حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 65
حضرت تمیم بن اوس داری رضی اللہ عنہ:
نام ونسب:
نام: تمیم، کنیت: ابورقیہ، داری نسبت ہے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: تمیم بن اوس بن خارجہ ابن سور بن خزیم بن ذراع بن عدی بن الدار بن ہانی بن حبیب بن تمارہ بن لخم بن عدی بن عمر بن سباء۔
(داری کی نسبت کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اجداد میں ایک شحص کا نام دار ہے جیسا کہ سلسلہ نسب میں مذکور ہے، یہ نسبت اسی کی طرف ہے، اس کی تائید سمعانی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ: "فاما النسبة أی الجد فمنهم ابورقیة الداري۔" (سمعانی، ذکر داری: 219)
شام کے رہنے والے تھے، قبیلہ لخم سے (لخم و جذام یمن کے رہنے والے تھے، جو شام میں آکر اقامت پزیر ہو گئے تھے، مذہباً عیسائی تھے۔ (الاصابہ، الاستیعاب، ابن سعد)
قبولیتِ اسلام:
سنہ 9ھ میں اپنے بھائی نعیم کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور مشرف باسلام ہوئے۔ (ابن سعد، اسدالغابہ)
غزوات میں شرکت:
اسلام لانے کے بعد سے جتنے غزوات پیش آئے سب میں شریک ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے کفاف کے لیے شام میں قریۃ عینوں کے ایک حصہ آپ کو دے دیا تھا اور اس کی تحریری سَند بھی لکھ دی تھی؛ مگر دیارِ محبوب کی محبت نے وطن کی محبت فراموش کردی؛ چنانچہ عہدِ نبوی ﷺ کے بعد خلفائے ثلاثہ کے زمانے تک آپ مدینہ ہی میں رہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ملی فتنہ وفساد شروع ہوا توآپ بادلِ ناخواست مدینہ چھوڑ کر اپنے وطن شام چلے گئے۔
آپ جب شام سے مدینہ آئے تو آپ کے ساتھ کچھ قندیلیں اور تھوڑا سا تیل بھی لیتے آئے، مدینہ پہنچ کر قندیلوں میں تیل ڈال کر مسجد نبوی ﷺ میں لٹکادیں اور جب شام ہوئی توانہوں نے انہیں جلادیا، اس سے پہلے مسجد میں روشنی نہیں ہوتی تھی، آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور مسجد کو روشن پایا تو دریافت فرمایا کہ مسجد میں روشنی کس نے کی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کا نام بتایا، آپ ﷺ بےحد خوش ہوئے، ان کو دعائیں دیں، اس وقت نوفل بن حارث موجود تھے؛ انہوں نے اپنی بیوہ صاحبزادی ام المغیرہ کو نکاح کے لئے پیش کیا (پہلے ان کا نکاح براء یاابوالبراء سے ہوا تھا) آپ ﷺ نے اسی مجلس میں ام المغیرہ سے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کا نکاح کردیا۔ (تہذیب: 1/512)
وفات:
مدینہ سے واپسی کے بعد گوشہ نشینی اختیار کرلی اور آخر عمر تک زاہدانہ اور درویشانہ زندگی بسر کی، (ارباب طبقات میں آپ کا سنہ وفات نہیں ہے؛ البتہ تہذیب التہذیب میں ہے کہ آپ کی قبر پر کچھ ایسے نشانات پائے گئے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ کی وفات سنہ40ھ میں ہوئی ، سنہ40ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور بیت جبرون میں مدفون ہوئے۔ (الاصابہ میں جبرین ہے اور تہذیب میں جیرون، میں نے تہذیب ہی کے بیان کو اختیار کیا، تہذیب: 513۔ سمعانی: 1/219)
اولاد:
آپ رضی اللہ عنہ کی کوئی اولادِ نرینہ نہ تھی، صرف ایک صاحبزادی رقیہ تھیں، جن کی نسبت سے آپ کی کنیت ابورقیہ ہے۔
علم وفضل:
اسلام سے پہلے آپ کا شمار علمائے نصاریٰ میں تھا، قبولِ اسلام کے بعد علمی ذوق قرآن مجید کی جانب منتقل ہوگیا اور اس سے پوری واقفیت پیدا کی، قتادہ کا قول ہے کہ: "كان من علما أهل الكتابين۔" بعض لوگوں نے آپ کا شمار ان صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں کیا ہے، جنہوں نے عہدِ نبوی میں قرآن جمع کیا تھا۔
(ابن سعد: 2/713)
تراویح کی امامت:
فتح الباری میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح باجماعت قائم کی تو مردوں کا امام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اور عورتوں کا امام حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔ (فتح الباری:1/219)
بعض روایتوں میں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے بجائے حضرت سلمان بن حثمہ رضی اللہ عنہ کا نام ہے، ائمہ حدیث نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ دونوں آدمی مختلف اوقات میں اس خدمت پر متعین ہوئے)
ایک روایت:
آپ رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایک واقعہ مسلم میں موجود ہے (محدثین نے اسی روایت سے روایۃ الکبار عن الصغار ایک مستقل اصول روایت بنالیا ہے اور یہی اس کی پہلی مثال ہے) روایت کیا ہے، اس کے علاوہ بہت سے کبار صحابہ اور تابعین نے بھی آپ سے روایتیں کی ہیں، مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت انس بن مالکؓ، زراہ بن عوفی، وروح بن زنباع، عبد اللہ ابن موہب، عطاء بن یزید اللیث، شہر بن جوشب، عبدالرحمن بن غنم، سلیم بن عامر، شرحبیل بن مسلم، قبیتہ بن ذویب(مسلم شریف، ذکرجاسہ)، کثیر بن مرہ، ازہر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب:511)
چونکہ آپ متأخر الاسلام تھے، اس لیے آپ کی روایتوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے، مسند میں 12/احادیث آپ کی سند سے درج ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، حَدِيثُ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، حدیث نمبر: 16985، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة، القاهرة)
اتباعِ سنت اور مواظبتِ عمل:
ایمان کو تمام اعمال حسنہ کی بنیاد سمجھتے تھے، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ سب سے بہتر عمل کیا ہے؟ بولے: خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، پھر جہاد، پھر حج مبرور۔ (صحیح بخاری: 2/1142)
حلیہ:
قد نہایت طویل، جسم لاغر، رنگ نہایت گندم گوں؛ بلکہ مائل بہ سیاہی، سر کے بال گھنے، خمدار اور اکثر سفید تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث: 170)
ازواج:
سیدنا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے متعدد شادیاں کیں، ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف ومعزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، بنو زہرہ اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے خاندان میں بھی رشتۂ مصاہرت قائم ہوا تھا، لیکن کسی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ (طبقات ابن سعد: قسم اول جزوثالث: 176)
============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔
گئی" تو اُٹھ کر ندائے تکبیر بلند فرماتے تھے، اسی بنا پر رمضان میں حضرت بلال ؓ کی اذان کے بعد کھانا پینا جائز تھا، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ بلال ؓ کی اذان صرف اس لیے ہے کہ جو لوگ رات بھر عبادتِ الہی میں مصروف رہے ہیں وہ کچھ آرام کریں اور جو تمام رات خواب راحت میں سرشار رہے ہیں وہ بیدار ہوکر نماز صبح کی تیاری کریں، لیکن وہ صبح کا وقت نہیں ہوتا، بلکہ کچھ رات باقی رہتی ہے۔ (صحیح بخاری: باب الاذان بعد الفجر وباب اذان الاعمی،ٰ 12)
حضرت بلال ؓ سفر وحضر ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کے مؤذن خاص تھے، ایک دفعہ سفر در پیش تھا، ایک جگہ رات ہوگئی، بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر اسی جگہ پڑاؤ کا حکم ہوتا تو بہتر تھا، ارشاد ہوا: مجھے خوف ہے کہ نیند تم کو نماز سے غافل کردے گی، حضرت بلال ؓ کو اپنی شب بیداری پر اعتماد تھا، انہوں نے بڑھ کر ذمہ لیا کہ وہ سب کو بیدار کردیں گے، غرض پڑاؤ کا حکم ہوا اور سب لوگ مشغولِ راحت ہوئے، حضرت بلال ؓ نے مزید احتیاط کے خیال سے شب زندہ داری کا ارادہ کرلیا اور رات بھر اپنے کجاوہ پر ٹیک لگائے بیٹھے رہے، لیکن اتفاقِ وقت اس حالت میں بھی آنکھ لگ گئی اور ایسی غفلت طاری ہوئی کہ طلوعِ آفتاب تک ہوشیار نہ ہوئے، آنحضرت ﷺ نے خوابِ راحت سے بیدار ہوکر سب سے پہلے ان کو پکارا اور فرمایا: "بلال ؓ تمہاری ذمہ داری کیا ہوئی؟" عرض کیا: یارسول اللہ! آج کچھ ایسی غفلت طاری ہوئی کہ مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا تھا، ارشاد ہوا: بےشک خدا جب چاہتا ہے تمہاری روحوں پر قبضہ کرلیتا ہے اور جب چاہتا ہے تم میں واپس کردیتا ہے، اچھا اُٹھو! اذان دو اور لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرو۔ (صحیح بخاری: باب الاذان بعد ذھاب الوقت)
غَزَوات میں شرکت:
حضرت بلال ؓ تمام مشہور غزوات میں شریک تھے، غزوۂ بدر میں انہوں نے امیہ بن خلف کو تہِ تیغ کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اور خود ان کی ایذارسانی میں بھی اس کا ہاتھ سب سے پیش پیش تھا۔ (اسدالغابہ: 1/207)
فتح مکہ میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب تھے، آپ ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس مؤذنِ خاص کو معیت کا فخر حاصل تھا۔(کتاب المغازی باب دخول النبی ﷺ من أعلیٰ مکة) انہیں حکم ہوا کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر توحید کی پُرعظمت صدائے تکبیر بلند کریں، خدا کی قدرت وہ حرمِ قدس جو کہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے تعمیر کیا تھا، مدتوں صنم خانہ رہنے کے بعد پھر ایک حبشی نژاد کے نغمہ توحید سے گونج اٹھا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول، جزو ثالث: 167)
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلال ؓ نے اپنے محسن و ولی نعمت حضرت صدیق اکبر ؓ سے عرض کیا: یا خلیفۂ رسول اللہ ﷺ آپ نے مجھے خدا کے لئے آزاد کیا ہے یا اپنی مصاحبت کے لیے، فرمایا: خدا کے لیے، بولے: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد کرنا مومن کا سب سے بہتر کام ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ پیامِ صوت تک اسی عملِ خیر کو لازمۂ حیات بنالوں، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: بلال! میں تمہیں خدا اور اپنے حق کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس عالمِ پیری میں داغِ مفارقت نہ دو، اس مؤثر فرمان نے حضرت بلال ؓ کو عہدِ صدیقی کے غزوات میں شریک ہونے سے باز رکھا۔ (بخاری وطبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث: 168)
حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ نے مسندِ خلافت پر قدم رکھا تو انہوں نے پھر شرکتِ جہاد کی اجازت طلب کی، خلیفۂ اول کی طرح خلیفۂ دوم نے بھی ان کو روکنا چاہا، لیکن جوشِ جہاد کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا، بےحد اصرار کے بعد اجازت حاصل کی اور شامی مہم میں شریک ہو گئے۔ (بخاری وطبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث، صفحہ: 168)
حضرت عمرؓ نے 16ھ میں شام کا سفر کیا تو دوسرے افسرانِ فوج کے ساتھ حضرت بلال ؓ نے بھی مقامِ جابیہ میں ان کو خوش آمدید کہا اور بیت المقدس کی سیاحت میں ہمرکاب رہے، ایک روز حضرت عمرؓ نے ان سے اذان دینے کی فرمائش کی تو بولے: گو میں عہد کرچکا ہوں کہ حضرت خیرالانام ﷺ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا، تاہم آج آپ کی خواہش پوری کروں گا، یہ کہہ کر اس عندلیبِ توحید نے کچھ ایسے لحن میں خدائے ذوالجلال کی عظمت وشوکت کا نغمہ سنایا کہ تمام مجمع بیتاب ہوگیا، حضرت عمرؓ اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی، حضرت ابوعبیدہ ؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ بھی بے اختیار رو رہے تھے، غرض سب کے سامنے عہدِ نبوت کا نقشہ کھینچ گیا اور تمام سامعین نے ایک خاص کیفیت محسوس کی۔ (تاریخ طبری و اسد الغابہ: 1/208)
شام میں تَوَطّن:
حضرت بلال ؓ کو ملک شام کی سرسبزو شاداب زمین پسند آگئی تھی، انہوں نے خلیفۂ دوم سے درخواست کی کہ ان کو اور ان کے اسلامی بھائی حضرت ابورویحہ ؓ کو یہاں مستقل سکونت کی اجازت دی جائے، یہ درخواست منظور ہوئی تو ان دونوں نے قصبہ خولان میں مستقل اقامت اختیار کرلی اور حضرت ابوالدرداء انصاری ؓ کے خاندان سے جو پہلے ہی یہاں آکر آباد ہوگیا تھا، رشتہ ومناکحت کی، سلسلہ جنبانی فرماتے ہوئے کہا: ہم دونوں کافر
امیر شام مومنوں کے ماموں جان کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں ایک خوبصورت منقبت ملاحظہ فرمائیں:
آواز: عبدالرحمن حذیفی
شاعر: محمد علی حارث
پیشکش: الکمال نشریات
ویڈیو لنک🔽
https://youtu.be/NUKB9MFSU20
ہندو بنیے کے سامنے ڈٹ کر نعرہ تکبیر بلند کرنے والی خولہ اور سمیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی یاد گار، ہند کی فخر "مسکان خان" کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے پیش خدمت ہے "الکمال نشریات" کی جانب سے ایک خوبصورت ولوولہ انگیز ترانہ
شاعر: اشتیاق حیدر قاسمی (انڈیا)
آواز: حذیفہ رحیمی
ناشر: الکمال نشریات
ویڈیو اچھی لگے تو لایک کیجئے، شئر کیجئے، کمنٹ کیجئے اور الکمال نشریات چینل کو سبسکرائب کیجئے، شکریہ
جزاکم اللّه خیرا واحسن الجزاء
👇🏻👇🏻👇🏻
https://youtu.be/fI-lzdgPzn8
شیر محمد خان بادشاہ مغولستان اور الغ بیگ تیموری بادشاہ خراسان وماوراء النہر کے درمیان سخت جنگ واقع ہوئی، جس میں شیر محمد خان کو شکست ہوئی، شیر محمد خان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اویس خان، اس کے بعد اس کا بیٹا یونس خان ابن اویس تخت حکومت پر متمکن ہوا، یونس خان کے بعد اس کے بیٹے محمود خان و احمد اولجہ خان حاکم مغولستان ہوئے، ان دونوں بھائیوں سے ظہیر الدین محمد بابر نے شیبانی خان ازبک کے مقابلہ میں مدد طلب کی، انہوں نے بابر کی مدد کی اور میدان جنگ میں لڑتے ہوئے دونوں بھائی اسیر ہو گئے، جب شیبانی خان کے سامنے پیش کیے گئے تو اس نے ان دونوں کو رہا کردیا، لیکن یہ فرط غیرت سے آزاد ہوتے ہی خودکشی کرکے مرگئے اور چغتائی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، ان کے بعد بھی منصور خان ابن سلطان احمد اولجہ خان برائے نام مغولستان کا بادشاہ ہوا، مگر حقیقتاً مغولستان پر شیبان خان کی حکومت تھی۔
