tarikheislamurdu | Unsorted

Telegram-канал tarikheislamurdu - تاریخ اسلام(اردو)

720

یہ چینل ہماری نوجوان نسل کو اپنے آباء کی سنہری تاریخ سے روشناس کرانے کے لئے بنایا گیا ہے، لہذا اسے آپ خود بھی مطالعہ کیجئے اور دوسروں کے ساتھ شیر بھی کیجئے ۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا

Subscribe to a channel

تاریخ اسلام(اردو)

قتل عام کی خبریں سن کر یہ لوگ بہت خوش ہو رہے تھے، چونکہ یہ لوگ بھی مسلمانوں کے اسی طرح دشمن تھے جیسے کہ مغل، لہٰذا ان کو مغلوں سے کوئی اندیشہ نہ تھا۔

انہوں نے مسلمانوں کی تباہ حالت دیکھ کر اپنے مقبوضات کو بہت وسیع کرلیا، قرامطہ کی بیخ کنی سلطان جلال الدین کے قابل تذکرہ اور اہم کارناموں میں شمار ہونا چاہیے۔ اب وہ زمانہ تھا کہ مغلوں کا سیلاب شمال کی جانب متوجہ تھا، سلطان جلال الدین نے موقع مناسب سمجھ کر بغداد کا رخ کیا کہ وہاں جا کر خلیفہ ناصرلدین اللہ عباسی کی خدمت میں حاضر ہو کر امداد طلب کروں، تاکہ مغلوں کا ممالکِ اسلامیہ سے اخراج و استیصال بآسانی کیا جا سکے، خلیفہ کو چونکہ جلال الدین کے باپ سے نفرت تھی، لہٰذا اس نے جلال الدین کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر فوراً امرا کو مامور کیا کہ جلال الدین کو آگے نہ بڑھنے دو اور ہماری مملکت سے باہر نکال دو، یہ رنگ دیکھ کر سلطان جلال الدین مقابلہ پر مستعد ہوگیا اور امرائے بغداد کو شکست دے کر بھگا دیا۔

پھر خود وہاں سے بجائے بغداد کے تبریز کی طرف متوجہ ہوا، تبریز پر قابض ہو کر گرجستان کی طرف گیا، وہاں کے امراء نے بڑی عزت کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور اس کی تشریف آوری کو بہت ہی غنیمت سمجھ کر سب نے اظہار اطاعت کیا، اب سلطان جلال الدین کی حالت پھر درست ہو گئی، ادھر مغلوں کا عظیم الشان لشکر اس کے مقابلے پر آیا، اصفہان کے قریب معرکۂ کار زار گرم ہوا، سلطان جلال الدین نے مغلوں کو شکست دے کر بھگا دیا اور فتح عظیم حاصل کر کے تمام ملک گرجستان اور اس کے نواحی علاقوں پر قابض و متصرف ہوگیا، اس کے بعد مغلوں نے بہت تیاری اور عظیم الشان لشکر کے ساتھ سلطان جلال الدین پر حملہ کیا، اس حملہ کی تیاریوں کا حال سن کر سلطان جلال الدین نے بغداد اور دوسرے اسلامی درباروں کی طرف ایلچی روانہ کیے کہ اس وقت میری مدد کرو اور اس متفقہ دشمن کا سر کچل لینے دو، مگر چونکہ جلال الدین کی بہادری اور شجاعت کی شہرت دور دور تک ہو چکی تھی، اس لئے کسی نے بھی اس بات کو پسند نہ کیا کہ جلال الدین مغلوں پر فتح یاب ہو کر ہمارے لئے موجب خطرہ بنے، لہٰذا کوئی امداد جلال الدین کو کسی طرف سے نہ پہنچی، مجبوراً وہ خود ہی مقابلہ کے لئے مستعد ہوا اور ممکن تھا کہ وہ مغلوں کو شکست دے کر ان کے حوصلے پست کر دے اور آئندہ مصائب سے عالمِ اسلام نجات پا جائے، مگر اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور نہ تھی جلال الدین نے جو جاسوس مغلوں کے لشکر کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لئے مقرر کئے تھے، انہوں نے یہ غلط خبر سلطان کو پہنچائی کہ مغلوں کا لشکر ابھی بہت دور ہے، حالانکہ لشکرِ مغل بالکل قریب پہنچ چکا تھا، چنانچہ مغلوں نے آدھی رات کے وقت یکایک ایسی حالت میں حملہ کیا کہ جلال الدین کو کوئی توقع دشمن کے حملہ کی نہ تھی، اس طرح یکایک اپنے آپ کو دشمن کے پنجہ میں گرفتار دیکھ کر اول اس نے ہاتھ پاؤں مارے اور مصروف جدال و قتال ہوا، لیکن جب بالکل مایوس ہو گیا تو اس ہنگامے سے نکل کر کسی سمت کو گھوڑا اڑا کر لے گیا، اس کے بعد اس کا حال معلوم نہ ہوا۔

