📢 حادثہ فاجعہ📢
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ھمارے بہنوئ اور حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی کے سمد ھی ۔
جمعیہ علماء اترپردیش کے صدر ۔ جامعہ محمودیہ کانپورکےبانی و ناطم اعلی ۔ وقاضی شہر کانپور ۔ حضرت مولانا محمد متین الحق اسامہ صاحب قاسمی کا آج بتاریخ ۱۸ جولائ رات تقریبا دو ۲ بجےشہر کانپور میں انتقال ہوگیاھے ۔،،،
انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالی مرحوم کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یارب العالمین ۔
آپ جمعیہ علماء اترپردیش کے صدر ہونے کی حیثیت سے لاک ڈاؤن ہونے کے بعد سے مسلسل ملت کی خدمات میں مصروف رھے ۔حتی کہ چند دنوں قبل بخارکے عارضہ میں مبتلا ہوئے ۔
دیگر عوارض ۔ شوگر کٹنی پراولم وغیرہ کی وجہ سے مرض ناقابل کنٹرول ہوا تو اسپتال میں ایڈ مٹ کئے گئے اور کل رات تقریبا ۸ آٹھ بجے ہارٹ اٹیک کے بعد طبیعت مزید نازک ہونے کے ساتھ رات دو ۲ بجے آپ اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
مرحوم مجھ سے صرف دیڑھ سال بڑے اور میرے دار العلوم دیوبند کے دوسالہ درسی ساتھی تھے ۔ ھم دونوں سگیے خالہ زاد بھائ ۔ بے تکلف ساتھی اور باھم سالے بہنوئ بھی تھے ۔ انہوں نے اپنے آپ کو دینی و ملی کاموں کےلئے رات ودن وقف کررکھاتھا اور ان دنوں بھی مسلسل ملی خدمات میں مصروفیت کی بناء پر ھی بیمار ہوئے اور مختصر علالت کے بعد آج رات اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
اللہ تعالی سے دعاء ھیکہ وہ آپ کو ان ملی خدمات کے طفیل اپنے یہاں اعلی سے اعلی مقام عطافرمائے ۔
اور میری بہن اور بھانجوں نیز تمام اھل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
آپ کے انتقال پر ملال کی نا گہانی خبر سے پورے علاقے میں غم کی لہر دوڑ گئ ۔ اور تمام دینی وملی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ۔اس قحط الرجال کے دور میں آپ کا ھم سے اتنی عجلت میں جدا ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملنا ۔یہ کسی ایک طبقے کا خسارہ نھیں ۔
بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مشرکہ خسارہ ہے ۔جسکا پر ہونا بظاہر بہت مشکل ہے ۔
تاھم خدا وند قدوس سے دعاء ھیکہ ملت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے ۔
اور آپ کے قائم کردہ ادارے ۔ جامعہ محمودیہ کانپورو دیگر درجنوں مدارس ومکاتب ۔ جنکی آپ آب یاری کرتے تھے ان سب کے اسی شان کے ساتھ چلتے رھنے کے اسباب عطافرمائے ۔
شریک غم
مفتی محمد حذیفہ قاسمی بھیونڈی ۔
ناظم تنظیم جمعیہ علماء مہاراشٹر
نداۓ دارالعلوم کا تازہ شمارە(ماہ ذی قعدہ) نذر قارئین ہے...!
Click here to download latest issue (Jun-Jul Issue)of Nida e Darul Uloom..!
https://dud.edu.in/images/pdf/NIDA%20ziqada1441%20full-min.pdf
عالم اسلام ایک گوہر نایاب سے محروم
ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم التدریس،جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
شہر استبداد کے دیوار و در ڈھاتا رہا
گم شدہ اسلاف کی تصویر دکھلاتا رہا
ان کے کمالات و محاسن میں جواب اس کا نہیں
اس قبیلے میں کوئی بھی ہم رکاب اس کا نہیں
آج بتاریخ 25، رمضان المبارک 1441ھ/مطابق 19مئ2020 بروز منگل بوقت چاشت عالم اسلام کے عالمی دینی درسگاہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے صرف شیخ الحدیث وصدرالمدرسین، یا برصغیر کے ایک چوٹی کے عالم دین ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے عبقری شخصیت،قدوةالمفسرين، زبدة العارفين، رئيس المحدثين، استاذالاساتذه، عالم ربانی، علماء سلف کے سچے پیروکار، ان کی سیرت کا بہترین نمونہ، غیرت و حمیت اسلامی کا علمبردار، مجسمہ علم و عمل، اصول و ضوابط کی پاسداری میں یکتائے زمن، اخلاص و للہیت اور خشیت ایزدی کا پیکر، شارح بخاری و ترمذی، علوم ولی اللہی کے سچے جانشین، موسی ع وہارون ع کے ایک عمدہ نمونہ ، مردم شناس و مردم ساز، مربی جلیل، ہزاروں کے سائبان شفقت، لايخافون لومة لائم کا خوگر، بھاری اعمال ناموں والی شخصیت، ترجمان اہلسنت والجماعت، جامع الکمالات والمحاسن، میرے بخاری شریف کے چھ اساتذۂ کرام میں سب سے محبوب استاذ، استاذ محترم حضرت اقدس مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قدس سرہٗ اپنے پیچھے ہزارہا علماء، صلحاء اور طلباء کو روتے بلکتے چھوڑ کر اس فانی دنیا سے عالم عقبی کی طرف روانہ ہوگئے۔
انا لله وانا اليه راجعون، ان الله ما اخذ وله مااعطى وكل شئ عنده باجل مسمى.
حضرت قدس سرہٗ کا سانحہ اس قدر شاق و سنگین ہے کہ اپنی نوعیت میں صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ اس کے ضمن میں صدہا سانحات مضمر ہیں۔
ليس على الله بمستنكر
ان يجمع العالم فى واحد
شورش کاشمیری مرحوم نے یہ اشعار شاید ایسے ہی موقعہ کے لئے کہا تھا
عجب قیامت کا حادثہ ہے اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے
تیرے جدائی سے مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا، کارواں گیا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
اللہ تعالی کا آپ پر بے حساب اور بے کراں رحمتیں نازل ہوں، رب ذوالجلال آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، اور قبر میں کروٹ کروٹ راحت و سکون نصیب فرماتے ہوئے آپ کو جنت الفردوس کا مکیں بنائے۔
اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وارفع درجاته فى اعلى الجنات، اللهم لا تحرمنااجره، ولا تفتنا بعده، آمين يارب العالمين
حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ اسلامی علوم کے دُرِّ تابندہ تھے، ان کی وفات علمی حلقوں کا ناقابل تلافی نقصان ہے!مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا تعزیتی بیان
حیدرآباد:19؍مئی(پریس ریلیز)مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ مقبول مدرس، صاحب نظر مصنف اور ایک عظیم محقق تھے، انھوں نے نصف صدی سے زیادہ درس نظامی کی منتہی کتابوں کا درس دیا، اور طویل عرصہ تک بخاری اور ترمذی جیسی حدیث کی اہم کتابیں نہایت کامیابی کے ساتھ پڑھائیں، پوری دنیا میں ان کے تلامذہ مختلف جہتوں سے دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، عام طور پر تدریس کے پیشہ سے وابستہ اہل علم تصنیف وتالیف کی طرف کم توجہ کر پاتے ہیں؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو دوہری صلاحیت کا امتزاج بنایا تھا، انھوں نے اکثر اسلامی اور عربی علوم پر قلم اُٹھایا، بخاری شریف اور ترمذی شریف کی بہت سی اردو شرحیں بر صغیر میں لکھی گئی ہیں؛ لیکن اس سلسلہ میں ان کی کاوش کو جو قبولیت حاصل ہوئی، کم ہی کسی دوسرے مصنف کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی، مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اپنے موضوع پر ایک بے نظیر مگر دقیق کتاب سمجھی گئی ہے، آپ نے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ اس کی شرح فرمائی ہے، جس نے اس سے استفادہ کو آسان کر دیا ہے، انھوں نے ہدایت القرآن کے نام سے قرآن مجید کی ایک ایسی تفسیر لکھی ہے جو اساتذہ وطلبہ اور عام اصحاب ذوق کے لئے فہم قرآن کی بہترین کلید ہے، درس وتالیف کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے خطابات بھی ہوا کرتے تھے، اور ان کے بیانات پر بھی علمی رنگ حاوی ہوتا تھا، وہ واقعی علوم اسلامی کے دُرِّ تابندہ تھے، ان کی وفات سے پوری علمی دنیا کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، اور امت کو ان کا بدل عطا کرے۔
نہایت مؤثر، درس نہایت مقبول اور عام فہم ہوتا تھا، اسی طرح آپ کی تمام تصانیف نہایت آسان، عام فہم اور مقبول عام و خاص ہیں، آپ کی تقریریں نہایت مبسوط اور علمی نکات سے پر، اور تحریر یں نہایت مرتب، واضح اور جامع ہوتی، اسی لئے آپ کی کئی تصانیف دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہیں۔
🌷ترقیات کا راز:
مفتی صاحب کو اللہ جل شانہ و عم نوالہ نے بہت سی خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا، آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس تھا، مزاج میں استقلال اور اعتدال تھا، فطرت میں سلامت روی اور ذہن رسا کے مالک تھے، زود نویس اور خوش نویس تھے، حق و باطل اور صواب و خطا کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت رکھتے تھے اور حقائق و معارف کے ادراک میں یکتائے زمانہ تھے۔
اور سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ موصوف اپنے کاموں میں نہایت چست اور حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے والے تھے، موصوف کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے حضرت اقدس جیسا شب و روز محنت کرنے والا مصروف آدمی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، آپ کے تمام شاگرد جانتے ہیں کہ آپ کادرس کتنا مقبول تھا؟ اور جن حضرات کو آپ کی تصانیف دیکھنے، اور تقاریر سننے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ آپ کی تصانیف اور تقاریر کتنی پر مغز، مرتب اور جامع ہوتی ہیں ؟اور آپ کے خدام جانتے ہیں کہ حضرت اقدس اپنی اور اپنے متعلقین کی کتابوں کی تصحیح و طباعت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے اور اپنے بھائیوں اور اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا کس قدر خیال فرماتے تھے۔
🌷اجازت بیعت و ارشاد:
موصوف جس طرح علوم ظاہری میں درک و کمال رکھتے تھے اسی طرح علوم باطنی سے بھی بہرہ ور تھے، مگر اس کا اس قدر اخفاء فرماتے ہیں کہ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صرف علوم ظاہری میں مہارت رکھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ طالب علمی کے زمانہ سے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ سے بیعت تھے، اور دیگر بزرگان دین سے بھی فیض یافتہ ہیں، خاص طور پر حضرت اقدس مولانا عبد القادر صاحب رائے پوری قدس سرہ کی مجالس میں مظاہر علوم کی طالب علمی کے زمانہ میں شرکت کرتے رہے ہیں، اور حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری کے مجاز بیعت و ارشاد تھے۔
🌷زیارت حرمین شریفین:
موصوف نے کئی بار زیارت حرمین شریفین کا شرف حاصل کیا، سب سے پہلے 1400ھ مطابق ۱۹۸۰ء میں اہلیہ محترمہ کے ساتھ پانی کے جہاز سے سفر کیا، اور فریضۂ حج ادا کیا …پھر ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء میں افریقہ سے دوسرا حج کیا، چونکہ آپ پہلے فرض حج ادا کر چکے تھے، اس لئے موصوف نے یہ دوسرا حج آنحضرتﷺ کی طرف سے حج بدل کے طور پرکیا ہے …پھر ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء میں سعودی وزارت حج و اوقاف کے مہمان کی حیثیت سے تیسرا حج کیا…اور ایک بار ربیع الاول ۱۴۱۴ھ میں عمرہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔
*انتقال پر ملال*
حضرت مفتی صاحب 25/ رمضان المبارک 1441 ھ مطابق 19/ مئ بروز پیر بوقت چاشت اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے، اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے !آمین۔
٭٭٭
📚مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:
1⃣ روشن چراغ
2⃣ العون الکبیر میں شامل مولانا مفتی محمد امین صاحب کا مضمون۔
3⃣ رحمۃ اللہ الواسعۃ میں درج حالات۔
4⃣ مفتی صاحب کی تصنیفات۔
میں ان کا تقرر ہو گیا تھا، موصوف کو خط سے مطلع کیا کہ دارالعلوم دیوبند میں ایک جگہ خالی ہے، لہٰذا آپ دارالعلوم میں تدریس کی درخواست بھیجیں، موصوف نے جناب مولانا حکیم محمد سعد رشید صاحب اجمیری کے مشورہ سے درخواست بھیج دی، اس کے ہمراہ ایک مکتوب حضرت قاری محمد طیب صاحب کے نام ارسال فرمایا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ نے اس کے جواب میں جو گرامی نامہ بھیجا وہ درج ذیل ہے :۔
محتر می ومکرمی زید مجدکم!
