یہ چینل میرے فقہی مضامین ومقالات کے لیے بنایا گیا ہے، اس پر آن لائن کورسز کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی جائیگی. شاد
سلسلہ مسائل (10)
____________
1____اگر زخم سے خون / پیپ یا پیپ نما گدلا پانی نکل کرزخم کے منہ تک محدود رہے، اس سے تجاوز نہ کرے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔
2____ اگر زخم سے خون / پیپ یا پیپ نما گدلا پانی نکل کر بہہ پڑے تو اس كی دو صورتیں ہیں :
(۱لف)___زخم سے خون/ پیپ یا گدلا پانی مسلسل اس طرح بہتا رہتا ہو کہ اسے کسی تدبیر سے روکنا ممکن نہ ہو اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اتنا موقعہ بھی پاکی کا نہ ملے جس میں وضوء کر کے صرف فرض نماز ادا کی جاسکے تو ایسی صورت میں وہ شخص شرعاً ’’معذور‘‘ شمار ہوگا اور اس پر معذور کے احکام جاری ہونگے، آئندہ اس پر معذور کا حکم باقی رہنے کیلئے ہر نماز کے وقت میں ایک مرتبہ مذکورہ عذر کا پیش آجانا کافی ہے ، مستقل جاری رہنا لازم نہیں، البتہ اگر ایک نماز کا کامل وقت اس طرح گذر جائے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو پھر وہ شخص ’’معذور‘‘ نہیں رہے گا۔
(ب)___ اگر خون / پیپ یا پیپ نما گدلا پانی مسلسل نہ نکلے یا مسلسل نکلے لیکن کسی تدبیر سے باآسانی اتنی دیر تک نجاست کو نکلنے سے روکنا ممکن ہوکہ اس میں وضوء کرکے فرض نماز ادا کی جاسکے تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص شرعاً ’’ معذور‘‘ نہیں بنے گا بلکہ نجاست کے نکلتے ہی مطلقاًوضوء ٹوٹ جائے گا۔
رسائل ابنِ عابدین ( ص ۶۰، ۶۱)
شاد
Alhamdulillah, in all the Good Habits I have, The Most Liked to me is buying any Book Every Month in my Salary. In the month of Janurary I decided to Buy Two Books, One by our Dearest Mufti Owais Paracha on Bitcoin as Crypto currency and the Other by a Learned Shariah Scholar Mufti Shad Ahmad Shah as “ Fiqhi Qawaaid kka Tehqiqi Mutaali’a”. The 1st one is Yet to Reach me but the 2nd One is an Outstanding Work Done by a Young but Very professional Research Writer. The beauty of this Book is in each Part of it, It does not Let the reader Bore. It gets Easy as one start reading and Interesting as well by Incorporating that Qaeda in the modern Context. I am really happy that I bought the much needed book for myself and recommend every one especially in Islamic financial Industry that Once you go through these complete Qawaaid, Your approach towards different aspects of Islamic Banking will be more enhanced. Stay Blessed Mufti Shad Sb and Wishing You a bright Future in the field of Writing. Waiting for such more Master Pieces from You.
P.s I never Tag any one on facebook Nor I want to be Tagged by anyone but These Two Deserve Applause Thats why Got Tagged..
MUFTI ASAD GUL SB..
تقریظ دوم بر کتاب "فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ"
از: حضرت مولانا مفتی سید حسین احمد صاحب مدظلہم
استاذ ومعاون مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی
============•••=============
____عزیز گرامی قدرجناب مولانا شادمحمد صاحب زمانہ طالب علمی ہی میں ہونہار طالب علم تھے۔ 2015ءمیں جامعہ دارالعلوم کراچی سے تین سالہ تخصص کی تکمیل کے بعد موصوف درس وتدریس کے مبارک عمل سے وابستہ ہوگئے اور ساتھ ساتھ دارالافتاء کی ذمہ داری بھی سرانجام دیتے رہے۔ فقہ المعاملات پر اب تک موصوف گرامی چالیس سے زیادہ مقالات لکھ چکے ہیں جو مختلف مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔
____زیرِنظر تالیف موصوف کی پانچ سالہ کاوشوں کا نتیجہ ہے، جو تخصص کے طلباء کو قواعد الفقہ کی تدریس کے دوران انہوں نے یاداشتوں کی شکل میں جمع کیا اور اب نظر ثانی کے بعد کتاب کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔
____اس کتاب کے پہلے حصے میں قواعد الفقہ کا تعارف اور مبادیات ہیں، جس میں قاعدہ کی تعریف، اس کے مشابہ الفاظ، قواعد فقہیہ کے فوائد، قواعدِ فقہیہ کی اقسام، قواعدِ فقہیہ کے اسالیب ومناہج، قواعدِ فقہیہ کا دائرہ کار، قواعدِ فقہیہ کے مآخذ، قواعدِ فقہیہ کا آغاز وارتقاء، اور قواعدِ فقہیہ پر اُردو میں کئے گئے کام پر بحث کی گئی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں نناوے قواعد الفقہ، ان کے متبادل تعبیرات، دلائل، متعلقہ قاعدہ کا مفہوم وتشریح، اور متعلقہ مباحث کو بسط وتحقیق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
____بندہ کو پوری کتاب سے استفادہ کا موقع تو نہیں ملا، البتہ جستہ جستہ مقامات سے دیکھا، بعض مباحث کو مکمل بھی دیکھا، اندازِ بیان سہل، سلیس اور رواں ہے۔ اردو زبان میں اتنا جامع کام اب تک نظر سے نہیں گزرا۔ امید ہے یہ کتاب اہلِ علم، خصوصا قواعد الفقہ پڑھانے اور پڑھنے والوں کے لیے بہترین راہنما ثابت ہوگی۔
دل سے دعا ہے اللہ تعالیٰ اس علمی کاوش کو شرفِ قبول سے نوازے اور اسے مؤلف کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے اور انہیں مزید خدماتِ دینیہ مقبولہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہ فقہی قواعد کی فہرست ہے۔ وہ دوست اچھی طرح دیکھ لیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر پہلے ہی کتابیں موجود ہیں۔ اسے دیکھنے کے بعد شاید ان کو اندازہ ہوجائے کہ یہ کتاب دیگر کتب سے کس قدر الگ اور مختلف ہے۔
Читать полностью…ایک عظیم خاتون۔۔۔۔۔
ان کے بارے میں پہلی بار تب علم ہوا جب میں انسانی دودھ کے بینک پر مقالہ لکھ رہا تھا۔ ان کی ایک کتاب سے کافی استفادہ کیا تھا۔
رحمھا اللہ رحمۃ واسعۃ
شریعہ اینڈ بزنس۔۔۔
ہمارا مضمون۔۔۔خیار فوات الوصف
فرضی ناول اور قصے، کہانیاں لکھنا:
-------------------------------------------------------------------
ہمارے ایک مخلص دوست ہے۔ اردو ادب سے محبت کرتے ہیں۔ مختلف اخبارات و رسائل کے لیے چھوٹی، بڑی کہانیاں لکھتے رہتے ہیں۔ ایک دن اپنی ایک کہانی دکھاتے ہوئے پوچھنے لگے کہ بھائی ہم جو یہ کہانیاں لکھتے ہیں یہ جائز بھی ہے یا نہیں؟ یہ عمل کہیں جھوٹ کے زمرے میں تو نہیں آتا، کیونکہ ایسی کہانیاں عموما فرضی اور ذہن کی تخلیق کردہ ہوتی ہیں۔ ان کا کوئی حقیقی پس منظر نہیں ہوتا۔
میں نے عرض کیا کہ ایسے ناول اور کہانیوں میں بنیادی امر (Corner stone) لکھنے اور پڑھنے والے کا مقصد اور کہانی کا موضوع ہے۔ اگر ان دونوں باتوں میں خرابی نہ ہو تو ایسے فرضی ناول اور کہانی لکھنا جائز ہے۔ علامہ خصکفیؒ نے وعظ و نصیحت اور ضرب الامثال کے لیے فرضی کہانیوں کی اجازت دی ہے۔ آپؒ لکھتے ہیں:
”وَمَا يُتَيَقَّنُ كَذِبُهُ لَكِنْ بِقَصْدِ ضَرْبِ الْأَمْثَالِ وَالْمَوَاعِظِ وَتَعْلِيمِ نَحْوِ الشَّجَاعَةِ عَلَى أَلْسِنَةِ آدَمِيِّينَ أَوْ حَيَوَانَاتٍ ذَكَرَهُ ابْنُ حَجَرٍ.“
جو ناول یا کہانی اصلاحی موضوع، جائز تفریحی باتوں، آداب و اخلاق اور کسی نیک اور اہم سبق( ہمت و شجاعت، اخلاص و ایثار اور ہمدردی وغیرہ ) پر مشتمل ہو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اور جو ناول یا کہانی جرائم کی تعلیم، عشق و محبت اور ناجائز تعلقات کی داستانوں اور ایسی فحش و اخلاق سوز باتوں پر مشتمل ہو جو لوگوں کی اخلاقی بگاڑ کا سبب بنے اور ان کو منفی کردار کی طرف متوجہ کرے، ایسی کہانیاں لہو و لعب میں شامل ہیں اور قرآنی اصطلاح ”لہو الحدیث“ کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایسی کہانیوں کی کراہت سے لیکر عدم جواز تک کا سفر کہانی کے موضوع کی قباحت و شناعت اور لکھنے اور پڑھنے والے کی نیت پر منحصر ہے۔
یہاں یہ نکتہ ذہن میں رکھنا اہم ہے کہ اگر کسی کہانی کا موضوع مفید نہ ہو، لیکن کوئی قاری اپنی تحریر یا زبان و بیان میں بہتری لانے کے لیے اس کہانی کی عمدہ عبارات، فصیح و بلیغ جملوں اور اس کی ادبی افادیت کی وجہ سے اُسے پڑھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
درس نظامی کے چوتھے سال (درجہ رابعہ) کے نصاب میں شامل عربی ادب کی کتاب ”مقامات حریری“ بھی اسی قسم کی کتاب ہے۔ علامہ شامیؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