*سلطان جلال الدین کا انجام:*
 
دو روایتیں سلطان جلال الدین کے انجام کی نسبت مشہور ہیں: ایک یہ کہ اس کو کسی پہاڑی شخص نے جبکہ وہ پہاڑ میں کسی جگہ آرام کرنے کے لئے ٹھہرا ہوا تھا، اس کے گھوڑے اور لباس کے لالچ میں دھوکے سے قتل کردیا، دوسری روایت یہ ہے کہ وہ تبدیل لباس مشائخ عظام کی خدمت میں حاضر ہوکر صوفیوں اور عابدوں کی زندگی بسر کرنے لگا اور دور دراز ملکوں میں سفر کرتا رہا اور اسی زہد و عبادت کی حالت میں عرصۂ دراز تک زندہ رہا۔ واللٰہ اعلم بالصواب

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

اس عرصہ میں بخارا، سمرقند وغیرہ مقامات کو مغلوں نے فتح کر کے خراسان میں ہر مقام پر خون کے دریا بہانے شروع کر دئیے، آخر ربیع الاول 617ھ میں چنگیز خان نے جیحون کو عبور کر کے بلخ و ہرات میں قتل عام کیا، جب خوارزم شاہ کے اہل و عیال گرفتار ہو کر چنگیز خان کے سامنے حاضر ہوئے تو اس سنگدل نے عورتوں اور بچوں پر رحم نہ کیا، سب کو قتل کر دینے کا حکم دیا، بلخ و ہرات کے بعد نیشاپور، ماژندران، رے، ہمدان، قم، قزوین اور دبیل، تبریز، طفلیس، مراغہ وغیرہ میں مغلوں نے اس طرح قتل عام کیا کہ بچوں بوڑھوں عورتوں کو بھی امان نہیں دیا، مخلوق الٰہی کے اس طرح قتل ہونے کا تماشا اس سے پہلے چونکہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا، لہٰذا عام طور پر مسلمانوں کے دلوں پر مغلوں کی ہیبت چھا گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ مغلوں کی ایک عورت کسی گھر میں داخل ہو کر اس گھر کو لوٹتی اور کسی کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ اس کی طرف نگاہ بھر کر دیکھ سکے یا زبان سے کچھ کہہ سکے۔

اہل ہمدان نے جو مغلوں کی تیغ بے دریغ سے بچ رہے تھے، مجتمع ہو کر اور مغلوں کے عامل کو کمزور دیکھ کر علم بغاوت بلند کیا اس کو قتل کر دیا، اس کے بعد مغلوں نے اہل ہمدان کو نہایت عبرتناک اور سفاکانہ طریقہ سے قتل کیا، پھر کسی کو جرأت مقابلے اور مقاتلے کی نہ ہوئی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

چنانچہ خلیفہ کا ایلچی سرمنڈوا کر ناکام واپس چلا آیا اور چنگیز خان نے خوارم شاہ کے نام دوستی و محبت کو اور زیادہ پائیدار بنانے کے لیے ایک خط لکھا، جس میں خوب اظہار محبت کیا گیا، بات یہ تھی کہ خوارزم شاہ قریب تھا اور اس کے ملک کی حدود ملی ہوئی تھیں، اس لیے چنگیز خان خوارزم شاہ سے بہت خائف اور ترساں تھا، چنگیز خان اس بات کو بھی جانتا تھا کہ خلیفہ بغداد خوارزم شاہ سے بھی زیادہ عظمت و طاقت رکھتا ہے، لیکن خلیفہ بغداد کا اس کو کوئی خوف نہ تھا، کیونکہ بہت سے ملک درمیان میں حائل تھے۔

*خوارزم شاہ کی غلطی:*

اب خوارزم شاہ کی بد نصیبی دیکھئے! چنگیز خان نے اپنا ایک خط ایلچی کو دیا اور اس ایلچی کو ان ساڑھے چار سو مسلمان سودا گروں کے قافلہ کے ساتھ کر دیا جو مغولستان میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے اور اب واپس جا رہے تھے، سوداگروں کے اس تمام قافلہ کو چنگیز خان نے اپنا وفد سفارت قرار دیا، کیونکہ ان سوداگروں میں بعض بڑے مرتبہ کے اور دربار رس تاجر تھے، جب یہ قافلہ مقام انزار میں پہنچا تو خوارم شاہ کے نائب السلطنت نے جو وہاں موجود تھا اس قافلہ کو گرفتار کر کے قید کر دیا، قافلہ والوں نے ہر چند کہا کہ ہم مسلمان ہیں، سوداگری کے لیے مغولستان گئے تھے، اب واپس آ رہے ہیں اور بادشاہ مغولستان کی طرف سے سفیر بن کر بھی آئے ہیں، مگر اس حاکم نے کچھ نہ سنا اور خوارزم شاہ کو لکھا کہ مغولستان سے کچھ جاسوس سوداگروں اور سفیروں کے لباس میں آئے ہیں، میں نے ان کو گرفتار کر لیا ہے، ان کی نسبت آپ کا کیا حکم ہے؟ سلطان خوارزم شاہ نے لکھا کہ ان کو قتل کر دو، چنانچہ حاکم انزار نے ان ساڑھے چار سو آدمیوں کو بے دریغ تہ تیغ کر کے تمام مال و اسباب پر قبضہ کر لیا، ان میں سے ایک شخص کسی طرح بچ کر نکل بھاگا اور اس نے جا کر چنگیز خان کو قافلہ کے مقتول ہونے کا حال سنایا۔

