libraryb | Unsorted

Telegram-канал libraryb - ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

2766

ONLY SHARE BOOKS LINKS NOT ALLOWED

Subscribe to a channel

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

طرز کے آدمی تھے، اس لیے انھوں نے ایک لڑکی کے سامنے جاکر بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا اور ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔

جب اس لڑکی نے دیکھا لڑکا اس کے پاس بیٹھنے سے شرما رہا ہے تو اُس نے اُسے بیٹھنے کی پیشکش کی مگر وہ وہاں نہیں بیٹھے۔ علامہ آئی آئی قاضی کی اس ادا اور اخلاق نے ایلسا کو بہت متاثر کیا اور منزل پر اترنے سے پہلے ایلسا نے ان کا پتا پوچھا۔ اب ایلسا اس نوجوان سے ملنے کے لیے بے چین تھی جس نے ایک اکیلی لڑکی دیکھ کر بھی اس کا احترام کیا۔ ایک دن دیے ہوئے پتے پر ایلسا پہنچ گئیں اور ایک دوسرے سے واقفیت کرنے پر معلوم ہوا کہ لڑکی جرمن ہے۔ علامہ کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق پر ایلسا فدا ہوگئیں اور علامہ کو بھی ایلسا کا حسن اور انداز بہت اچھا لگا۔ اب دونوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور ان میں ذہنی ہم آہنگی نے دوستی کو محبت اور محبت کو ازدواجی زندگی میں تبدیل کردیا۔ اس طرح سے دونوں کی شادی جرمنی میں 1910 میں ہوگئی۔ مشہور ہے کہ جرمنی کی عورتیں وفادار ہوتی ہیں، جس کی تصدیق مدر ایلسا قاضی کی صورت میں ہوتی ہے۔

ایلسا قاضی کا پورا نام “Elsa Gentrude Loesch Alias Madam Elsa Kazi” جو بعد میں ایلسا قاضی جنھیں سندھ کے لوگ احترام سے ’’امڑ ایلسا‘‘ (ماں ایلسا) کہتے ہیں۔ ایلسا قاضی 3 اکتوبر 1884 کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے علاقے ریڈل اسٹیڈٹ (Rudal Stadt) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اس وقت کے ایک مشہور موسیقار اور ایک ثروت مند جرمن باشندے تھے۔ ان کی لندن میں بہت سی جائیداد تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں ان کی یہ جائیداد تباہ ہوگئی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انھیں اس نقصان زرِتلافی کے طور پر کافی رقوم دی گئیں۔

یہ خاندان لندن سے جرمنی جاکر آباد ہوگیا۔ ایلسا لندن میں ہی زیرتعلیم رہیں اور وہیں سے انھوں نے اپنی مادری زبان یعنی جرمن میں شارٹ اسٹوریز، ون ایکٹ پلے، افسانے، ناولز لکھنے اور شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ مصوری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انہوں نے آرٹ کے ہر شعبے میں اپنا ہنر آزمایا۔ وہ سندھی زبان سے مانوس نہیں تھیں مگر پھر بھی اپنے لیے انھوں نے مترجم کا انتظام کرکے شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا۔ ان کی نظم نیم ٹری Neem Tree نویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں شامل ہے۔ 1911 میں آئی آئی قاضی لنکڈان یونیورسٹی لندن کو چھوڑ کر واپس اپنی جرمن بیوی ایلسا قاضی کے ہندوستان واپس آگئے مگر جلد ہی واپس لندن روانہ ہوگئے۔

1911 میں قاضی صاحب نے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی۔1911 سے 1919 تک علامہ آئی آئی قاضی اپنی اہلیہ کے ساتھ وطن آتے جاتے رہے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کی سیاحت کی اور زندگی کے ہر شعبے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ 1919 کے بعد وہ سندھ چلے آئے۔ اس دوران وہ ریسرچ کے کام میں لگ گئے اور خاص طور پر مذہبی انقلابات پر کام کرتے رہے کہ مختلف مذہب کیسے کیسے اور کہاں کہاں سے آخر اسلام کی شروعات تک پہنچے۔ اس سلسلے میں دونوں نے اور خاص طور پر علامہ نے مل کر اس پر کئی مضامین لکھ ڈالے۔ 1919 میں جب واپس پاکستان آئے تو انھوں نے حکومت میں ملازمت کرنے کا ارادہ کیا۔ سب سے پہلے ٹنڈو محمد خان میں مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔

اس کے بعد سب جج حیدرآباد بنے، جب 1921 میں خیرپورمیرس میں سیشن جج کی جاب شروع ہوئی تو آپ کو عارضی ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا۔ ریاست کے حکمران میر علی نواز خیرپور جلاوطنی میں تھے جب علامہ آئی آئی قاضی نے جوڈیشل ایجوکیشن ممبر آف ایڈوائزری کونسل برطانیہ حکومت 1930-1921 کے بننے کے کچھ عرصے بعد میر علی نواز ناز، حکمران خیرپور ریاست (1921-36AD) کی غیرموجودگی میں آپ کو جوڈیشل کونسل کا ممبر بنایا گیا۔ مگر دو سال بعد علامہ نے وہاں سے خیرپور ریاست کے حکمران میر علی نواز سے اختلافات اور انگریزوں کی اسٹیٹ کے بارے میں پالیسیوں سے عدم اتفاق کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ لندن چلے گئے۔

خیرپور میں رہائش کے دوران ایلسا قاضی نے ایک تصویر میر علی نواز کی زوجہ اقبال بالی کی بھی بنائی تھی۔ واپس لندن جاکر انھیں لندن اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں سندھی زبان کا ٹیچر بن کر پڑھانے کا بھی موقع ملا تھا جس سے انھیں اپنے شاگردوں کو بڑے احسن طریقے سے پڑھاکر مقبولیت اور اہمیت حاصل کی۔ وہ بہت مصروف رہتے تھے اور ہر وقت کسی نہ کسی کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر خدمت کرنا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے انھیں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ پوئٹری سوسائٹی لندن کے وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوگئے اور اس عہدے پر وہ 1946 تک فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ لندن فلاسیفکل سوسائٹی کے ممبر بھی رہے جس کی وجہ سے انھیں فلاسفی کو فروغ دینے کا موقع ملا۔ جیساکہ انھیں مسلمانوں اور اپنے دین اسلام سے لگاؤ تھا جس کے لیے وہاں پر جماعت المسلمین قائم کی۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

فضائل_حضرت_علی_المرتضی .pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

حضرت علی کی باتیں اشتیاق احمد.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

حضرت علی کی تعلیمات.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

حضرت علی کی بیویاں اور ان کی اولاد.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

__حضرت علیؓ کےسوقصے_.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

گردش_جام_۔_قول_وقرار۔_چارہ_درد۔_تین_شعری_مجموعے۔_عبدالحمید_عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

شہر فریاد از عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

خرابات۔_شعری_مجموعہ۔_عبدالحمید_عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

بط_مے۔_شعری_مجموعہ۔_عبدالحمید_عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

نگار_خانہ_شعری_مجموعہ_عبدالحمید_عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

''نقش دوام ۔ عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

داستان_ہیر_ _عبدالحمید_عدم .pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

آج نامور مفکر ، نقاد اور محقق علامہ آئی آئی قاضی کا یوم وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر:
پروفیسر شاداب احمد صدیقی

سندھ کے لوگوں میں تعلیمی وسیاسی شعور بیدار کرنے میں سندھی ادیبوں کا اہم کردار ہے۔ ان شخصیات میں ایک ایسا نام بھی شامل ہے جو سندھی قوم کا محسن ہے، جس کی سندھ کے لیے تعلیمی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس عظیم شخصیت کا نام علامہ امداد علی امام علی قاضی اور ان کا ادبی نام علامہ آئی آئی قاضی ہے۔

علامہ آئی آئی قاضی بہت بڑے فلاسفر اور اسکالر تھے۔ آپ کا شمار سندھ یونیورسٹی جامشورو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی اعلیٰ پائے کے ادیب و محقق اور دانش ور تھے۔ سندھی ادب کی ترقی کے حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

ان کے آباواجداد کا تعلق انصاری خاندان سے تھا، ان کے بڑے محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں آئے تھے اور یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والوں میں قاضی عبداﷲ انصاری عرب سے ہجرت کرکے پاٹ ضلع دادو سندھ اور ان کے بھائی عبدالسمیع روہڑی میں قیام پذیر ہوئے۔

علامہ آئی آئی قاضی کے والد قاضی امام علی تاریخی گاؤں پاٹ دادو ڈسٹرکٹ میں رہائش پذیر تھے۔ گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔ 1870 عیسوی میں قاضی امام علی اور ان کے دو عزیز دوست قاضی عبدالرؤف اور قاضی ہدایت اللہ براہ راست محکمہ ریونیو میں مختیار کار بھرتی ہوگئے۔ اس زمانے میں برطانوی حکومت کی روزگار پالیسی اچھے خاندانی پس منظر پر مبنی تھی۔ فیملی بیک گراؤنڈ دیکھ کر قاضی امام علی کو نوکری دی گئی۔ امام علی انصاری کا خاندان دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔

قاضی امام علی کی پہلے ہی سے ایک بیوی اور تین بیٹیاں پاٹ گاؤں میں تھیں۔ انھوں نے دوسری شادی حیدرآباد شہر میں کی۔ اس بیوی سے ان کی مزید آٹھ بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹے کا نام قاضی امداد علی (علامہ آئی آئی قاضی) اور دوسرے کا نام فخرالدین تھا۔ قاضی امام علی کی دوسری بیوی حیدرآباد سندھ کے مشہور خاندان سیٹھ حافظ کی بیٹی تھیں۔ یہ وہی سیٹھ محمد حافظ ہیں جن کے نام پر سیٹھ حافظ پرائمری اور ہائی اسکول پھلیلی میں واقع ہے۔ قاضی امام علی کی دوسری زوجہ اپنے شوہر کی طرح بلند خیال تھیں۔ علامہ آئی آئی قاضی 19 اپریل 1886 کو پاٹ دادو میں پیدا ہوئے۔ فخرالدین امام علی بڑے جب کہ علامہ آئی آئی قاضی ان کے چھوٹے بیٹے تھے۔ قاضی فخرالدین نے ریاست بھوپال میں برطانوی حکومت کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر فرائض انجام دیے۔

ابتدا میں علامہ آئی آئی قاضی کو اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بٹھایا گیا۔ جب وہ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے تو ان کا خاندان حیدرآباد منتقل ہوگیا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم آخوند عبدالعزیز سے حاصل کی۔ مکتب آخوند عبدالعزیز سے علامہ آئی آئی قاضی نے عربی، اسلامی تعلیمات، فارسی زبان اور شاعری اور صوفی ازم کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں ہی بطور موذن اذان دینے لگے۔ 1902 میں 16 سال کی عمر میں ہم علامہ قاضی آئی آئی کو صوفیوں کی صحبت میں دیکھتے ہیں۔ 1902 میں علامہ آئی آئی قاضی صوفی فقیر احمد تھیبو کے حلقے میں شامل ہوئے۔ صوفی ازم کی تعلیمات کا اثر علامہ آئی آئی قاضی کی شخصیت پر بہت گہرا ہوا اور آپ اسلام کے مبلغ بن گئے۔

18 سال کی عمر میں 1904 میں مقامی سندھی فائنل امتحان بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیا، فارسی لازمی مضمون میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1905 میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1906 میں 20 سال کی عمر میں کچھ عرصے کے لیے علی گڑھ کالج بھی گئے مگر ایک سال وہاں قیام کرنے کے بعد واپس آگئے۔ 1907 میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئے۔ لندن میں قاضی صاحب نے پہلے ایک سال پرائیویٹ اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ اگلے سال 1909 میں لندن اسکول آف اکنامکس میں داخل ہوگئے۔

ڈاکٹر کینن Dr. Canon ان کے استاد تھے۔ انھوں نے سائیکلوجی ڈاکٹر آرنلڈ Dr. Arnold سے اور سوشیالوجی پروفیسر ہوب ہاؤس Prof. Hob-House سے پڑھی۔ اس کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1910 میں جرمنی تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً ایک سال گزارا۔ 1910 سے 1911 کے دوران علامہ آئی آئی قاضی کی ملاقات ایلسا سے ہوئی جن کے عشق میں وہ گرفتار ہوگئے۔ اس محبت کا آغاز یوں ہوا کہ ایک دن وہ ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی میں بیٹھنے کے لیے پہنچے تو ریل گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی، جلدی میں وہ ریل کے آخری ڈبے میں چڑھنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انھوں نے ایک کونے میں خوبصورت لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ قاضی صاحب بڑے اسلامی

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک عبقری شخصیت بدرالدین قاسمی.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

حضرت_علی_المرتضٰی_رضی_اللہ_عنہ_کے_فیصلے_.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

دیوان حضرت علی رضی اللہ.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

اقوال حضرت علی کا انسائیکلوپیڈیا.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