یہاں تک چنگیز خانی مغلوں کی حکومت و سلطنت کے مختصر حالات بیان کر چکے ہیں، اس کے بعد تیموری مغلوں کے کارنامے بیان ہوں گے، مغلوں کی حکومت و سلطنت کے دو حصے یا دو طبقے قرار دیئے جا سکتے ہیں، ایک مغولان چنگیزی، دوسرے مغولان تیموری، ہم اس وقت مغولان چنگیزی کا حال بیان کر چکے ہیں۔ مغولان تیموری کا حال بیان کرنے سے پہلے چند اور ضروری حالات کا بیان کرنا ازبس ضروری ہے، تاکہ سلسلہ تاریخ اسلام میں ہم بہت دور آگے نہ نکل جائیں۔ حالات مذکورہ کے ذہن نشین کرنے اور آئندہ حالات کے سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خاندان چنگیزی کا شجرۂ نسب اس جگہ درج کر دیا جائے، پہلے جو شجرہ درج ہو چکا ہے، اس سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ چنگیز خان اور امیر تیمور کتنی پشتوں کے بعد اوپر جا کر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں، اب چنگیز خان کی اولاد کس طرح متفرع ہوئی۔ ذیل کے شجرہ سے ہویدا ہو گا۔
*شجرۂ نسب:*
شجرۂ نسب جوجی خان ابن چنگیز خان (قوم ازبک)
شجرۂ نسب چغتائی خان ابن چنگیز خان
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
(تاریخ میں بادشاہوں نے مفتوح بادشاہوں اور اپنے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، یہ واقعہ اس کی ایک معمولی مثال ہے، ایسے متکبر و رعونت پسند بادشاہ اگر مفتوح بادشاہوں و اقوام کے حال اور انجام پر اگر غور کرتے تو ان کے حالات زندگی اور انجام سے ان کو بہت کچھ سبق مل جاتا، لیکن حکومت، طاقت اور شراب کے نشہ نے ان کو ایسے غورو فکر کا موقع ہی نہیں دیا۔)
اس کو شیبانی خان اس لئے کہتے تھے کہ اس کے اجداد میں کسی شخص کا نام شیبانی خان تھا، سلطان ابو الفتح محمد خان ازبک 917ھ میں مقتول ہوا، اس کے بعد اس کے بیٹے تیمور سلطان کو ازبکوں نے اپنا بادشاہ بنایا، 935ھ میں ازبکوں نے طہماسپ صفوی پر ایک سخت حملہ کرکے اس کو شکست دے دی تھی، مگر بعد شکست دینے کے وہ لوٹ مار میں مصروف ہوگئے اور طہاسپ نے موقع پا کر بے خبری میں حملہ کرکے ازبکوں کی فتح کو شکست سے تبدیل کر دیا۔
جانی بیگ خان کا ذکر اوپر آچکا ہے، جانی بیگ خان کا بیٹا اسکندر خان تھا، اسکندر خان کا بیٹا عبداللہ خان تھا، عبداللہ خان ازبک نے ایرانیوں کو شکست فاش دی، عبداللہ خان ازبک ہندوستان کے بادشاہِ اکبر کا معاصر تھا، اکبر کے ساتھ اس کی اکثر خط و کتابت رہتی تھی، عبداللہ خان نے 1006ھ میں وفات پائی، اس کے بعد اس کا بیٹا عبدالمؤمن خان تخت نشین ہوا، مگر چند روز کے بعد اپنے چچا رستم سلطان کے ہاتھ سے مارا گیا، اس کے بعد سلطنت ازبکیہ کے ٹکڑے ہو گئے، عبداللہ خان کے خواہر زادہ ولی محمد خان نے عبدالمؤمن خان کے بعد ترکستان پر قبضہ کر کے امام قلی خان کو ماوراء النہر کی حکومت سپرد کی اور اپنے خواہر زادہ نذر محمد خان کو بد خشان وغیرہ کا علاقہ سپرد کیا۔
ولی محمد خان کو چند روز کے بعد نذر محمد خان نے بے دخل کر دیا، اس نے ایران میں جا کر شاہ عباس کے ہاں پناہ لی، اس طرح ازبکوں کی ایک سلطنت خوارزم میں بھی قائم تھی، مگر وہ کچھ زیادہ طاقتور اور قابل تذکرہ نہیں ہوئے۔
*جوجی خان ابن چنگیز خان:*
اس کی اولاد کے حالات مؤرخین نے مسلسل نہیں لکھے، اس جگہ ازبکوں کے ضروری اشخاص کا تذکرہ آ چکا ہے اور آئندہ ان کے ہم عصر سلاطین کے حالات میں جب ان لوگوں کے نام آئیں گے تو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی، اسی لیے اس سلسلہ کو دور تک پہنچا دیا، جوجی خان کی اولاد میں علاوہ قبیلہ ازبک کے ایک اور قبیلہ قوم قزاق کے نام سے مشہور تھا، قبیلہ قزاق کے بعض اشخاص نے دشت قبچاق یا اس کے بعض حصوں پر حکومت کی، چنانچہ اسی قبیلہ کے ایک بادشاہ قائم سلطان قزاق کی شیبانی خان یعنی سلطان محمد خان ازبک سے لڑائیاں ہوئی تھیں، اب ہم کو چنگیز خان کے بیٹے چغتائی خان کی اولاد کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
*باتو خان ابن جوجی خان:*
باتو خان نے دشت قبچاق سے جب ممالک خزر و روس و چرکس و فرنگ وغیرہ کی طرف فوج کشی کی تو اوکتائی خان ابن چنگیز خان نے اپنے بیٹے کیوک خان اور تولی خان کے بیٹے منکو خان اور چغتائی خان کے ایک بیٹے کو مامور کیا کہ یہ لوگ باتو خان کے ساتھ رہ کر فتح ممالک میں اس کی امداد کریں، باتو خان نے روس کا تمام ملک فتح کر کے ماسکو پر حملہ کیا، اس کو فتح کرنے کے بعد پولینڈ کو اپنے قبضہ و تصرف میں لایا، یہ حالات سن کر تمام یورپ کے سلاطین ایک دوسرے کی اعانت پر آمادہ ہو کر ایک میدان میں اپنی فوجوں کو جمع کرکے مقابلہ پر آئے۔
باتو خان کی فوج میں بہت سے مسلمان بھی شامل تھے، جب باتو خان کو یہ معلوم ہوا کہ فوج مغلیہ سے کئی گنا زیادہ عیسائیوں کی فوجیں جمع ہوگئی ہیں تو اس نے حکم دیا کہ ہماری فوج کے تمام مسلمان ایک جگہ جمع ہوکر دعا مانگیں، اس کے بعد لڑائی شروع ہوئی، اس لڑائی میں عیسائیوں کو شکست فاش حاصل ہوئی اور باتو خان نے تمام ملک ہنگری پر قبضہ کرلیا، باتو خان نے یورپ میں ایک شہر آباد کیا جس کا نام سرائے تھا، باتو خان کا تمام زمانہ ملک فرنگ کی فتوحات و انظامات میں بسر ہو گیا اور 654ھ میں فوت ہوا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
*سلطان محمود غازان کی وفات:*
یہاں تک کہ نواح قزوین میں بتاریخ یکم شوال یک شنبہ 703ھ کو سلطان محمود غازان خان نے وفات پائی، اس سلطان کے عہد میں اسلام نے مغلوں کے اندر خوب رواج پایا اور مسلمانوں کو اس بادشاہِ عالی جاہ سے بہت فائدہ پہنچا، مرتے وقت اس نے وصیت کی کہ میرے بعد میرا بھائی اولجائتو معروف بہ سلطان محمد خدا بندہ تخت نشین ہو۔
*سلطان محمد اولجایتوا بن ارغون خان ابن اباقاخان:*
سلطان محمود خان کی وفات پر امیر مرقداق نے جو الجائتو سے ناخوش تھا، ایک دوسرے شہزادے الافرنگ کو تخت نشین کرنا چاہا، یہ حال جب امیر اسماعیل ترخان کو معلوم ہوا تو اس نے الجایتو کو اطلاع کی، اس نے فوراً الافرنگ اور مرقداق کو گرفتار کرکے قتل کیا اور ماہ ذی الحجہ 703ھ میں تخت نشین ہوا اور اپنا لقب سلطان محمد خدا بندہ رکھا، بڑے بڑے امراء مثلاً امیر قتلق شاہ، امیر چوپان سلدوز، امیر فولاد، امیر حسین بیگ، امیر سونج، امیر مولائی، امیر سلطان، امیر رمضان، امیر الغو نے تخت نشینی کے وقت نذریں دکھلائیں۔
سلطان محمد خدا بندہ نے تخت نشین ہوتے ہی حکم دیا کہ شریعت اسلام کی پابندی کا تمام ملک میں خاص طور پر لحاظ رکھا جائے اور خلاف شرع تمام مراسم کو مٹادیا جائے، سلطان محمد خدا بندہ کی حکومت و سلطنت کو بہت جلد قبولیت عامہ حاصل ہو گئی اور روس و خوارزم و بلغاریہ و روم و شام سے لے کر قراقورم، سندھ اور عراق تک تمام ممالک میں اس کی بادشاہی تسلیم کی گئی، سلطان محمد خدا بندہ کے عہد حکومت میں سلطنت مغلیہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی اور اس کی سلطنت و حکومت سے مخالفت وانحراف کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔
*سلطان محمد کی وفات:*
آخر تیرہ سال حکومت کرنے کے بعد بہ عمر 36 سال شب عیدالفطر 716ھ کو اس نیک دل اور باخدا سلطان نے وفات پائی، اس نے خود ایک شہر سلطانیہ کے نام سے آباد کرکے اپنا دارالسلطنت بنایا تھا، مرنے کے بعد اسی شہر میں مدفون ہوا، اس کے بعد اس کا بیٹا سلطان ابو سعید بہادر خان تخت نشین ہوا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (13)*
*اباقا خان:*
جب ہلاکو خان مراغہ میں فوت ہوا تو امیروں نے ایک عظیم الشان مجلس منعقد کرکے ہلاکو خان کے بیٹے اباقا خان کو تخت سلطنت کے لئے منتخب کیا، اباقا خان نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کیا اور کہا کہ قویلا خان جو مغلوں کا بادشاہ ہے جب تک اجازت نہ دے، میں کیسے تخت نشین ہو سکتا ہوں؟ مگر سرداروں نے اس کے اس عذر کو قبول نہیں کیا اور اصرار سے اس کو تخت سلطنت پر بٹھایا۔
اباقا خان 2 رمضان 663ھ کو تخت نیشن ہوا، اس نے تخت نشین ہو کر فوج اور امیروں کو انعامات دئیے، اپنے بھائی بشموت نامی کو شیروان کی حکومت عطا کی، دوسرے بھائی تیشین نامی کو ماژندران و خراسان کا حاکم مقرر کیا، توبان بہادر ابن سونجاق کو روم کا حاکم نامزد کیا، توران ابن ایلکان جلائردرلکین کو بھی روم ہی کی طرف کا ملک عطا ہوا، ارغون آقا کو وزیر مال اور خواجہ شمس الدین جوینی کو وزیر اعظم بنایا اور اپنے بیٹے ارغون خان کی اتالیقی مہرتاق نویاں برلاس کو سپرد کی۔
اباقا خان نے تخت نشین ہونے کے بعد برکہ خان سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری کیا، آخر انہی لڑائیوں کے درمیان برکہ خان نے وفات پائی اور اباقا خان کے ملک پر ہر طرف سے سرداروں اور رشتہ داروں نے دندان آز تیز کئے، براق چغتائی نے ملک خراسان پر قبضہ کرنا چاہا، لڑائیاں ہوئیں، آخر اباقا خان نے فتح پائی، رفتہ رفتہ اس کا اقتدار قائم ہو گیا، مگر مصری فوج کے مقابلہ پر جب بھی ملک شام میں فوج بھیجی، مغلوں کی فوج نے ہمیشہ شکست کھائی، عجیب اتفاق ہے کہ مصر اور ہندوستان دونوں ملک اپنی آب و ہوا اور باشندوں کے اعتبار سے بہادری میں کوئی بڑا مرتبہ نہ رکھتے تھے اور دونوں ملکوں میں غلاموں کی حکومت تھی، لیکن مغلوں نے جنگجو ملکوں اور جنگجو قوموں کے مقابلے میں تو فتوحات حاصل کیں، مگر مصر و ہندوستان میں ان کو ہمیشہ رذیل ہو کر شکست ہی کھانی پڑی۔
*اباقا خان کی موت:*
اباقا خان نے 680ھ میں وفات پائی، 17سال حکومت کی، اباقا خان، شیخ سعدی شیرازی اور مولانا جلال الدین رومی کا بہت معتقد تھا اور ان ہر دو بزرگوں کی خدمت میں خود حاضر ہوکر ان سے ملاقات کرتا تھا، اباقا خان کے بعد اس کا بیٹا نکودارا غلن تخت نشین ہوا۔
*نکودارا غلن موسوم بہ احمد خان:*
نکودارا غلن زمانہ شہزادگی میں دولتِ اسلام سے مالا مال ہو چکا تھا، لہٰذا اس نے تخت نشین ہوتے ہی اپنا لقب احمد خان رکھا اور شیخ کمال الدین عبدالرحمٰن الرافعی کو وزارت کا عہدہ عطا کیا، سلطان احمد خان نے مسلمانوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں، ان کو بڑے بڑے عہدے عطا کئے، مغلوں کی کفریہ رسموں کو مٹایا، اور آئین اسلام کو ترویج دینے کی کوشش کی، سلطان احمد خان کی وجہ سے بعض دوسرے مغول بھی اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے، مغل سرداروں بالخصوص سلطان احمد خان کے بھائی ارغون خان نے جب دیکھا کہ سلطان احمد خان کی وجہ سے مغلوں کی عزت و سیادت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے تو انہوں نے بغاوت کی سازش شروع کی۔
*نکودارا غلن کی شہادت:*
ارغون خان ابن اباقا خان نے رفتہ رفتہ فوج کے تمام سرداروں کو اپنی سازش میں شریک کرکے بغاوت کا اعلان کیا، تمام فوج ارغون خان سے جا ملی اور سلطان احمد خان تین سال کی حکومت کے بعد گرفتار ہوکر شہید ہوئے۔ ( انا للٰہ و انا الیہ راجعون) یہ واقعہ 683ھ میں وقوع پزیر ہوا۔
*ارغون خان:*
ارغون خان نے تخت نشین ہو کر سعد اللہ نامی ایک یہودی کو اپنا وزیر اعظم بنایا اور اس وزیر کے مشورے سے ہر شہر میں مسلمان علماء کے قتل کا حکم جاری کیا، اس طرح ہزارہا علمائے اسلام قتل ہوئے، ارغون خان ایک ہندو جوگی کا بہت معتقد تھا، اسی ہندو جوگی نے ارغون کو ایک دوا کھلائی کہ اس کی تأثیر سے عمر بڑھ جائے گی، مگر اس دوا کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ قسم قسم کے امراض پیدا ہونے لگے، آخر 690ھ میں ارغون خان نے وفات پائی۔
*کیخا توخان ابن ابا قاخان:*
ارغون خان کے بعد اس کا بھائی کیخا توخان تخت نشین ہوا، اس کے عہد حکومت کا قابل تذکرہ اور مشہور واقعہ یہ ہے کہ اس نے 693ھ میں نوٹ ایجاد کیا، جس کو مغل لوگ یوت کے نام سے موسوم کرتے تھے، وہ ایک کاغذ ہوتا تھا، جس کے دونوں طرف کلمہ طیبہ لکھا ہوتا تھا، کلمہ کے نیچے بادشاہ کا نام اور نوٹ کی قیمت درج ہوتی تھی، اس طرح کاغذ کا سکہ جاری ہونے سے تمام ملک میں شور و فغاں برپا ہو گیا اور تجارت پر برا اثر پڑا، لوگ حیرت کے ساتھ اس کاغذ کو دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم بجائے روپیہ یا اشرفی کے اس کو کس طرح قبول کریں، جب اس ایجاد میں کیخا توخان کو ناکامی ہوئی تو اس نے مجبوراً اس کے رواج کو روک دیا۔
*کیخا توخان کی شہادت:*
694ھ میں امراء مغل نے اسلام کے جرم میں اس بادشاہ کو بھی شہید کر دیا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہلاکو خان کے پاس برکہ خان کا کوئی قریبی رشتہ دار تھا، اس کو ہلاکو خان نے قتل کردیا، برکہ خان نے سن کر کہا کہ ہلاکو خان نے خلیفہ بغداد کو قتل کیا اور بلاوجہ لاکھوں مسلمانوں کا خون بہادیا، میں اس سے ان تمام بے گناہوں کا انتقام لوں گا، یہ کہہ کر اس نے فوج روانہ کی، ادھر سے ہلاکو خان نے بھی اس کے مقابلہ کو فوج بھیجی، 660ھ میں جنگ ہوئی اور ہلاکو خان کی فوج نے شکست پائی، اس کے بعد لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، آخر 661ھ میں ہلاکو خان خود فوج لے کر برکہ خان کے مقابلے پر آیا، جنگ عظیم کے بعد برکہ خان کی فوج کو شکست ہوئی اور ہلاکو خان نے فتح پائی، مگر چند ہی روز کے بعد برکہ خان نے ہلاکو خان پر حملہ کر کے اس کو شکست فاش دی، اس شکست سے ہلاکو خان بہت دل شکستہ ہوا، اسی عرصہ میں امیر ایچل نے مراغہ میں وفات پائی، جب مغلوں نے ملک شام کو فتح کر لیاتھا تو وہاں قوم قراتاتار کے قبیلوں کو آباد کیا تھا۔
*ہلاکو خان کی موت:*
اب برکہ خان سے شکست پانے کے بعد ہلاکو خان نے ایک سردار کو شام کی طرف روانہ کیا کہ وہ قراتاتار کے قبائل کو ہمراہ لے کر آئے، تاکہ ان لوگوں کی فوج برکہ خان کے مقابلہ پر روانہ کی جائے، وہ سردار ملک شام میں جا کر اور قراتاتار کے لوگوں کو اپنے ہمراہ لے کر ہلاکو خان سے باغی ہو گیا، یہ خبر مراغہ میں ہلاکو خان کو پہنچی تو وہ اس قدر غمگین و افسردہ ہوا کہ مرض سکتہ میں مبتلا ہوکر 663ھ آخر ماہ ربیع الاول کو فوت ہوا۔
