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کے کلام کی کلیات بھی شائع ہوچکی ہے۔
ﻋﺪﻡ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﮐﮯ ﭘﺮﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻃﻨﺰ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ :

ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﻮﺟﮫ ﺗﮭﺎ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮔﺎ
ﺣﺎﺟﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮩﺎﺯ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ

بشکریہ وکی پیڈیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نمونہ کلام:

آگہی میں ایک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہی باذوق آدمی ہیں عدم
میں ہوا یا مرا رقیب ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﺎ
ﭘﺲِ ﭘﺮﺩﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ
ﭘﺮﺩﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﺗﻮ ﺁﮔﮩﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ
ﭘﺮﺩﮦ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس
میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں
رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیب خالی ہے عدمؔ مے قرض پر ملتی نہیں
ایک دو بوتل پہ دیواں بیچنے والا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش ﺷﺮﺍﺏ ﻋﺮﺵ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻋﺪﻡؔ
ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺣﺮﻭﻑ ﮐﻮ ﺍﻟﭩﺎ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﮐﺸﺘﯽ ﭼﻼ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﺲ ﺍﺩﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮈﻭﺏ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ناﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺣﺸﺮ ، ﺍﮔﺮ ﮨﮯ ، ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎً
ﺍﭨﮭﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ

ﺍﮮ ﻗﻠﺐ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩ ﻣﺮﺍ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ
ﺍﮎ ﺩﻥ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ

ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺳﮯ ﺧﻀﺮ ﻭ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ
ﮨﺮ ﺑﺎ ﻭﻓﺎ ﮐﺎ ﺭﺑﻂ ﮨﮯ ﺍﮎ ﺑﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ

ﺩﻝ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﯾﺎﺩ ﺍﺏ
ﻭﮦ ﺗﻮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﻟﺮﺑﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ

ﭘﯿﺮ ﻣﻐﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﺮ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮨﮯ ﻣﺮﺩ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ

ﻣﺤﺸﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮨﻮ ﺍﮮ ﻋﺪﻡ
ﮐﭽﮫ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﻮ ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﮐﺮﯾﻨﮕﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﯾﻨﮕﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ
ﺯﺧﻢ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﯾﻨﮕﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﺁﭖ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺍﮔﺮ ﺑﺎﺭ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ
ﮐﻮﭺ ﮐﺮ ﺟﺎﯾﻨﮕﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﻮﺭ ﮐﺎ ﺟﺐ ﺫﮐﺮ ﭼﮭﮍﺍ ﻣﺤﺸﺮ ﻣﯿﮟ
ﮨﻢ ﻣﮑﺮ جائیں گے ، ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

لغات ومحاورات(امام بخش ناسخ).pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

پھر جدائی سے ہوئی منظور روپوشی مجھے
پھر ستاتا ہے نہ ملنا اک بت روپوش کا
ساحل دریا مرے رونے سے پھر آغوش ہے
رونا یاد آتا ہے پھر اک طفل ہم آغوش کا
پھر کھلونے کی طرح بیدم ہے میرا کالبد
کھیلنا یاد آیا پھر اک طفل ہم آغوش کا
پھر ہوا ضبط فغاں دشوار اے ناسخ مجھے
پھر قیامت زا ہوا ہلنا لب خاموش کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جسمِ زار بے حرکت پیرہن میں ہے
سب مجھ کو جانتے ہیں کہ مردہ کفن میں ہے

فرقت قبول رشک کے صدمے نہیں قبول
کیا آئیں ہم رقیب تری انجمن میں ہے

ہیں بے نصیب صحبت جاناں سے ایک ہم
پروانہ بزم میں ہے تو بلبل چمن میں ہے

دونوں کا کر چکا ہوں میں اے ناسخ امتحان
سید میں مہر ہے نہ وفا برہمن میں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا اسیری میں کریں شکوہ ترا صیاد ہم
واں بھی کچھ دامِ رگِ گل سے نہ تھے آزاد ہم