سلام مسنون، نیاز مقرون، گرامی نامہ باعث مسرت ہوا، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب پر کام کرنے کی اطلاع سے غیر معمولی خوشی ہوئی جو صورت آپ نے اختیار فرمائی ہے وہ مناسب ہے، خود میرے ذہن میں ان کتب کی خدمت کی مختلف صورتوں میں سے ایک یہ صورت بھی تھی، الفرقان میں پڑھنے کی نوبت نہیں آئی، ان شاء اللہ رسائل منگوا کر مستفید ہوں گا، اور جو رائے قائم ہو گی وہ عرض کروں گا۔
درخواست منسلکہ مجلس تعلیمی میں بھیج رہا ہوں، اس پر وہاں سے کوئی کار روائی ضرور کی جائے گی، اس کی اطلاع دی جائے گی، دعا کی درخواست، قاسم العلوم کے میرے پاس دو نسخے تھے، ایک نسخہ اسی ضرورت سے وہاں بھیجا گیا، مگر واپس نہیں ہوا، اب ایک رہ گیا ہے جو صاحب نقل کرنا چاہیں وہ ایک وقت مقرر کر کے میرے کتب خانہ میں ہی بیٹھ کر نقل فرما لیا کریں، اور یہاں بحمد للہ خیریت ہے۔ والسلام
محمد طیب از دیوبند
۷-۷-۹۳ھ
یہ گرامی نامہ ۷/رجب ۱۳۹۳ھ کا لکھا ہوا ہے، اسی سال شعبان میں جب مجلس شوری کا انعقاد ہوا، اور درجات عربیہ کے لئے ایک مدرس کے تقرر کا تذکرہ آیا تو حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی قدس سرہ نے موصوف کا نام پیش کیا اور اسی مجلس میں موصوف کا تقرر ہو گیا، موصوف کو شعبان ہی میں اس کی اطلاع دے دی گئی، رمضان المبارک کے بعد آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے، اس وقت سے آج تک دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔
🌷دیگر خدمات:
تعلیمی وتدریسی خدمات کے علاوہ موصوف نے دارالعلوم دیوبند میں جو خدمات انجام دیں ان کے مفصل تذکرہ کی اس مختصر تعارف میں گنجائش نہیں، صرف چند خدمات کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے :
(۱) 1402ھ میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب نے طویل رخصت لے لی تھی، حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہ سہانپور چلے گئے تھے، اور کچھ مفتیان کرام نے دارالعلوم سے علاحدگی اختیار کر لی تھی، اس لئے ارباب انتظام نے موصوف کو کتب متعلقہ کی تدریس کے ساتھ شعبۂ افتاء کی نگرانی اور فتوی نویسی کا حکم دیا تھا، جس کو بحسن و خوبی موصوف نے انجام دیا، اس سے پہلے ۱۳۹۵ھ میں بھی موصوف کو دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی نگرانی سپرد کی گئی تھی۔
(۲) جب سے دارالعلوم دیوبند میں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے، آپ اس کے ناظم اعلیٰ ہیں، 1419ھ میں آپ نے اس منصب سے سبکدوش ہونے کی مجلس شوری سے درخواست کی تھی، مگر مجلس شوری نے منظور نہیں فرمائی، اور ایک ہزار روپئے ماہانہ الاؤنس کے طور پر طے فرمائے، مگر آپ نے الاؤنس لینے سے انکار کر دیا، اور ذمہ داری کو سنبھال رہے ہیں۔
(۳) مذکورہ بالا خدمات کے علاوہ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم جو تحر یری اور تقریری خدمت موصوف کو سپرد فرماتے ہیں، اس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔
🌷تصنیفی خدمات:
حضرت مولانا کی تصانیف جو شائع ہو کر مشرق و مغرب میں پھیل چکی ہیں، ان میں سے کچھ کا تعارف درج ذیل ہے :
(۱) تفسیر ہدایت القرآن : یہ مقبول عام و خاص تفسیر ہے، پارہ ۳۰ اور ایک تا ۹ حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی صاحب رحمہ اللہ کے لکھے ہوئے ہیں، بقیہ کام حضرت والا نے کیا ہے۔
(۲) الفوزالکبیر کی تعریب جدید: یہ سابقہ تعریب کی تہذیب ہے، دار العلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصابِ درس میں داخل ہے۔
(۳) العون الکبیر : یہ الفوز الکبیر کی عربی شرح ہے، پہلے قدیم تعریب کے مطابق تھی، اب جدید تعریب کے مطابق کر دی گئی ہے۔
(٤) فیض المنعم: یہ مقدمۂ مسلم شریف کی معیاری اردو شرح ہے، جو ترکیب، حل لغات اور فن حدیث کی ضروری بحثوں پر مشتمل ہے۔
(۵) تحفہ الدر ر: یہ نخبۃ الفکر کی بہترین اردو شرح ہے، کتب حدیث پڑھنے والوں خصوصاً مشکوۃً شریف پڑھنے والوں کے لئے نہایت قیمتی سوغات ہے۔
(٦) مبادی الفلسفہ:اس میں فلسفہ کی تمام اصطلاحات کی عربی زبان میں مختصر اور عمدہ وضاحت کی گئی ہے، دارالعلوم دیوبند، اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے۔
(۷) معین الفلسفہ: یہ مبادیِ الفلسفہ کی بہترین اردو شرح ہے، اور حکمت وفلسفہ کے پیچیدہ مسائل کی عمدہ وضاحت پر مشتمل معلومات افزا کتاب ہے۔
(۸) مفتاح التہذیب: یہ علامہ تفتازانی کی ’’تہذیب المنطق ‘‘کی ایسی عمدہ شرح ہے کہ اس سے ’’شرح تہذیب‘‘جو مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے، خوب حل ہو جاتی ہے۔
(۹) آسان منطق: یہ تیسیرا لمنطق کی تہذیب ہے، دارالعلوم دیوبند اور بہت سے مدارس میں ’’تیسیرالمنطق‘‘ کی جگہ پڑھائی جاتی ہے۔
(۱۰) آسان نحو(دو حصے )۔
(۱۱
🌹 *حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری*
💐 تعارف وخدمات
ولادت: 1360ھ/ 1940 ء
وفات: 1441 ھ / 2020 ء
✒از: *محمد حماد کریمی ندوی*
🏛ناظم آل انڈیا المعھد الاسلامی العربی
🌷مختصر سوانحی خاکہ
نام: (سعید) احمد
والد کا نام: جناب یوسف صاحب
جائے پیدائش: کالیڑہ، شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
تاریخ پیدائش: 1940ء کا آخر مطابق 1360ھ
ابتدائی تعلیم: مکتب (کالیڑہ) شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
ثانوی تعلیم: مدرسہ سلم العلوم (پالنپور)، مظاہر العلوم (سہارنپور)
تکمیل: دار العلوم دیوبند، (دورۂ حدیث، 1382ھ)
اہم ذمہ داری: شیخ الحدیث و صدر مدرسین دار العلوم دیوبند
🌷ولادت باسعادت اور نام:
آپ کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں، البتہ والد محترم نے اندازے سے آپ کاسن پیدائش 1940 ء کا آخر مطابق 1997سمت بکرمی مطابق 1360 ھ بتایا ہے، آپ موضع ’’کالیڑہ‘‘ ضلع بناس کانٹھا (شمالی گجرات) میں پیدا ہوئے، یہ پالن پورسے تقریباً تیس میل کے فاصلہ پر جنوب مشرق میں واقع ہے اور علاقہ پالن پور کی مشہور بستی ہے۔
آپ کا نام والدین نے ’’احمد‘‘ رکھا تھا، سعید احمد آپ نے اپنا نام خود رکھا ہے، آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی ’’یوسف‘‘اور دادا کا نام ’’علی‘‘ ہے، جو احتراماً ’’علی جی‘‘ کہلاتے تھے، آپ کا خاندان ’’ڈھکا‘‘ اور برادری ’’مومن‘‘ ہے، جس کے تفصیلی احوال ’’مومن قوم اپنی تاریخ کے آئینہ میں ‘‘ مذکور ہیں۔
🌷تعلیم و تربیت:
جب آپ کی عمر پانچ، چھ سال کی ہوئی، تو والد صاحب نے آپ کی تعلیم کا آغاز فرمایا، لیکن والد مرحوم کھیتی باڑی کے کاموں کی وجہ سے موصوف کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکتے تھے، اس لئے آپ کو اپنے وطن ’’کالیڑہ‘‘ کے مکتب میں بٹھا دیا، آپ کے مکتب کے اساتذہ یہ ہیں : (۱) مولانا داؤد صاحب چودھری (۲) مولانا حبیب اللہ صاحب چودھری (۳) اور حضرت مولانا ابراہیم صاحب جو نکیہ، جو ایک عرصہ تک دارالعلوم آنند (گجرات) میں شیخ الحدیث رہے۔
مکتب کی تعلیم مکمل کر کے موصوف اپنے ماموں مولانا عبدالرحمن صاحب شیرا قدس سرہ کے ہمراہ ’’چھاپی‘‘ تشریف لے گئے، اور دارالعلوم چھاپی میں اپنے ماموں اور دیگر اساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں چھ ماہ تک پڑھیں، چھ ماہ کے بعد آپ کے ماموں دارالعلوم چھاپی کی تدریس چھوڑ کر گھر آ گئے، تو آپ بھی اپنے ماموں کے ہمراہ آ گئے، اور چھ ماہ تک اپنے ماموں سے ان کے وطن ’’جونی سیندھی‘‘ میں فارسی کی کتابیں پڑھتے رہے۔
اس کے بعد مصلحِ امت حضرت مولانا نذیر میاں صاحب پالن پوری قدس سرہ کے مدرسہ میں جو پالن پور شہر میں واقع ہے داخلہ لیا، اور چار سال تک حضرت مولانا مفتی محمد اکبر میاں صاحب پالن پوری اور حضرت مولانا ہاشم صاحب بخاری رحمہما اللہ سے عربی کی ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھیں …مصلح امت حضرت مولانا محمد نذیر میاں صاحب قدس سرہ وہ عظیم ہستی ہیں، جنھوں نے اس آخری زمانہ میں ’’مومن برادری ‘‘کو بدعات و خرافات اور تمام غیر اسلامی رسوم سے نکال کر ہدایت وسنت کی شاہراہ پر ڈالا، اور ’’مومن برادری‘‘ کی مکمل اصلاح فرمائی، آج علاقۂ پالن پور میں جو دینی فضا نظر آ رہی ہے، وہ حضرت مولانا ہی کی خدمات کاثمرہ ہے، اور حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری، بخاریٰ سے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کے لئے تشریف لائے تھے، فراغت کے بعد پہلے پالن پور، پھر امداد العلوم وڈالی گجرات، پھر جامعہ حسینہ راند یر (سورت) پھر دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمات انجام دیں، اور آخر میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے، وہیں آپ کا انتقال ہوا، اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
🌷مظاہر علوم میں داخلہ:
شرح جامی تک پالن پور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ نے ۱۳۷۷ھ میں سہارنپور (یو، پی) کا سفر کیا، اور مظاہر علوم میں داخلہ لے کر تین سال تک امام النحو و المنطق حضرت مولانا صدیق احمد صاحب جموی قدس سرہ سے نحو اور منطق وفلسفہ کی اکثر کتابیں پڑھیں، نیز حضرت مولانا مفتی یحییٰ صاحب سہارنپوری، حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رائے پوری رحمہم اللہ اور حضرت مولانا وقار صاحب بجنوری سے بھی کتابیں پڑھیں۔
🌷دارالعلوم دیوبند میں داخلہ:
پھر فقہ، حدیث، تفسیر اور فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۱۳۸۰ھ میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہو کر پہلے سال حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلند شہری سے تفسیر جلالین مع الفوزالکبیر، حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی قدس سرہ سے ہدایہ اولین وغیرہ پڑھیں، اور ۱۳۸۲ھ میں جو کہ دارالعلوم دیوبند کا سوواں سال تھا دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی، آپ نے دارالعلوم دیوبند میں جن حضرات اکابر سے پڑھا وہ مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی (۲) حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہری(۳) حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی (۴) حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب کیرانوی (۵) حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی(۶) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب دیوبندی (۷) حضرت مولانا فخ
انگلیاں فگار اپنی،خامہ خوں چکاں اپنا!