”(قَوْلُهُ لَكِنْ بِقَصْدِ ضَرْبِ الْأَمْثَالِ إلَخْ) وَذَلِكَ كَمَقَامَاتِ الْحَرِيرِيِّ، فَإِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الْحِكَايَاتِ الَّتِي فِيهَا عَنْ الْحَارِثِ بْنِ هَمَّامٍ وَالسَّرُوجِيِّ لَا أَصْلَ لَهَا، وَإِنَّمَا أَتَى بِهَا عَلَى هَذَا السِّيَاقِ الْعَجِيبِ لِمَا لَا يَخْفَى عَلَى مَنْ يُطَالِعُهَا“
واللہ تعالی اعلم
شاد
منظوم ہدیۂ تبریک:
===========================
استاذ محترم مولانا فضل الہادی صاحب مدظلہم میرے ان اساتذہ میں سے ہیں، جن کے احسانات مجھ پر بے انتہاء ہیں۔ استاد جی کو دیگر علوم کے ساتھ فن عروض کا گہرا فہم اور مہارت حاصل ہے، بلکہ کسی عظیم شخصیت یا کتاب پر تاثرات کا مرحلہ آئے تو نثر کے بجائے، نظم میں اظہار فرماتے ہیں۔ میری کتاب "فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ" پر استاد جی نے یہ اشعار پروئے ہیں:
بعد تحمید خداوند کریم و ذوالجلال
نیز تسلیماتِ آقائے محمد ذو الجمال
بر صحابہ، نیز اہل بیت و ازواجِ رسول
رحمت ورضواں کند،شد اجتہاد آں قبول
امت اسلام کے رہبر، ہمارے سب امام
فقہ نعمانی کے بانی کو سلام اندر سلام
اہل درد و پیکر فضل و ھدی تھے باکمال
وہ محمد، پھر ابویوسف تھے قاضی بے مثال
خدمت اسلام وقرآں،ان کا نصب العین تھا
پھر احادیثِ نبی کا ذوق فرض عین تھا
عصرحاضر کے فقیہ ومقتدی مفتی شفیع
جانشیں ان کے فقیہ محترم مفتی رفیع
در زمانہ مجتہد مفتی تقی بدر النجوم
مرکز فقہ وعمل علم وشرف دارالعلوم
جب تخصص سے فراغت ہوگئی تھی شاد کی
تب سے تشہیرِفقاہت ہوگئی تھی ” شاد“ کی
باعمل ہے، با ادب، ماہرلسانِ ضاد ہے
پشتو، اردو، نیز انگریزی کا بھی استاد ہے
مژدہ ہے جانِ فزا علمی فوائد آگئے
بامسمی تسمیہ ”فقہی قواعد“ آگئے
منتظرتھے جس کےمدت سے، ہے وہ درِّثمین
فقہی دنیا کی مبارک موتیاں، ہیں سب حسین
بحث، پھر تحقیق اس میں سیرحاصل دیکھ کر
جادۂ اسلاف پر تدقیق اس کی مقتدر
مرحبا ایں شوق تدریس، و مبارک انتخاب
ایں کتابِ بے مثال است،آں مقالہ لاجواب
فضل ہادؔی کی طرف سے ہو مبارک بار بار
فیض تو جاری بَوَد صبح و مسا، لیل و نہار
_____________________________
حضرت مولانا فضل الہادی صاحب مدظلہم
معاون خطیب مرکزی جامع مسجدگوجرانوالہ
استاذ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
کتاب (فقہی قواعد کا تحقیق مطالعہ) کا مختصر تعارف
https://youtu.be/2sfckqNaIfM
التكييف الفقهي للوقائع المستجدة وتطبيقاته الفقهية:
===========================
فقہ کے طلبہ کے لیے ایک اہم موضوع پر انوکھی کتاب!!!
https://feqhbook.com/?book=%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%83%D9%8A%D9%8A%D9%81-%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%82%D9%87%D9%8A-%D9%84%D9%84%D9%88%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%B9-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B3%D8%AA%D8%AC%D8%AF%D8%A9-%D9%88%D8%AA%D8%B7%D8%A8
سلسلہ مسائل (6)
°°============°°
1___تقریر کے بعد اذان دینا بھی جائز ہے، اور زوال کے بعد تقریر سے پہلے بھی جمعہ کی اذانِ اول دینا جائز ہے۔ البتہ آجکل چونکہ لوگ دینی امور میں سستی کرتے ہیں اور اذان کے بعد بھی دنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں جو کہ گناہ ہے، اس لئے اس گناہ سے بچانے کی خاطر آجکل بہت سی مساجد میں تقریر کے بعد اذانِ اول ہوتی ہے، تاکہ اس سے پہلے لوگ اگر اپنے دنیوی کاموں میں مشغول رہیں تو گناہ گار نہ ہوں۔
لیکن جہاں زوال کے بعد تقریر سے پہلے اذانِ اول ہوتی ہو ، وہاں لوگوں پر لازم ہوگا کہ اذانِ اول کے بعد کام چھوڑ کر جمعہ کی تیاری میں لگ جائیں ، اگر وہ اذانِ اول کے بعد بھی دنیوی کاموں میں مشغول رہے تو وہ گناہ گار ہوں گے۔
الهداية شرح البداية - (1 / 83)
2___جمعہ کے دن سنتوں اور خطبہ سے پہلے اردو یا اپنی زبان میں تقریر اور وعظ و نصیحت کرنا جائز ہے، لیکن لازم و ضروری نہیں ۔لہٰذا اگر کسی مسجد میں یہ تقریر نہ ہو بلکہ صرف اذانِ اول کے بعد سنتیں اور دوسری اذان کے بعد عربی خطبہ ہو تب بھی جمعہ ادا ہوجائے گا۔