دام دودِ نالۂ بے جاں ہے، دانے اشک ہیں
یعنی اِن کافر پریزادوں کے ہیں صیاد ہم

آج کل سے کچھ نہیں اپنی زباں معجز بیاں
نطق عیسیٰ کی طرح رکھتے ہیں مادرزاد ہم

یہ زمیں ہے بے وفا، یہ آسماں بے مہر ہے
جی میں ہے اک اب نیا عالم کریں ایجاد ہم

روک لے اک بات کی بات اپنے دست و تیغ کو
دے لیں اے قاتل رقیبوں کو مبارک باد ہم

اُس نے تلواریں جڑیں فریاد پر جوں جوں ہمیں
ہر دہانِ زخم سے کرنے لگے فریاد ہم

قیدِ ہستی تک ہیں تیرے دامِ گیسو میں اسیر
تن سے سر آزاد ہو جائے تو ہوں آزاد ہم

جب سے دیکھی ہے گلِ رخسارِ جاناں کی بہار
ہو رہے ہیں صورتِ برگِ خزاں برباد ہم

خندہ زن ہوتا نہیں اپنا دہانِ زخم بھی
کوئی دنیا میں نہ ہو گا جیسے ہیں ناشاد ہم

پہلے تیشہ مارتے خسرو کو اے شیریں دہن
جی نہ کھوتے مفت اپنا ہوتے گر فرہاد ہم

پہلے اپنے عہد سے افسوس سوداؔ اٹھ گیا
کس سے مانگیں جا کے ناسخ اس غزل کی داد ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واعظ مسجد سے اب جاتے ہیں مے خانے کو ہم
پھینک کر ظرف وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم

کیا مگس بیٹھا بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم

تیرے آگے کہتے ہیں گل کھول کر بازوئے برگ
گلشن عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم

کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا
سر کو دے دے مار کر توڑیں گے بت خانے کو ہم

جب غزالوں کے نظر آ جاتے ہیں چشم سیاہ
دشت میں کرتے ہیں یاد اپنے سیہ خانے کو ہم

بوسہ خال زنخداں سے شفا ہو گی ہمیں
کیا کریں گے اے طبیب اس تیرے بہدانے کو ہم

باندھتے ہیں اپنے دل میں زلف جاناں کا خیال
اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم

پنجہ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار
دیکھتے ہیں کاکل جاناں میں جب شانے کو ہم

عقل کھو دی تھی جو اے ناسخ جنون عشق نے
آشنا سمجھا کیے اک عمر بیگانے کو ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون ہے وہ دل جو محوِ رخِ جاناں نہ ہوا.
کون آئینہ ہے جو دیدہءِ حیراں نہ ہوا.

پر لگائے مجھے وحشت نے اڑا پھرتا ہوں.
مجھ سا پامال کوئی خارِ بیاباں نہ ہوا.

پھٹ گئے لاکھ گریباں مری حالت پر.
صبح کا ہجر کی شب چاک گریباں نہ ہوا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں
آگ ہم سنگ کی مانند نہاں رکھتے ہیں

تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعد وفات
لوگ اکثر مرے جینے کا گماں رکھتے ہیں

بھا گئی کون سی وہ بات بتوں کی ورنہ
نہ کمر رکھتے ہیں کافر نہ دہاں رکھتے ہیں

مثل پروانہ نہیں کچھ زر و مال اپنے پاس
ہم فقط تم پہ فدا کرنے کو جاں رکھتے ہیں

محفل یار میں کچھ بات نہ نکلی منہ سے
کہنے کو شمع کی مانند زباں رکھتے ہیں

ہو گیا زرد پڑی جس کی حسینوں پہ نظر
یہ عجب گل ہیں کہ تاثیر خزاں رکھتے ہیں

عوض ملک جہاں ملک سخن ہے ناسخؔ
گو نہیں حکم رواں طبع رواں رکھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ خالد محمود