آٹھ سال حکومت کرکے 48 سال کی عمر میں فوت ہوا، اس کا دارالحکومت شہر مراغہ تھا، اس نے مراغہ میں نصیر الدین طوسی اور دوسرے حکماء کی مدد سے ایک رصدگاہ بنوائی تھی، ہلاکو خان نے اپنے بیٹے اباقا خان کو عراق و خراسان وغیرہ کی حکومت دی تھی، آذر بائیجان کی حکومت دوسرے بیٹے کو اور دیاربکر و دیار ربیعہ کا حاکم توران سلدوز کو بنایا اور خواجہ شمس الدین محمد جوینی کو وزارت کے عہدے پر مامور کیا تھا، شمس الدین جوینی کے بھائی عطاء الملک علاؤ الدین کو حاکم بغداد بنایا تھا، ہلاکو خان کے فوت ہونے پر اس کی تجہیز و تکفین مغلوں کی رسم کے موافق عجیب طرح سے عمل میں آئی، یعنی بجائے قبر کے ایک تہ خانہ تیار کیا گیا، اس میں ہلاکو خان کی لاش کو رکھ کر چند نوجوان لڑکیوں کو خوب زیور و لباس سے آراستہ و پیراستہ کرکے خدمت گاری کے لئے اس تہ خانہ میں داخل کیا گیا، تاکہ وہ ہلاکو خان کی مونس تنہائی بنیں، اس کے بعد تہ خانہ کا منہ نہایت مضبوطی کے ساتھ بند کردیا گیا، ایک لاش کے ساتھ اس طرح چند بیگناہ زندہ لڑکیوں کا بند کرنا ایک ایسی و حشیانہ رسم ہے، جس کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔
ہلاکو خان کے زمانے میں ہندوستان کے اندر سلطان غیاث الدین بلبن کی حکومت تھی، ہلاکو خان ہمیشہ سلطان بلبن کے حالات معلوم کرتا رہتا تھا، مگر اس کو کبھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ ہندوستان پر حملہ کرے، بعض مغل سردار ہندوستان پر حملہ آور ہوئے، مگر ہندوستان کے غلام بادشاہوں کا یہ کارنامہ نہایت عظیم الشان ہے کہ انہوں نے ہر مرتبہ مغلوں کو شکست دے کر بھگادیا اور بعد میں یہاں تک بھی نوبت پہنچی کہ مغل دارالسلطنت تک پہنچ گئے، مگر ہندوستان میں ان کے قدم ہرگز نہ جم سکے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام عالم اسلام میں بدامنی اور پریشانی پھیلی ہوئی تھی، مغلوں کے خروج اور تاخت تاراج کے زمانے میں صرف ہندوستان ہی ایک ملک تھا، جہاں ایک زبردست اسلامی سلطنت قائم تھی اور جو مغلوں کی دست برد سے قریباً محفوظ و مامون رہا۔
ہلاکو خان کے وزیر اور مصاحبوں میں خواجہ نصیر الدین طوسی (اسماعیلی شیعہ) بہت مشہور شخص ہے، نصیر الدین طوسی علم ہیئت کا زبردست عالم تھا، اسمٰعیلیوں، باطنیوں کا تربیت کردہ تھا، اس کی ایک مشہور کتاب اخلاق ناصری ہے، جو اس نے ناصر الدین بادشاہ الموت کے نام پر معنون کی تھی، محیطی بھی اس کی تصنیف ہے جو علم ہئیت کی مشہور کتاب ہے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مغلوں کی حالت مذہب کے مقابلے میں کس قدر نازک اور خطرناک تھی، جوں جوں ان میں تہذیب اور دماغی نشوونما نے ترقی کی وہ مذہب اسلام سے واقف ہوتے اور اس کو قبول کرتے گئے۔
مغلوں کو اسلام سے روکنے کے لیے تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں نے خوب کوششیں کیں، مگر چونکہ مغل خالی الذہن تھے اور ان کی نگاہ میں ہر ایک مذہب کا مرتبہ مساوی تھا، لہٰذا تحقیق کے معاملے میں وہ زیادہ دھوکا نہیں کھا سکتے تھے، اسی لیے ان کے سمجھدار اور شریف طبقہ نے اسلام ہی کو قابل قبول مذہب پایا۔
*قویلا خان کی موت:*
قویلا خان 73 سال کی عمر اور 35 سال کی سلطنت کے بعد فوت ہوا، اس کی جگہ اس کا پوتا تیمور خان مُلک چین میں تخت نشین ہوا، اس کے عہد میں انتظام سلطنت درہم برہم ہو گیا، 700ھ میں قاآن تیمور خان فوت ہوا، اس کے بعد بھی اس خاندان کے چند شخصوں نے برائے نام حکومت کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ تیمور قاآن کے وقت سے قویلا خان کے خاندان کی بادشاہت رخصت ہو گئی تھی، اب ہم کو ہلاکو خان ابن تولی خان کی طرف متوجہ ہونا ہے، جس کو ایران و خراسان کی حکومت حاصل تھی اور جس کے ہاتھوں سے خلافت بغداد برباد ہوئی۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (10)*
*کیوک خان:*
جب اوکتائی خان کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا کیوک خان قراقورم میں موجود نہ تھا، مغلوں نے اپنے دستور کے موافق اوکتائی خان کی بیوی تورکینا خاتون کو اپنا بادشاہ بنا لیا، تاکہ کیوک خان کے آنے تک نظام سلطنت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہو۔
جب کیوک خان قراقورم میں آیا تو اس نے مغلوں کے دستور اور تورہ چنگیزی کے موافق تخت سلطنت کے متعلق کچھ نہ کہا اور معمولی حیثیت سے رہا، سلطانہ تورکینا خاتون نے خود تمام ملکوں میں دعوت نامے بھیجے اور دنیا کے سلاطین کو مدعو کیا، چنانچہ خراسان، ایران، قبچاق، روم، بغداد، شام وغیرہ ملکوں سے سلاطین کے ایلچی قراقورم میں آئے، چنگیز خان کی اولاد تو تمام موجود ہو ہی گئی، بغداد کے خلیفہ نے اپنی طرف سے اس مجلس کی شرکت کے لیے قاضی القضاۃ فخر الدین کو بھیجا، خراسان سے امیر ارغون بھی آیا، روم سے سلطان رکن الدین سلجوقی اور الموت و قہستان سے شہاب الدین و شمس اور یورپ کے عیسائی بادشاہوں کی طرف سے بھی ایلچی آئے۔
مسلمان سرداروں کے لیے دو ہزار بڑے خیمے کھڑے کیے گئے، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کیسا عظیم الشان مجمع ہوگا؟ اس کے بعد مجلس منعقد ہوئی اور بادشاہ کے انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا، سب نے کیوک خان کو منتخب کیا، منکو خان پسر تولی خان نے کیوک خان کو ہاتھ پکڑ کر تخت پر بٹھایا اور تاج شاہی سر پر رکھا، کیوک خان کی بیوی ایک عیسائی عورت تھی، اس لیے یورپ کے عیسائی ایلچیوں کی خوب خاطر مدارات کی گئی، باطنیوں (قرامطہ) کے ایلچیوں کو کیوک خان نے ذلت کے ساتھ نکال دیا۔
مسلمانوں کے ساتھ بھی وہ مدارات سے پیش آیا، مگر عیسائیوں نے کیوک خان کے مزاج میں دخیل ہوکر اس کو مسلمانوں کی طرف سے متنفر کرنے کی کوشش جاری رکھی، آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ کیوک خان سے ایک روز فرمان لکھوایا کہ مسلمانوں کے قتل کرنے اور ان کا نام و نشان دنیا سے مٹا دینے کے لیے تمام سردار آمادہ ومستعد ہو جائیں، اس حکم کو لکھوا کر وہ جب باہر نکلا تو اس کے شکاری کتوں نے یکایک اس پر حملہ کیا اور اس کے خصیتین کو چبا ڈالا، کیوک خان کتوں کے اس حملہ سے مرا تو نہیں، مگر سخت زخمی ہوا اور عیسائیوں کو اس کے بعد مسلمانوں کی مخالفت میں لب ہلانے کی جرأت نہ رہی، عام طور پر شہرت ہو گئی کہ مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ ہونے کی سزا میں کیوک خان کو شکاری کتوں سے زخمی ہونا پڑا۔
*کیوک خان کی موت:*
چند روز کے بعد کیوک خان سمر قند جا کر فوت ہو گیا، جس زمانے میں اوکتائی خان زندہ تھا، اس کا چھوٹا بھائی تولی خان جو چنگیز خان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، بھائی کے پاس رہتا اور اس کی فوج کا سپہ سالار تھا، تولی خان کو اوکتائی خان کے ساتھ بہت محبت تھی، ایک مرتبہ اوکتائی خان بیمار ہوا تو تولی خان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی! میرے بھائی کو بچا دے اور اگر اس کی موت کا زمانہ آ گیا ہے تو اس کی جگہ مجھ کو اٹھا لے۔
چنانچہ اسی روز سے اوکتائی خان تندرست اور تولی خان بیمار ہونے لگا، یہاں تک کہ اوکتائی خان بالکل تندرست ہوگیا اور تولی خان مر گیا، تولی خان کے چار بیٹے تھے، منکو خان، قویلا خان، ارتق بوقا، ہلاکو خان۔ ان چاروں بھتیجوں کو اوکتائی خان بہت عزیز رکھتا تھا، اس کے بعد کیوک خان بھی اپنے ان چچا زاد بھائیوں کے ساتھ بہت رعایت و مروت مرعی رکھتا تھا۔
کیوک خان کی موت کے بعد خاندان چنگیزی میں باتو خان ابن جوجی خان بادشاہ قبچاق سب سے زیادہ طاقتور اور دانا سمجھا جاتا تھا، سب نے باتو خان کی طرف رجوع کیا کہ اب بتائیے کس کو تخت سلطنت پر بٹھایا جائے؟ باتو خان نے فیصلہ کیا کہ کیوک خان کے بعد اب منکو خان سے زیادہ اور کوئی مستحق سلطنت نہیں ہے، اکثر سرداروں نے اس کو پسند کیا، لیکن بعض نے اس کی مخالفت کی، مگر معمولی زدو خورد کے بعد منکو خان کی حکومت و سلطنت قائم ہو گئی۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
مغلوں کی اس بڑھی ہوئی طاقت اور سطوت کو دیکھ کر عیسائیوں نے بھی یہ کوشش کی کہ ہم مغلوں کو عیسائیت کی طرف متوجہ کر دیں، لیکن عیسائیت کے اندر یہ جذب اور کشش کہاں سے آتی جو ایک فاتح اور جنگجو قوم کو اپنا گرویدہ اور خادم بنا لیتی، مغل درحقیقت دین و مذہب کے اعتبار سے لوح سادہ تھے، ان کے آبائی مذہب میں جس کی تفصیلات آج ہم کو معلوم نہیں، کسی مذہب سے کوئی عناد اور خواہ مخواہ کی دشمنی نہ تھی، اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے مغولستان کے پہاڑوں سے اسی لیے نکالا تھا کہ وہ فاتحانہ برا عظم ایشیا میں پھیلے اور دین اسلام کی روشنی سے منور و بہرہ یاب ہو۔
چنگیز خان اور اس کی قوم کا وجود بھی اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے، جس طرح اسلام ایک مفتوح قوم پر اپنا اثر ڈالتا ہے، اسی طرح وہ فاتح کو بھی متاثر کرتا ہے، عربوں نے تمام دنیا کو فتح کیا اور وہ ہر ملک میں فاتحانہ داخل ہو کر اسلام کے معلم بنے، لیکن مغلوں نے غافل مسلمانوں کو مفتوح و مغلوب ومقتول بنا کر اس اثر کو اخذ کیا اور اس مذہب کے آگے گردنیں جھکا دیں جو ان کے مسلمان مفتوحین کا مذہب تھا، اس اجمال کی تفصیل آئندہ صفحات میں آنے والی ہے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
چنانچہ اسی مضمون کا ایک عہدنامہ چغتائی خان اور قراچار کے درمیان لکھوا کر اس پر دستخط کئے، امیر قراچار قاچولی بہادر کا پڑپوتا تھا، تولی خان کی حکومت میں مغولستان کا ایک حصہ دیا اور حکم دیا کہ اوکتائی خان کی فوج کا اہتمام اور سپہ سالاری تولی خان سے متعلق رہے گی، پھر حکم دیا کہ تمام بھائی اپنے بڑے بھائی اوکتائی خان کو اپنا بادشاہ سمجھیں اور اس کی اطاعت و فرماں برداری سے انحراف کا خیال کبھی دل میں نہ لائیں اس طرح چاروں بیٹوں کے متعلق وصیت و انتظام کر کے اپنے بھائیوں اوتگین و مگوجین و اولجنکین وغیرہ کو ختا کا ملک دیا۔
*چنگیز خان کی وفات:*
اس کے بعد ماہ رمضان 624ھ میں چنگیز خان نے 73 سال کی عمر اور 25 سال کی حکومت کے بعد وفات پائی، اس کی وصیت کے موافق ایک درخت کے نیچے اس کو دفن کیا گیا، اس کی قبر کے پاس تمام رقبہ میں پہلے ہی سال اس قدر کثرت سے درخت اگ آئے کہ وہ ایک ناقابل گزر جنگل ہو گیا اور کسی کو یہ تمیز نہ رہی کہ اس کی قبر کس جگہ تھی؟
علاوہ مذکورہ چار بیٹوں کے اور بھی کئی بیٹے چنگیز خان کے تھے اور ان میں سے ہر ایک انہیں میں سے کسی نہ کسی کے زیر تربیت رہا، چنگیز خان نے ملک روس، ماسکو، بلغاریہ وغیرہ میں جو فتوحات کیں، ان کا مفصل ذکر اس جگہ ضروری نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ اس کو تاریخ اسلام سے کچھ زیادہ تعلق نہیں ہے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
ؓہیں صحابیِٔ نبی سیدی معاویہؓ
جنتی جنتی سیدی معاویہؓ
آواز: عبدالرحمن حذیفی
شاعر: محمد علی حارث
پیشکش: الکمال نشریات
کلام ایچ ڈی فارمیٹ میں دیکھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے لنک🔽
https://youtu.be/NUKB9MFSU20
تھے، خدانے ہماری ہدایت کی، ہم غلام تھے، اس نے آزاد کرایا، ہم محتاج تھے، اس نے مالدار بنایا، اب ہم تمہارے خاندان سے پیوستہ ہونے کی آرزو رکھتے ہیں، اگرتم رشتہ ازوداج سے یہ آرزو پوری کروگے توخدا کا شکر ہے، ورنہ کوئی شکایت نہیں، اسلام نے کالے، گورے حبشی اور عربی کی تفریق مٹادی تھی، انصار ؓ نے نہایت خوشی کے ساتھ ان کے اس پیام کو لبیک کہا اور اپنی لڑکیوں سے شادی کردی۔ (اسد الغابہ: 1/208)
حضرت بلال ؓ نے ایک عرصہ تک شام میں متوطن رہنے کے بعد ایک روز رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں: "بلال! خشک زندگی کب تک؟ کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری زیارت کرو؟ اس خواب نے گزشتہ زندگی کے پر لطف افسانے یاد دلائے، عشق ومحبت کے مرجھائے ہوئے زخم پھر ہرے ہوگئے، اسی وقت مدینہ کی راہ لی اور روضۂ اقدس پر حاضر ہوکر مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے، آنکھوں سے سیلِ اشک رواں تھا، اور مضطربانہ جوش ومحبت کے ساتھ جگر گوشگانِ رسول عینی حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ کو چمٹا چمٹا کر پیار کر رہے تھے، ان دونوں نے خواہش ظاہر کی کہ آج صبح کے وقت اذان دیجئے! گو ارادہ کرچکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد وہ اذان نہ دیں گے؛ تاہم ان کی فرمائش ٹال نہ سکے، صبح کے وقت مسجد کی چھت پر کھڑے ہوکر نعرۂ تکبیر بلند کیا تو تمام مدینہ گونج اٹھا، اس کے بعد نعرۂ توحید نے اس کو اور بھی پُرعظمت بنادیا؛ لیکن جب "اشہد ان محمد رسول اللہ" کا نعرہ بلند کیا تو عورتیں تک بیقرار ہوکر پردوں سے نکل پڑیں اور تمام عاشقانِ رسول ﷺ کے رخسار سے آنسوؤں سے تر ہوگئے، بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ میں ایسا پُراثر منظر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
وفات:
20ھ میں دنیائے فانی کو خیرباد کہا، کم وبیش ساٹھ برس کی عمر پائی، دمشق میں باب الصغیر کے قریب مدفون ہوئے۔(اسدالغابہ: 1/207)
اخلاق:
محاسنِ اخلاق نے حضرت بلال ؓ کے پایۂ فضل و کمال کو نہایت بلند کردیا تھا، حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے: ابوبکرؓ سیدنا واعتق سیدنا" یعنی حضرت ابوبکر ؓ ہمارے سردار ہیں، اور انہوں نے سردار بلال ؓ کو آزاد کیا ہے۔ (مستدرک حاکم: 3/284)