المستدرك - (3 / 512)
3___۔خطبہ کے دوران مذکورہ ہیئت پر بیٹھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ خطبہ کے دوران جس طرح چاہے بیٹھ سکتا ہے۔ البتہ تشہد کی حالت میں بیٹھنا مستحب ہے،اور دونوں خطبوں میں ہاتھ رانوں پر ہی رکھےجائیں۔
الفتاوى الهندية - (1 / 148)
4___ایک قول کے مطابق جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان کا وقت بھی قبولیت کی گھڑی ہے، اس لئے اس میں دعا مانگنی چاہئے، البتہ زبان سے نہ مانگے، بلکہ دل ہی دل میں مانگے۔
فتح الباري - ابن حجر - (2 / 416)
5___خطبۂ جمعہ کے دوران آپ ﷺ کا نام آنے پر درود شریف دل میں پڑھ لینا چاہئے، زبان سے نہیں۔
بدائع الصنائع - (1 / 264)
شاد
سلسلہ مسائل (3)
==============
1_قسطوں پر کسی چیز کا ، کاروبار کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو یہ کاروبار شرعاً درست نہ ہوگا، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
(1)۔۔وہ کاروبار جائز اور حلال اشیاء کا ہو، ناجائز یا حرام اشیاء کا نہ ہو۔
(2)۔۔مجلسِ عقد میں ہی چیز کی پوری قیمت طے کرلی جائے۔
(3)۔۔تمام قسطیں بھی متعین کرلی جائیں۔
(4)۔۔کل قسطوں کی ادائیگی کی مدت بھی طے کرلی جائے۔
(5)۔۔مدت کے اندر اندر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں خریدار سے کوئی مالی جرمانہ یا مزید کسی رقم کا مطالبہ نہ کیا جائے، کیونکہ یہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔
2_سونے کا سونے کے ساتھ تبادلہ کے لیے شرعاً ضروری ہے کہ :
(الف)...دونوں طرف سے سونے کا وزن برابر ہو ۔
(ب)...دونوں طرف سے قبضہ بھی اسی مجلس ِعقد میں ہو۔
3_ کرنسی کے بدلے میں ادھار سونا بیچنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے چند شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :
(۱)…خریدوفروخت کے وقت ہی کل قیمت اور ادائیگی کی کل مدت کا تعین ہو جائے ۔
(۲)… دونوں عوضوں میں سے کسی ایک پر مجلس عقد ہی میں لازماً قبضہ کرلیاجائے مثلاً سونے پر یا کرنسی پر۔
(۳)…اگر رقم کی ادائیگی میں معینہ مدت سے کچھ تاخیر ہو جائے تو اس پر مزید رقم کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
(۴)...سونے کو ادھار کی صورت میں بازاری قیمت سے زیادہ پر فروخت نہ کیا جائے۔
شاد
سلسلہ مسائل (1)
===============
1_جس جگہ مچھر کا خون لگا ،وہ جگہ ناپاک نہیں ہوئی بلکہ پاک ہی ہے، تاہم دھولینا بہتر ہے۔
بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية - (1 / 61)
وَدَمُ الْبَقِّ وَالْبَرَاغِيثِ لَيْسَ بِنَجِسٍ عِنْدَنَا، حَتَّى لَوْ وَقَعَ فِي الْمَاءِ الْقَلِيل لَا يُنَجِّسُهُ، وَلَوْ أَصَابَ الثَّوْبَ أَكْثَرُ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ لَا يَمْنَعُ جَوَازَ الصَّلَاةِ.
2_خون جو ابھی زخم کے اندرہے اور زخم سے باہرنہیں نکلا،اگروہ کسی کپڑے پر لگ جائےتو اس سے وہ کپڑا ناپاک نہیں ہوگاالبتہ دھولینا بہتر ہے، لیکن اگر مذکورہ خون آلودہ کپڑے کو پانی سے دھویا جائےتو چونکہ سیّال اور مائعات میں امام محمدؒکے قول کو راجح قرار دیا گیا ہےجس کے پیشِ نظر وہ پانی ناپاک ہوجائے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 140)
(وَ) كُلُّ (مَا لَيْسَ بِحَدَثٍ) أَصْلًا بِقَرِينَةِ زِيَادَةِ الْبَاءِ كَقَيْءٍ قَلِيلٍ وَدَمٍ لَوْ تُرِك لَمْ يَسِلْ (لَيْسَ بِنَجَسٍ) عِنْدَ الثَّانِي، وَهُوَ الصَّحِيحُ رِفْقًا بِأَصْحَابِ الْقُرُوحِ خِلَافًا لِمُحَمَّدٍ. وَفِي الْجَوْهَرَةِ: يُفْتَى بِقَوْلِ مُحَمَّدٍ لَوْ الْمُصَابُ مَائِعًا..الخ
3_غسل کرتے ہوئےپانی کےبالٹی میں ایک، دو پانی کے قطرےجسم سے ٹکراکر گرجائیں تو اس صورت میں وہ پانی ناپاک نہیں ہےبشرطیکہ وہ قطرےنجس نہ ہوں۔
جنب اغتسل فانتضح من غسله شيء في إنائه لم يفسد عليه الماء. أما إذا كان يسيل منه سيلاناً أفسده، وكذا حوض الحمام على قول محمد - رحمه الله - لا يفسده ما لم يغلب عليه يعني لا يخرجه من الطهورية".