(استاذِ محترم کی یاد میں)
نایاب حسن
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور کئی نسلوں کے معلم و مربی ،استاذ الاساتذہ حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری آج صبح قضائے الہی سے وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
دل مغموم ہے ،آنکھیں نم ہیں،ذہن پر رنج و غم کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ میں نے ان کی وفات کی خبر قدرے تاخیر سے دیکھی اور دیکھتے ہی ان سے منسوب زمانۂ طالب علمی کی کتنی ہی یادیں ذہن کے پردے پر جھلملانے لگیں ۔ کیا شگفتہ و شاندار انسان تھے اور خدا نے ان کی شخصیت میں کیسی دلکشی رکھ دی تھی! مفتی صاحب ہندوستان؛ بلکہ دنیا کے ایسے چیدہ و خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں کم و بیش نصف صدی تک مسلسل علمِ حدیث کی تدریس کا موقع ملا اور انھوں نے ہزارہا طالبانِ علومِ نبوت کی علمی تشنگی بجھائی۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں ان منتخب ترین اساتذہ میں سے ایک تھے جنھیں تمام طلبہ کے درمیان یکساں مقبولیت و محبوبیت حاصل تھی اور اس کی وجہ صرف ان کا تدریسی کمال،افہام و تفہیم کا اثر انگیز انداز اور پڑھانے کا ایسا دلنشیں طَور تھا،جو شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ لگ بھگ گیارہ سال قبل جب ہم وہاں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے ،تب اس جماعت میں کم و بیش آٹھ سو طلبہ ہوتے تھے،اسی سال انھیں صحیح بخاری کی تدریس کی ذ مے داری ملی تھی،سنن ترمذی وہ پہلے سے پڑھا رہے تھے۔ دوسرے اساتذہ کے گھنٹوں میں عموماً آدھی یا دو تہائی درس گاہ خالی ہوتی تھی ،مگر مفتی صاحب کی کلاس میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ہوتی،جو طلبہ کلاس میں ان کی آمد کے بعد پہنچتے وہ عموماً آدھے اندر اور آدھے باہر رہ کر سبق سنتے۔ ان سے استفادے کے لیے دیوبند کی دوسری درسگاہوں کے طلبہ بھی جوق در جوق آتے تھے۔ جب حدیث کی عبارت خوانی ہوتی اوراس کے بعد مفتی صاحب کی تقریر شروع ہوتی ،تو ایک عجیب ہی سماں ہوتا،دلکش و سحرانگیز و دلنشیں ،ہر طالب علم سراپا سماعت بن جاتا،مکمل ذہنی و جسمانی حاضری کے ساتھ سبق سنتا۔ وہ ایسے استاذ تھے کہ ان کے سبق میں شاید ہی کوئی طالب علم ذہنی غیاب کا شکار ہوتا ہوگا،ان کے اسلوبِ کلام اور اندازِ بیان میں ایک مقناطیسیت تھی،جو طالب علموں کو ہمہ تن اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی۔ مفتی صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ پڑھاتے ہوئے اپنا ارتکاز موضوع پر رکھتے اور اس کی تفہیم میں تمام متعلقہ دلائل و براہین کو اس خوب صورتی اور منطقی ترتیب سے بیان کرتے کہ طالب علم عش عش کرنے لگتا۔ کم و بیش تیس پینتیس سال تک انھوں نے فضیلت (دورۂ حدیث شریف) کی اہم کتاب سنن ترمذی کا درس دیا اور 2009سے تاحیات صحیح بخاری بھی ان کے زیر درس رہی۔
ان کی ظاہری شخصیت میں بھی مخصوص نوع کی وجاہت تھی،جو ایک محدث کے شایانِ شان ہوتی ہے۔ سادگی و بے تکلفی ہوتی ،مگر اس میں کشش ایسی کہ دل و نگاہ کو اپنا اسیر بنالے۔ اپنے گھر سے دارالعلوم تک کی مسافت عموماً رکشے سے طے کرتے،صددروازے سے دارالعلوم میں داخل ہوتے،احاطۂ مولسری میں پہنچ کر دوتین بار کلی کرتے،چوں کہ وہ پان کھانے کے عادی تھے تو تدریسِ حدیث سے قبل اہتمام سے کلی ضرور کرتے،پھر درس گاہ (دارالحدیث )میں داخل ہوتے،مسندِ تدریس پر بیٹھتے،ایک طالب علم بلند و خوش الحان آواز میں حدیث پاک کی عبارت پڑھتا،اس کے بعد اس حدیث پر مفتی صاحب کی گفتگو ہوتی۔ میں یہ سطور لکھتے ہوئے اس لذت کوپھر سے محسوس کر رہاہوں ،جس سے ان کے در س میں ہم لطف اندوز ہو تے تھے۔ مفتی صاحب پڑھاتے نہیں تھے،جادو کرتے تھے،طالب علم اور سامع کے حواس پر چھا جاتے تھے ،وہ بولتے نہیں تھے موتی رولتے تھے،ان کی نگہ دلنواز تھی اور ادا دلفریب،ان کی امیدیں قلیل تھیں اور مقاصد جلیل،وہ اقبال کی تعبیر ’’نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو‘‘ کی نہایت ہی تابناک مثال تھے۔
جب ہم دورۂ حدیث شریف میں تھے ، تو ششماہی امتحان میں ترمذی و بخاری میں پچاس پچاس نمبرات (تب دارالعلوم میں کل نمبرات پچاس ہوا کرتے تھے)حاصل کرنے والوں کی مفتی صاحب نے خصوصی حوصلہ افزائی کی اور ایسے طلبہ چند ایک ہی تھے۔ اللہ کے فضل سے ان میں سے ایک میں بھی تھا،مفتی صاحب نے ایسے سب طالب علموں کو بعد نماز عصر اپنے گھر بلاکر دعائیں دیں ،تحسین آمیز کلمات سے نوازا،حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سنن ترمذی کی شرح عنایت فرمائی۔ انھیں یہ شکایت رہتی تھی کہ اب طلبہ محنت نہیں کرتے اور اس کا وہ ہمیشہ اپنی کلاسوں میں اظہار کرتے۔ پرانے محدثین و علما اور خود دارالعلوم کے اساتذۂ متقدمین کے واقعات و حالاتِ زندگی سے چیدہ چیدہ واقعات سناتے اور طلبہ کو مہمیز کرتے۔ وہ طلبہ و اساتذہ کے راست تعلق اور رابطے پر زور دیتے تھے؛تاکہ افادہ و استفادہ کا عمل تیز اور نتیجہ خیز ہو؛ اس لیے ہم نے ہمیشہ ان کی زبان سے سنا کہ ایک ایک جماعت میں کئی کئی سو طلبہ کا ہونا درس و تدریس کے نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے،مگر پھروہ یہ بھی کہتے کہ چوں کہ دارالعلوم کو اس کے معیار کے مطابق اساتذہ نہیں ملتے،اس وجہ
مظفر حسین صاحب مظاہری کے مجاز بیعت و ارشاد ہیں۔
زیارت حرمین شریفین :
موصوف کئی بار زیارت حرمین شریفین کا شرف حاصل کر چکے ہیں، سب سے پہلے ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء میں اہلیہ محترمہ کے ساتھ، پانی کے جہاز سے سفر کیا، اور فریضۂ حج ادا کیا …پھر ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء میں افریقہ سے دوسرا حج کیا، چونکہ آپ پہلے فرض حج ادا کر چکے تھے، اس لئے موصوف نے یہ دوسرا حج آنحضرتﷺ کی طرف سے حج بدل کے طور پرکیا ہے، پھر ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء میں سعودی وزارت حج و اوقاف کے مہمان کی حیثیت سے تیسرا حج کیا، اور ایک بار ربیع الاول ۱۴۱۴ھ میں عمرہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔
والد ماجد کی وفات :
اس سلسلہ حضرت مولانا مفتی امین صاحب (استاذ حدیث و فقہ و مرتب فتاوی دارالعلوم دیوبند)نے تفصیل سے لکھا ہے، فرماتے ہیں :
’’جس زمانہ میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی، مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی، اور محدث کبیر حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری ڈابھیل میں پڑھاتے تھے، اس وقت والد صاحب ڈابھیل میں پڑھتے تھے، اور حضرت مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی مہاجر مدنی قدس سرہ کے خادم خاص تھے، مگر گھریلو احوال کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے، اس لئے اپنے صاحب زادوں کو علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا بدر عالم میرٹھی، اور محدث کبیر مولانا محمد یوسف صاحب بنوری جیسا عالم بنانے کا عظیم جذبہ رکھتے تھے، حضرت مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی مہاجر مدنی قدس سرہ نے والد صاحب کو یہ وصیت کی تھی کہ: ’’یوسف ! اگر تم اپنے لڑکوں کو اچھا عالم بنانا چاہتے ہو، تو حرام اور ناجائز مال سے پرہیز کرنا، اور بچوں کو بھی ناجائز اور حرام مال سے بچانا، کیونکہ علم ایک نور ہے، ناجائز اور حرام مال سے جو بدن پروان چڑھتا ہے، اس میں یہ نور داخل نہیں ہوتا ‘‘۔ یہ نصیحت حضرت مولانا نے والد ماجد کواس لئے کی تھی، کہ اس زمانہ میں ہماری ساری قوم بنیوں کے سود میں پھنسی ہوئی تھی، اسی زمانہ میں ہمارے دادا نے بنیے سے سودی قرض لے کر ایک زمین کرایہ پر لی تھی، والد صاحب اس زمانہ میں ڈابھیل کے طالب علم تھے، والد صاحب نے اس معاملہ میں دادا سے اختلاف کیا تو والد صاحب کو حرام سے بچنے کے لئے مجبور اً تعلیم چھوڑ کر اپنا گھر سنبھالنا پڑا، اور تہیہ کیا کہ چاہے بھوکا رہوں گا، مگر حرام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، تاکہ میں نہیں پڑھ سکا تو اللہ تعالیٰ میری اولاد کو علم دین عطا فرمائیں۔
چنانچہ والد صاحب، ناجائز اور حرام مال، بلکہ مشتبہ مال سے بھی پرہیز کرتے تھے، اور اپنی اولاد کو بھی بچاتے تھے، اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف پوری توجہ فرماتے تھے، صوم و صلوٰۃ کے ایسے پابند تھے، کہ میرے علم کے مطابق ان کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی، والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد، والد صاحب نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا تھا، سات آٹھ پارے حفظ کر لئے تھے، مگر عمر نے وفا نہیں کی، اور ذیقعدہ ۱۴۱۱ھ میں تہجد کے وقت اللہ کو پیارے ہو گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔
والدہ ماجدہ کی رحلت:
حضرت مفتی صاحب کی والدہ ماجدہ، دین کی ضروری باتوں سے واقف، امور خانہ داری میں ماہر، نہایت سلیقہ مند، نماز روزے کا خوب اہتمام کرنے والی، صالحہ عابدہ اور صابرہ شاکرہ خاتون تھیں، ۱۰ محرم الحرام ۱۴۹۹ھ کو روزہ رکھا، مغرب کے وقت روزہ افطار کیا، نماز پڑھی، اسی دن عشاء کی نماز کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کے والدین ماجدین کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی قبروں کو نور سے بھر دیں، اور مفتی صاحب کا سایۂ عاطفت تا دیر قائم رکھے !آمین۔
ق کتاب ہے، اس پر موصوف نے نہایت مفید حواشی ارقام فرمائے ہیں، اور ذیلی عناوین بڑھائے ہیں، یہ کتاب بھی شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔
(۲۴) حواشی امداد الفتاوی : موصوف نے قیام راندیر کے زمانے میں یہ حواشی لکھنے شروع کئے تھے، یہ حواشی بھی اہل علم میں وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
(۲۵) افادات نانوتوی : یہ موصوف کا ایک نہایت قیمتی مضمون ہے، جس کو دارالعلوم اشرفیہ راندیر کی تدریس کے زمانہ میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا۔
(۲۶) افادات رشیدیہ : یہ موصوف کا دوسرا نہایت مفید مضمون ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تدریس کے آغاز میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی وقت رسالہ دارالعلوم دیوبند میں قسط وار شائع ہوا تھا۔
(۲۷) رحمۃ اللہ الواسعۃ : یہ حجۃ اللہ البالغہ کی مبسوط اردو شرح ہے، حجۃ اللہ البالغہ کی تشریح ایک بھاری قرضہ تھا، جو ڈھائی سوسال سے امت کے ذمہ باقی چلا آ رہا تھا۔
(۲۸) تہذیب المغنی : المغنی علامہ محمد طاہر پٹنی قدس سرہ کی اسماء رجال پر بہتر ین کتاب ہے، موصوف نے اس کی عربی میں شرح لکھی ہے۔
(۲۹) زبدۃالطحاوی : یہ امام طحاوی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی عربی تلخیص ہے۔
(۳۰ ) کامل برہانِ الٰہی : رحمۃ اللہ الواسعہ میں مفتی صاحب نے عنوان قائم کرکے، جو حجۃ اللہ البالغہ کی آسان شرح کی ہے، اس کو علاحدہ کرلیا ہے، اور ہلکی چار جلدوں میں مذکورہ نام سے، یہ نئی کتاب تیار کی ہے، اس میں حجۃ اللہ البالغہ کی عربی عبارت، ترجمہ، لغات اور تشریحات شامل نہیں، اب یہ عام مطالعہ کی ایک بہترین کتاب بن گئی ہے، جو لوگ حجۃ اللہ البالغہ حل نہیں کرنا چاہتے، صرف اس کے مضامین پڑھنا چاہتے ہیں، ان کے لئے یہ قیمتی سوغات ہے، زبان آسان اور سلیس ہے، ہر قاری بے تکلف اس کا مطالعہ کرسکتا ہے
(۳۱) حجۃ اللہ البالغہ عربی: ( دو حصے ) حضرت مفتی صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ پر عربی حاشیہ تحریر فرمایا ہے، جو دو جلدوں میں طبع ہوگیا ہے، عربی خواں حضرات حاشیہ کی مدد سے کتاب حل کرسکتے ہیں، اور درس میں بھی اس کو سامنے رکھا جاسکتا ہے۔
( ۳۲ ) ہادیہ شرح کافیہ : کافیہ : علم نحو کا مشہور ومقبول متنِ متین ہے، اس کی عبارت سلیس اورآسان ہے، مگر اس آسان کتاب کو، طریقۂ تدریس نے مشکل بنادیا ہے۔ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ نے اس پر یہ کام کیا ہے، کہ کافیہ کو مفصل ومرقم کیا ہے، اس کے ہر مسئلہ، اور ہر قاعدہ کو علاحدہ کیا ہے، پھر اس کی نہایت آسان شرح لکھی ہے، اورشروع میں کافیہ پڑھانے کا طریقہ بیان کیا ہے، اور قدیم طرز سے ہٹ کر کافیہ کس طرح طلبہ کےذہن نشین کی جائے اس کے لئے'' مشقی سوالات'' دئیے گئے ہیں۔
( ۳۳ ) وافیہ شرح کافیہ : یہ کافیہ کی عربی شرح ہے، اس میں وہی مفصل ومرقم متن ہے، اور حاشیہ میں عربی شرح لکھی گئی ہے، تاکہ طلبہ درس میں اس کو سامنے رکھ کر پڑھ سکیں۔
(۳۴ ) تحفۃ الالمعی شرح سنن الترمذی : یہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ کے دروسِ ترمذی کا مجموعہ ہے، آٹھ جلدوں میں طبع ہوچکا ہے، جو ترمذی شریف جلد ثانی مع شمائل ترمذی پر مشتمل ہے، مقدمہ: نایاب اور قیمتی معلومات پر مشتمل ہے اور شرح کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں مدارکِ اجتہادبیان کئے گئے ہیں، نیز ترمذی شریف کی عبارت صحیح اعراب کے ساتھ دی گئی ہے اور کتاب کا ہر ہر لفظ حل کیا گیا ہے، شروع میں کتاب العلل کی شرح بھی ہے، جو ایک قیمتی سوغات ہے۔ غرض یہ شرح ہر مدرس کی ضرورت اور حدیث کے ہر طالب علم کی حاجت ہے۔
( ۳۵ ) تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری : یہ دارالعلوم دیوبند میں دئیے گئے بخاری شریف کے دروس کا مجموعہ ہے، جو بارہ جلدوں پر مشتمل ہے، اس شرح کی خاص بات یہ ہے، کہ یہ نہ تو اتنی طویل ہے، کہ آدمی اس سے استفادہ ہی نہ کر سکے، اور نہ اتنی مختصر ہے، کہ کھولتے ہی ختم ہوجائے۔ پوری کتاب میں راہ اعتدال کو پکڑ کے رکھا گیا ہے، اور کہیں آپ کو تشنگی یا بوریت محسوس نہیں ہوگی، بالخصوص وہ حضرات جو مدارس میں اس اہم کتاب کو پڑھا رہے ہیں، یا حدیث کی کوئی بھی کتاب پڑھا رہے ہیں، انکے لئے یہ کتاب خاصہ کی چیز ہے۔
(۳۶ ) علمی خطبات : یہ مفتی صاحب دامت برکاتھم کے علمی وتحقیقی خطبات کا مجموعہ ہے، جو دوحصوں پر مشتمل ہے، اساتذہ، طلبہ، اور عوام کےلئے قیمتی سوغات ہے، ان خطبات میں نہایت قیمتی باتیں بیان کی گئی ہیں۔
(۳۷ ) مفتاح العوامل شرح شرح مأۃ عامل : یہ حضرت مولانا فخرالدین احمد صاحب قدس سرہٗ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی تصنیف ہے، حضرت مفتی صاحب دامت برکاتھم نے اس کی قابل قدر خدمت کی ہے۔
( ۳۸ ) گنجینۂ صرف شرح پنج گنج : یہ کتاب بھی حضرت مولانا فخرالدین صاحب قدس سرہٗ کی تصنیف ہے، حضرت مفتی صاحب دامت برکاتھم نے اس کی بھی قابل قدر خدمت کی ہے۔
(
ابن ماجہ شریف، مشکوٰۃ شریف، جلالین شریف مع الفوزالکبیر، ہدایہ آخرین، شرح عقائد نسفی، اور حسامی وغیرہ بہت سی کتابیں پڑھائیں، اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، اسی عرصہ میں موصوف نے داڑھی اور انبیاء کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر اور مولانا محمد بن طاہر پٹنی قدس سرہ کی ’’المغنی‘‘ کی عربی شرح وغیرہ تصانیف ارقام فرمائیں، جن میں سے اکثر شائع ہو چکی ہیں، نیز اسی زمانہ میں موصوف نے، قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتابوں، اور علوم و معارف کی تسہیل و تشریح کا آغاز فرمایا، ایک مضمون ’’افادات نانوتوی ‘‘کے نام سے اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا، جو نہایت قیمتی مضمون ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر:
اسی دوران موصوف کے استاذ محترم حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ــــــ جو پہلے جامعہ حسینیہ راندیر میں پڑھا تے تھے، پھر دارالعلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہو گیا تھا ـــــ موصوف کو خط سے مطلع کیا، کہ دارالعلوم دیوبند میں ایک جگہ خالی ہے، لہٰذا آپ دارالعلوم میں تدریس کی درخواست بھیجیں، موصوف نے جناب مولانا حکیم محمد سعد رشید صاحب اجمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے مشورہ سے درخواست بھیج دی، اس کے ہمراہ ایک مکتوب حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام ارسال فرمایا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ نے اس کے جواب میں جو گرامی نامہ بھیجا وہ درج ذیل ہے :
محتر می ومکرمی زید مجدکم!