حبیبِ خدا ﷺ کی خدمت گزاری ان کا مخصوص مقصدِ حیات تھا، ہر وقت بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر رہتے، آپ ﷺ کہیں باہر تشریف لے جاتے تو خادم جان نثار کی طرح ہمراہ ہوتے، عیدین واستسقاء کے مواقع پر بلّم لے کر آگے آگے چلتے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث: 168)
وعظ وپند کی مجلسوں میں ساتھ جاتے، افلاس وناداری کے باوجود ان کو جو کچھ میسر آجاتا اس کا ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کی ضیافت کے لیے پس انداز کرتے، ایک دفعہ برنی کھجوریں (جو نہایت خوش ذائقہ ہوتی ہیں) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے، آپ ﷺ نے تعجب سے پوچھا: بلال! یہ کہاں سے؟ عرض کیا: میرے پاس جو کھجوریں تھیں وہ نہایت خراب قسم کی تھیں، چونکہ مجھے حضور کی خدمت میں پیش کرنا تھا، اس لیے میں نے دوصاع دے کر یہ ایک صاع اچھی کھجوریں حاصل کیں، ارشاد ہوا: اُف! اُف ایسا نہ کرو، یہ تو عین ربا ہے، اگر تمہیں خریدنا تھا تو پہلے اپنی کھجوروں کو فروخت کرتے، پھر اس کی قیمت سے اس کو خرید لیتے۔ (بخاری: 1/ 311)
حضرت بلالؓ مکہ کی زندگی میں جن عبرتناک مظالم ومصائب کے متحمل ہوئے، اس سے ان کی غیر معمولی استقامت واستقلال کا اندازہ ہوا ہوگا، تواضع وخاکساری ان کی فطرت میں داخل تھی، لوگ ان کے فضائل ومحاسن کا تذکرہ کرتے تو فرماتے: میں صرف ایک حبشی ہوں جو کل تک معمولی غلام تھا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث: 169)
صداقت، بےلوثی اور دیانت داری نے ان کو نہایت معتمد علیہ بنادیا تھا، ان کے ایک بھائی نے جو بزعم خود اپنے آپ کو عرب سمجھتے تھے، ایک عربی خاتون کے پاس نکاح کا پیام بھیجا، اس کے خاندان والوں نے جواب دیا کہ اگر بلال ؓ ہمارے پاس آکر تصدیق کریں گے تو ہم کو بخوشی منظور ہے، حضرت بلال ؓ نے کہا: صاحبو! میں بلال بن رباح ؓ ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، میں جانتا ہوں کہ اخلاق ومذہب کے لحاظ سے یہ بُرا آدمی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے بیاہ دو ورنہ انکار کرو، انہوں نے کہا: بلال! تم جس کے بھائی ہوگے اس سے تعلق پیدا کرنا ہمارے لیے عار نہیں۔ (مستدرک حاکم: 3/283)
مذہبی زندگی:
حضرت بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن خاص تھے، اس بنا پر ان کو ہمیشہ خانۂ خدا میں حاضر رہنا پڑتا تھا، معاملاتِ دنیاوی سے سروکار نہ ہونے کے باعث عبادت وشب زندہ داری ان کا خاص مشغلہ تھا، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم کو کس عملِ خیر پر سب سے زیادہ ثواب کی امید ہے؟ عرض کیا: میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے، البتہ ہر طہارت کے بعد نماز اداکی ہے۔ (بخاری: 2/ 24/1)
نماز میں سب سے پہلے آمین کہتے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے سبقت نہ کیاکرو۔ (الاصابۃ: تذکرہ بلال ؓ بحوالہ بخاری)
حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 64
مؤذنِ رسول ﷺ حضرت بلال بن رباح حَبَشی رضی اللہ عنہ:
نام و نسب:
نام: بلال، کنیت: ابو عبداللہ، والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا، یہ حبشی نژاد غلام تھے، لیکن مکہ ہی میں پیدا ہوئے، بنی جمح ان کے آقا تھے۔ (اسد الغابہ: 1/206)
قبولیتِ اسلام:
حضرت بلال رضی اللہ عنہ صورتِ ظاہری کے لحاظ سے تو ایک سیاہ فام حبشی تھے، تاہم آئینۂ دل شفاف تھا، اس کو ضیائے ایمان نے اس وقت منور کیا، جب کہ وادیٔ بطحاء کی اکثر گوری مخلوق غرورِ حسن وزعمِ شرافت میں ضلالت و گمراہی کی ٹھوکریں کھا رہی تھی، جن معدودے چند بزرگوں نے داعیِ حق کو لبیک کہا تھا ان میں صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی جن میں ایک یہ غلام حبشی بھی تھا، سچ ہے: ایں سعادت بزورِ بازو نیست ۔ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ابتلاء و استقامت:
کمزور ہمیشہ سب سے زیادہ ظلم وستم کا آماجگاہ رہتا ہے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جو ذاتی حالت تھی، اس کے لحاظ سے وہ اور بھی اس جفا کے شکار ہوئے، گوناگوں مصائب اور طرح طرح کے مظالم سے ان کے استقلال واستقامت کی آزمائش ہوئی، تپتی ہوئی ریت، جلتے ہوئے سنگریزوں اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹائے گئے، مشرکین کے لڑکوں نے گلے میں رسیاں ڈال کر بازیچۂ اطفال بنایا؛ لیکن ان تمام روح فرسا آزمائشوں کے باوجود توحید کی مضبوط رسی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا، ابوجہل ان کو منہ کے بل سنگریزوں پر لٹا کر اوپر سے پتھر کی چکی رکھ دیتا اور جب آفتاب کی تمازت بےقرار کردیتی تو کہتا: بلال! اب بھی محمد کے خدا سے باز آجا، لیکن اس وقت بھی دَہن مبارک سے یہی ”اَحَدٌ اَحَد“ نکلتا۔ (اسد الغابہ: 1/ 206)
ستم پیشہ مشرکین میں امیہ بن خلف سب سے زیادہ پیش پیش تھا، اس کی جدت طرازیوں نے ظلم وجفا کے نئے طریقے ایجاد کیے تھے، وہ ان کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتا، کبھی گائے کی کھال میں لپیٹتا، کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر جلتی ہوئی دھوپ میں بٹھا دیتا اور کہتا: تمہارا خدا لات اور عزیٰ ہے، لیکن اس وارفتۂ توحید کی زبان سے اَحَدٌ اَحَد کے سوا اور کوئی کلمہ نہ نکلتا، مشرکین کہتے کہ تم ہمارے ہی الفاظ کا اعادہ کرو تو فرماتے کہ میری زبان ان کو اچھی طرح ادا نہیں کرسکتی۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول جزو ثالث : 165)
غلامی سے آزادی:
حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک روز حسبِ معمول وادیٔ بطحاء میں مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے تو یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر دل بھر آیا اور ایک گرانقدر رقم معاوضہ دے کر آزاد کردیا، آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا: ابوبکر! تم مجھے اس میں شریک کرلو، عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں آزاد کراچکا ہوں۔ (حوالۂ بالا وبخاری)
ہجرت:
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو حضرت سعد بن خثیمہ رضی اللہ عنہ کے مہمان ہوئے، حضرت ابوردیحہ ؓ عبد اللہ بن عبدالرحمن خثعمی ؓ سے مواخات ہوئی، ان دونوں میں نہایت شدید محبت پیدا ہوگئی تھی، عہدِ فاروقؓ میں حضرت بلال ؓ نے شامی مہم میں شرکت کا ارادہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: بلال! تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟ عرض کیا: "ابوردیحہ ؓ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کردیا ہے وہ کبھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث: 167)
مؤذنِ رسول ﷺ :
مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بےبس اور مجبور نہ تھا، یہاں پہنچنے کے ساتھ شعائرِ اسلام و دین متین کی اصولی تدوین و تکمیل کا سلسلہ شروع ہوا، مسجد تعمیر ہوئی، خدائے لایزال کی عبادت و بندگی کے لیے نماز پنجگانہ قائم ہوئی اور اعلان عام کے لیے اذان کا طریقہ وضع کیا گیا، حضرت بلال ؓ سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جو اذان دینے پر مامور ہوئے۔ (صحیح بخاری: باب بدء الاذان)
حضرت بلال ؓ کی آواز نہایت بلند وبالا ودلکش تھی، ان کی ایک صدا توحید کے متوالوں کو بےچین کردیتی تھی، مرد اپنا کاروبار، عورتیں شبستانِ حرم اور بچے کھیل کود چھوڑ کر والہانہ وارفتگی کے ساتھ ان کے ارد گرد جمع ہوجاتے، جب خدائے واحد کے پرستاروں کا مجمع کافی ہوجاتا تو نہایت ادب کے ساتھ آستانۂ نبوت پر کھڑے ہوکر کہتے: "حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح، الصلوٰۃ یارسول اللہ" یعنی یارسول اللہ! نماز تیار ہے، غرض آپ ﷺ تشریف لاتے اور حضرت بلال ؓ کی صدائے سامعہ نواز تکبیر اقامت کے نعروں سے بندگانِ توحید کو بارگاہِ ذوالجلال والاکرام میں سربسجود ہونے کے لیے صف بصف کھڑا کردیتی۔ (طبقات ابن سعد: قسم اول جزو ثالث: 176)
حضرت بلال ؓ اگر کسی روز مدینہ میں موجود نہ ہوتے تو حضرت ابو محذورہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ ان کی قائم مقامی کرتے تھے، صبح کی اذان عموماً کچھ رات رہتے ہوئے دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت دو اذانیں مقرر کی گئی تھیں، آخری اذان حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ دیتے تھے، چونکہ وہ نابینا تھے، اس لیے ان کو وقت کا پتہ نہ تھا، جب لوگ ان سے کہتے کہ "صبح ہو
حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط 63
حضرت بُریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ:
نام ونسب:
نام: بُرَیْدَہْ، کنیت: ابوعبداللہ، نسب نامہ یہ ہے: بریدہ بن حصیب بن عبد اللہ بن حارث بن اعرج بن سعد بن زراح بن عدی بن سہم بن مازن بن حارث بن سلامان بن اسلم اسلمی۔
قبولیتِ اسلام:
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ عین زمانۂ ہجرت میں مشرف باسلام ہوئے، قبولیتِ اسلام کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب مرکزِ نبوت مکہ کے ستم کدہ سے مدینہ کے بیت الامن مدینہ میں منتقل ہونے لگا اور کوکبِ نبوی غمیم پہنچا تو یہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے اسلام پیش کیا، بریدہ نے بلا پس و پیش قبول کرلیا، ان کے ساتھ بنو اسلم کے اَسّی خانوادے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، پھر کچھ دنوں تک قرآن کی تعلیم حاصل کرکے گھر لوٹ گئے۔ (ابن سعد، جزء: 4)
کاتبِ وحی:
متعدد مؤرخین نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام کاتبینِ دربار رسالت میں شمار کیا ہے، مثلا: ابن سیدالناس، عراقی اور انصاری وغیرہ۔ (الاستیعاب: 1/69)
ہجرت اور غزوات میں شرکت:
بدر و احد کے معرکے ان کے وطن کے قیام کے زمانہ میں ختم ہوچکے تھے، غالباً 6ھ یا اس سے کچھ پہلے ہجرت کا شرف حاصل کیا، 7ھ میں غزوۂ خیبر پیش آیا، اس میں یہ پیش پیش تھے؛ چنانچہ بیان کرتے ہیں کہ: "ہم لوگوں نے خیبر کا محاصرہ کیا، پہلے دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عَلم لیا؛ لیکن فتح نہ کر سکے، دوسرے دن پھر یہی ہوا، لوگ بہت تھک چکے تھے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: کل میں ایسے شخص کو عَلم دوں گا، جس کو اللہ اور اس کا رسول محبوب رکھتا ہے اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، وہ فتح کرکے لوٹے گا۔ لوگ بہت خوش ہوئے کہ کل یہ مہم سر ہوگی، دوسرے دن صبح کو آنحضرت ﷺ نے فجر کی نماز پڑھ کر عَلم منگوایا، لوگ اپنی اپنی صفوں میں تھے، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا، ان کو آشوبِ چشم کی شکایت تھی، آنحضرت ﷺ نے لُعاب دہن لگا کر عَلم مرحمت فرمایا اور ان ہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔
8 ھ میں آنحضرت ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی، اس میں بھی یہ ہمرکاب تھے؛ چنانچہ بیان کرتے تھے کہ فتح کے دن آنحضرت ﷺ نے کئی نمازیں ایک وضو سے پڑھیں۔
فتحِ مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں جو سَرِیّہ (فوجی دستہ) یمن بھیجا تھا، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بھی اس میں ساتھ تھے، آنحضرت ﷺ کی زندگی میں جس قدر غزوات بھی ہوئے، حضرت بریدہؓ تقریباً سب میں شریک تھے، ان کے غزوات کی مجموعی تعداد سولہ ہے، (بخاری کتاب المغازی باب کم غز النبی ﷺ)
آنحضرت ﷺ نے اپنے مرض الموت میں حضرت اسامہؓ بن زیدؓ کی زیر سرکردگی جو سریہ شام بھیجا تھا، اس میں بھی یہ شریک اور سریہ کے علمبردار تھے۔
آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں مدینہ ہی میں مقیم رہے، آپ ﷺ کی وفات کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بصرہ آباد ہوا تو دوسرے صحابہ کے ساتھ یہاں منتقل ہوگئے اور یہیں مستقل گھر بنالیا۔
ان کی رگ رگ میں جہاد کا خون دوڑتا تھا، لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ زندگی کا مزہ گھوڑے کدانے میں ہے، اسی جذبہ و ولولہ کی بنا پر خلفاء کے زمانہ میں بھی مجاہدانہ شریک ہوتے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں خراسان پر فوج کشی ہوئی، اس میں آپ رضی اللہ عنہ کی تلوار نے اپنے جوہر دکھائے، مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی تلوار ہمیشہ نیام میں رہی، چنانچہ شیخین کے بعد جس قدر خانہ جنگیاں ہوئیں ان میں سے کسی میں شریک نہیں ہوئے؛ بلکہ شدت احتیاط کی بنا پر ان لوگوں کے بارہ میں جو اس میں شریک تھے کوئی رائے بھی نہ قائم کرتے تھے۔
وفات:
63ھ میں وفات پائی، دو لڑکے یادگار چھوڑے، عبد اللہ اور سلیمان۔
فضل وکمال:
فضل وکمال کے اعتبار سے بھی عام صحابہ کی جماعت میں ممتاز ہیں، احادیثِ نبوی کی کافی تعداد ان کے حافظہ میں محفوظ تھی، ان کی مرویات کا شمار 164 حدیثوں تک پہنچتا ہے، اس میں ایک متفق علیہ ہے اور 2 میں بخاری اور 11 میں مسلم منفرد ہیں۔ (طبقات ابن سعد، جز: 4، تذکرہ بریدہ بن حصیب)
ان کی مرویات تمام تر براہ راست زبانِ نبوت سے منقول ہیں، ان کے تلامذہ میں ان کے صاحبزادہ عبداللہ اور سلیمان اور دوسرے لوگوں میں عبداللہ بن عوس خزاعی، شعبی اور ملیح بن اسامہ قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب الکمال: 47)
عام حالات:
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ نبوی ﷺ میں پذیرائی حاصل تھی، حضور ﷺ ان سے بے تکلفانہ ملتے تھے، کبھی کبھی آنحضرت ﷺ ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیے ہوئے نکلتے تھے، ایک مرتبہ یہ کسی ضرورت سے کہیں جارہے تھے، راستہ میں آنحضرت ﷺ سے ملاقات ہوگئی، آپ ﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا اور آگے بڑھے۔(تہذیب التہذیب: 1/433)
==============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔
انتظار کی گھڑیاں ختم!