فتاوی ہندیہ، ۱/۲۳
شاد
مالی معاملات: اصولی مباحث اور جدید تحقیقات:
========÷•÷========
پوسٹ کے عنوان کے نام سے ہماری کتاب تیاری کے مراحل میں ہے۔ یہ کتاب مقدمہ اور چار ابواب پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں فقہ اور معاملات کا مختصر تعارف، فقہ المعاملات کا مطالعاتی نصاب اور معاملات کے مسائل کیسے حل کیے جائیں؟ پر چند گزارشات شامل ہیں۔ پہلے باب میں بیوع اور ربا- دوسرے باب میں شرکت، مضاربت، مزارعت اور اجارہ کے اصولی مباحث وجدید صورتیں- تیسرے باب میں تبرعات کا تعارف اور اہم عقود تبرع (قرض، عاریت اور ہبہ) کے اصول و معاصر صورتیں بیان کی گئی ہیں- چوتھے باب میں وہ مضامین و مقالات شامل ہیں جو مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں- اس باب کا عکس حاضر ہے-
اگلے مراحل کے لیے دعا کی درخواست ہے اور پہلی کتاب "فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ" کے بارے میں دو تین دن میں خوشخبری سنائی جائیگی۔ انشاء اللہ تعالی
خواستگارِ دعا: شادمحمد شاد
اصولِ افتاء کورس کی تکمیل:
========÷÷÷========
الحسان اکیڈمی کے تحت علماء کے لیے تین ماہ کا "اصول افتاء کورس" شروع کیا تھا جو پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ الحمد للہ
اس کورس کا بنیادی مقصد اس موضوع کا تعارف، اہمیت اور بنیادی اصول پیش کرنا تھا، تاہم اس کے ساتھ ساتھ مطالعہ کا بھی ایک خاص نصاب مقرر کیا گیا۔ اس کورس کے تین ماہ میں ہم نے جو کچھ پڑھا وہ حسب ذیل ہے:
1_اصول الافتاء وآدابہ: مکمل کتاب مع اضافہ مباحث
2_شرح عقود رسم المفتی
3_اصول تحقیق
اس کے علاوہ مطالعہ کا نصاب حسب ذیل تھا:
1_امداد الفتای جلد اول
2_امداد الاحکام جلد دوم
3_فتاوی عثمانی جلد سوم
4_الفاظ طلاق کے اصول
5_کتب فتاوی کا تعارف
6_فقہ البیوع کا خلاصہ
م۔شادمحمد شاد
حصول علم کے تین راستے:
"عقل" کا راستہ "حواس" کے راستے سے الگ ہے، جو چیز حواس سے نہ جانی جائے وہ عقل سے معلوم ہوسکتی ہے، اسی طرح "نبوت" کا راستہ عقل کے راستے سے الگ ہے، جو بات عقل سے دریافت نہ ہوسکے وہ نور نبوت (وحی) سے جانی جاسکتی ہے، جو شخص عقل کے اوپر علم کا کوئی اور راستہ تسلیم نہیں کرتا وہ درحقیقت نبوت کا منکر اور بداہت کا مخالف ہے۔
(مکتوبات مجدد الف ثانی 1/233)
آج ہمارے ایک دوست (جو جامعہ الرشید میں استاد ہیں) نے عرض کیا کہ آپ کی کتاب "فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ" کل سے حضرت استاد جی مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب مدظلہم کے سامنے ڈسک پر رکھی ہوئی تھی۔ آج دوپہر کے وقت تخصص کی کلاس میں حضرت نے دوران درس قواعد سے متعلق گفتگو میں آپ کی کتاب پر تبصرہ فرمایا۔ حضرت نے بہت تعریف کی۔ فرمایا کہ:
"حال ہی میں قواعد پر یہ تازہ کام ہوا ہے، اور ماشاءاللہ اس بندے نے کمال کیا ہے۔ میں نے اردو میں اور بھی قواعد کی کتب دیکھی ہیں، لیکن وہ اچھا کام نہیں اور بہت مختصر ہے، لیکن اس بندے تو کمال ہی کردیا ہے اور مقالہ نگاری کے اصولوں کے مطابق تحقیقی کام کیا ہے۔"
پھر سبق پڑھاتے رہیں اور پندرہ بیس منٹس بعد دوبارہ کسی قاعدہ پر گفتگو کرتے ہوئے آپ کی کتاب کا تذکرہ کیا اور بہت تعریف کی۔
سبق ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے، اس لیے دوست کو جتنے الفاظ یاد تھے، اس کا مفہوم اوپر عرض کردیا گیا۔
الحمد للہ حمدا کثیرا
تقریظ بر کتاب "فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ"
___________________________________
از: حضرت مولانا مفتی محمد صاحب مدظلہم
شیخ الحدیث ورئیس دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
============•÷•============
____زیرِ نظر کتاب "فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ" مولانا شاد محمد شاد صاحب کی تالیف ہے۔ فاضل مؤلف جامعہ دار العلوم کراچی سے دورۂ حدیث اور تخصص فی الافتاء کی تکمیل کے بعد سے تدریس و افتاء کے شعبے سے وابستہ ہیں، معاملاتِ مالیہ سے متعلق متعدد مقالات و مضامین بھی لکھ چکے ہیں۔ یہ مجموعہ بنیادی طور پر ان کا تدریسی حاصلِ مطالعہ ہے جو اب حذف و اضافہ اور تنقیح و تہذیب کے بعد کتابی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔
____کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ قواعدِ فقہیہ کا تعارف و مبادیات، اور دوسرا حصہ مجلۃ الأحکام العدلیۃ کے ننانوے قواعد کی تشریح و تحقیق۔ میں پوری کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ تو نہ کرسکا، تاہم دونوں حصوں کے چیدہ چیدہ مقامات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ فاضل مؤلف نے ما شاء اللہ اچھا کام کیا ہے۔