سلام مسنون، نیاز مقرون، گرامی نامہ باعث مسرت ہوا، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب پر کام کرنے کی اطلاع سے غیر معمولی خوشی ہوئی، جو صورت آپ نے اختیار فرمائی ہے، وہ مناسب ہے، خود میرے ذہن میں ان کتب کی خدمت کی مختلف صورتوں میں سے ایک یہ صورت بھی تھی، الفرقان میں پڑھنے کی نوبت نہیں آئی، ان شاء اللہ رسائل منگوا کر مستفید ہوں گا، اور جو رائے قائم ہو گی وہ عرض کروں گا۔
درخواست منسلکہ مجلس تعلیمی میں بھیج رہا ہوں، اس پر وہاں سے کوئی کارروائی ضرور کی جائے گی، اس کی اطلاع دی جائے گی، دعا کی درخواست، قاسم العلوم کے میرے پاس دو نسخے تھے، ایک نسخہ اسی ضرورت سے وہاں بھیجا گیا، مگر واپس نہیں ہوا، اب ایک رہ گیا ہے، جو صاحب نقل کرنا چاہیں، وہ ایک وقت مقرر کر کے میرے کتب خانہ میں ہی بیٹھ کر نقل فرما لیا کریں، اور یہاں بحمد للہ خیریت ہے۔ والسلام
محمد طیب از دیوبند ۷ / ۷ / ۹۳ ھ
یہ گرامی نامہ ۷/ رجب ۱۳۹۳ھ کا لکھا ہوا ہے، اسی سال شعبان میں، جب مجلس شوری کا انعقاد ہوا، اور درجات عربیہ کے لئے ایک مدرس کے تقرر کا تذکرہ آیا، تو حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی قدس سرہ نے، موصوف کا نام پیش کیا، اور اسی مجلس میں موصوف کا تقرر ہو گیا، موصوف کو شعبان ہی میں اس کی اطلاع دے دی گئی، رمضان المبارک کے بعد، آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے، اس وقت سے آج تک دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ عمر میں برکت عطا فرمائے، اور ان کے فیوض و برکات کو عام اور تام فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
دیگر خدمات:
تعلیمی وتدریسی خدمات کے علاوہ موصوف نے دارالعلوم دیوبند میں جو خدمات انجام دیں، اور دے رہے ہیں، ان کے مفصل تذکرہ کی اس مختصر تعارف میں گنجائش نہیں، صرف چند خدمات کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے :
❶ ۱۴۰۲ھ میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب نے طویل رخصت لے لی تھی، حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہ سہانپور چلے گئے تھے، اور کچھ مفتیان کرام نے دارالعلوم سے علاحدگی اختیار کر لی تھی، اس لئے ارباب انتظام نے موصوف کو کتب متعلقہ کی تدریس کے ساتھ، شعبۂ افتاء کی نگرانی اور فتوی نویسی کا حکم دیا تھا، جس کو بحسن و خوبی موصوف نے انجام دیا، اس سے پہلے ۱۳۹۵ھ میں بھی موصوف کو دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی نگرانی سپرد کی گئی تھی۔
❷ جب سے دارالعلوم دیوبند میں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے، آپ اس کے ناظم اعلیٰ ہیں، ۱۴۱۹ھ میں آپ نے اس منصب سے سبکدوش ہونے کی مجلس شوری سے درخواست کی تھی، مگر مجلس شوری نے منظور نہیں فرمائی، اور ایک ہزار روپئے ماہانہ الاؤنس کے طور پر طے فرمائے، مگر آپ نے الاؤنس لینے سے انکار کر دیا، اور ذمہ داری کو سنبھال رہے ہیں۔
❸ مذکورہ بالا خدمات کے علاوہ، حضرت مہْتمم صاحب دامت برکاتہم جو تحر یری اور تقریری خدمت موصوف کو سپرد فرماتے ہیں، اس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔
تصنیفی خدمات:
حضرت مولانا کی تصانیف جو شائع ہو کر مشرق و مغرب میں پھیل چکی ہیں، ان کا تعارف درج ذیل ہے :
(۱) تفسیر ہدایت القرآن : یہ مقبول عام و خاص تفسیر ہے، پارہ ۳۰ اور ایک تا ۹ حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی صاحب رحمہ اللہ کے لکھے ہوئے ہیں، بقیہ کام حضرت والا نے کیا ہے
!!!! سوانح حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری !!!!
تحریر: حضرت مولانا مفتی امین صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، استاد حدیث دارالعلوم دیوبند
ناقل: عادل سعیدی پالن پوری
..................................................
مختصر سوانحی خاکہ:
نام: سعید احمد
والد کا نام : جناب یوسف صاحبؒ
جائے پیدائش : کالیڑہ، شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
تاریخ پیدائش: ۱۹۴۰ ء کا آخر مطابق ۱۳۶۰ھ
ابتدائی تعلیم: مکتب (کالیڑہ) شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
ثانوی تعلیم: مدرسہ سلم العلوم (پالنپور)، مظاہر العلوم (سہارنپور)
تکمیل: دار العلوم دیوبند، (دورۂ حدیث، ۱۳۸۲ھ موافق ۱۹۶۲ء )
موجودہ اہم ذمہ داریاں : شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند
حالیہ پتہ: محلہ اندرون کوٹلہ دیوبند ضلع سہارنپور، یوپی، انڈیا
........................................
ولادت باسعادت اور نام:
آپ کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں، البتہ والد محترم نے اندازے سے، آپ کاسن پیدائش ۱۹۴۰ء کا آخر مطابق ۱۹۹۷سمت بکرمی مطابق ۱۳۶۰ھ بتایا ہے، آپ موضع ’’کالیڑہ‘‘ ضلع بناس کانٹھا (شمالی گجرات )میں پیدا ہوئے، یہ پالن پور سے تقریباً تیس میل کے فاصلہ پر، جنوب مشرق میں واقع ہے، اور علاقہ پالن پور کی مشہور بستی ہے۔
آپ کا نام والدین نے ’’احمد‘‘ رکھا تھا، سعید احمد آپ نے اپنا نام خود رکھا ہے، آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی ’’یوسف‘‘ اور دادا کا نام ’’علی‘‘ ہے، جو احتراماً ’’علی جی‘‘ کہلاتے تھے، آپ کا خاندان ’’ڈھکا‘‘ اور برادری ’’مومن‘‘ ہے، جس کے تفصیلی احوال ’’مومن قوم اپنی تاریخ کے آئینہ میں ‘‘ مذکور ہیں۔
تعلیم و تربیت:
جب آپ کی عمر پانچ، چھ سال کی ہوئی، تو والد صاحب نے آپ کی تعلیم کا آغاز فرمایا، لیکن والد مرحوم کھیتی باڑی کے کاموں کی وجہ سے، موصوف کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکتے تھے، اس لئے آپ کو اپنے وطن ’’کالیڑہ‘‘ کے مکتب میں بٹھا دیا، آپ کے مکتب کے اساتذہ یہ ہیں : ❶ مولانا داؤد صاحب چودھری رحمہ اللہ تعالیٰ ❷ مولانا حبیب اللہ صاحب چودھری رحمہ اللہ تعالیٰ ❸ اور حضرت مولانا ابراہیم صاحب جونکیہ رحمہ اللہ تعالیٰ ، جو ایک عرصہ تک دارالعلوم آنند (گجرات ) میں شیخ الحدیث رہے۔
مکتب کی تعلیم مکمل کر کے، موصوف اپنے ماموں مولانا عبدالرحمن صاحب شیرا قدس سرہ کے ہمراہ ’’چھاپی‘‘ تشریف لے گئے، اور دارالعلوم چھاپی میں اپنے ماموں، اور دیگر اساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں، چھ ماہ تک پڑھیں، چھ ماہ کے بعد، آپ کے ماموں دارالعلوم چھاپی کی تدریس چھوڑ کر گھر آ گئے، تو آپ بھی اپنے ماموں کے ہمراہ آ گئے، اور چھ ماہ تک اپنے ماموں سے ان کے وطن ’’جونی سیندھی ‘‘ میں فارسی کی کتابیں پڑھتے رہے۔
اس کے بعد مصلحِ امت حضرت مولانا نذیر میاں صاحب پالن پوری قدس سرہ کے مدرسہ میں ـــ جو پالن پور شہر میں واقع ہے ــــ داخلہ لیا، اور چار سال تک حضرت مولانا مفتی محمد اکبر میاں صاحب پالن پوری ، اور حضرت مولانا ہاشم صاحب بخاری رحمہما اللہ سے، عربی کی ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھیں، مصلح امت حضرت مولانا محمد نذیر میاں صاحب قدس سرہ وہ عظیم ہستی ہیں، جنھوں نے اس آخری زمانہ میں ’’مومن برادری ‘‘کو بدعات و خرافات، اور تمام غیر اسلامی رسوم سے نکال کر، ہدایت وسنت کی شاہراہ پر ڈالا، اور ’’مومن برادری‘‘ کی مکمل اصلاح فرمائی، آج علاقۂ پالن پور میں جو دینی فضا نظر آ رہی ہے، وہ حضرت مولانا ہی کی خدمات کاثمرہ ہے، اور حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ ، بخاریٰ سے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کے لئے تشریف لائے تھے، فراغت کے بعد پہلے پالن پور، پھر امداد العلوم وڈالی گجرات، پھر جامعہ حسینہ راند یر (سورت) پھر دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمات انجام دیں، اور آخر میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے، وہیں آپ کا انتقال ہوا، اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
مظاہر علوم میں داخلہ:
شرح جامی تک پالن پور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ نے ۱۳۷۷ھ میں سہارنپور (یوپی) کا سفر کیا، اور مظاہر علوم میں داخلہ لے کر، تین سال تک امام النحو و المنطق حضرت مولانا صدیق احمد صاحب جموی قدس سرہ سے، نحو اور منطق وفلسفہ کی اکثر کتابیں پڑھیں، نیز حضرت مولانا مفتی یحییٰ صاحب سہارنپوری، حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رائپوری اور حضرت مولانا وقار صاحب بجنوری رحمہم اللہ سے بھی کتابیں پڑھیں۔
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ:
پھر فقہ، حدیث، تفسیر اور فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۱۳۸۰ھ میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہو کر، پہلے سال حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلندشہری رحمہ اللہ تعالیٰ سے، تفسیر جلالین مع الفوزالکبیر، حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی قدس سرہ سے ہدایہ اولین وغیرہ پڑھیں، اور ۱۳۸۲ھ موافق ۱۹۶۲ء میں، جو کہ دارالعلوم دیوبند
Islam & Sectarianism
Author: Ḥakīm al-Islām Mawlānā Qārī Muḥammad Ṭayyib Sb
Published by: Hujjat al- Islam Academy, Darul Uloom Waqf, Deoband
Click here to download Pdf version: https://dud.edu.in/images/pdf/sectarianism%20full%20book.pdf
دارالعلوم دیوبند کی زیارت وغیرہ کی غرض سے آنے والے مہمانان کرام کے لیے ضروری اعلان۔
*دارالعلوم دیوبند*
نداۓ دارالعلوم کا تازہ شمارە(ماہ ذی الحجہ) نذر قارئین ہے...!