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آج نامور شاعر شیخ امام بخش ناسخؔ کا یوم پیدائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیخ امام بخش 10 اپریل 7 محرم بروز جمعہ فیض آباد میں پیدا ہوئے اور وہیں پروان چڑھے۔ ورزش کا شوق تھا۔ بدن کسرتی اور پھرتیلا تھا۔ فیض آباد کے ایک امیر محمد تقی کو ایسے بانکوں کی سرپرستی کا شوق تھا۔ محمد تقی نے ان کو بھی ملازم رکھا لیا اور ناسخ ان کے ساتھ لکھنؤ آ گئے۔ ایک رئیس میر کاظم علی سے منسلک ہو گئے جنھوں نے ناسخ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ ان کے انتقال پر اچھی خاصی دولت ناسخ کے ہاتھ آئی۔ انھوں نے لکھنؤ میں بود و باش اختیار کر لی اور فراغت سے بسر کی۔
ناسخ کسی کے باقاعدہ شاگرد نہیں تھے۔ اودھ کے حکمراں غازی الدین حیدر نے ناسخ کو باقاعدہ ملازم رکھنا چاہا تھا مگر انھوں نے منظور نہ کیا۔ شاہی عتاب اور درباری آویزشوں کے سبب ان کو لکھنؤ چھوڑ کر الہ آباد، فیض آباد، بنارس اور کانپور میں رہنا پڑا۔ لیکن آخر لکھنؤ واپس آ گئے۔ نظام دکن کے دیوان، چندو لال نے کثیر رقم بھیج کر ناسخ کو حیدر آباد آنے کی دعوت دی لیکن وہ وطن چھوڑ کر نہیں گئے۔ ناسخ لکھنؤ اسکول کے اولین معمار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والوں میں لکھنؤ کے علاوہ دہلی کے شاعر بھی تھے۔ ناسخ اسکول کا سب سے بڑا کارنامہ اصلاح زبان ہے۔ لکھنؤیت سے شاعری کا جو خاص رنگ مراد ہے اور جس کا سب سے اہم عنصر خیال بندی کہلاتا ہے، وہ ناسخ اور ان کے شاگردوں کی کوشش و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ ناسخ کے کلام کا بڑا حصہ شائع ہو چکا ہے۔ ان کے کلیات میں غزلیں، رباعیاں، قطعات، تاریخیں اور ایک مثنوی شامل ہے۔
شیخ اِمام بخش ناؔسخ اِس زمانے کے سب سے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔ اُن کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، کہا جاتا ہے کہ شیخ خُدا بخشؔ نے اُن کو پالا تھا اور اعلی تعلیم دِلائی تھی۔ ناسخؔ کے شاگردوں میں لکھنؤ کے بہت سے اُمراء تھے۔ آغاؔ میر جو وزیر تھے اور جن کی ڈیوڑھی مشہور ہے، فقیر محمد خاں گویاؔجورسالدار تھے،ناسخؔ ہی کے شاگرد تھے۔ اُن کے یہاں ادب اور شعر سے دِلچسپی لینے والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ بادشاہ غازی الدّین حیدرؔ ناراض ہو گئے اِس لیے ناؔسخ کو بہت دِنوں تک کانپور اور الہ آباد میں رہنا پڑا۔ وہ پہلوان تھے اور اُن کا رنگ کالا تھا اِس لیے لوگ اُن پر چوٹیں بھی کرتے تھے۔ اِس زمانے کے دوسرے مشہور شاعر خواجہ آتشؔ سے اُن کی چوٹیں چلتی رہتی تھیں۔
ناسخؔ نے زیادہ تر غزلیں ہی کہی ہیں۔ ایک مثنوی بھی لِکھی ہے اور بہت سے اچھّے قطعات تاریخ لِکھے ہیں۔ اُن کی شاعری میں بناوٹ اور بے اثری بہت ہے، لفظوں کی صحت اور اصول شاعری کا بہت خیال کرتے تھے اور جذبات کی طرف توجّہ کم تھی،1838 میں انتقال کیا۔
ناسخؔ کے شاگردوں میں رشکؔ اور وزؔیر بہت مشہور ہوئے۔ رشکؔ نے اُستاد کے کام کو جاری رکھا اور اُن کے اصولِ شاعری سے کام لیا۔ لُغت کی کِتابیں مرتّب کیں اور بہت سی غزلیں کہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصلاح زبان کا ایک اہم مرکزلکھنؤ بھی رہا ہے جس کو دبستان لکھنؤ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بنیاد گزاروں میں آتش و ناسخ و ان کے شاگردوں کا خاص طور سے نام لیا جاتا ہے ان لوگوں نے بھی اردو زبان کی تراش خراش میں اہم رول ادا کیا ۔انہوں نے فارسی اور عربی الفاظ کو ٹھیٹھ بول چال کے لفظوں پر ترجیح دی ناسخ نے ایسے بہت سے الفاظ کو متروک قرارددے دیا۔
امام بخش ناسخ کے بارے میں محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ "انہیں ناسخ کہنا بجا ہے کیوں کہ طرز قدیم کو نسخ کیا "
اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ زبان سنور گئی۔ فارسی کی قربت کی وجہ سے موضوع اور مضامین بھی اضافہ ہوا۔نقصان یہ ہوا کہ اردو ادب تیزی سے فارسی کے سحر میں آگیاہر چیز میں فارسی زبان و ادب ہی معیار بن گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلوان سخن(شیخ امام بخش ناسخ) کوابتدائے عمر سے ورزش کا شوق تھا۔ خود ورزش کرتے تھے، بلکہ احباب کے نوجوانوں میں جو حاضر خدمت ہوتے اور ان میں کسی ہونہار کو ورزش کا شوق دیکھتے تو خوش ہوتے اور چونپ دلاتے۔ 1297ڈنٹر کا معمول تھا کہ یاغفور کے عدد ہیں۔ یہ وظیفہ قضا نہ ہوتا تھا، البتہ موقع اور موسم پر زیادہ ہوجاتے تھے۔ انہیں جیسا ریاضت کا شوق تھا، ویسا ہی ڈیل ڈول بھی لائے تھے بلند بالا، فراخ سینہ، منڈا ہوا سرکھاردے کالنگ باندھے بیٹھے رہتے تھے، جیسے شیر بیٹھا ہے۔ جاڑے میں تن زیب کاکرتا، بہت ہوتو لکھنو کی چھینٹ کا دہرا کرتا پہن لیا۔ دن رات میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تھے ظہر کے وقت دسترخوان پر بیٹھتے تھے اور کئی وقتوں کی کسر نکال لیتے تھے۔ پان سیرپختہ وزن شاہجہانی کی خوراک تھی۔ خاص خاص میووں کی فصل ہوتی تو جس دن کسی میوے کو جی چاہتا اس دن کھانا موقوف۔ مثلا جامنوں کو جی چاہا، لگن اور سینیاں بھر کر بیٹھ گئے، 5-4سیر وہی کھاڈالیں۔ آموں کا موسم آیا تو ایک دن کئی ٹوکرے منگاکر سامنے رکھ لیے، ناندوں میں پانی ڈلوالیا ، ان میں بھرے اور خالی کرکے اٹھ کھڑے