حضرت علی کی باتیں.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

21 رمضان المبارک خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا دن ہے

*حضرت علی کرم اللہ وجھہ* کا خاندان بنی ھاشم تھا۔ قریش میں اس خاندان کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند تھا۔ حرم کعبہ کی خدمت بھی اسی خاندان کے ذمے تھی۔
بنو ھاشم کا سب سے بڑا اعزاز یہ بھی ہے کہ سرورِ کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی خاندان میں پیدا کیئے گئے۔
حضرت علی کے والد ابو طالب اور حضور کے والد عبد اللہ حقیقی بھائی تھے۔
حضرت علی کے تین بھائی تھے۔ طالب، جعفر اور عقیل۔ جن میں سے طالب حالت کفر میں مر گئے جبکہ حضرت جعفر اور حضرت عقیل اور آپ حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سعادت اسلام سے بہرہ ور ہوئے اور اصحاب رسول ﷺ کہلائے۔
چاروں بھائیوں میں دس دس سال کا وقفہ تھا۔
حضرت علی سب سے چھوٹے تھے۔
عقیل کے ایک بیٹے کا نام یزید تھا جس کی وجہ سے ان کی کنیت ابو یزید تھی۔
(طبقات ابن سعد 4/29)
حضرت علی کی دو بہنیں تھیں۔ ام ہاتی فاختہ بنت ابی طالب اور جمانیہ بنت ابی طالب۔
حضرت علی آنحضرت کی ولادت کے تیس سال بعد پیدا ہوئے۔
اس بارے میں علماء میں بڑا اختلاف ہے کہ آپ کی ولادت کعبہ میں ہوئی یا نہیں۔ اکثر علماء نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر حضرت علی کعبہ میں پیدا نہیں بھی ہوئے تو انکے عز و مرتبہ میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
البتہ تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت خدیجہ کے بھانجے حکیم بن حزام بھی حضرت علی سے کئی سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوچکے تھے۔
ولادت کے بعد آپ کی والدہ نے آپ کا نام اسد اور ابو طالب نے علی رکھا۔
آپ کے القاب "اسد اللہ، حیدر، المرتضی" ہیں۔
کنیت ابو تراب مشہور ہوئی۔
حضرت علی دو سال کی عمر میں آنحضرت کے گھر تشریف لائے اور یہیں آپ کی تربیت ہوئی، جب آنحضرت کا انتقال ہوا تو آپ کی عمر 29 سال تھی۔
ماہ رجب 2 ہجری میں حضرت علی کا نکاح سیدہ فاطمہ کے ساتھ آنجناب نے کردیا تھا۔
علماء لکھتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر اکیس یا چوبیس برس جبکہ حضرت فاطمہ کی علی الاختلاف 15، 18 یا 19 تھی۔
(شرح مواھب المدینہ 2/3)
نکاح کی یہ تقریب انتہائی سادہ تھی اور مروجہ رسومات سے بالکل پاک تھی۔
اس مبارک نکاح کی تقریب میں سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان ذو النورین اور دیگر صحابہ شامل تھے۔
(ذخائر العبقعی صفحہ 30)
حضرت عائشہ اور حضرت جابر فرمایا کرتے تھے:
"فاطمہ کی شادی سے بہتر ہم نے کوئی شادی نہیں دیکھی۔"
رخصتی کے وقت آنحضرت نے یہ دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے:
"اے اللہ! زوجین کے مال و جان میں برکت عطا فرما اور انکی اولاد کے حق میں بھی برکت عطا فرما۔"
(الاصابہ لابن حجر 4/366)
بچوں میں اسلام لانے میں آپکا نمبر سب سے پہلا ہے جبکہ مجموعی طور پر آپ مسلمان ہونے والے تیسرے آدمی تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"علی، عثمان، زبیر طلحہ ، سعد، عبد الرحمن سے بہتر کوئی شخص نہیں کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جن سے نبی کریم راضی ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
خوارج نے حضرت معاویہ، حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت علی کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت مقرر کیا۔
منصوبہ سازوں نے حضرت علی کے قتل کا ذمہ عبد الرحمن ابن ملجم پر ڈالا۔ اس بدبخت نے رمضان کے مبارک مہینے میں 21 تاریخ کو صبح فجر کے وقت امیر المومنین ، اسد اللہ، حیدر کرار، سلسلہ تصوف کے امام، دامادِ نبی، حضرت علی کو کوفہ کی مسجد میں نماز کیلیئے جاتے ہوئے شہید کردیا۔ اور اپنے دو پیش روؤں حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرح اسلام کے خلیفہ چہارم بھی جامِ شہادت نوش کرکے سرفرازی کے اعلی مقام پر فائز ہوگئے اور فرمانِ ربانی کے مطابق حیات جاودانی کے حقدار ٹھہرے۔
فضائل علی کا مختصر خاکہ:
آپ ماں اور باپ دونوں طرف سے آنحضرت کے رشتہ دار ہیں۔
آپ آنحضرت کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے، آنحضرت کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ آپ کی زوجہ تھیں۔
ہجرت کی شب آپ آنحضرت کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے۔
آپ کے بارے میں آنحضرت نے ارشاد فرمایا: علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔
حضرت علی عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
آنحضرت کی خلافت راشدہ کےا علی مقام پر فائز ہوئے۔
دیگر صحابہ کے ہمراہ آپ غسل نبوی کی سعادت میں شریک ہوئے۔

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

Hey there Aasiya, and welcome to ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books! How are you?

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

مقالہ_PhD_عبدالحمید_عدم_شخصیت_اور_فن.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

شہر خوباں از عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

پیچ_و_خم_۔_غزلیں_۔_نظمیں_۔_عبدالحمید_عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

دو_جامرباعیات_عمر_خیامعبدالحمید_2.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

''خم ابرو ۔ عبدالمجید عدم.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

عبدالحمید عدم - چارہ درد.pdf

Читать полностью…

ڈیجیٹل لائبریری پی ڈی ایف Books

ساز و صدف از عدم.pdf

Читать полностью…
Subscribe to a channel