ہندو بنیے کے سامنے ڈٹ کر نعرہ تکبیر بلند کرنے والی خولہ اور سمیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی یاد گار، ہند کی فخر "مسکان خان" کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے پیش خدمت ہے "الکمال نشریات" کی جانب سے ایک خوبصورت ولوولہ انگیز ترانہ
شاعر: اشتیاق حیدر قاسمی (انڈیا)
آواز: حذیفہ رحیمی
ناشر: الکمال نشریات
👇🏻👇🏻👇🏻
https://youtu.be/fI-lzdgPzn8
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (17)*
*اولاد چغتائی خان ابن چنگیز خان:*
چنگیز خان نے ترکستان، خراسان، بلخ، غزنی تا حدود دریائے سندھ کا تمام علاقہ اپنے بیٹے چغتائی خان کو دیا تھا اور امیر قرا چار برلاس کو امیر الامرا بنا کر اس کے ساتھ کیا تھا، چنگیز خان کی وفات کے بعد چغتائی خان اپنے بڑے بھائی اوکتائی خان کی اطاعت و فرما نبرداری کا ہمیشہ اقرار کرتا رہا، چغتائی خان بہت عقل مند اور بہادر شخص تھا، 640ھ میں فوت ہوا۔
چغتائی خان کی وفات کے بعد امیر الامرا قرا چار نے چغتائی خان کے پوتے قراہلاکو خان کو تخت نشین کیا، یہ خبر سن کر کیوک خان ابن اوکتائی خان نے کہا کہ چغتائی خان کا بیٹا میسو منکو خان جب موجود ہے تو پوتے کو کیوں جانشین بنایا گیا؟ چونکہ قراقورم کا دربار تمام مغلوں پر حکمران تھا، لہٰذا کیوک خان کے حکم کے مطابق قراقورم ہلاکو خان کو تخت سے اتار کر میسو منکو خان کو تخت سلطنت پر بٹھایا گیا، مگر چند روز کے بعد جب میسو منکو خان فوت ہو گیا تو میر قراچار کی تجویز کے موافق قرا ہلاکو خان دوبارہ تخت نشین ہوا۔
652ھ میں امیر قراچار بھی فوت ہو گیا، اس کے چند روز بعد جب قرا ہلاکو خان فوت ہوا تو اس کی بیوی درغنہ خاتون کو مغلوں نے تخت پر بٹھایا، اس کے بعد الغو خان کو قبیلۂ چغتائیہ کی حکومت سپرد ہوئی، مگر ایک سال حکومت کرکے وہ بھی فوت ہو گیا، اس کے بعد اس کا بیٹا مبارک شاہ چغتائی قبیلہ چغتائیہ کا سردار قرار پایا۔
قبیلۂ چغتائیہ حکومت و سلطنت میں تولی خان کی اولاد کے ساتھ شریک رہا، ابتداء ان دونوں قبیلوں میں رقابت بھی رہی، تولی خان ابن چنگیز خان کی اولاد میں ہلاکو خان کی وجہ سے عظمت و شوکت نے بہت ترقی کرلی تھی اور چغتائی خان کی اولاد اس کے مد مقابل نہ رہی تھی، چغتائیوں نے ہرات اور اس کے متعلقہ علاقہ پر ہمیشہ اپنا قبضہ جاری رکھا، مگر کبھی وہ ہلاکو خان اور اس کی اولاد کی سیادت کو تسلیم کرتے اور اپنے آپ کو ان کا نائب السلطنت کہتے اور کبھی خود مختاری کا اعلان کرتے تھے، ان میں مبارک شاہ کے بعد سلطان غیاث الدین محمد براق خان ابن میسون توان خان ابن مواتو خان مشہور شخص ہوا، جس نے اباقاخان کے ساتھ خراسان میں سخت معرکہ کار زارگرم کیا تھا۔
غیاث الدین محمد براق خان کا بیٹا دواخان اور دوا خان کا بیٹا السنیو خان اور السنیو خان کا بیٹا کیک خان بھی خوب طاقتور اور صاحب داعیہ سلاطین تھے، دوا خان کے دوسرے بیٹے تیمور خان و ترمہ شیرین خان بھی برسر حکومت و ایامت رہے، ترمہ شیرین خان نے قندھار پر حملہ کیا اور 716ھ میں امیر حسن سلدوز اور ترمہ شیرین خان کی نواح غزنین میں سخت لڑائی ہوئی، جس میں ترمہ شیریں خان کو شکست ہوئی، ترمہ شیرین خان نے ہندوستان پر بھی ایک حملہ کیا تھا، ترمہ شیرین خان کے بعد اس کا بھائی فولاد خان قبائلِ چغتائیہ کا سلطان ہوا، اس نے 735ھ میں وفات پائی۔
فولاد خان کے بعد غازان ابن میسور اغلن بن دوا خان تخت نشین ہوا، اس کے بعد دانش مند اغلن اس کے بعد قلی خان ابن سور غذو ابن براق خان چغتائی بادشاہ ہوا، پھر تو غلوق تیمور خان ابن السنیو خان ابن دوا خان تخت نشین ہوا، اس کے بعد الیاس خواجہ خان ابن تو غلوق تیمور خان تخت نشین ہوا، اس کے بعد خضر خواجہ خان بن توغلوق تیمور خان تخت نشین ہوا، اس کے قبضہ سے خراسان کے تمام نکل گئے تھے، لیکن مغولستان کے اکثر حصے پر اس کا قبضہ تھا۔
اسی کے عہد حکومت میں امیر تیمور صاحبِ قران نے خراسان میں تخت سلطنت پر جلوس کیا اور خضر خواجہ خان اور تیمور صاحب قران کے درمیان بہت سی لڑائیاں ہوئیں، آخر خضر خواجہ امیر تیمور کے مقابلہ سے عاجز ہوا اور اپنی بیٹی تغل خانم کی شادی امیر تیمور کے ساتھ کرکے صلح کی اور رشتہ داری قائم کی، امیر تیمور کو اسی شادی کے سبب گورکان کہنے لگے، یعنی خاندان چنگیزی کے ساتھ امیر تیمور کو رشتہ دامادی حاصل ہوا، مغلوں کی زبان میں داماد کو گورکان کہتے تھے، خضر خواجہ خان کے بعد اس کا بیٹا محمد خان مغولستان کا بادشاہ ہوا، اس کے بعد اس کا بھائی جہاں اغلن ابن خضر خواجہ خان تخت نشین ہوا، جہاں اغلن کے بعد شیر محمد خان ابن خضر خواجہ خان بادشاہ ہوا۔
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (16)*
*برکہ خان ابن جوجی خان:*
باتو خان کی وفات کے بعد اس کا بھائی برکہ خان تخت نشین ہوا، باتو خان تو مثل چنگیز خان کے مسلمان نہ تھا، لیکن برکہ خان نے دین اسلام قبول کرلیا تھا، برکہ خان کے عہدِ حکومت میں مسلمانوں کو مغلوں کی زیادتی سے ہر قسم کا امن حاصل ہوا، برکہ خان کے ایک رشتہ دار کو ہلاکو خان نے ہلاک کردیا تھا، اس لیے برکہ خان نے ناراض ہوکر بوقا خان کو تیس ہزار سوار دے کر ہلاکو خان کے ملک پر حملہ کرنے کو بھیجا، ہلاکو خان نے بھی مقابلہ پر ایک سردار کو روانہ کیا، لیکن ہلاکو خان کو شکست ہوئی۔
661ھ میں ہلاکو خان خود فوج لے کر برکہ خان کے ملک پر حملہ آور ہوا، اباقا خان کو فوج دے کر آگے روانہ کیا، اول ہلاکو خان کی فوج کو شکست ہوئی، لیکن پھر برکہ خان کا لشکر منہزم ہوا، برکہ خان کے بعد جوجی خان کی اولاد میں 32 شخص تخت نشین ہوئے، برکہ خان کے بعد اس کا بیٹا منکور خان تخت نشین ہوا، اس کے بعد تو قتائی خان تخت نشین ہوا۔
703ھ میں تو قتائی خاں اور تو قائی خاں کے درمیان سخت جنگ واقع ہوئی، تو قتائی خاں نے فتح مند ہوکر اطمینان سے حکمرانی و فرماں روائی شروع کی اور غازان خان کو لکھا کہ ہلاکو خان اور اس کی اولاد نے غاصبانہ طور پر آذر بائیجان کو اپنی حدود حکومت میں شامل کر لیا ہے، حالانکہ آذر بائیجان کا ملک تقسیم چنگیزی کے موافق جوجی خان کی اولاد کا حق ہے، مناسب یہ ہے کہ آپ آذر بائیجان کا ملک ہمارے سپرد کر دیں، ورنہ پھر آپ کو معلوم ہے کہ ہم بزور شمشیر اس پر قبضہ کر لینے کی طاقت رکھتے ہیں، غازان خان نے اس کا جواب نفی میں دیا اور مقابلہ پر آمادگی ظاہر کی، مگر پھر جنگ و جدل تک نوبت نہیں پہنچی اور شروع ہونے والی جنگ رفت و گزشت ہوگئی اور توقتائی خان نے مل کر آذر بائیجان کا خیال چھوڑ دیا۔
قتائی خان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا طغرل خان تخت نشین ہوا، طغرل خان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اوزبک خان تخت نشین ہوا، اوزبک بہت نامور شخص ہوا ہے، اس کی حکومت جوجی خان کی اولاد کے ساتوں قبیلوں پر تھی، اسی کے نام پر قوم اوزبک موسوم ہوئی، اوزبک خان کے اولاد بہت بھی اور وہ سب قوم اوزبک کے نام سے مرسوم ہوئی، 718ھ میں اوزبک نے سلطان ابوسعید بہادر خان بادشاہ ایران پر فوج کشی کی، ادھر سے سلطان ابوسعید بہادر خان بھی مقابلہ پر مستعد ہوا، مگر اوزبک خان لوٹ مار کرکے فوراً واپس چلا گیا۔
725ھ میں اوز بک خان دوبارہ ایران پر فوج کشی کی، سلطان ابوسعید خان یہ خبر سن کر مقابلہ پر گیا، اسی سفر میں سلطان ابوسعید بہادر خان کا انتقال ہوا اور ارپا خان اس کی جگہ تخت نشین ہوکر مقابلہ پر آمادہ ہوا، اس کے بعد اوزبک خان واپس ہوا اور عرصہ تک حکومت کرنے کے بعد فوت ہوا۔
اس کے بعد بیگ خان اوزبک تخت نشین ہوا، اس کے زمانے میں جوجی خان کی اولاد یعنی ازبک قبیلہ کے متعدد اشخاص نے اپنی اپنی الگ الگ حکومتیں قائم کیں، جانی بیگ خان کے بعد اس کا بیٹا بیردی بیگ خان تخت نشین ہوا، 809ھ میں تبریز میں ایک بادشاہ شادی خان ازبک برسر حکومت تھا، اسی طرح ارس خان ازبک تیمور صاحب قران کے زمانے میں موجود تھا، ارس خان ازبک کا بیٹا تیمور ملک خان ازبک تھا، اس کا جانشین توقتمش خان ازبک تھا، جس کی دشت قبچاق پر حکومت تھی اور جس نے امیر تیمور صاحب قران سے جنگ کرکے شکست کھائی تھی۔
فولاد خان ازبک 815ھ میں ترکستان پر قابض و حاکم تھا، سلطان سعید مرزا شاہ رخ نے اس کے خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کی تھی، فولاد خان کے بعد محمد خان ازبک تخت نشین ہوا، براق خان ازبک جو ارس خان کی اولاد سے تھا، مرزا الغ بیگ تیموری سے مدد لے کر محمد خان ازبک پر حملہ آور ہوا اور 828ھ میں فتح یاب ہو کر ترکستان پر قابض اور تخت نشین ہوا، اس کے بعد الغ بیگ خان تیموری اور براق خان کے درمیان ناچاقی ہوئی اور نوبت محاربہ و قتال تک پہنچی، اتفاق سے الغ بیگ کی فرستادہ فوج نے شکست کھائی، اس شکست کا حال سن کر سلطان سعید مرزا شاہ رخ نے خود فوج کشی کی اور الغ بیگ کو مورد عتاب بنایا، مرزا شاہ رخ کی فوج کشی کا حال سن کر براق خان سمرقند سے واپس چلا گیا اور مقابلہ میں مصلحت نہ سمجھی، لیکن 832ھ میں سلطان محمود خان اور براق خان مقتول ہوا اور سلطنت ازبکیہ کا خاتمہ ہوا، چند روز تک پریشان و منتشر رہے۔
اس کے بعد 855ھ میں سلطان ابو الخیر خان اور بداق خان ازبک نے سمرقند پر قبضہ کرکے اپنی حکومت و سلطنت قائم کی، ابو الخیر خان کا بیٹا بداق خان اور بداق خان کا بیٹا سلطان ابو الفتح محمد خان تھا، جو ظہیر الدین بابر کا ہم عصر تھا، اسی سلطان ابو الفتح محمد خان اوزبک کو شیبانی خان ازبک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ اسماعیل صفوی کے مقابلہ میں مقتول ہوا، بڑا صاحب داعیہ اور بہادر شخص تھا، اسی نے بابر کو ترکستان و فرغانہ سے بے دخل کر کے بھگا دیا تھا، اسی کے کاسہ سر کی ہڈی پر سونے کے پتر چڑھوا کر اسماعیل صفوی نے شراب خوری کا پیالہ بنوایا تھا۔
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (15)*
*سلطان ابو سعید بہادر خان ابن سلطان محمد:*
تخت نشینی کے وقت سلطان ابو سعید کی عمر 14سال کی تھی، امراء مغل میں نااتفاقی پیدا ہوئی، مگر پھر نفاق و شقاق کے نتائج پر غور کرکے متفق و متحد ہو گئے، سلطان ابو سعید بہادر خان نے امیر چوپان کو مدار المہام سلطنت بنا کر اس کی عزت و مرتبہ کو بہت ترقی دی، امیر چوپان کے بیٹے امیر حسن جلائر کی شادی بغداد خاتون سے ہوئی، سلطان ابو سعید اس عورت پر عاشق ہو گیا تھا، سلطان نے چاہا کہ امیر حسن بغداد خاتون کو طلاق دے دے، مگر امیر چوپان نے اس کو گوارا نہ کیا، آخر اس معاملے نے یہاں تک طول کھینچا کہ امیر چوپان نے بغاوت اختیار کرکے ملک خراسان پر قبضہ کرلینا چاہا۔
ہرات پر چغتائی خاندان کے لوگوں کی حکومت تھی، جو ہلاکو خان کے خاندان سے کدورت رکھتے اور بظاہر مطیع و منقاد تھے، ان چغتائی سرداروں میں ایک شخص ترمہ شیرین خان تھا، اس کو امیر چوپان نے اپنی مدد پر آمادہ کر لیا، سلطان ابوسعید بہادر خان نے لڑائی کا سامان کیا، مقابلہ ہوا اور متعدد لڑائیوں کے بعد امیر چوپان گرفتار ہوکر مقتول ہوا، اس کے بیٹے امیر حسن جلائر نے بغداد خاتون کو طلاق دے کر سلطان ابو سعید کو اس سے نکاح کر لینے کا موقع دیا۔ 735ھ میں اوزبک خان بادشاہ دشت قبچاق نے لشکر عظیم کے ساتھ ایران پر چڑھائی کی۔
*سلطان ابو سعید کی وفات:*