Click here to download latest issue (Aug/Sep Issue)of Nida e Darul Uloom..!
https://dud.edu.in/images/pdf/Nida%20Aug%202019%20full.pdf
مفتی سعیداحمدپالنپوری بیسویں اوراکیسویں صدی کے معتبراورمشہورمحدث تھے:مولانااعجازعرفی
نئی دہلی، 19مئی (پریس ریلیز)
ہندستان کے مؤقر عالم دین،دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالن پوری کے سانحہ ارتحال پرقلبی رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر اور مشہور عالم دین مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے تنظیم کی طرف سے جاری تعزیتی خبر میں کہا کہ مفتی صاحب بیسویں اور اکیسویں صدی کے معتبر اور مشہور محدث تھے، ان کا انتقال صرف ایک ادارے یا ایک مدرسے کا خسارہ نہیں، بلکہ یہ بلاشبہ پوری امت مسلمہ کا نا قابل تلافی خسارہ ہے۔اس عہدقحط الرجال میں مفتی صاحب مرحوم اکابر و اسلاف کے کردار اور ان کی رفتار و گفتار کی ایک متحرک اور جیتی جاگتی تصویر تھے، جنھوں نے اپنی نشست و برخاست اور اخلاق و کردار کی خوش بو سے پیش رووں کی تابندہ روایات کو زندہ رکھا۔ انھوں نے کہا کہ مرحوم ایک جید عالم دین، نام ورشارح حدیث، پر گو خطیب،کام یاب مصنف و مؤلف اور متقی و پرہیز گاراور صاحب نسبت شخص تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور ایک طویل عرصے تک ایشیا کی عظیم اسلامی درس گاہ میں درس و تدریس کے منصب کو وقار و احترام بخشا،منطق و فلسفہ، فقہ و حدیث، تفسیر و تاریخ کی ابتدائی درجات سے لے کر علیا درجات تک کی کتابیں ان کے زیر درس رہیں، اور اپنے منفرد انداز فہم اوردل چسپ طرز تخاطب سے طلبہ کے درمیان ایک محبوب اور مقبول استاد بن کر اپنی شناخت قائم کی۔انھوں نے کہا کہ ان کاطرز درس اور طرز تخاطب طلبہ میں بہت مقبول تھا، ام المدارس دار العلوم دیوبند کے وقیع تدریسی پلیٹ فارم سے نو نہالان اسلام کی تعلیم و تربیت اور قوم و ملت اور عوام الناس کی اصلاح وارشاد اور تزکیہئ نفوس کا جو فریضہ انھوں نے ملک و بیرون ملک میں انجام دیا ہے،وہ انھیں ہندستان ہی نہیں، بلکہ برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ناقابل فراموش باب بنا دے گا۔
انھوں نے مفتی صاحب مرحوم کے علمی اور تالیفی کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف کتابی عالم دین نہیں تھے، بلکہ وہ ایک محقق، آشنائے زمانہ اور دیدہ ور عالم دین تھے، جن کی نظر ہمیشہ زمانے کی نبض پر رہتی تھی۔وہ مختلف علم و فن کی قدیم کتابوں کے ساتھ جدید تحقیقی کتابوں کے بھی عاشق تھے۔ اورانتہائی ضعف و نقاہت کے عالم میں بھی شب و روز کتب بینی میں مصروف رہا کر تے تھے، فقہ و حدیث کی ادق عبارتوں کی عقدہ کشائی، رجال حدیث اور اسناد کی جانچ پرکھ ان کا شب و روز کا وظیفہ تھا۔ انھوں نے درس و تدریس کے ساتھ اہم تحقیقی و تالیفی کارنامے بھی انجام دیے ہیں۔عربی اور اردو دونوں زبانوں میں انھوں نے گراں قدر تصنیفی سرمایہ چھوڑا ہے۔تفسیرو حدیث فقہ و فتاوی اور درسیات سے متعلق علوم پر درجن بھر کتابیں ان کی قلمی صلاحیتوں کا بین ثبوت ہیں۔انھوں نے فقہ حنفی کا اہم ماخذ ترمذی شریف کی ضخیم اور مطول شرح لکھ کر طالبان علوم اسلامیہ کے لیے اس کتاب سے استفادے کی راہ ہموار کی، وہیں انھوں نے مسند الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کے علوم و افکار کی ترویج و اشاعت میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اسلامی مصالح و حکم کی تعلیل و توجیہ پر مبنی مشہور اور مشکل کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی تشریح و توصیح کرکے ایک بڑے اردو داں طبقہ کے لیے اس مشکل اور ادق کتاب کو سہل اور آسان بنادیا۔ انھوں نے مرحوم کے پسماندگان و متعلقین،ارباب و منتظمین دار العلوم، خصوصا ان کی صلبی اولاد و احفاد سے تعزیت مسنونہ کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے طالبان علوم نبوت اور اپنے متوسلین و منتسبین اور مستفیدین کی ایک بڑی تعداد اپنے پیچھے چھوڑی ہے، جو ان شاء اللہ ان کے لیے قبر میں رفع درجات کا سبب بنیں گے۔رمضان المبارک آخری عشرے میں موت ان کی مغفرت و بخشش کا پروانہ ہے۔دعا ہے کہ اللہ انھیں اپنی رحمت کے سایے میں ڈھانپ لے، انھیں اعلی علیین میں جگہ عطا کرے۔ ان کے اعزہ و اقربا اور تمام منتسبین کو صبر کی توفیق دے۔
الحدیث مفتی سعید احمد پالنپوریؒ اور مولانا شفیق عالم پورنوی کا انتقال ملت اسلامیہ کا بڑا علمی خسارہ : مولانا محمد شبلی القاسمی
پھلواری شریف : 19؍مئی(پریس ریلیز )
موت ایک حقیقت ہے ، ہر نفس کو اپنے متعینہ وقت پر موت آنی ہے ، لیکن بعض شخصیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے انتقال کا صدمہ صدیوں ہوا کرتا ہے ، انہیں میں سے ہندوستان کے مشہور و معروف عالم دین ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث ، استاذ الاساتذہ درجنوں کتابوں کے مصنف حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ کا انتقال ہے ، حضرت کے انتقال کی وجہ سے پوری ملت اسلامیہ خصوصا دار العلوم دیوبند کا بڑا علمی خسارہ ہوا ہے ، حضرت ؒ ’’ موت العالم موت العالم‘‘ ( ایک عالم ربانی کی موت پوری دنیا کی موت کے مترادف ہے )کے بجاطور پر مصداق تھے ، ان خیالات کااظہار امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے تعزیتی کلمات میں کیا ،انہوں نے مزید فرمایا کہ حضرت میرے بڑے مربی اور شفیق استاذ تھے ، حدیث و فقہ پر ان کو بڑا عبور تھا ، طلبہ ان کے درس سے بہت مطمئن رہا کرتے تھے ، بعض مسائل میں حضرت کی اپنی انفرادی رائے ہوتی تھی اور پوری قوت اور دلیل کے ساتھ ان کو مدلل کرتے تھے ، حضرت کے انتقال سے پوری ملت اسلامیہ کو بڑا صدمہ پہونچا ہے ، ان کا انتقال میرے لئے اور خاندان امارت شرعیہ کے لئے ایک بڑا ذاتی حادثہ ہے ،اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عنایت فرمائے ، ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
مفتی محمد سعید الرحمٰن قاسمی مفتی امارت شرعیہ نے کہا کہ حضرت ؒ کہنہ مشق محدث و فقیہ تھے ، اللہ تعالیٰ نے افہام و تفہیم کا زبردست ملکہ عطا فرمایا تھا ، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے علمی ذخائر کو ان کے لئے ذخیرئہ آخرت بنائے ۔
دوسری طرف حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی پورنوی سابق نائب ناظم جامعہ رحمانی مونگیر ، رکن تاسیسی آل نڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا انتقال بھی ملت اسلامیہ کے لئے عظیم حادثہ ہے ۔
حضرت مولانا نے ایک زمانہ تک جامعہ رحمانی میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا اور انتظامی ذمہ داریوں کو بھی بحسن و خوبی انجام دیا ، حضرت مولانا اچھے مدرس کے ساتھ اچھے منتظم بھی تھے ، جامعہ رحمانی مونگیر اور امارت شرعیہ سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے ، امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کے تربیت یافتہ تھے ،امارت شرعیہ کے وفد کا دورہ دس سال قبل پورنیہ کے بعض علاقوں میں ہوا تھا میں بھی شریک وفد تھا حضرت مولانا بھی مستقل وفد کے ساتھ رہے ان دنوں میں نے انکی بڑی شفقت پائی اور انکی دعائیں خوب ملیں اور ان کے دلوں میں امارت شرعیہ کی وقعت کا احساس ہوا یہ باتیں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی نے کہیں ،اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور ملت کو نعم البدل عطا فرمائے ۔ حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم ان دنوں خانقاہ رحمانی مونگیر میں اعتکاف فرمارہے ہیں ، حضرت کو جب ان دونوں اجلہ علماء کے رحلت کی خبر دی گئی تو حضرت بے چین ہو گئے اور دعا میں مصروف ہو گئے ۔
آہ! امیر علم و فن آج رخصت ہو گیا
مفتی محمد اطہر القاسمی ارریاوی
اس ماہ رمضان المبارک میں مسلسل روزہ کھولتے وقت،تراویح کے بعد اور جب ہاتھ اٹھانے کی توفیق ملتی؛ امام علم و فن،امیر قافلہ قاسمیت،مرجع خلائق اور ترجمان علوم شریعت استاذنا وشیخناحضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی صحت وسلامتی کے لئے دل سے دعائیں کرتا۔
آج رات نہ جانےمیری بےچینی کیوں بڑھی ہوئی تھی،سحر کے وقت بھی فضلاء دارالعلوم دیوبند 2000 گروپ سےحضرت والا کی صحت کے متعلق معلومات حاصل کی تھی اور بھائی مصطفیٰ امین صاحب پالنپوری نے تسلی بھی دلائ تھی۔اسی بناء پر نماز فجر پڑھ کرسوگیا۔
ابھی ساڑھے سات بجے صبح نیند سے بیدار ہوا تو یکلخت اپنے دونوں ہاتھوں سے تکیہ کے اردگرد کچھ ڈھونڈ رہاہوں۔پھراچانک خیال آیاکہ میں یہ کیسی حرکت کررہا ہوں؟گھروالے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے!
تسلی نہیں ہوئی تو قضاء حاجت سے فارغ ہوا اور چند قدم آنگن میں پھر کچھ ڈھونڈنے لگ گیا۔
بے چینی بڑھ گئی،سر چکرانے لگااور ذہن پر خوب دباؤ ڈالا تاکہ مجھے یادآجائے کہ آخر آج مجھے ہواکیا ہے؟
مگر خدا کی قسم میرے جسم کا رواں رواں کھڑا ہوگیا اور ڈر اور خوف کے ساتھ سانس کی رفتار تیز ہونے لگی۔
پھر محسوس ہوا کہ کوئی انہونی ہوگئی ہے۔
تسلی کے لئے آکر بستر پر لیٹ گیا اور زبردستی آنکھیں بند کرتا مگر باربارآنکھیں کھل جاتیں اورگھر کی درودیوار پر کچھ پڑھنا چاہ رہی تھیں کہ یکایک دماغ کھلا اورلگا کہ کوئی سرہانے خبر دے رہا ہے کہ تمہارے استاذمحترم حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔
فون آن کیا تو واقعی حضرت والا کی وفات کی خبروں سے موبائل بھر چکاتھا۔
اناللہ وانا الیہ رجعون۔
اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی بخشش فرمائے،کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے،سارے سیآت کو حسنات سے مبدل فرمائے،متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے،ام المدارس دارالعلوم دیوبند،اس کے اساتذہ و عملہ اورمفتی صاحب کے فراق میں غمگین دارالحدیث پر اپنی رحمت خاصہ کا معاملہ فرمائے اور ملک و عالم میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے لاکھوں علمی،ادبی،فقہی،فنی،دینی و مذہبی روحانی اولاد کو بھی صبر جمیل دے کہ آج پورا عالم سوگواران شیخ ہے۔
خدا کی قسم میں نے اوپر جوکچھ لکھاایک حرف بھی افراط و تفریط سے کام نہیں لیا۔جوہوااور جیسا ہوا ہوبہو لکھ دیا۔
حضرت والا کے لئے اب تک دامت برکاتہم العالیہ لکھا جاتا تھا مگر اب آج سے ہمیشہ رحمۃ اللہ علیہ لکھا جائے گا۔
مفتی صاحب واقعی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔یقین آتا نہیں مگر یقین کرنا ہے کہ سب کو اس دارفانی سے کوچ کرجانا ہے۔یہاں ہمیشہ رہنے کو کون آیاہے۔کل آنا،آج جانا اور اپنی جگہ اپنی نسلوں کے حوالے کردینا؛اپنے اعمال اور اپنے کرتوتوں کی گٹھری لئے سب کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔یہی تو اس دنیا کی ریت ہے۔جو آج تک کبھی بدلی نہیں ہے اور قیامت تک کبھی بدلے گی بھی نہیں۔
مفتی صاحب بھی اللہ کو پیارےہوگئے۔
اب علم وفضل اور قلم و قرطاس کے لاکھوں شہسوار ان کے تلامذہ جوپوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں وہ سب اس شجر طوبی کی خوبصورت روحانی شاخیں ہیں۔جو آج حضرت والا کے فراق میں غمگین ہیں اور سبھوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے،قلم و قرطاس ہے۔حضرت والا کی یادیں ہیں۔ان کی باتیں ہیں۔مفتی صاحب کے علوم نقلیہ و عقلیہ کے خوبصورت قصے ہیں۔ان کے اسباق حدیث کے پیار بھرے تذکرےہیں،خوبصورت تبصرے ہیں۔
مفتی صاحب دوران درس فرماتے تھے:
*کل میں نے اس حدیث کی شرح میں جو وضاحت کی تھی وہ غلط تھی۔تم لوگ اپنی کاپیوں سے اسے حذف کردو،یہ صحیح ہے۔اسے محفوظ کرلو*۔
مفتی صاحب فرمایا کرتےتھے:
*اپنی غلطی کے اعتراف سے انسان کا مرتبہ گھٹتا نہیں،بڑھتا ہے۔*
مفتی صاحب دوران درس اکثر تنبیہ کرتے تھے:
*چھچھوراپن،ہلکاپن اور ٹھٹھا بازی تمہاری شان اور باوقار شخصیت کے منافی ہے۔باوقاررہو،مہذب بنو،مہذب رہو،*۔
علوم نبویہ کے اس بحر بیکراں کا یہ اعتراف و رجوع اور آب زرسے لکھی جانے والی یہ باتیں تمام اہل علم و فن کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود اپنی کم مائیگی و بےمائیگی اور اسلامی ونبوی تہذیب و تمدن کا احساس دلاتی رہے گی۔
حضرت مفتی صاحب!
آپ ہم سب کو چھوڑ کر کہاں چلے گئے ہیں؟ایک بار آنکھیں کھولئے نا اور ادھر دیکھئے نا آپ کا یہ بچہ کیسے آپ کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔بلک رہاہے،سسکیاں لے رہا ہے اور ادھر ادھر نظروں میں صرف آپ کی خضاب والی گھنی و خوبصورت ڈاڑھی اور عظمت و جلال،ہیبت و رعب اور نور علوم نبوت سے معمور پروقارچہرہ اور اس چہرے کی خوبصورت تصویر ذہن و دل پر حاوی ہے۔
خدا مجھے معاف کرے کہ میں نے آپ کا اتنا لمبا وقت لے لیا۔
چلتا ہوں۔وضو کرتاہوں،قرآن کریم کی چند آیتیں تلاوت کرتا ہوں اور مصلی بجھا کر اپنے شیخ،اپنے محسن،اپنے مربی اور اپنےاستاذ مرحوم کے لئے ایصال ثواب کرتا ہوں۔
اور آپ سب سے اپنے لئے بھی صبر و تحمل کی درخواست کرتا ہوں۔
یکے از خوشہ چیں حضرت والا رحمۃ اللّٰہ عل
وفاة المحدث النابغة الشيخ سعيد أحمد البالنبوري
محدث الأمة وناصر السنة
بقلم: محمد شاهنواز القاسمي البیغوسرائوی نزيل دولة الكويت
تَلَفَّعَتِ الأوساطُ الدينيّة العلميّة والفقهيّة بثوب الحِدَاد عند ما لامست آذانُها نبأ وفاة المفسر الأحوذيّ والمحدث النابغة والفقيه الأصوليّ البصير شيخنا الحبيب سعيد أحمد البالنبوري شيخ الحديث ورئيس هيئة التدريس بدارالعلوم/ ديوبند الذي تُوُفِّيَ منتقلًا إلى جوار رحمة اللهِ باكورةَ صباح اليوم: الثلاثاء ٢٥/ رمضان المبارك ١٤٤١هجريا = ١٩/ مايو ٢٠٢٠ ميلاديا في أحد مَشافي مدينة ممباي بعد ما عانى من عوارض الشيخوخة وتداعيات أمراض مزمنة لم تنفع فيها العمليّة العلاجيّة التي لم يدخر في توفيرها أبناؤه وأحفاده.