____کتاب کے پہلے حصے میں اس فن کے اہم اصولی مباحث کو جمع کیا گیا ہے جس کی فقہ اور اصولِ فقہ کی تدریس سے وابستہ مدرسین اور جدید موضوعات پر تحقیقی کام کرنے کا ذوق رکھنے والے اہلِ علم کے لیے بڑی اہمیت ہے۔ ان قواعد کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان سے بہت سی فروعات و جزئیات ضبط ہوجاتے ہیں جو قواعد کے بغیر منتشر و متشتت نظر آتے ہیں اور ان کا یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض جزئیات و فروعات میں بظاہر تعارض نظر آنے کے باوجود قواعد کی رو سے وہ ایک مربوط نظامِ فقہی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ک
____کتاب کے دوسرے حصے میں ہر ہر قاعدے کی باحوالہ، عام فہم تشریح و تحقیق اور تطبیقات ذکر کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔
____چونکہ ہمارے ہاں اردو زبان میں اس فن پر بہت کم کام ہوا ہے، اس لیے یہ کتاب ان شاء اللہ اردو ذخیرۂ کتب میں ایک عمدہ اضافہ ثابت ہوگا۔ علمائے کرام تو عربی مآخذ سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں، مگر اردو دان طبقہ ظاہر ہے کہ اردو ہی سے استفادہ کرسکتا ہے، ان کی معلومات کے لیے یہ ایک مفید اور عمدہ مجموعہ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبولیتِ عامہ و تامہ عطا فرمائیں اور فاضل مؤلف کو مزید علمی و تحقیقی کاموں کے لیے موفق بنائیں۔ آمین
_________________________________
کتاب کے حصول کے لیے رابطہ:
03150944083
03212466024
ان اشعار کو اپنی آواز میں ترنم کے ساتھ ریکارڈ کرکے آڈیو مجھے بھیج دیں۔ جس کی آڈیو منتخب ہوجائیگی ان کو کتاب انعام میں بھیج دی جائیگی
Читать полностью…فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ: ایک تعارف
======================
محترم مولانا اسامہ سرسری صاحب سلمہ اللہ کو باری تعالی جزاء خیر عطا فرمائے، انہوں نے اس مختصر سی ویڈیو میں کتاب کا اچھا تعارف پیش کیا ہے۔
ویڈیو لنک:
https://youtu.be/Bdf7aH_aQbQ
ایک قاری کے تاثرات:
======================
آج ایک کال آئی۔ بنوں سے کوئی بزرگ شخصیت بات کررہی تھی۔ فرمانے لگے کہ آپ کی کتاب (فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ) موصول ہوئی، فہرست اور چند اہم مقامات دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ انہوں نے تفصیلی گفتگو کی، لیکن دو باتیں سن کر مجھے جو قلبی سکون ملا، وہ بیان سے باہر ہے۔ کہنے لگے:
1_ آپ نے دارالعلوم کراچی کے طالب علم ہونے کا حق اداء کردیا۔
2_آج ڈاکٹر محمود غازی رحمہ اللہ زندہ ہوتے تو آپ کے کام سے بہت خوش ہوتے اور آپ کو انعام سے نوازتے۔
فالحمد للہ حمدا کثیرا
السلام علیکم
جن ساتھیوں کو کتاب موصول ہوچکی ہے، براہ کرم وہ مجھے پرسنل میں میسج کردیں۔
شکرا
سلسلہ مسائل (8)
==============
1___ہر رکعت میں سورۃِ فاتحہ سے پہلے پست آواز میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے، البتہ سورۃِ فاتحہ کے بعد سورۃ پڑھنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مسنون نہیں ہے، بلکہ سورۃِ فاتحہ کے فوراً بعد سورۃ شروع کر دینی چاہیئے، تاہم اگر کسی نے بسم اللہ پڑھ لی تو نماز مکروہ بھی نہیں ہوگی، بلکہ بعض علماء کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا بہتر ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 490)
2___نماز میں اضافی دعائیں پڑھنے میں یہ تفصیل ہے کہ:
جب آدمی نوافل پڑھتا ہو یا فرض تنہا پڑھتا ہو تو دعاء کا پڑھنا مستحب ہے، البتہ امام کے لیے اس شرط کے ساتھ مستحب ہے کہ مقتدیوں کو گرانی نہ ہو، اور اگر امام پڑھتا ہے اور مقتدیوں کو بھی وقت مل جاتا ہے تب تو مقتدی بھی پڑھے ورنہ امام کا اتباع کرے (اور دعاء نہ پڑھے)۔اور اگر مقتدیوں کو گرانی ہو تو امام نہ پڑھے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 505)
3___کچھ لوگ نماز کے لیے پینٹ فولڈ کرتے ہیں، فولڈ کرنے سے اصل مقصد چونکہ شلوار اور پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا ہے اور یہ مقصد اندر اور باہر دونوں طرف فولڈ کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے لہٰذا شلوار اور پینٹ کو دونوں طرف فولڈ کر سکتے ہیں۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ شلوار، تہبند اور پینٹ ٹخنوں سے اوپر رکھنا صرف نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں ٹخنوں سے اوپر رکھنا ضروری ہے۔
شاد
اور کتاب چھپ گئی:
•============================•