چنگیز خان نے ایک خط پھر خوارزم شاہ کے پاس نہایت اہتمام و احتیاط کے ساتھ بھیجا اور اس میں لکھا کہ حاکم انزار نے بڑی نالائقی کا کام کیا ہے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے جرم عظیم کا مرتکب ہوا ہے، مناسب یہ ہے کہ اس کو یا تو میرے سپرد کیا جائے یا آپ خود کوئی عبرتناک سزا دیں، خوارزم شاہ نے اس خط کو پڑھتے ہی چنگیز خان کے ایلچی کو جو یہ خط لے کر پہنچا تھا قتل کر دیا، بعض مؤرخین کا بیان ہے کہ چنگیز خان نے اس کے بعد پھر ایک ایلچی بھیجا اور لکھا کہ ایلچی کا قتل کرنا بادشاہوں کا کام نہیں ہے اور سوداگروں کی حفاظت کرنا بادشاہوں کا فرض ہے، میرے مطالبات پر آپ دوبارہ غور فرمائیں، جو ایلچی یہ پیغام لے کر گیا، اس کو بھی خوارزم شاہ نے قتل کر دیا۔

یہ حالات سن کر چنگیز خان نے مغولستان و ترکستان کے جنگ جو قبائل کی فوج مرتب کرنی شروع کی اور خوارزم شاہ کو بادشاہ کے نام سے یاد کرنا چھوڑ دیا، بلکہ جب اس کا ذکر آتا تو کہتا کہ وہ بادشاہ نہیں، بلکہ چور ہے، کیونکہ بادشاہ ایلچیوں کو قتل نہیں کیا کرتے، اتفاق سے انہیں ایّام میں ایک سرحدی سردار توق تغان نامی سے کچھ سرکشی کے علامات معائنہ کر کے چنگیز خان نے اپنے بیٹے جوجی خان کو اس کی سر کوبی کے لئے روانہ کیا، توق تغان ماوراء النہر کے علاقے میں چلا آیا، جہاں سلطان خوارزم شاہ بھی کسی سبب سے آیا ہوا تھا، جوجی خان نے توق تغاق کا تعاقب کر کے اس کو گرفتار کر لیا، یہ دیکھ کر خوارزم شاہ نے جوجی خان کی طرف حرکت کی، جوجی خان نے خوارزم شاہ کے پاس خط بھیجا کہ آپ مجھ پر حملہ نہ کریں، میں آپ سے لڑنے پر مامور نہیں کیا گیا ہوں، میں تو صرف اپنے باغی کو گرفتار کرنے آیا تھا، میرا مقصد حاصل ہو چکا ہے اور میں واپس جا رہا ہوں، مگر خوارزم شاہ نے اس پر کوئی التفات نہ کیا اور جوجی خان پر حملہ آور ہوا، لڑائی ہوئی شام تک زور آزمائی میں کوئی فیصلہ نہ ہوا، رات کو جوجی خان اپنے لشکر گاہ میں آگ جلتی ہوئی چھوڑ کر مغولستان کی طرف کوچ کر گیا اور تمام حالات چنگیز خان کو سنائے، چنگیز خان یہ حالات سنتے ہی مغلوں کا لشکر عظیم لے کر ایران اور ممالک اسلامیہ کی طرف روانہ ہوا۔

اس جگہ ہم کو سکون قلب کے ساتھ غور کر لینا چاہیے کہ ایک مسلمان بادشاہ سے کیسی نالائق حرکات سرزد ہوئیں اور ایک کافر بادشاہ کن حالات اور کن مجبوریوں میں ممالک اسلامیہ پر حملہ آور ہوتا ہے، جہاں تک عدل و انصاف سے کام لیا جائے گا، ابھی تک چنگیز خان کو مورد الزام نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*مغلوں کا مذہب:*