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

جبران_خلیل_جبران_فن_اور_شخصیت_از_ڈاکٹر_اشفاق_احمد_ندوی_ریختہ_بیگ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

میری_سنو_۔_خلیل_جبران_۔_ترجمہ_۔_سجاد_ظہیر.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

پاگل یوحنا خلیل جبران (جلالی کتب).pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

اشک و تبسم _خلیل جبران .pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

مسیحا از جبران خلیل جبران.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

النبی خلیل جبران.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

گو جبران کی تمام اوائل دور کی تحاریر عربی میں ہیں، مگر ان کا زیادہ تر کام 1918ء کے بعد انگریزی میں شائع ہوا۔ جبران کی پہلی کتاب جو شائع ہوئی، وہ ناشر کمپنی الفریڈ اے ناپف نے 1918ء میں شائع کی جس کا عنوان تھا، The Madman۔ یہ ایک چھوٹی سی کتاب تھی جو بیغامبری زبان میں نثر اور نظم کے بیچ جیسے لکھی گئی تھی۔ جبران نے نیویارک کے پین لیگ میں بھی حصہ لیا جہاں وہ “مہاجر شاعر “ کے نام سے جانے جاتے تھے، ان کے علاوہ لبنانی نژاد لکھاری جیسے امین ریحانی، الیہ ابو مادی اور میکائیل نیمے وغیرہ بھی اس لیگ کا حصہ تھے اور ان سب کو “المہاجر“ کا نام دیا گیا تھا۔

جبران کی زیادہ تر تحاریر مسیحیت کے بارے میں ہیں، خاص کر مسیحیت میں بھی ان کا رخ روحانی محبت کے اردگرد گھومتا ہے۔ ان کی شاعری کی خاصیت ایک خاص طرز پر زبان کا استعمال ہے اور اس کے علاوہ شاعری میں جابجا روحانی اصطلاحات کا استعمال عام ہے۔
جبران کی سب سے مشہور کتاب The Prophet یا پیغامبر ہے جس میں کل 26 شاعرانہ مضامین ہیں۔ یہ کتاب 1960ء میں خاص طور پر امریکی ادبی حلقوں میں مشہور ہوئی اور اس کا استعمال نئے دور کی تحریکوں میں کیا گیا۔ یہ کتاب 1923ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اپنی پہلی اشاعت کے بعد اب تک یہ کتاب شائع ہو رہی ہے اور اس کے دنیا کی چالیس سے زیادہ زبانوں میں تراجم کیے گئے ہیں۔بیسویں صدی میں امریکا میں یہ کتاب سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہے۔

ان کے کلام میں سب سے مشہور مصرع جو انگریزی دنیا میں اب بھی بہت مشہور ہے، کتاب "Sand and Foam" سے لیا گیا ہے، اس مصرع میں جبران کہتا ہے، “آدھے سے زیادہ جو میں کہتا ہوں وہ بے معنی ہے، لیکن میں پھر بھی کہتا ہوں تاکہ باقی کا آدھا تم تک پہنچ سکے“ جبران کی یہ شاعری جان لینن نے اپنے ایک گانے جولیا (بیٹل نغمہ) میں شامل کیا۔ یہ نغمہ 1968ء میں تشکیل دیا گیا۔