وقد تقررت صلاة الجنازة عليه هذا اليوم ليتم تشييعُه إلى مقبرة أوشيوري وتورية جثمانه فيها تنفيذًا لوصيته التي أملاه في حياته على ذريته وتلامذته.
وموت الأستاذ الذي نزل علينا كصاعقةٍ أقضَّ المضاجع وآلَمَ القلوبَ، وأحزن النفوس وأبكم الألسنةَ من فداحة المصاب وعظم الرُّزء؛ بما يفتقدون البدر في الليلة الظلماء.
حقًّا فقدت الأمة الإسلامية بوفاته علمًا بارزًا من أعلام الكتاب والسنة، وقلمًا بليغًا طالما أثرى المكتبة الإسلامية بمستنير الأفكار ورائع الحِكم، ولسانًا مفوَّهًا رأى ألسنةَ الخرافيِّيْن تمتدُّ إلى جوهر الإسلام بالإفك فقطعها بالأدلة النواهض والحجج القواطع ورماها بالسكات والحصر، وشخصيّةً علميّةً فذةً نفعت الأمة وأشبعت الغُلة، وشرحت الصدور وأنارت العقول والأبصار.
كان الأستاذ عالمًا مكينًا رصينًا وعاقلًا حصيفًا من علماء الهند وتذكارًا للسلف الصالح ممن لاتنطوي ذكراهم، ولاتخفى معالم حياته، ولاتدع للنسيان سبيلًا يزحف منه على جلائل أعمالهم، ومواقفهم من أجل الحق وفي سبيل الخير. لقد مضى الأستاذ ميتًا بعد أن سطر على صفحات التاريخ سطورًا لاتمحي، وحَفَرَ في ثنايا القلوب و تجاعيد العقول ذكريات على مر العصور تنمو وتزدهر.
كما كان الشيخ يمثل عالمًا جليلًا، ومدرسًا لبِقًا معدودًا، ومؤلفًا نابهًا قديرًا، ومربي الأجيال الناشئة المؤمنة، ومرشدًا مؤتمنًا، وداعيةً مخلصًا حكيمًا، وناصحًا أمينًا، عُمِّرَ طويلًا قضاها كلها في خدمة علوم الكتاب والسنة وما يتفرع عنهما مما أجمع عليه السلف الصالح.
وبلاد الهند تودع هذا العالم الواعي الرزين الذي ترك بصمات واضحة واسعة على أصعدة القضايا العلمية والفقهية وتوجيه المسلمين وتبصيرهم بدينهم وعقيدتهم الصحيحة النقية من الشوائب.
وإنني إذ أعرب عن خالص تعازينا لأبناء الفقيد وأولاده وتلامذته ومنسوبيه والجهاز الإداري والتعليمي لأرفع أكف الضراعة والإنابة إلى الله تعالى أن يتولى الفقيد بعفوه وكرمه ويتغمده بواسع رحمته، ويجزيه عن الإسلام وطلاب العلم والمسلمين خير الجزاء. ولاحرمنا أجره ولا فتنا بعده. إنه سميع قريب مجيب.
ر الحسن صاحب مراد آبادی (۸) حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی (۹) فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب مراد آبادی (۱۰) امام المعقول و المنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی (۱۱) مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری (۱۲) شیخ محمود عبد الوہاب صاحب مصری قدس اللہ اسرارہم و نور اللہ قبور ہم
موصوف اپنے بعض احوال اور کتب حدیث کے اساتذہ کرام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
خاکپائے علماء: سعید احمد بن یوسف بن علی بن جیوا (یعنی یحییٰ) بن نور محمد پالنپوری، گجراتی ثم دیوبندی، تاریخ ولادت محفوظ نہیں، دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ۱۳۸۰ھ میں لیا، اور ۱۳۸۲ھ میں فاتحۂ فراغ پڑھا، بخاری شریف حضرت فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب مراد آبادی سے، مقدمۂ مسلم شریف ومسلم شریف کتاب الایمان و ترمذی شریف جلد اول حضرت علامہ بلیاوی سے، باقی مسلم شریف حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہری سے، ترمذی جلد ثانی مع کتاب العلل و شمائل اور ابوداؤد شریف حضرت علامہ فخر الحسن مراد آبادی سے، نسائی شریف حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی سے، طحاوی شریف حضرت مفتی سید مہدی حسن شاہ جہاں پوری سے، مشکوٰۃ شریف حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی سے، ان کے انتقال کے بعد جلد اول حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب دیوبندی سے، اور جلد دوم حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظم سے پڑھی، اس سال موطا مالک حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب اور موطا محمد حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندی کے پاس تھی۔ (مشاہیر محدثین و فقہائے کرام ص/۲۷و۲۸ )
آپ بچپن سے ہی نہایت ذہین و فطین، کتب بینی اور محنت کے عادی تھے، اس پر مذکور بالا اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت نے آپ کی استعداد و صلاحیت کو بائیس سال کی عمر میں ہی بام عروج پر پہنچا دیا تھا، چنانچہ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم دینی درسگاہ کے سالانہ امتحان میں آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی تھی۔
🌷دارالافتاء میں داخلہ:
دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد آپ نے شوال ۱۳۸۲ھ میں تکمیل افتاء کے لئے درخواست دی، یکم ذیقعدہ ۱۳۸۲ھ کو آپ کا دار افتاء دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہو گیا، اور حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری کی نگرانی میں کتب فتاوی کا مطالعہ اور فتوی نویسی کی مشق کا آغاز فرمایا۔
آپ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں، اس لئے دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد اپنے بھائیوں کی تعلیم وتر بیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی، اسی سال آپ نے سماحۃ الشیخ محمود عبدالوہاب مصری کے پاس حفظ بھی شروع کیا، جو قرآن کریم کے جید حافظ اور مصری قاری تھے، اور جامعۃ الازہر قاہرہ کی طرف سے دارالعلوم دیوبند میں مبعوث تھے۔
الغرض ۱۳۸۲ھ اور ۱۳۸۳ھ میں آپ ایک طرف کتب فتاوی کا مطالعہ، فتوی نویسی کی مشق کرتے تھے، دوسری طرف اپنے بھائی کو حفظ کراتے تھے اور خود بھی حفظ کرتے تھے، اور ان کاموں میں ایسے مصروف ومنہمک تھے کہ رمضان المبارک میں بھی وطن تشریف نہیں لے گئے، ادھر افتاء کمیٹی نے آپ کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھانے کے لئے دارالافتاء کے داخلہ میں ایک سال کی توسیع کر دی، چھ ماہ بعد دارالعلوم دیوبند کے ارباب انتظام نے آپ کا معین مفتی کی حیثیت سے دارالافتاء دار العلوم دیوبند میں تقرر کر دیا، جب کہ اس زمانہ میں معین مفتی رکھنے کا رواج نہیں تھا، جیسا کہ اب ہے۔
🌷راندیر میں آپ کا تقرر:
دار الافتاء کے نصاب کی تکمیل کے بعد حضرت علامہ بلیاویؒ کے توسط سے آپ کا تقرر دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے ہوا، چنانچہ آپ ۲۱ شوال ۱۳۸۴ ھ کو مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے اپنے گھر تشریف لے گئے، والدین کی زیارت کا شرف حاصل کیا، پھر اپنے بھائیوں کو ساتھ لے کر راندیر (سورت) تشریف لے گئے، اور دارالعلوم اشرفیہ میں تدریس کا آغاز فرمایا۔
🌷راندیر میں آپ کی خدمات:
نو سال دارالعلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں مولانا مرحوم نے ترجمہ قرآن کریم، ابوداؤد شریف، ترمذی شریف، شمائل، موطین، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف، مشکوٰۃ شریف، جلالین شریف مع الفوزالکبیر، ہدایہ آخرین، شرح عقائد نسفی، اور حسامی وغیرہ بہت سی کتابیں پڑھائیں، اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، اسی عرصہ میں موصوف نے داڑھی اور انبیاء کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر اور مولانا محمد بن ظاہر پٹنی قدس سرہ کی ’’المغنی‘‘ کی عربی شرح وغیرہ تصانیف ارقام فرمائیں، جن میں سے اکثر شائع ہو چکی ہیں، نیز اسی زمانہ میں موصوف نے قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتابوں اور علوم و معارف کی تسہیل و تشریح کا آغاز فرمایا، ایک مضمون ’’افادات نانوتوی ‘‘کے نام سے اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا، جو نہایت قیمتی مضمون ہے۔
🌷دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر:
اسی دوران موصوف کے استاذ محترم حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری نے جو پہلے جامعہ حسینیہ راندیر میں پڑھاتے تھے، پھر دارالعلوم دیوبند
) آسان صرف (دو حصے ) علم نحو اور علم صرف کی جو کتابیں اردو میں لکھی گئی ہیں، ان میں عام طور پر تدریج کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، جبکہ یہ بات نہایت ضروری ہے، یہ نصاب اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، یہ نصاب نہایت مفید اور بہت سے مدارس میں داخل درس ہے۔
(۱۲) محفوظات: (تین حصے) یہ آیات و احادیث کا مجموعہ ہے، جو طلبہ کے حفظ کے لئے مرتب کیا گیا ہے، بہت سے مدارس و مکاتب میں داخل نصاب ہے۔
(۱۳) آپ فتوی کیسے دیں؟: یہ علامہ محمد امین بن عابد ین شامی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح عقودرسم المفتی‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے۔
(۱٤) کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟: یہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتاب ’’توثیق الکلام‘‘ کی نہایت آسان عام فہم شرح ہے۔
(۱۵) حیات امام ابوداؤد:اس میں امام ابوداؤد سجستانی کی مکمل سوانح، سنن ابی داؤد کا تفصیلی تعارف، اور اس کی تمام شروحات و متعلقات کا مفصل جائزہ سلیس اور دلنشین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
(۱٦) مشاہیر محدثین و فقہائے کرام اور تذکرہ راویان کتب حدیث :اس میں خلفاء راشدین، عشرۂ مبشرہ، ازواج مطہرات، بنات طیبات، مدینہ کے فقہائے سبعہ، مجتہدین امت، محدثین کرام، راویان کتب حدیث، شارحین حدیث، فقہائے ملت، مفسرین عظام، متکلمین اسلام اور مشہور شخصیات کا مختصر جامع تذکرہ ہے۔
(۱۷) حیات امام طحاوی:اس میں امام ابو جعفر طحاوی کے مفصل حالات زندگی، ناقدین پر رد، تصانیف کا تذکرہ، زبدۃطحاوی کی توضیح اور شرح معانی الآثار کا تعارف ہے۔
(۱۸) اسلام تغیر پذیر دنیا میں :
یہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ اور جامعہ ملیہ دہلی کے سمیناروں میں پڑھے گئے چار قیمتی مقالوں کا مجموعہ ہے۔
(۱۹) نبوت نے انسانیت کو کیا دیا؟:
یہ مقالہ جامعہ ملیہ دہلی کے ایک جلسہ میں پیش کیا گیا تھا، پہلے وہ علاحدہ شائع ہوا تھا، اب اس کو ’’اسلام تغیر پذیر دنیا میں‘‘ کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔
(۲۰) داڑھی اور انبیاء کی سنتیں :
ناخن تراشنے، حجامت بنوانے، مسواک کرنے، کلی اور ناک صاف کرنے، جسم کے جوڑوں کو دھونے، ختنہ کرنے، پانی سے استنجاء کرنے، بالوں میں مانگ نکالنے، مونچھیں تراشنے اور داڑھی رکھنے کے متعلق واضح احکامات، مسائل، دلائل اور فضائل کا مجموعہ ہے، داڑھی پر ہونے والے اعتراضوں کے جوابات بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
(۲۱) حرمت مصاہرت: اس میں سسرالی اور دامادی رشتوں کے مفصل احکام، اور ناجائز انتفاع کا مد لل حکم بیان کیا گیا ہے۔
(۲۲) تسہیل ادلۂ کاملہ:یہ حضرت شیخ الہند کی مایۂ ناز کتاب ’’ادلۂ کاملہ‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے، اس میں غیر مقلدین کے چھیڑے ہوئے دس مشہور مسائل کی مکمل تفصیل ہے، یہ شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔
(۲۳) حواشی وعناوین ایضاح الادلۃ :ایضاح الادلۃ حضرت شیخ الہند کی شہرۂ آفاق کتاب ہے، اس پر موصوف نے نہایت مفید حواشی ارقام فرمائے ہیں، اور ذیلی عناوین بڑھائے ہیں، یہ کتاب بھی شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔
(۲٤) حواشی امداد الفتاوی: موصوف نے قیام راندیر کے زمانے میں یہ حواشی لکھنے شروع کئے تھے، یہ حواشی بھی اہل علم میں وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
(۲۵) افادات نانوتوی:یہ موصوف کا ایک نہایت قیمتی مضمون ہے، جس کو دارالعلوم اشرفیہ راندیر کی تدریس کے زمانہ میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا۔
(۲٦) افادات رشیدیہ :یہ موصوف کا دوسرا نہایت مفید مضمون ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تدریس کے آغاز میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی وقت رسالہ دارالعلوم دیوبند میں قسط وار شائع ہوا تھا۔
(۲۷) رحمۃ اللہ الواسعۃ:یہ حجۃ اللہ البالغہ کی مبسوط اردو شرح ہے، حجۃ اللہ البالغہ کی تشریح ایک بھاری قرضہ تھا، جو ڈھائی سوسال سے امت کے ذمہ باقی چلا آ رہا تھا۔