ادھر سے سلطان ابو سعید بھی فوج لے کر متوجہ ہوا، مقام شیروان میں پہنچ کر سلطان آب و ہوا کی ناموافقت کے سبب بیمار ہو گیا، اسی بیماری کے ارتداد و اشتداد سے 13 ربیع آلاخر 736ھ میں فوت ہوا، چونکہ سلطان ابو سعید لاولد فوت ہوا، لہٰذا اس کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ میں طائف الملوکی اور پریشانی رونما ہوئی۔
*ارپاخان از اولاد ارتق بوقا ابن تولی خان:*
سلطان ابو سعید کی وفات کے بعد بعض امراء کے اتفاق سے ارپا خان تخت نشین ہوا، اس نے تخت نشین ہوکر کہا کہ مجھ کو آرائش اور ناز ونعم کی مطلق ضرورت نہیں، میں کمر زرین کی بجائے تسمہ اور تاج مرصع کی بجائے کلاہ نمد کو کافی سمجھتا ہوں، چونکہ ازبک خان کی فوجوں سے مقابلہ در پیش تھا، لہٰذا ارپا خان نے مقابلہ کی تیاری میں ہمت صرف کی اور جابجا حملہ آوروں کی روک تھام کے واسطے فوجیں تعینات کیں۔
اسی اثناء میں ازبک خان کے پاس خبر پہنچی کہ دشت قبچاق میں بغاوت و فتنہ پیدا ہونے والا ہے، وہ اس وحشت ناک خبر کو سنتے ہی اس طرف روانہ ہوا، ادھر امیر علی نے اس کے خلاف خروج کیا، اس خروج میں امیر علی کو اس لیے اور بھی کامیابی ہوئی کہ ارپا خان نے اولاد ہلاکو خان کو جہاں کہیں پایا قتل کیا اور اس خاندان کے استیصال سے اکثر امراء کو بد دل بنادیا۔
*ارپا خان کا قتل:*
آخر 736ھ کے ماہِ رمضان میں بمقام مراغہ دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، اس لڑائی میں ارپا خان گرفتار ومقتول ہوا، امیر علی نے فتح یاب ہوکر موسیٰ خان ابن بایدو خان ابن طرقائی ابن ہلاکو خان کو تخت پر بٹھایا۔
*موسیٰ خان ابن بایدو خان:*
موسیٰ خان کے تخت نشین ہونے پر امیر علی اویرات اور دوسرے امراء اویرات کے اقتدار نے خوب ترقی کی، امیر حسن جلائز جو ملک روم میں برسر حکومت تھا، اس نے موسیٰ خان پر چڑھائی کر کے میدان جنگ سے اس کو بھگادیا اور امیر علی کو قتل کردیا، موسیٰ خان شکست خوردہ بھاگ کر ضلع ہزارہ میں آیا اور یہاں گرفتار ہوکر قتل ہوا، موسیٰ خان کے بعد سلطان محمد خان ابن قتلق خان ابن تیمور ابن ابنارجی ابن منکور تیمور ابن ہلاکو خان تخت نشین ہوا، اس کی حکومت بھی موسیٰ خان کی طرح کمزور تھی، اس کے بعد برائے نام چند افراد اور ہلاکو خان کی نسل سے تخت نشین ہوئے اور 744ھ تک ہلاکو خان کی اولاد کا نام و نشان گم ہو گیا اور ہلاکو خان کے مفتوحہ ممالک میں بہت سی خود مختار حکومتیں قائم ہوگئیں۔
*اولاد جوجی خان ابن چنگیز خان:*
چنگیز خان کے بیٹوں میں جوجی خان سب سے بڑا بیٹا تھا، جوجی خان نے فتح خوارزم کے بعد دشت قبچاق کو فتح کر کے وہیں سکونت اختیار کی تھی، جوجی خان کے ساتھ چنگیز خان کے باقی بیٹوں کو محبت و انسیت نہ تھی اور وہ باقی بھائیوں سے کچھ الگ ہی الگ رہتا تھا، اسی مناسبت سے اس کا ملک بھی الگ اور ایک طرف ہی تھا۔
جوجی خان کی اولاد میں جو لوگ ہوئے ان میں اکثر قوم ازبک کے نام سے پکارے گئے، جوجی خان چنگیز خان کے سامنے ہی فوت ہو گیا تھا، لہٰذا چنگیز خان نے جوجی خان کا ملک اس کے بیٹے باتو خان کو دے دیا تھا، جوجی خان کے سات بیٹے تھے باتو خاں سب سے بڑا بیٹا تھا۔
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (14)*
*بایدو خان ابن طراقائی ابن ہلاکو خان:*
کیخا توخان کے بعد اس کا چچا زاد بھائی بایدو خان تخت نشین ہوا، 696ھ میں ارغون آقا اویرات جو قریباً تیس سال تک شاہان مغلیہ کی طرف سے خراسان وغیرہ علاقوں پر حکومت کرتا رہا تھا، فوت ہو گیا۔ اس کا بیٹا امیر نوروز بیگ شہزادہ غازان خان ابن ارغون خان ابن ابا قاخان کے پاس چلا گیا اور اس کی مصاحبت میں داخل ہو کر غازان خان کو اسلام کے قبول کرنے کی ترغیب دی، غازان خان ان ایّام میں خراسان کا حاکم تھا، بایدو خان اور غازان خان میں اس لیے ملال و مخالفت پیدا ہوئی کہ غازان خان اپنے آپ کو زیادہ مستحق سلطنت سمجھتا تھا، غازان خان نے امیر نوروز بیگ کی رہبری و ترغیب سے شیخ صدر الدین حموی کو بلا کر ان کے ہاتھ پر دین اسلام قبول کیا اور اسلامی نام محمود خان رکھا۔
غازان خان کے اسلام قبول کرتے ہی بہت سے مغل سرداروں نے دین اسلام قبول کرلیا، اس کے بعد بایدو خان اور سلطان محمود خان (غازان خان) کے درمیان ناچاقی بڑھتی گئی اور نوبت محاربہ و مقاتلہ تک پہنچی۔
*بایدو خان کا قتل:*
سلطان محمود خان نے فتح حاصل کرکے بایدو خان کو قتل کرا دیا اور خود ماہ ذی الحجہ 694ھ میں تخت نشین ہوا، سلطان محمود غازان خان ابن ارغون خان ابن ابا قاخان سلطان محمود خان نے تخت نشین ہوکر امیر نوروز بیگ اویرات کو اپنا وزیر و سپہ سالار بنایا اور سکوں پر کلمہ طیبہ نقش کرایا، اسی طرح مہر اور فرامین کی پیشانیوں پر اللہ اعلیٰ لکھنے کا حکم دیا، نوروز بیگ کو چند روز کے بعد خراسان کا حاکم مقرر کر کے روانہ کیا، ایستیمور وارسلان دو مغل سرداروں نے آپس میں عہد کیا کہ ہم میں سے ایک شخص سلطان محمود خان کو اور دوسرا امیر نوروز بیگ کو ایک ہی تاریخ میں قتل کرے، چنانچہ ان دونوں نے اپنے ارادے کو قوت سے فعل میں لانے کی کوشش کی، مگر عجیب اتفاق یہ ہوا کہ وہ اپنے ارادے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے اور عین وقت پر دونوں سلطان محمود خان اور امیر نوروز بیگ کے ہاتھ سے مارے گئے۔
اس کے بعض امراء وزرا نے امیر نوروز بیگ کے متعلق بدگوئی اور چغل خوری سے کام لے کر باشادہ کو بدگمان بنا دیا اور ظاہر کیا کہ امیر نوروز بیگ خراسان میں بغاوت و خود مختاری کے اعلان کا عزم رکھتا ہے، ان پہیم سازشی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان محمود غازان خان امیر نوروز بیگ سے بدگمان ہو کر اس کے استیصال کے درپے ہوا اور یہ امیر بزرگ مع خاندان ہلاک و برباد ہوا، اسی طرح خواجہ صدرالدین وزیر بھی امراء کی کوشش سے مقتول ہوا اور اس کی جگہ خواجہ رشید الدین مصنف جامع رشیدی کو قلمدان وزارت عطا ہوا، یہ واقعہ 699ھ کو وقوع پزیر ہوا۔
اس کے بعد سلطان محمود غازان خان نے سلطانِ مصر کو لکھا کہ میرے بزرگوں نے ملک شام کو فتح کیا تھا اور شام کا ملک ہمارا موروثی مقبوضہ ہے، مصری فوجوں نے اس ملک پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، میرے بزرگ چونکہ کافر تھے اور دین اسلام سے واقف نہ تھے، لہٰذا تمہاری مخالفت جو میرے بزرگوں سے تم نے کی، قابل معافی ہے، میں الحمد اللہ مسلمان ہوں اور تم کو مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنا بھائی سمجھتا ہوں، لہٰذا اب تمہارا فرض ہے کہ شام کا علاقہ میرے لیے خالی کر دو اور میری بادشاہی اور سرداری کو تسلیم کرو، مصر سے اس پیغام کا جواب نامناسب وصول ہوا، اسی خط و کتابت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصریوں نے جو پہلے سے مغلوں پر چیرہ دست تھے، اپنی حدود سے نکل کر سلطان محمود غازان خان کے مقبوضہ علاقہ پر حملہ کیا اور ساتھ ہی اس مصری فوج نے مسجدوں کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے قتل عام سے بھی کوئی دریغ نہ کیا۔
یہ سن کر 699ھ میں سلطان محمود غازان خان نے نوّے ہزار مغلوں کی فوج لے کر ملک شام پر حملہ کیا، سلطان مصر بھی فوج لے کر مقابلہ پر آیا، حمص کے قریب معرکہ کارزار گرم ہوا، سلطان محمود غازان نے مصریوں کو شکست دے کر بھگا دیا اور دمشق و شام پر قابض و متصرف ہوکر شام کے بڑے بڑے شہروں میں ایک ایک امیر بطور نائب السلطنت مقرر کیا اور خود واپس چلا آیا، سلطان مصر ناصر نے فوج لے کر دوبارہ ملک شام پر فوج کشی کی، شام کے مغل سرداروں نے خوب جم کر مقابلہ کیا، مگر شکست یاب ہوئے اور امیر تیتاق میدان جنگ میں شجاعت و بہادری کی داد دیتا ہوا گرفتار ہوا۔
یہ سن کر سلطان غازان خان نے پھر ملک شام پر حملہ کا قصد کیا، لیکن انہی ایّام میں خبر پہنچی کہ جوجی خان کی اولاد جو قبچاق کی طرف بر سر حکومت ہے، دعویٰ کرتی ہے کہ ہلاکو خان اور اس کی اولاد کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ایران و خراسان وغیرہ پر خود مختارانہ حکومت کرے، یہ حق ہمارا ہے اور ہم غازان خان کو ملک سے بے دخل کر دیں گے، اس کے بعد آپس کی مخالفتوں نے غازان خان کو شام کی طرف متوجہ ہونے کا موقع نہ دیا۔
الکمال نشریات ٹیلی گرام چینل، بزم حافظ کمال الدین شہید نوراللہ مرقدہ، الیاس گوٹھ کورنگی کراچی کے زیر اہتمام ایک اسلامی نشریاتی ادارہ ہے، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر دین کی خدمت کے جذبے کے ساتھ بنائے گئے اس چینل کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں ہمارا دست و بازو بنئے، خود بھی چینل میں شامل ہوں اور اپنے دوستوں کو بھی انوائیٹ کریں. جزاکم اللہ خیرا فی الدارین۔
الداعی الی الخیر، شعبۂ نشرواشاعت:
بزم حافظ کمال الدین شہید رحمہ اللہ
/channel/alkamalnashriyat
یوٹیوب چینل لنک👇🏻
https://youtube.com/channel/UCKU6W2pT9bq-dmCpFAc-y_g
فیسبک پیج لنک👇🏻
https://www.facebook.com/الکمال-نشریات-345049729903948/
فیس بک گروپ لنک
https://www.facebook.com/groups/143174074268025/
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (12)*
*ہلاکو خان:*
جب قراقورم میں منکو خان تخت سلطنت پر بیٹھا تو اس کے پاس شکایت پہنچی کہ گروہِ باطنیہ اسماعیلیہ کی شرارتیں حد سے متجاوز ہو چکی ہیں اور یہ لوگ بلا قید و مذہب و قوم ہر ایک اس شخص کے دشمن ہیں جو تخت و تاج کا مالک یا سرداری و سپہ سالاری کی عزت سے مفتخر ہو، امراء و سرداران لشکر کو ان خودکش حملہ آوروں یعنی باطنیوں کے خوف سے راحت کی نیند نہیں آ سکتی، ساتھ ہی یہ بھی اطلاعیں پہنچیں کہ خلیفہ بغداد اگرچہ بظاہر کمزور سمجھا جاتا ہے، مگر اس کی عظمت و شوکت اس قسم کی ہے کہ اگر وہ مغلوں کے مقابلے پر مستعد ہوگیا تو مغلوں کو اس سے عہد برآ ہونا دشوار ہوگا۔
منکو قاآن نے اپنے بھائی ہلاکو خان کو ایک لاکھ بیس ہزار مغلوں کی جرار فوج کے ساتھ روانہ کیا اور حکم دیا کہ دریائے جیحون سے مصر تک کا ملک تمہاری حفاظت اور نگرانی میں دیا جاتا ہے، اگر خلیفہ بغداد صلح و آشتی پر قائم رہے تو تم کو اس سے لڑنا نہیں چاہیے، لیکن اگر خلیفہ کی نیت غیر ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے استیصال میں دریغ نہ کرو، ساتھ ہی الموت کے قلعہ میں اسماعیلیوں کا بادشاہ اقامت گزیں ہے، اس کا نام و نشان مٹا دو اور ان اسماعیلیوں کی اچھی طرح بیخ کنی کردو، ہلاکو خان کے ہمراہ امیر ایچل ابن امیر قرا چار بطور سپہ سالار روانہ کیا گیا۔
ہلاکو خان 651ھ میں وارد خراسان و ایران ہوا، آذر بائیجان و شروان و گرجستان وغیرہ کے سلاطین ہلاکو خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اظہار عقیدت و نیاز مندی کے بعد مورد مراحم خسروانہ ہوئے، ارغون آقا اویرات خراسان سے منکو خان قاآن کی خدمت میں روانہ ہوا، ہلاکو خان نے خراسان پہنچ کر اور یہاں کے حالات سے واقف و آگاہ ہوکر اول ملاحدہ اسماعیلیہ کی طرف توجہ کی اور یکے بعد دیگرے ان کے قلعوں پر قبضہ کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ یکم ذیقعدہ 654ھ بروز یکشنبہ قلعہ الموت فتح ہو گیا۔ اور اسماعیلیوں کا بادشاہ رکن الدین خورشاہ ہلاکو خان کے سامنے گرفتار ہوکر حاضر ہوا، ہلاکو خان نے خورشاہ کو منکو خان کی خدمت میں قراقورم کی طرف روانہ کیا اور جن لوگوں کی حراست میں اس کو روانہ کیا تھا، ان کو حکم دیا کہ راستے ہی میں اس کا کام تمام کر دینا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، رکن الدین خورشاہ کے اہل و عیال اور متعلقین سب قتل کیے گئے، مگر خواجہ نصیر الدین طوسی جو خورشاہ کی مصاحبت میں داخل تھا، اپنی زبان آوری اور ہوشیاری کے سبب ہلاکو خان کے مصاحبوں میں داخل ہو گیا، اسماعیلیوں کے تمام خزائن و دفائن مغلوں کے ہاتھ سے تاراج ہوئے اور ان کی سلطنت کا چراغ گل ہوا۔