سیاسی سوچ
جبران نے شام میں عربی کو بطور قومی زبان نافذ کرنے اور بنیادی تعلیم میں اسے لازمی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ 1912ء میں جبران نے جب ابو باہا سے ملاقات کی تو ان کے ساتھ امریکا بھر کا سفر برائے امن بھی کیا۔ گو جبران نے امن کا پرچار کیا مگر اس کے ساتھ ہی انھوں نے شامی علاقوں کی سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی کا بھی مطالبہ کیا۔ جبران نے اس بارے ایک مشہور نظم بھی لکھی جو Pity The Nation کے عنوان سے گلستان پیغامبر میں شائع ہوئی۔

جنگ عظیم اول میں جب عثمانیہ سلطنت کا شام سے خاتمہ ہوا تو جبران نے ایک تصویری فن پارہ “آزاد شام“ کے نام سے تخلیق کیا جو وکٹری میگزین کا سرورق بنا۔ اس کے علاوہ اپنے ایک کھیل میں جبران نے قومی آزادی اور ترقی بارے امید کا اظہار بھی کیا۔ اس کھیل بارے خلیل ہوائی کہتے ہیں کہ “یہ جبران کے شام بارے قومیت پرستی کے خیالات کو اجاگر کرتا ہے اور اس میں ہمیں عرب اور لبنانی قومیتوں کا فرق واضح محسوس ہوتا ہے۔ اس کھیل میں یہ بھی عیاں ہے کہ کس طرح عمر کے آخری حصے تک جبران کے ذہن میں قومیت پرستی اور عالمی اتحاد کے خیالات ایک ساتھ پروان چڑھتے رہے ہیں“۔

وفات
جبران خلیل 10 اپریل 1931ء کو نیویارک میں وفات پا گئے۔ ان کی موت جگر کی خرابی اور تپ دق کی وجہ سے ہوئی۔ اپنی موت سے پہلے جبران نے خواہش ظاہر کی کہ انھیں لبنان میں دفن کیا جائے۔ ان کی یہ آخری خواہش 1932ء میں پوری ہوئی جب میری ہاسکل اور جبران کی بہن ماریانہ نے لبنان میں مارسرکاس نامی خانقاہ خرید کر وہاں ان کو دفن کیا اور جبران میوزیم قائم کیا۔ جبران کی قبر کے کتبے پر جو الفاظ کشیدہ کیے گئے وہ کچھ اس طرح ہیں،
“ایک جملہ جو میں اپنی قبر کے کتبے پر دیکھنا چاہوں گا: میں زندہ ہوں تمھاری طرح اور میں تمھارے ساتھ ہی کھڑا ہوں۔ اپنی آنکھیں بند کرو اور اردگرد مشاہدہ کرو، تم مجھے اپنے سامنے پاؤ گے۔

جبران نے اپنے سٹوڈیو کی تمام اشیاء اور فن پارے میری ہاسکل کے نام وصیت میں سپرد کر دیے۔ اس سٹوڈیو میں ہاسکل کو 23 سال تک اپنے اور جبران کے بیچ ہوئی خط کتابت بھی ملی، جس کے بارے پہلے ہاسکل نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں جلا دیا جائے، لیکن ان کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر انھیں محفوظ کر دیا گیا۔ ان خطوط کو میری ہاسکل نے اس کو لکھے گئے جبران کے خطوط سمیت شمالی کیرولائنا کی جامعہ کی لائبریری کو اپنی 1964ء میں وفات سے پہلے سپرد کر دیے۔ بعد ازاں ان خطوط کا کچھ مواد 1972ء میں کتاب Beloved Prophet میں شائع ہوا۔

یادگاریں

لبنان میں 1971ء میں جبران خلیل کی یادگار کے طور پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔
لبنان میں جبران میوزیم کا قیام۔
لبنان کے شہر بیروت میں باغ جبران کا قیام۔
کینیڈا میں سینٹ لارنٹ کے مقام پر 27 ستمبر 2008ء کو جبران کی 125ویں سالگرہ کے موقع پر ایک سڑک کو خلیل جبران سٹریٹ کا یادگاری نام دیا گیا۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️‍🩹❤️❤️‍🩹❤️‍🩹

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

تخلیق پاکستان از حمزہ علوی.pdf

Читать полностью…
Subscribe to a channel