____الحمد للہ! میری کتاب ”فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ“ (The Legal Maxims of Islamic Law) ”دارالصدیق،صوابی“ سےچھپ کر منظر عام پر آگئی ہے۔ تقریبا آٹھ سو (800) صفحات کی اس ضخیم کتاب کی ترتیب وتالیف پر گزشتہ پانچ سال کا عرصہ لگا۔ کتاب پر حضرت مولانا مفتی محمد صاحب مدظلہم (جامعۃ الرشید) اور حضرت مولانا مفتی سید حسین احمد صاحب مدظلہم( (جامعہ دارالعلوم کراچی) نے تاثرات تحریر فرمائے ہیں۔
____کتاب کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اس كتاب كو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
•پہلا حصہ قواعدِ فقہیہ کے نظری پہلو پر مشتمل ہے جس میں آسان انداز اور سلیس تعبیر میں درج ذیل امور کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے:
•قواعدِ فقہیہ کامکمل تعارف، قواعدِ فقہیہ اور دیگر علوم میں فروق
•قواعدِ فقہیہ کے فوائد،اقسام، اور حجیت ودائرہ کار
•قواعدِ فقہیہ کے مآخذ ومصادر کی تحقیق
•قواعدِ فقہیہ کی تاریخ، آغاز واِرتقاء اور اس موضوع پر اردو میں کیا گیا کام
•قواعدِ فقہیہ کی قدیم وجدید کتب کا تعارف اور ان کے اَسالیب ومناہج
•کتاب کے دوسرے حصے میں فقہی قواعد کی تحقیقی وتطبیقی پہلو کو بیان کیا گیا۔ اس حصے میں بنیادی طور پر مجلہ الاحکام العدلیہ کے ننانوے(99)فقہی قواعد کی ایسی تشریح وتحقیق کی گئی ہے کہ تقریبا ہر قاعدہ ایک مستقل مقالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر قاعدے کے تحت درج ذیل مباحث کو شامل کیا گیا ہے:
•قاعدہ کا ترجمہ اور متبادل تعبیرات
•ہر لفظ کی لغوی واصطلاحی تحقیق
•قاعدہ کی تاصیل ودلیل
•قاعدہ کا مفہوم،تفریعات اورمستثنیات
•ہر قاعدے کی عملی مثالیں اور جدید ومعاصر مسائل پر تطبیق
•ہر قاعدے سے متعلق فقہ واصولِ فقہ کے مباحث کی تحقیق
____فقہی قواعد پر اردو زبان میں کئی کتابیں موجود ہیں، لیکن امید ہے کہ قارئین کو اس کتاب میں مندرجہ ذیل خصوصیات ملیں گی:
الف- کتاب کی عمدہ ترتیب، انداز اور طرز واسلوب
ب-متعلقہ موضوع کا اہم اور کثیر مواد ومباحث
ج-مواد ومباحث کا تجزیہ اور فقہ واصولِ فقہ کے مباحث کی تحقیق
یہ اُردو زبان میں اپنے موضوع پر ایسی کاوش ہے جو بیک وقت اہلِ افتاء، طلبہ ومدرسین، اسلامی قانون کے ماہرین، اساتذہ اور یونیورسٹیز کے طلبہ کے لیے مفید ہوگی۔ انشاء اللہ تعالی
____کتاب کی ضخامت (800،صفحات) اور عمدہ ٹائٹل وکاغذ کے باوجود کتاب کی قیمت پانچ سو (500)روپے [علاوہ ڈیلیوری جارجز] مقرر کی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل پتہ، رابطہ نمبر اور ای میل پر رابطہ کرکے کتاب منگوائی جاسکتی ہے:
* درالصدیق، لنشر البحوث الاسلامیہ والعلمیہ، بام خیل صوابی، خیبر پختونخواہ
* فون نمبرز:
03139803280
03326805945
* ای میل:
alsiddiq2016gmail.com
شادمحمدشاد
03443884654
سلسلہ مسائل (7)
================
•اولاد کے لیے والد کی حرام رقم استعمال کرنا:
1___اگر بالغ اولاد مستحقِ زکوۃ ہیں ( یعنی ان کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر سونا، چاندی، نقدی اور ضرورت سے زائد سامان نہيں ہے) تو مستحقِ زکوۃ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے والد صاحب کی دی ہوئی حرام رقم کا استعمال جائز ہے،کیونکہ مالک نہ ملنے کی صورت میں کسی مستحقِ زکوۃ کو صدقہ کرنے سے بھی انسان بری ہوجاتا ہے۔
2___اگر اولاد مستحقِ زکوۃ نہیں ہیں اور ان كے والد صاحب كی مکمل آمدنی حرام ہو، اور ان کی ملکیت میں حلال ذرائع سے حاصل شدہ رقم بالکل نہ ہو اور وہ بعینہ حرام رقم سے ان کو خرچی دیں تو ایسی صورت میں ان کے لئے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
3___اگر ان کے والد صاحب کے پاس حلال ذرائع سے حاصل شدہ رقم بھی ہو( مثلا ً ان کے والد صاحب نے کسی سے قرض لیا ہو یا ان کو میراث یا بطورِ ہدیہ کوئی رقم ملی ہو ) اور وہ حلال وحرام سے مخلوط رقم سے اولاد کو کچھ دیں تو اگر اولاد کا غالب گمان یہ ہوکہ ان کے والد صاحب نے ابھی تک وہ حلال رقم خرچ نہیں کی ہے، تو اس حلال رقم کی حد تک وه اولاد کو جتنی رقم دے ان کے لئے اس کا استعمال جائز ہے، اس سے زائد کا نہیں (مثلاً ان کے والد صاحب کے پاس حلال ذرائع سے مبلغ دس ہزار روپے ہے، اور اولاد کا غالب گمان یہ ہے کہ جب سے یہ رقم ان کے پاس آئی ہے اس وقت سے انہوں نے دس ہزار روپے خرچ نہیں كئے ہيں ، تو اگر وہ اولاد کو دس ہزار یا اس سے کم دے تو اولاد کے لئے اس کا استعمال جائز ہے، اگر اس سے زیادہ دےتو اس زیادہ کا استعمال جائز نہیں ہوگا)
شاد
سلسلہ مسائل (3)
===============