اس کے بعد نصیر الدین طوسی نے ہلاکو خان کو بغداد پر فوج کشی کرنے کی ترغیب دی اور خلیفہ بغداد کے وزیر علقمی نے نمک حرامی کی راہ سے نصیر الدین کے ذریعہ ہلاکو خان سے ساز باز کیا اور بغداد کی تباہی عمل میں آئی، بغداد کی بربادی کا مفصل حال دوسری جلد میں چونکہ بیان ہو چکا ہے، اس لیے اس دلخراش داستان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔
اموال، خزائن بے قیاس بغداد سے لے کر ہلاکو خان مراغہ کی طرف متوجہ ہوا، وہاں سے زر و جواہر کے انبار اور لونڈی غلام قطار در قطار منکو خان کی خدمت میں قراقورم کی طرف روانہ کئے۔
اتابک سعدبن ابوبکر حاکم فارس اور بدر الدین لولو حاکم موصل اور سلطان عز الدین سلجوقی حاکم روم نے حاضر ہوکر اظہار اطاعت کیا، بروزجمعہ 20 رمضان المبارک 657ھ کو ہلاکو خان نے کئی نامور سرداروں کو فوج دے کر بطور ہر اول ملک شام کی طرف روانہ کیا، نصیبین، حران، حلب وغیرہ شہروں کو فتح اور ان کے باشندوں کا قتل عام کرتا ہوا دمشق کی جانب پہنچا، دمشق کو بھی اسی طرف فتح کیا اور ملک شام پر قابض ہو کر اور وہاں اپنی طرف سے ایک حاکم کسوقا نامی کو مقرر کر کے ہلاکو خان خراسان کی طرف واپس آیا، مصری لشکر نے ملک شام پر حملہ کرکے مغلوں کی فوج کو شکست دے کر بھگادیا، اس خبر کو سن کر ہلاکو خان بہت رنجیدہ ہوا اور ارادہ کیا کہ ملک شام پر فوج کشی کر کے مصریوں کو شام سے نکالے، مگر اسی اثناء میں منکو خان کے فوت ہونے کی خبر پہنچی اور انہیں ایّام میں ایک اور واقعہ پیش آیا کہ برکہ خان ابن جوجی خان بادشاہ قبچاق اور ہلاکو خان کے درمیان مخالفت اور ناچاقی پیدا ہوئی۔
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (11)*
*منکو خان:*
منکو خان نے اپنے بھائی قویلا خان کو ختا کی حکومت سپرد کی اور اپنے دوسرے بھائی ہلاکو خان کو ایک عظیم الشان فوج دے کر ایران کی طرف روانہ کیا، منکو خان کی رسم تخت نشینی 648ھ میں ادا ہوئی تھی، منکو خان مسلمانوں کے ساتھ بہت رعایت کرتا اور ان کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا تھا۔
*منکو خان کی وفات:*
سات برس سلطنت کر کے 655ھ میں فوت ہوا، اپنی سلطنت کے آخری سال میں منکو خان نے چین کے بادشاہ کو لکھا کہ تم اطاعت و فرما نبرداری اختیار کرو، اس نے انکار کیا، منکو خان نے چین کے ملک پر چڑھائی کی۔
*قویلہ خان:*
اسی سفر میں بمقام چنکد خان کا انتقال ہوا، اس کا بھائی قویلہ خان جو اس سفر میں بھائی کے ساتھ تھا، امرائے لشکر کے اتفاق رائے سے بمقام چنکد تخت نشین کیا گیا، لیکن اس خبر کے پہنچنے پر ارتق بوقانے قراقورم میں تاج شاہی اپنے سر پر رکھا، ( قویلا خان جب قراقورم کی طرف متوجہ ہوا تو ادھر قراقورم سے ارتق بوقا بھی فوج لے کر مقابلہ کے لئے نکلا، مقام کلوران میں دونوں بھائیوں کا مقابلہ ہوا، سخت لڑائی کے بعد ارتق بوقا کو شکست فاش حاصل ہوئی، مگر وہ میدان جنگ سے اپنی جان بچا کر لے گیا اور قویلہ خان نے قراقورم میں داخل ہوکر تخت سلطنت پر جلوس کیا، ارتق بوقانے ختا کی طرف جا کر فوج جمع کی اور پھر اپنی حالت درست کرکے آیا، غرض چار سال تک ارتق بوقا اور قویلہ خان کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، آخر ارتق بوقا گرفتار ہوکر قید ہوا اور اسی قید میں مر گیا۔
قویلہ خان نے 655ھ میں تخت نشین ہوتے ہی ہلاکو خان کے پاس حکم بھیج دیا تھا کہ دریائے جیحوں سے ملک شام تک کے علاقے کی حفاظت و نگرانی تمھارے ذمہ ہے اور تم کو اس علاقے کی حکومت سپرد کی جاتی ہے، ارتق بوقا اور قویلہ خان کی جنگ و پیکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی مرکزی حکومت اور دربار قراقورم کا رعب کم ہو گیا اور جہاں جہاں جو سردار مامور تھا وہ اپنے آپ کو خود مختار اور آزاد بادشاہ سمجھنے لگا، یہ وہ زمانہ تھا کہ خاندان چنگیزی کے کئی شہزادے اور سربر آور دہ لوگ علانیہ اسلام کو قبول کر چکے تھے اور اسلام نے مغلوں کے اندر پھیلنا شروع کردیا تھا۔
قویلا خان نے ارتق بوقا کے فتنہ سے فارغ ہو کر ملک چین کی طرف فوج کشی کی اور چند سال کی لڑائیوں کے بعد تمام ملک چین کو فتح کر کے بجائے قراقورم کے ملک چین میں ایک نیا شہر خان بالیغ کے نام سے آباد کر کے اپنا دارالسلطنت بنایا اور سیام وبرہما (سیام و برھما سے مراد برما، تھائی لینڈ کا علاقہ ہے۔) و جاپان وغیرہ ملکوں سے خراج وصول کیا۔
قویلا خان نے مختلف مذاہب اور مختلف قوموں کے چار وزیر مقرر کئے، جن میں ایک مسلمان یعنی امیر احمد بنا کتی بھی تھا، قویلا خان کی حکومت اور بادشاہی کو تمام مغل سلاطین تسلیم کرتے اور اس کے احکام کو مانتے تھے، مغلوں کی سلطنت چین سے لے کر یورپ تک پھیلی ہوئی تھی، اسلامی سلطنت بہت ہی ضعیف حالت میں تھی، لہٰذا عیسائی، مجوسی اور یہودی مغلوں کے دربار میں رسوخ حاصل کرکے اسلام اور مسلمانوں سے ان کو متنفر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے، چنانچہ ایک مرتبہ اباقا خان ابن ہلاکو خان نے خراسان سے قویلا خان کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ مجھ کو یہودیوں اور مجوسیوں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید میں لکھا ہے کہ مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو، آپ کا اس تعلیم کے متعلق کیا خیال ہے؟ یعنی اگر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ہم کو جہاں پائیں قتل کریں تو اس حالت میں مسلمانوں کی قوم کا دنیا میں باقی رہنا اندیشہ سے خالی نہیں۔
قویلا خان نے اس عرضداشت کو پڑھ کر بعض مسلمان علماء کو بلایا اور پوچھا کہ کیا قرآن مجید میں ایسا حکم موجود ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’ہاں یہ حکم موجود ہے‘‘ قویلا خان نے کہا پھر تم ہم کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا کہ ہم قوت نہیں رکھتے، جب قوت و قدرت پائیں گے، تم کو قتل کریں گے، قویلا خان نے کہا کہ اب چونکہ ہم قدرت رکھتے ہیں، لہٰذا ہم کو چاہیئے کہ تمہیں قتل کریں، یہ کہہ کر ان علماء کو قتل کرا دیا اور حکم جاری کیا کہ مسلمانوں کو چہاں پاؤ قتل کرو، یہ سن کر مولانا بدر الدین بیہقی اور مولانا حمید الدین سمر قندی قویلا کے دربار میں پہنچے اور کہا کہ آپ نے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم کیوں جاری کیا؟ قویلا خان نے کہا کہ ''اقتلو المشرکین'' کا کیا مطلب ہے؟ ان دونوں عالموں نے کہا کہ عرب کے بت پرست جو مسلمانوں کے قتل پر ہمہ تن آمادہ تھے، ان کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ اپنی حفاظت کے لیے ان کو قتل کرو، لیکن یہ حکم تمہارے لیے تو نہیں ہے، کیونکہ تم تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہو اور اپنے فرامین کی پیشانیوں پر اللہ کا نام ہمیشہ لکھتے ہو، یہ سنتے ہی قویلہ خان بے حد مسرور ہوا اور اسی وقت حکم صادر کیا کہ میرا پہلا حکم جو مسلمانوں کے قتل کی نسبت جاری ہوا ہے، منسوخ سمجھا جائے۔
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (09)*
*اوکتائی خان:*
چنگیز خان کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا اوکتائی قاآن مغلوں کا بادشاہ تسلیم کیا گیا اور اس کے بھائی اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں پر جو چنگیز خان نے مقرر و نامزد کیے تھے، قابض و متصرف ہو گئے، دو برس کے بعد اوکتائی قاآن نے اپنے تمام بھائیوں کو طلب کیا اور ایک بہت بڑی ضیافت اور جشن کے سامان مرتب کیے، جب سب لوگ آ چکے تو اپنے بھائیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں قاآنی یعنی بادشاہی کے عہدے سے دست بردار ہوتا ہوں، آپ جس کو مناسب سمجھیں اپنا بادشاہ بنا لیں، مگر چغتائی خان اور دوسرے بھائیوں اور سرداروں نے باصرار اس کو تخت پر بٹھایا اور مغلوں کی رسم کے موافق سب نے آفتاب کی پرستش کی۔ (یعنی چنگیز خاں اور اس کی اولاد و خاندان وغیرہ سورج کی پوجا کرتے تھے۔)
اس کے بعد جوجی خان کا بیٹا باتو خان اور پوتا کیوک خان اور تولی خان کا بیٹا منکو خان مامور کیے گئے کہ روس و چرکس و بلغاریہ کی طرف فوج کشی کریں، چنانچہ ان شہزادوں نے 633ھ میں سات برس کی کوشش کے بعد ان تمام ملکوں کو مفتوح و منقاد کر لیا، ارغون خان سپہ سالار کو خراسان کی حکومت وسرداری پر مامور کیا گیا اور حکم ہوا کہ خراسان کے ان شہروں کو جو مغلوں کی تاخت و تاراج سے ویران ہو گئے ہیں، ازسرنو آباد کیا جائے۔
اوکتائی خان ابن چنگیز خان بہت سنجیدہ مزاج اور نیک طینت شخص تھا، اس نے ملکوں کی آبادی اور رفاہ رعایا کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی، اوکتائی خان کو مسلمانوں سے خاص طور پر محبت و انسیت تھی، وہ مسلمانوں کو قابل تکریم سمجھتا اور ان کو ہر قسم کی راحت پہنچانا چاہتا تھا۔
مغلوں کے دستور کے موافق غوطہ مار کر نہانا گناہ کبیرہ تھا، ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اوکتائی خان اور چغتائی خان دونوں ہمراہ جا رہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان دریا میں نہا رہا ہے، چغتائی خان نے فوراً اس کے قتل کا حکم دیا، اوکتائی خان نے کہا کہ اس کو گرفتار کرلو اور مجمع عام میں اس کو قتل کیا جائے، اوکتائی خان نے چغتائی خان سے جدا ہوکر تنہائی میں اس مسلمان قیدی سے کہا کہ تو یہ کہہ دینا کہ میرے پاس اشرفیوں کی ایک تھیلی تھی اور مجھ کو ڈاکوؤں کے اندیشہ سے اس کے چھپانے کی ضرورت تھی، لہٰذا میں دریا میں اس کو چھپانے کے لیے داخل ہوا تھا، جب اس مسلمان کو مجمع عام میں سیاست کے لیے حاضر کیا گیا تو اس نے اپنی بے گناہی کے ثبوت میں وہی بات کہی جو اوکتائی خان نے اس کو سمجھا دی تھی۔
یہ سن کر دریا میں اس مقام پر اشرفیوں کی تھیلی تلاش کرنے کے لیے آدمی بھیجے گئے، اوکتائی خان نے پہلے ہی وہاں تھیلی ڈال دی تھی، وہ برآمد ہوئی اور مسلمان کے بیان کی تصدیق ہو گئی، چنانچہ اس کو وہ اشرفیوں کی تھیلی اور چند اور تھیلیاں بطور انعام دے کر اوکتائی خان نے رہا کردیا، اس طرح جہاں تک اس کو موقع ملتا تھا، وہ مسلمانوں کو نفع پہنچاتا تھا، مگر دوسرے مغول مسلمانوں کے دشمن اور ان کو نقصان پہنچانے کے شائق تھے۔
ایک مرتبہ ایک شخص اوکتائی خان کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے رات خواب میں قاآن اعظم چنگیز خان کو دیکھا ہے، اس نے مجھ سے فرمایا ہے کہ میرے بیٹے اوکتائی خان سے جا کر میرا یہ پیغام کہو کہ میری خوشی اور خواہش یہ ہے کہ دنیا سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا جائے اور ان کے قتل کرنے میں ہرگز تأمل روا نہ رکھا جائے، اوکتائی خان نے کہا کہ تو مغلی زبان جانتا ہے، اس نے کہا کہ نہیں میں صرف فارسی میں گفتگو کر سکتا ہوں اور فارسی ہی سمجھ سکتا ہوں، اوکتائی خان نے کہا کہ چنگیز خان سوائے مغلی زبان کے اور کوئی زبان نہیں جانتا تھا اور فارسی قطعاً نہیں بول سکتا تھا، تونے اس کے کلام کو کس طرح سمجھا؟ یہ کہہ کر حکم دیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے، یہ جھوٹا آدمی ہے اور چنگیز خان پر بہتان باندھتا ہے، چنانچہ فوراً اس کو قتل کردیا گیا۔