(۲۸) تہذیب المغنی:المغنی علامہ محمد طاہر پٹنی قدس سرہ کی اسماء رجال پر بہتر ین کتاب ہے، موصوف نے اس کی عربی میں شرح لکھی ہے۔
(۲۹) زبدۃالطحاوی:یہ امام طحاوی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی عربی تلخیص ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی کتابیں ہیں۔
🌷دعوتی و تبلیغی خدمات:
مذکورہ بالا تعلیمی وتدریسی اور تصنیفی مصروفیات کے باوجود آپ ملک و بیرون ملک کے دورے کرتے رہتے تھے، اور جو حضرات دینی باتیں سننے کے مشتاق ہیں، ان کو اپنی نواسنجیوں سے نوازتے رہتے تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کی تدریس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے اور تصنیفی کام جاری رکھتے ہوئے، درمیان سال میں وقتاً فوقتاً ملک و بیرون ملک کے مختصر دورے کرتے رہتے تھے، اور رمضان المبارک کی طویل تعطیل میں کبھی برطانیہ، کبھی کناڈا، کبھی افریقہ اور امریکہ تشریف لے جاتے، ایک دن میں کئی کئی تقریریں کرتے، سعادت مند سامعین کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت، خوف خدا و فکر آخرت اور اعمال صالحہ پر ابھارتے رہتے، حرام اور منکر باتوں سے نہایت مؤثر انداز میں باز رہنے کی تلقین فرماتے رہتے۔
🌷انداز خطابت اور تصنیفی خصوصیات:
جس طرح موصوف کا انداز خطابت
سے مجبوری میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو دورۂ حدیث میں غالباً پندرہ سو یا اس سے بھی زیادہ طلبہ ہوتے ہیں۔
سال کے آْخری دن ہونے والی ان کی پندو نصائح سے معمور تقریر بھی یادگار ہوتی تھی ۔ اس دن وہ خود بھی جذبات سے لبریز ہوتے اور طلبہ پر بھی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ آخری حدیث کا سبق ہوتا،تشریح کی جاتی اور پھر وہ باتیں ہوتیں جو فضیلت کی تکمیل کرنے والے طلبہ کے لیے زندگی بھر کام آنے والی ہوتیں ۔ وہ اپنے طلبہ کی تین جماعتوں میں تقسیم کرتے :اعلی،متوسط اور ادنی اور پھر ان میں سے ہر ایک کو عملی زندگی کا ٹاسک بتاتے۔ اسی کے مطابق سرگرمِ کار ہونے کی تلقین کرتے۔ جب طالب علم آخری دن ان کی کلاس سے اٹھتا توگرچہ اسے اس بات کا غم ہوتا کہ مفتی صاحب جیسے عظیم استاذ سے جدا ہونا پڑ رہا ہے،مگرساتھ ہی اسے خوشی بھی ہوتی کہ اس کا دامن علم و فکر کے جواہر ریزوں سے بھرا ہوا ہے۔ مفتی صاحب نہایت ذہین انسان تھے اوران کا دماغ گویا ایک وسیع و عریض کتب خانہ تھا جس میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں ہر وقت موجود و مستحضر رہتیں۔
مفتی صاحب کا کارنامہ صرف یہی نہیں ہے کہ انھوں نے کم و بیش نصف صدی تک علم حدیث پڑھا یا اور ہندوبیرون ہند کے ہزارہا طلبہ ان سے سیراب ہوئے،ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ عصرِحاضر کے طلبہ کے ذہنی مستوی کا ادراک کرتے ہوئے در سِ نظامی کی کئی اہم کتابوں کی لسانی تہذیب و تسہیل کاکام کیا اور انھیں نئے لباس میں شائع کیا۔ بانیِ دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کی متعدد کتابوں کی تسہیل فرمائی اور انھیں نئی نسل کے لیے سہل الفہم بنایا،درسِ نظامی کی متعدد اہم کتابوں کی آسان اردو زبان میں تشریحیں کیں اور جامع ترمذی کی آٹھ جلدوں میں ،جبکہ صحیح بخاری کی بارہ جلدوں میں شرحیں لکھیں اور امام ولی اللہ دہلوی کی معرکۃ الآرا کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی منفرد و ممتاز شرح رحمۃ اللہ الواسعہ لکھ کرعلمی دنیا پر احسانِ عظیم کیا۔ ان کے علاوہ بھی مختلف درسی کتابوں کی دسیوں شروح تحریر کیں اور دیگر موضوعات پر بھی اہم کتابیں لکھیں۔
الغرض مفتی صاحب کی پوری زندگی نہایت ہی سرگرم وماجرا پرور رہی۔ ان کی پیدایش 1940میں گجرات کے ضلع پالن پور میں ہوئی تھی،1962میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی اور1972۔73میں دارالعلوم دیوبند میں استاذ مقرر ہوئے اور تاحیات علمِ حدیث وفقہ کی امہاتِ کتب کی تدریس کی خدمت انجام دی۔لگ بھگ اسی سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ پاک حضرت مفتی صاحب کی کامل مغفرت فرمائے،پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہم جیسے ان کے ہزارہا شاگردوں کی طرف سے انھیں بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ (آمین)
بعد فجر معمول سے پہلے آج نید کھل گئی وقت دیکھنے کے لیے موبائل اٹھایا توحادثہ فاجعہ کا عنوان واٹس اپ پر نظر آیا ہے بقیہ ماجرا پڑھے بغیر ہی سمجھ میں آ گیا
تشویش کی خبریں متواتر مل رہی تھیں ساتھ ہی کچھ تسلی بخش خبریں بھی آرہی تھی دل کو امید تھی کہ انشاءاللہ صحت ہوجائے گی
مگر اس برخلاف جب وفات کی خبر آئی تو بڑا صدمہ ہوا نید اچاٹ ہوگئی
اناللہ وانا الیہ راجعون
دماغ کی اسکرین حضرت الاستاذ کا باوقار متین سراپا آکر ٹھہر سا گیا ہے خاص طور مغرب کے بعد آپ کی تشریف آوری وہ دلکش منظر
احاطہ مولسری میں کنویں والے نل پر پہنچ کر پان کو تھوک کر منہ صاف کرنا پھر دارالحدیث کی طرف محو خرام ہونا دار الحدیث میں داخل ہوتے ہی یک لخت ماحول پر سکون اور سکوت کا چھاجانا، مسند کے پاس پہنچ کر تھوڑی دیر ٹھہر کر مجمع پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا اور خاص انداز سے سلام کرنا اور لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے مسند پر فروکش ہونا
اور کبھی مجمع کو موافق نا پاکر داخل ہونے کے ساتھ الٹے پاوں واپس چلے جانا
کیسا بڑھا ہوا وقار تھا اور دلوں میں آپ کے لیے کیسا زبردست احترام تھا
مدرسہ شاہی میں پچھلے سالوں میں ایک سے زائد بار آپ کی تشریف آوری ہوئی ایک مرتبہ حضرت مفتی محمد سلمان منصورپوری کے گھر ناشتے پر مدعو تھے مدرسہ کے بھی اساتذہ موجود تھے حضرت ناشتہ سے پہلے انسولین کا انجکشن لینے کی تیاری میں تھے کہ حضرت مفتی شبیر صاحب کسی قدر گھبراہٹ سے بولے حضرت یہ تو شوگر کا آخری اسٹیج ہے
حضرت مسکرائے جیسے کوئی کسی بھولے آدمی کی بات پر مسکرادیا کرتا ہے اور پھر اپنے مخصوص انداز میں فرمایا مولوی صاحب ہم کون سے پہلے اسٹیج میں ہیں ہم بھی تو آخری اسٹیج میں ہیں
مفتی صاحب ہمت ، محنت، دھن، لگن، خود اعتمادی، حفاظت وقت ،سعی پیہم، جہد مسلسل اور عالمانہ وقار کے حوالے سے ایک مثالی شخصیت اور قابل تقلید نمونہ تھے
ماہ مبارک میں وفات ان شاء اللہ حسن خاتمہ کی بشارت ہے اللہ آپ کی حسنات اور گراں خدمات کو قبول فرمائے اور اپنے قرب میں جگہ عنایت فرمائے آمین
محمد اجمل قاسمی مدرسہ شاہی مراد آباد
۳۹ ) ارشاد الفہوم شرح سلم العلوم : منطق کی کتابوں میں سلم انتہائی دقیق کتاب مانی جاتی ہے، اور کچھ طریقہٴ تدریس نے بھی اس کتاب کو مشکل بنادیا ہے، یہ کتاب سلم کی ایسی شرح ہے، کہ مشکل سے مشکل مقامات بھی سہل انداز سے حل ہوجاتے ہیں۔
(۴۰ ) دین کی بنیادیں اور تقلید کی ضرورت : یہ کتاب چند تقریروں کا مجموعہ ہے، جس میں دین اسلام کی بنیادوں اور تقلید کی ضرورت کو عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
( ۴۱ ) فقہ حنفی اقرب الی النصوص ہے : غیر مقلدین کہتے ہیں، کہ فقہ حنفی کی بنیاد قیاس پر ہے، اس کتابچہ میں غیر مقلدین کے اس پروپیگنڈہ کا جواب دیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے، کہ فقہ حنفی کی بنیاد نصوص پر ہے۔
( ۴۲ ) آسان فارسی قواعد : اس کتاب کے دو حصے ہیں، بہت سے مدارس میں تیسیر المبتدی کی جگہ یہ کتاب داخلِ نصاب ہے۔
( ۴۳ ) مبادی الاصول : یہ عربی کتاب اصولِ فقہ میں ہے ، بہت سے مدارس میں اصول الشاشی سے پہلے یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے، اور داخل نصاب ہے۔
(۴۴ ) معین الاصول : یہ مبادی الاصول کی آسان اردو شرح ہے، اصول الشاشی، نور الانوار اور حسامی کے طلبہ کےلئے نہایت مفید کتاب ہے۔
(۴۵) شرح علل الترمذی : یہ ترمذی شریف کی کتاب العلل کی عربی شرح ہے،اس میں نہایت آسان زبان میں کتاب العلل کو سمجھا گیا ہے۔
(۴۶ ) مسلم پرسنل لا اور نفقۂ مطلقہ : یہ کتابچہ دفترِ اہتمام دارالعلوم دیوبند سے شائع کیا گیا تھا، اس میں مسلم پرسنل لا کی اہمیت، اور نفقۂ مطلقہ کے سلسلہ میں عدالت عالیہ کی طرف سے صادر ہونے والے فیصلے پر علمی اور فقہی انداز میں نقد کیا گیا ہے، اور نفقۂ مطلقہ پر ہونے والے اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے گئے ہیں۔
دعوتی و تبلیغی خدمات:
مذکورہ بالا تعلیمی و تدریسی اور تصنیفی مصروفیات کے باوجود، آپ ملک و بیرون ملک کے دورے کرتے رہتے ہیں، اور جو حضرات دینی باتیں سننے کے مشتاق ہیں، ان کو اپنی نواسنجیوں سے نوازتے رہتے ہیں، آپ دارالعلوم دیوبند کی تدریس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے، اور تصنیفی کام جاری رکھتے ہوئے، درمیان سال میں، وقتاً فوقتاً ملک و بیرون ملک کے مختصر دورے کرتے رہتے ہیں، اور رمضان المبارک کی طویل تعطیل میں، کبھی برطانیہ، کبھی کناڈا، کبھی افریقہ اور امریکہ تشریف لے جاتے ہیں، ایک دن میں کئی کئی تقریریں کرتے ہیں، سعادت مند سامعین کو، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت، خوف خدا و فکر آخرت، اور اعمال صالحہ پر ابھارتے رہتے ہیں، حرام اور منکر باتوں سے نہایت مؤثر انداز میں باز رہنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں۔
انداز خطابت اور تصنیفی خصوصیات:
جس طرح موصوف کا انداز خطابت نہایت مؤثر، درس نہایت مقبول اور عام فہم ہوتا ہے، اسی طرح آپ کی تمام تصانیف نہایت آسان، عام فہم اور مقبول عام و خاص ہیں، آپ کی تقریریں نہایت مبسوط، اور علمی نکات سے پر، اور تحریر یں نہایت مرتب، واضح اور جامع ہوتی ہیں، اسی لئے آپ کی کئی تصانیف دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہیں۔
ترقیات کا راز :
موصوف کو اللہ جل شانہ و عم نوالہ نے بہت سی خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے، آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس ہے، مزاج میں استقلال اور اعتدال ہے، فطرت میں سلامت روی، اور ذہن رسا کے مالک ہیں، زود نویس اور خوش نویس ہیں، حق و باطل، اور صواب و خطا کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت رکھتے ہیں، اور حقائق و معارف کے ادراک میں یکتائے زمانہ ہیں۔
اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے، کہ موصوف اپنے کاموں میں نہایت چست اور حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے والے ہیں، موصوف کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے، کہ ہم نے حضرت اقدس جیسا شب و روز محنت کرنے والا، مصروف آدمی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، آپ کے تمام شاگرد جانتے ہیں، کہ آپ کادرس کتنا مقبول ہے، اور جن حضرات کو آپ کی تصانیف دیکھنے، اور تقاریر سننے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں، کہ آپ کی تصانیف اور تقاریر کتنی پر مغز، مرتب اور جامع ہوتی ہیں، اور آپ کے خدام جانتے ہیں، کہ حضرت اقدس اپنی اور اپنے متعلقین کی کتابوں کی تصحیح و طباعت کا کتنا اہتمام فرماتے ہیں، اور اپنے بھائیوں اور اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا کس قدر خیال فرماتے ہیں۔
اجازت بیعت و ارشاد :
موصوف جس طرح علوم ظاہری میں درک و کمال رکھتے ہیں، اسی طرح علوم باطنی سے بھی بہرہ ور ہیں، مگر اس کا اس قدر اخفاء فرماتے ہیں، کہ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں، کہ آپ صرف علوم ظاہری میں مہارت رکھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ طالب علمی کے زمانہ سے، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ سے بیعت تھے، اور دیگر بزرگان دین سے بھی فیض یافتہ ہیں، خاص طور پر حضرت اقدس مولانا عبد القادر صاحب رائے پوری قدس سرہ کی مجالس میں، مظاہر علوم کی طالب علمی کے زمانہ میں شرکت کرتے رہے ہیں، اور حضرت مولانا مفتی
۔ ( اضافہ: الحمدللہ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتھم نے یہ تفسیر مکمل کردی ہے، اور شائع ہوگئی ہے، ابتدا کے نو پارے جو حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھے تھے، اسی انداز اور طرز پر ان نو پاروں کی تفسیر بھی لکھ رہے ہیں، اور سورۂ بقرہ مکمل ہوگئی ہے )۔