1_ زمزم کے پانی سے استنجاء کرنا مکروہِ تحریمی ہے، اس لئے اس سے بچنا ضروری ہے۔ جہاں تک غسل اور وضو کا تعلق ہے تو زمزم کا پانی چونکہ نہایت متبرک پانی ہے اس لئے جنبی اور بے وضو شخص اُسے غسل اور و ضو نہ کرے، البتہ اگر پاک بدن والا شخص برکت حاصل کرنے کی نیت سے غسل یا و ضو کرے تو بلاکراہت جائز ہے۔
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 625)
[مطلب في الاستنجاء بماء زمزم]
2_ احناف کے نزدیک غسل میں مینڈھیاں کھولنے یا نہ کھولنےکے اعتبار سے جنبی اور حائضہ عورت میں فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر عورت کے سر کے بال کی مینڈھیاں گندھی ہوئی ہوں تو ان کا کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچا دینا کافی ہے یعنی اس طرح کرے کہ سر پر پانی ڈال کربالوں کو ہاتھ سے دبائے کہ پانی جڑوں میں پہنچ جائےاور اگر بال کھلے ہوں تو تمام بالوں کا تر کرنا ضروری ہے۔
3_جسم کے کسی حصہ کی گدائی کرانے کی صورت میں جو سیاہی اوررنگ اس میں بھرا جاتا ہے وہ چونکہ جسم کا حصہ بن جاتا ہے جسے سخت تکلیف کے بغیر بآسانی دور نہیں کیا جاسکتالہٰذاغسل وغیرہ کیلئےاس کو اُکھیڑنا ضروری نہیں ، وہ حصہ دھونے سے پاک ہوجائے گا ،اوروضو،غسل میں اُسی سیاھی وغیرہ پر پانی بہا دینا کافی ہوگا۔
واضح رہے کہ جسم گودنااورگدائی کروانا ناجائز اور حرام عمل ہے،اور ایسے مردو عورت پر لعنت کی گئی ہے ،لہٰذا اس عمل سے اجتناب کرنا لازم ہے ،اور جسم کے جس حصہ کی گدائی کروائی ہےاُس سے اگر بآسانی اِسےدور کیا جاسکتاہوتو یہ سیاھی زائل کرنا ضروری ہے۔
صحيح البخاري - (1 / 355)
حدثنا سليمان بن حرب حدثنا شعبة عن عون بن أبي جحيفة قال رأيت أبي فقال إن النبي ﷺ نهى عن ثمن الدم وثمن الكلب وآكل الربا وموكله والواشمة والمستوشمة
فتح الباري - ابن حجر - (10 / 372)
شاد
سلسلہ مسائل (2)
===============
1_ ایک خیالی کھیل (Fantasy Sport) کے نام سے لوگ کھیلتے ہیں، اس کا طریقہ کار قمار (جوے )اور غرر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ کیونکہ اس خیالی کھیل میں شمولیت کیلئے صارف کو پہلے اپنے اکاؤنٹ میں فیس جمع کروانی ہوتی ہے، اور فیس جمع کروانے کے بعد وہ صارف، کھلاڑی منتخب کرنے کا اہل ہوتا ہے، پھرحقیقی میچ شروع ہونے کے بعد اگر صارف کے منتخب کردہ کھلاڑی اچھا کھیلیں تو صارف کے پوائنٹ بڑھتے ہیں اور آخر میں جس کے پوائنٹ زیادہ ہوئے اسے طے شدہ طریقہ ٔ کار کے تحت انعام ملتا ہے، اور اگر حقیقی میچ میں صارف کے منتخب کردہ کھلاڑیوں نے اچھا نہیں کھیلا اور صارف کےپوائنٹ کم ہوئے تو اُسے انعام نہیں ملتا اور فیس کی رقم بھی واپس نہیں ہوتی۔ گویا اس کھیل میں صارف فیس کی رقم کو داؤ پر لگا رہا ہےکہ یہ فیس کی رقم یا تو ضائع ہو جائے گی یا اپنے ساتھ مزید رقم لے آئے گی، اور اسی کا نام قمار ہے جو ناجائز اور حرام ہے۔
بحوث في قضايا فقهية معاصرة – (2/157) (أحكام الجوائز)
والذی يتبين من النظر فی أحكام القرآن والسنة والفقه الإسلامی بشأن القمار، أن القمار يتركب من أربعة عناصر: الأول: أنه عقد معاوضة بين جهتين أو فردين. الثانی: أن كل فريق فی هذا العقد يعلّق ملكه علی خطر. الثالث: أن حصول المال الزائد فی هذا العقد موقوف علی واقع يحتمل الوقوع وعدمه. الرابع: أن المال المعلّق علی الخطر فی القمار إما يضيع من يد صاحبه بدون عوض أو يجلب مالا أكثر. فحيث وجدت هذه العناصر الأربعة تحقق القمار.
2_قسطوں پر جو پلاٹ خریدا جائے تو خریدنے والا اس پلاٹ کا مالک بن جاتا ہے چاہے قبضہ ملا ہو یا نہ ملا ہو اور چاہے قسطیں باقی ہوں یا نہ ہوں، لہذا اس میں زکوۃ کی یہ تفصیل ہے کہ:
الف- اگر مذکورہ پلاٹ تجارت (بیچ کر نفع کمانے) کی نیت سے قسطوں پر لیا ہے تو اس پر زکات واجب ہوگی، یعنی اس کی موجودہ قیمتِ فروخت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا لازم ہوگا، البتہ واجب الاداء اقساط میں سے جن قسطوں کی ادائیگی زکات کے رواں سال میں واجب ہوگئی تھی وہ کل رقم سے منہا کرنے کے بعد بقیہ رقم کی زکات ادا کی جائے گی۔
ب- اگر مذکورہ پلاٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدا، بلکہ ذاتی استعمال کے لیے خریدا ہے یا کاشتکاری کے لیے خریدا ہے تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
شاد
واٹس ایپ گروپس:
https://chat.whatsapp.com/DgiEswbuf2tIvrOwivW3zV
https://chat.whatsapp.com/HNXj1gpTra3HZdxp8f8yS6
https://chat.whatsapp.com/FxsOVj4SxMF2VNrZ3F6Nao
ٹیلی گرام چینل
/channel/muftishad
دروس فقہ البیوع (چوتھا درس)
=====÷•÷=====
آج کے درس میں دو نکات کی تفصیل بیان کی گئی ہے:
1_ مزایدہ (Auction)
2_ مناقصہ (Reverse Auction)
https://youtu.be/FC0WLekpAMw
اصول تحقیق:
1-حواشی _ 2-تعلیقات _ 3-حوالہ _ 4-اقتباس
https://youtu.be/255kwgE83-s