اوکتائی خان کی نسبت عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اگرچہ اعلانیہ مسلمان نہ ہوا تھا، لیکن پوشیدہ طور پر وہ اسلام کو سچا مذہب یقین کرکے مسلمان ہو چکا تھا، اس کا دارالسلطنت قراقورم یا قراقرم تھا اور تمام دنیا کی لوٹ کا مال قراقورم میں جمع ہو کر زرو جواہر سے خزانہ معمور تھا، اوکتائی خان کی سخاوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ خراسان اور شام تک سے لوگ اس کی سخاوت کا شہرہ سن کر قراقورم میں چلے آتے تھے اور مالا مال ہو کر واپس جاتے تھے۔
باپ نے جس طرح ظلم و خونریزی کے ذریعہ دولت جمع کی تھی، بیٹے نے اسی طرح محبت و شفقت اور خدا ترسی کی راہ سے اس کو لوگوں میں تقسیم کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی زیادتی اور خشونت سے لوگ ابتداء وحشت زدہ اور متنفر تھے تو اوکتائی کی سخاوت اور داد و دہش کے سبب اس سے محبت کرنے لگے، مغلوں کی سلطنت کا بانی اگر چنگیز خان تھا تو اس کی بنیادوں کو پائیدار و استوار بنانے والا اوکتائی خان تھا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (08)*
*چنگیز خان کے عہد حکومت پر تبصرہ:*
چنگیز خان مغلوں کی قوم میں بڑا عقل مند اور دور اندیش شخص پیدا ہوا تھا، اس کی وجہ سے مغلوں کی غیر معروف قوم تمام دنیا میں مشہور ہو گئی، اس نے ملک گیری کے نہایت اچھے اور پختہ اصول ایجاد اور قائم کئے، وہ اس بات سے واقف تھا کہ مغلوں کی وحشی اور جاہل قوم کو کسی وقت بیکار نہیں چھوڑنا چاہیے، ورنہ پھر یہ آپس میں ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر تباہ ہو جائیں گے، چنانچہ اس نے ایک طرف مغلوں کو اتفاق و اتحاد کی خوبیاں سمجھانے میں خاص توجہ اور کوشش سے کام لیا تو دوسری طرف ایسے آئین و قوانین قائم کئے کہ مغلوں کی فوج کسی وقت بیکار نہ رہے۔
چنانچہ اس نے ایک مجموعۂ قوانین مرتب کیا، اس مجموعۂ قوانین کا نام تورۂ چنگیزی تعزیرات چنگیزی ہے، مغلوں میں عرصۂ دراز تک تورۂ چنگیزی کا مرتبہ مذہبی اور آسمانی کتاب کی مانند سمجھا جاتا تھا، تورۂ چنگیزی میں شکار کے لئے بھی آئین و قوانین درج ہیں اور مغل بادشاہ کے لئے ضروری ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ جب فتوحات اور جنگ و پیکار سے فارغ ہو تو آئین و دستور کے موافق مع فوج شکار میں مصروف ہو۔
چنگیز خان کی خوں ریزی کے ساتھ جب اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ وہ متکبرانہ الفاظ کم استعمال کرتا تھا تو تعجب ہوتا ہے، چنگیز خان جب کسی بادشاہ کے نام خط لکھتا تو اس کو اول اپنی اطاعت پر آمادہ کرنا چاہتا اور آخر میں لکھتا کہ اگر تم نے اطاعت قبول نہ کی تو اللہ جانے انجام کیا ہو، یہ نہ لکھتا کہ میں بہت بڑی جرار فوج رکھتا ہوں اور تم کو ہلاک کر ڈالوں گا، وغیرہ۔ اسی طرح ملکوں کی فتوحات کو بھی وہ اپنی یا اپنی فوج کی طرف منسوب نہ کرتا، بلکہ یہ کہتا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت کی اور اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بادشاہ بنایا ہے۔
اپنی نسبت لمبے چوڑے القاب اور مدح و ستائش کے الفاظ نہ لکھنے دیتا، خود مثل دوسرے سپاہیوں کے تمام کام انجام دیتا، خود بھی گھوڑے پر سوار ہو کر لمبی لمبی مسافتیں طے کرتا اور اپنے ہمراہی سواروں سے بھی بڑی بڑی منزلیں طے کراتا، اس کا قول تھا کہ ہم کو ہمیشہ جفا کشی اور محنت کا عادی رہنا چاہیئے، اسی میں ہماری سرداری اور فضیلت کا راز مضمر ہے۔
چنگیز خان خود طویل القامت اور مضبوط جسم کا شخص تھا، وہ ہمیشہ لڑائی کے وقت صف اول میں نظر آتا اور جس طرف حملہ آور ہوتا دشمن کی صفوں کو درہم برہم کر دیتا تھا، اس کی غیر معمولی فتوحات کا راز اس بات میں بھی مضمر ہے کہ اس کے بیٹے بھی اسی کی طرح سپاہی منش اور بہادر جنگ جو تھے، نیز اس نے مغلوں کی آپس کی رقابتیں دور کر کے اکثر قبائل میں جو اس کے معاون و مددگار تھے، اتفاق اور محبتیں پیدا کر دی تھیں۔
اس نے پانچ شادیاں کی تھیں، اس کی پانچوں بیویاں مختلف قبائل اور مختلف قوموں سے تعلق رکھتی تھیں، اس طرح اس کے سسرالی قبائل بھی اس کو اپنا رشتہ دار سمجھ کر دل سے اس کی خیر خواہی میں مصروف تھے، تورۂ چنگیزی کے قواعد و قوانین میں ایک یہ بھی اصول بیان ہوا ہے کہ بادشاہ جب کسی نئے شہر کو فتح کرے تو اول وہاں قتل عام کا حکم ضرور دے، جب فوج کو آزادانہ قتل عام کا موقع مل جائے اور اس شہر کی بہت سی آبادی قتل ہو جائے، تب امن و امان کا حکم دے کر باقاعدہ حاکم وہاں مقرر کرنا چاہیے، اس میں غالباً مصلحت یہ ہو گی کہ وہاں کی رعایا فاتحین سے مرعوب ہو جائے اور پھر کبھی بغاوت و سرکشی کا ارادہ نہ کرے، اس قاعدے پر چنگیز خان نے اپنی تمام فتوحات میں ہمیشہ عمل کیا، اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو اس زمانے کی متمدن دنیا میں سرکشی اور سازشی کوششوں کا اس قدر عام رواج ہو گیا تھا کہ کسی شہر کا کوئی حاکم اور کسی ملک کا کوئی بادشاہ باغیوں کے فتنوں سے محفوظ نظر نہ آتا تھا اور آئے دن بغاوتوں اور لڑائیوں کے ہنگاموں سے مخلوق الٰہی سخت پریشان تھی، علویوں، ایرانیوں، شیعوں، فاطمیوں کے خروج کا سلسلہ کسی زمانے میں منقطع نہ ہو سکا تھا، عالم اسلام کے ان حالات اور دنیا کے ان واقعات سے چنگیز خان کو جب واقفیت ہوئی تو اس نے لوگوں کو خوف زدہ اور مرعوب کرنے کے لیے اصول پر عمل کرنا ضروری سمجھا اور اس طرز عمل میں اس کو کامیابی حاصل ہوئی۔
مغلوں نے سوائے بغداد و عراق اور عرب و ہند کے تمام براعظم ایشیا اور کسی قدر براعظم یورپ پر قبضہ کرلیا تھا، مغلوں کے ہاتھ سے اسلامی سلطنتیں زیادہ تباہ و برباد ہوئیں اور مسلمان ہی ان کی تلواروں سے زیادہ شہید ہوئے، بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ مغلوں کے ہاتھ سے اسلام کا نام و نشان گم ہو جائے گا، مگر چونکہ اسلام کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے اور شریعت اسلام ایسی چیز نہیں کہ کوئی مادی طاقت اس کو برباد یا مغلوب کر سکے، لہٰذا بداعمال مسلمان تو مغلوں کے ہاتھ سے تباہ ہو گئے اور مغلوں کی تلوار مسلمانوں کے لیے تازیانہ بن گئی، جس نے ان کو غفلت سے بیدار کیا، لیکن مغل خود چند ہی روز کے بعد اسلام کے غلام اور خادم نظر آئے۔
*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (07)*
*چنگیز خاں کی اسلام کے متعلق تحقیق:*
چنگیز خان سلطان جلال الدین خوارزمی کے تابڑ توڑ گوریلا حملوں سے نجات پاکر اور اپنے بیٹے چغتائی خان کو مکران میں چھوڑ کر خود ترکستان ہوتا ہوا ذی الحجہ 621ھ میں سات برس کے بعد مغولستان اپنے وطن میں واپس پہنچا، جاتے ہوئے راستہ میں جب بخارا پہنچا تو حکم دیا کہ مسلمانوں میں جو شخص سب سے زیادہ عالم اور اپنے مذہب سے واقف ہو، اس کو میرے سامنے لاؤ تاکہ میں اس سے مذہب اسلام کی حقیقت و ماہیت معلوم کروں، اس سات سال کی خوں ریزی اور ممالک اسلامیہ کی کشت و گرداوری سے چنگیز خان کو یہ محسوس ہوگیا تھا کہ اگرچہ مسلمان اس وقت کمزور ہوگئے ہیں، مگر اسلام فی نفسہ کوئی معمولی مذہب نہیں، بلکہ وہ ایک عظیم الشان نظام اور اعلیٰ ترین اخلاقی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔
چنانچہ اس کے حکم کی تعمیل میں قاضی اشرف اور ایک جید عالم اس کے دربار میں پیش کئے گئے، چنگیز خان کے دریافت کرنے پر ان دونوں مسلمانوں نے سب سے پہلے توحید باری تعالیٰ کا عقیدہ بالتفصیل بیان کیا، چنگیز خان نے کہا کہ میں اس عقیدہ کو تسلیم کرتا ہوں، اس کے بعد انہوں نے رسالت کا عقیدہ بیان کیا، چنگیز خان نے کہا کہ میں اس بات کو بھی قابل قبول مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی ہدایت کے لیے دنیا میں اپنے ایلچی اور پیغمبر بھیجا کرتا ہے، اس کے بعد انہوں نے نماز اور روزہ کے لازمی ہونے کا حال بیان کیا، چنگیز خان نے کہا کہ اوقات معینہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا اور گیارہ مہینے کے بعد ایک مہینے کے روزے رکھنا بھی بڑی معقول بات ہے، اس کے بعد انہوں نے حج بیت اللہ کے فرض ہونے کا حال بیان کیا، چنگیز خان نے کہا کہ اس کی ضرورت کو میں تسلیم نہیں کرتا۔
چنانچہ قاضی اشرف نے تو چنگیز خان کی نسبت خیال ظاہر کیا کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے، لیکن دوسرے عالم نے کہا کہ چونکہ اس نے حج بیت اللہ کا انکار کیا ہے، اس لئے وہ مسلمان نہیں ہوا۔(چنگیز خاں کے مسلمان ہونے کے بارے میں کوئی ٹھوس شہادت یا روایت تاریخ میں نہیں ملتی، غالب رائے یہی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا۔)
اس کے بعد چنگیز خان سمر قند پہنچا اور وہاں کے مسلمانوں پر بہت مہربانیاں مبذول کیں، غور کرنے کا مقام ہے کہ سات برس کے بعد جو فاتح بہت سے اسلامی ملکوں کو فتح کرکے اور لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی خون کی ندیاں بہا کر اپنے وطن کو واپس ہو رہا ہے، وہ اپنے عقیدہ کو اسلام کا ماتحت بنا چکا ہے اور مذہباً مفتوح و مغلوب ہو کر آیا ہے، چنگیز خان کے بیٹے تولی خان کے بیٹے قویلا خان اور ہلاکو خان اس وقت دس سال اور نو سال کی عمر رکھتے تھے، چنگیز خان کے یہ دونوں پوتے دادا کے واپس آنے کی خبر سن کر استقبال کو آئے اور راستے میں انہوں نے ایک خرگوش اور ایک آہو شکار کیا، چونکہ ان لڑکوں کا یہ پہلا شکار تھا، لہٰذا چنگیز خان نے اس خوشی میں ایک جشن ترتیب دیا اور بہت بڑی ضیافت اہل لشکر کو دی۔
چنگیز خان کے مغولستان میں واپس آنے کا ایک یہ بھی سبب تھا کہ وہاں بعض امرائے مغول نے مخالفت و سرکشی کا اظہار کیا تھا، چنانچہ مغولستان میں پہنچتے ہی چنگیز خان نے سرکش اور مخالف مغلوں کو قتل و غارت کے ذریعہ ٹھیک بنایا۔
*جانشین کا انتخاب:*
اس طرح تمام ہنگاموں سے فارغ ہو کر چنگیز خان نے اپنے بیٹوں پوتوں اور سرداروں کو جمع کر کے کہاں کہ میرا وقت غالباً اب آخر ہو چکا ہے، میں نے تم لوگوں کے لئے بہت بڑا ملک فتح کر دیا ہے، تم بتاؤ کہ اب میں کس کو اپنا جانشین نامزد کروں؟ تاکہ تم سب بخوشی اس کی اطاعت اور فرماں برداری کرو، سب نے بالاتفاق کہا کہ ہم آپ کے تابع فرمان ہیں، آپ جس کو اپنا جانشین بنائیں گے ہم اس کی اطاعت بجا لائیں گے، چنگیز خان نے کہا کہ اگر تم اس معاملہ کو میری رائے پر چھوڑتے ہو تو میں اپنا جانشین اوکتائی خان کو بنانا چاہتا ہوں، اب تمھارا فرض ہے کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو ضروری سمجھو، اس کے بعد حکم دیا کہ قبل خان اور قاچولی بہادر کا عہد نامہ نکالو، جس پر تومنہ خان کی مہر بھی ثبت ہے، اس عہدنامہ کو نکال کر سب کو دکھایا اور سب سے اس پر دستخط کرائے اور حکم دیا کہ دشت قچاق، دشت خزر، الان، روس، بلغار پر جوجی خان کی حکومت رہے گی اور ماوراء النہر، خوارزم، کاشغر، بدخشاں، بلخ، غزنین اور دریائے سندھ تک کا علاقہ چغتائی خان کا ملک سمجھا جائے گا۔
اور قراچار چغتائی خان اور امیر قراچار کے درمیان وہی تعلقات رہیں گے جو میرے اور قراچار کے درمیان تھے، یعنی چغتائی خان بادشاہ اور امیر قرارچار اس کا سپہ سالار رہے گا، اور دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری ملحوظ رکھیں گے۔