(۲) الفوزالکبیر کی تعریب جدید : یہ سابقہ تعریب کی تہذیب ہے، دار العلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصابِ درس میں داخل ہے۔
(۳) العون الکبیر : یہ الفوز الکبیر کی عربی شرح ہے، پہلے قدیم تعریب کے مطابق تھی، اب جدید تعریب کے مطابق کر دی گئی ہے۔
(۴) فیض المنعم : یہ مقدمۂ مسلم شریف کی معیاری اردو شرح ہے، جو ترکیب، حل لغات اور فن حدیث کی ضروری بحثوں پر مشتمل ہے۔
(۵) تحفہ الدر : یہ نخبۃ الفکر کی بہترین اردو شرح ہے، کتب حدیث پڑھنے والوں، خصوصاً مشکوۃً شریف پڑھنے والوں کے لئے نہایت قیمتی سوغات ہے۔
(۶) مبادی الفلسفہ : اس میں فلسفہ کی تمام اصطلاحات کی عربی زبان میں مختصر اور عمدہ وضاحت کی گئی ہے، دارالعلوم دیوبند، اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے۔
(۷) معین الفلسفہ : یہ مبادیِ الفلسفہ کی بہترین اردو شرح ہے، اور حکمت وفلسفہ کے پیچیدہ مسائل کی عمدہ وضاحت پر مشتمل معلومات افزا کتاب ہے۔
(۸) مفتاح التہذیب : یہ علامہ تفتازانی کی ’’تہذیب المنطق ‘‘کی ایسی عمدہ شرح ہے، کہ اس سے ’’شرح تہذیب‘‘جو مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے، خوب حل ہو جاتی ہے۔
(۹) آسان منطق : یہ تیسیرا لمنطق کی تہذیب ہے، دارالعلوم دیوبند اور بہت سے مدارس میں ’’تیسیرالمنطق‘‘کی جگہ پڑھائی جاتی ہے۔
(۱۰) آسان نحو (دو حصے ) : نحو کی ابتدائی عربی کتابوں میں تدریج کا لحاظ نہیں رکھا گیا، یہ کتاب اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے، یہ دوحصے پڑھاکر علم نحو کی کوئی بھی عربی کتاب شروع کرائی جاسکتی ہے۔ زبان آسان اور انداز بیان سلجھا ہوا ہے۔
(۱۱) آسان صرف (تین حصے ) : علم صرف کی جو کتابیں اردو میں لکھی گئی ہیں، ان میں عام طور پر تدریج کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، جبکہ یہ بات نہایت ضروری ہے، یہ نصاب اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، یہ نصاب نہایت مفید اور بہت سے مدارس میں داخل درس ہے۔
(۱۲) محفوظات (تین حصے ) : یہ آیات و احادیث کا مجموعہ ہے، جو طلبہ کے حفظ کے لئے مرتب کیا گیا ہے، بہت سے مدارس و مکاتب میں داخل نصاب ہے۔
(۱۳) آپ فتوی کیسے دیں ؟: یہ علامہ محمد امین بن عابدین شامی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح عقودرسم المفتی‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے۔
(۱۴) کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے ؟: یہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتاب ’’توثیق الکلام‘‘ کی نہایت آسان عام فہم شرح ہے۔
(۱۵) حیات امام ابوداؤد : اس میں امام ابوداؤد سجستانی کی مکمل سوانح، سنن ابی داؤد کا تفصیلی تعارف، اور اس کی تمام شروحات و متعلقات کا مفصل جائزہ، سلیس اور دلنشین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
(۱۶) مشاہیر محدثین و فقہائے کرام اور تذکرہ راویان کتب حدیث : اس میں خلفاء راشدین، عشرۂ مبشرہ، ازواج مطہرات، بنات طیبات، مدینہ کے فقہائے سبعہ، مجتہدین امت، محدثین کرام، راویان کتب حدیث، شارحین حدیث، فقہائے ملت، مفسرین عظام، متکلمین اسلام اور مشہور شخصیات کا مختصر جامع تذکرہ ہے۔
(۱۷) حیات امام طحاوی : اس میں امام ابو جعفر طحاوی کے مفصل حالات زندگی، ناقدین پر رد، تصانیف کا تذکرہ، زبدۃ الطحاوی کی توضیح اور شرح معانی الآثار کا تعارف ہے۔
(۱۸) اسلام تغیر پذیر دنیا میں : یہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ اور جامعہ ملیہ دہلی کے سمیناروں میں پڑھے گئے چار قیمتی مقالوں کا مجموعہ ہے۔
(۱۹) نبوت نے انسانیت کو کیا دیا؟ : یہ مقالہ جامعہ ملیہ دہلی کے ایک جلسہ میں پیش کیا گیا تھا، پہلے وہ علاحدہ شائع ہوا تھا، اب اس کو ’’اسلام تغیر پذیر دنیا میں ‘‘ کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔
(۲۰) داڑھی اور انبیاء کی سنتیں : ناخن تراشنے، حجامت بنوانے، مسواک کرنے، کلی اور ناک صاف کرنے، جسم کے جوڑوں کو دھونے، ختنہ کرنے، پانی سے استنجاء کرنے، بالوں میں مانگ نکالنے، مونچھیں تراشنے، اور داڑھی رکھنے کے متعلق، واضح احکامات، مسائل، دلائل اور فضائل کا مجموعہ ہے، داڑھی پر ہونے والے اعتراضوں کے جوابات بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
(۲۱) حرمت مصاہرت : اس میں سسرالی اور دامادی رشتوں کے مفصل احکام، اور ناجائز انتفاع کا مد لل حکم بیان کیا گیا ہے۔
(۲۲) تسہیل ادلۂ کاملہ : یہ حضرت شیخ الہند کی مایۂ ناز کتاب ’’ادلۂ کاملہ‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے، اس میں غیر مقلدین کے چھیڑے ہوئے دس مشہور مسائل کی مکمل تفصیل ہے، یہ شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔
(۲۳) حواشی وعناوین ایضاح الادلۃ : ایضاح الادلۃ حضرت شیخ الہند کی شہرۂ آفا
کاسوواں سال ہے، دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی، آپ نے دارالعلوم دیوبند میں جن حضرات اکابر سے پڑھا وہ مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۲) حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلندشہری رحمہ اللہ تعالیٰ (۳) حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۴) حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب کیرانوی رحمہ اللہ تعالیٰ (۵) حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ (۶) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۷) حضرت مولانا فخر الحسن صاحب مرادآبادی رحمہ اللہ تعالیٰ (۸)حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۹) فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادی رحمہ اللہ تعالیٰ (۱۰) امام المعقول و المنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمہ اللہ تعالیٰ (۱۱)مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری رحمہ اللہ تعالیٰ (۱۲) شیخ محمود عبد الوہاب صاحب مصری رحمہ اللہ تعالیٰ۔
موصوف اپنے بعض احوال اور کتب حدیث کے اساتذۂ کرام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خاکپائے علماء : سعید احمد بن یوسف بن علی بن جیوا (یعنی یحییٰ ) بن نور محمد پالنپوری، گجراتی ثم دیوبندی، تاریخ ولادت محفوظ نہیں، والد ماجد رحمہ اللہ نے، اندازے سے ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۴۰ء بتائی ہے، دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ۱۳۸۰ھ میں لیا، اور ۱۳۸۲ھ میں فاتحۂ فراغ پڑھا، بخاری شریف حضرت فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادیؒ سے، مقدمۂ مسلم شریف ومسلم شریف کتاب الایمان و ترمذی شریف جلد اول حضرت علامہ بلیاویؒ سے، باقی مسلم شریف، حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحبؒ بلند شہری سے، ترمذی جلد ثانی مع کتاب العلل و شمائل اور ابوداؤد شریف، حضرت علامہ فخرالحسن مرادآبادیؒ سے، نسائی شریف حضرت مولانا محمد ظہور صاحبؒ دیوبندی سے، طحاوی شریف حضرت مفتی سید مہدی حسن شاہؒ جہاں پوری سے، مشکوٰۃ شریف حضرت مولانا سید حسن صاحبؒ دیوبندی سے، ان کے انتقال کے بعد جلد اول حضرت مولانا عبدالجلیل صاحبؒ دیوبندی سے، اور جلد دوم حضرت مولانا اسلام الحق صاحبؒ اعظمی سے پڑھی، اس سال موطا مالک حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ اور موطا محمد حضرت مولانا عبد الاحد صاحب ؒ دیوبندی کے پاس تھی۔ (مشاہیر محدثین و فقہائے کرام ص/۲۷و۲۸ )
آپ بچپن سے ہی نہایت ذہین و فطین، کتب بینی، اور محنت کے عادی تھے، اس پر مذکور بالا اساتذۂ کرام کی تعلیم و تربیت نے، آپ کی استعداد و صلاحیت کو بائیس سال کی عمر میں ہی، بام عروج پر پہنچا دیا تھا، چنانچہ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم دینی درسگاہ کے، سالانہ امتحان میں آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی تھی۔
دارالافتاء میں داخلہ:
دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد، آپ نے شوال ۱۳۸۲ھ میں تکمیل افتاء کے لئے درخواست دی، یکم ذیقعدہ ۱۳۸۲ھ کو آپ کا دار افتاء دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہو گیا، اور حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں کتب فتاوی کا مطالعہ اور فتوی نویسی کی مشق کا آغاز فرمایا۔
آپ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں، اس لئے دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد اپنے بھائیوں کی تعلیم وتر بیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی، اسی سال آپ نے سماحۃ الشیخ محمود عبدالوہاب مصری رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس حفظ بھی شروع کیا، جو قرآن کریم کے جید حافظ اور مصری قاری تھے، اور جامعۃ الازہر قاہرہ کی طرف سے دارالعلوم دیوبند میں مبعوث تھے۔
الغرض ۱۳۸۲ھ اور ۱۳۸۳ھ میں آپ ایک طرف کتب فتاوی کا مطالعہ، فتوی نویسی کی مشق کرتے تھے، دوسری طرف اپنے بھائی کو حفظ کراتے تھے اور خود بھی حفظ کرتے تھے، اور ان کاموں میں ایسے مصروف ومنہمک تھے، کہ رمضان المبارک میں بھی وطن تشریف نہیں لے گئے، ادھر افتاء کمیٹی نے آپ کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھانے کے لئے، دارالافتاء کے داخلہ میں ایک سال کی توسیع کر دی، چھ ماہ بعد دارالعلوم دیوبند کے ارباب انتظام نے، آپ کا معین مفتی کی حیثیت سے دارالافتاء دار العلوم دیوبند میں تقرر کر دیا، جب کہ اس زمانہ میں معین مفتی رکھنے کا رواج نہیں تھا، جیسا کہ اب ہے۔
راندیر میں آپ کا تقرر:
دار الافتاء کے نصاب کی تکمیل کے بعد، حضرت علامہ بلیاویؒ کے توسط سے آپ کا تقرر دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے ہوا، چنانچہ آپ ۲۱ / شوال ۱۳۸۴ھ کو مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے اپنے گھر تشریف لے گئے، والدین کی زیارت کا شرف حاصل کیا، پھر اپنے بھائیوں کو ساتھ لے کر راندیر (سورت) تشریف لے گئے، اور دارالعلوم اشرفیہ میں تدریس کا آغاز فرمایا۔
راندیر میں آپ کی خدمات:
ذیقعدہ ۱۳۸۴ھ سے شعبان ۱۳۹۳ھ تک (۹سال) دارالعلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں موصوف نے ترجمہ قرآن کریم، ابوداؤد شریف، ترمذی شریف، شمائل، موطین، نسائی شریف،
آمد اور قابل توجہ ہے ۔
۱ حدیث و سنت میں فرق
۲ تشریع کے وقت کی ترخیص
۳ واقعات کے متعلقات کا اختلاف
٤ ناقص کو ناقص کی طرف کامل فرض کرنا
۵ استدلال خفی
*درس کی مقبولیت کا راز :*
آپ کا درس طلبہ بے حد مقبول ہے ،آپ کے درس کی مقبولیت کا راز ایک طرف علم و فن کی دقیق ابحاث اور نکات میں غایت کمال میں پنہاں ہے تو دوسری طرف آپ کے طرز بیاں، حسیں انداز، اور دل ربا طریقہ تدریس میں، اسی لئے ہمارے لئے وسیع سے وسیع تر مضامین کو بھی ہضم کرنے میں دشواری کا سامنا نہ ہوتا ،اختصار اور ترتیب کے ساتھ بیان فرماتے اور زیادہ تر توجہ طلبہ کو مسائل کے استخراج کے طریقے اور دلائل کی باریکیوں پر دلاتے تھے ،جس سے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا ملے اور پھر یہ اجالا بن کر چہاردانگ عالم کو روشن کریں، اسی لئے آپ کے شاگردوں میں بڑے بڑے جبال العلم موجود ہیں مثلا مفتی خورشید ص ہمارے مادر علمی کے حالیہ ناظم تعلیمات ،گویا ہر کوئی آپ کے درس میں بہ زبان حال یہ کہتا نظر آتا ۔۔۔۔
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے میخانے میں کیا رکھا ہے
*ذاتی خصوصیات:*
اسلاف کے مثالی نمونہ ،استحضار علمی ،سرعت انتقال ذہنی، فقہی بصیرت، اجتہادی صلاحیت، اصول و فروع کے تطبیق کی لیاقت ،سابقہ نظائرپر مسائل کو قیاس کر نے کی مہارت تامہ، ایک عبقری مفتی کی خصوصیات کےحامل، علمی مباحث، فرق و مذاہب یا نظریات و رجحانات کے درمیان توازن اور تجزیہ کے بے مثال ذوق کے حامل، اظہار حق میں جری واقع ہونے والے ہمارے فخر کا سامان ،دار العلوم کے سر کے تاج ہیں ۔
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ھم عصروں
ان کو جب معلوم یہ ھو گا ہم نے ان کو دیکھا ہے
از : *اعجازالحق سہارنپوری*
شریک دورہ حدیث دارالعلوم دیوبند
جاری .................