مغلوں کے دین و مذہب کا کوئی پتہ نہیں چلتا، صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں ایک خالق و قادر ہستی کا تصور ضرور تھا، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے قائل تھے، باقی عبادات ان کے بہت کچھ ہندوستان کے غیر آریہ یعنی قدیم باشندوں کی عبادات سے مشابہ تھے، اس ملک میں ضرور کوئی نہ کوئی پیغمبر مبعوث ہوئے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نامے لائے ہوں گے، لیکن مرورِ ایّام اور جہالت کے سبب مغل اپنے پیغمبر اور آسمانی ہدایت ناموں کو فراموش کر چکے تھے، ان میں حرام و حلال کی بھی کوئی قید نہ تھی، ہر ایک چیز کھالیتے اور ہر ایک کام کر گزرتے تھے۔

کچھ ملک کی آب و ہوا، کچھ قبائل کی عداوتیں مل ملا کر اس کا باعث ہوئی تھیں کہ مؤرخین نے مغلوں کے مذہب کی نسبت لکھ دیا ہے کہ ان کا مذہب انسانوں کو قتل کرنا تھا اور بس۔ ان میں ستارہ پرستی اور عناصر پرستی بھی پائی جاتی تھی، اگرچہ ان کو مجوسی نہیں کہہ سکتے، تاہم آتش پرستی بھی ان میں موجود تھی، مذہب اور عقائد کے اعتبار سے ایسی پست اور جاہل قوم میں چنگیز خاں کا وجود ایک مصلح اور مجدد کا مرتبہ رکھتا ہے، اس نے سب سے پہلے تمام مغولستان میں اپنی مضبوط سلطنت بہت ہی جلد قائم کرلی اور اس کے بعد وہ مغلوں کی اخلاقی و معاشرتی اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (03)*

*چنگیز خان:*

*مغلوں کا حلیہ:*

مؤرخین نے ان مغلوں کی تصویر جو الفاط میں کھینچی ہے، اس طرح ہے کہ یہ لوگ ترکوں سے بہت مشابہ ہیں، ان کے چوڑے چکلے سینے، کشادہ چہرے، چھوٹے سرین اور گندمی رنگ ہیں، سریع الحرکت اور تیز ذہین ہیں، جب کسی اہم کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اپنی رائے کو ظاہر نہیں کرتے اور دفعتاً بے خبری کی حالت میں اپنے دشمن پر جا گرتے اور اس کو سنبھلنے کی مہلت نہیں دیتے، سینکڑوں حیلے جانتے ہیں اور دشمن کے لیے راہ فرار کو مسدود کر دیتے ہیں، ان کی عورتیں بھی مردوں کے ساتھ مل کر لڑتی ہیں اور شمشیر زنی میں کسی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں، جس چیز کا گوشت ملتا ہے کھا جاتے ہیں، کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتے، کوئی شخص جاسوس بن کر ان کے ملک میں نہیں جا سکتا، کیونکہ وہ اپنے حلیہ سے فوراً پہچان لیا جاتا ہے، قتل کرنے میں وہ مرد، عورت، بچے، بوڑھے سب کو قتل کر دیتے ہیں، گویا قتل عام کا مفہوم انہی کے قتل سے سمجھ میں آتا ہے، وہ حملہ آور ہوتے وقت آبادیوں کو بالکل تباہ و برباد کر دینا چاہتے ہیں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو مال وزر کی طمع نہیں ہے، بلکہ ان کا مقصود دنیا کو ویران و تباہ کرنا ہے۔

*مغلوں کا نظم و نسق:*

مغلوں کا ملک چھ صوبوں یا حصوں میں منقسم تھا، ہر حصے پر ایک شخص حکمران تھا اور یہ تمام حکمران ایک بادشاہ کے ماتحت سمجھے جاتے تھے، جو مقام طمغآچ میں رہتا تھا، ان چھ صوبوں میں سے ایک صوبہ کی حکومت بوزنجر ابن الانقوا کے خاندان میں چلی آتی تھی، یہاں تک کہ تومنہ خان ابن یایسنقر خان تک نوبت پہنچی، تومنہ خان کے گیارہ بیٹے تھے، جن میں سے نو ایک بیوی کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور دو دوسری بیوی کے پیٹ سے توام پیدا ہوئے تھے، ان دونوں توام بیٹوں کے نام اس نے قبل خان اور قاچولی بہادر رکھے۔

*قاچولی کا خواب:*

ایک رات قاچولی بہادر نے خواب میں دیکھا کہ اس کے بھائی قبل خان کے گریبان سے ایک ستارہ نکل کر آسمان پر پہنچا اور اپنی روشنی زمین پر ڈالنے لگا، تھوڑی دیر کے بعد وہ ستارہ غائب ہوا اور اس جگہ دوسرا ستارہ پیدا ہو گیا، تھوڑی دیر کے بعد وہ ستارہ غائب ہوا اور اس جگہ تیسرا ستارہ پیدا ہوا، اس تیسرے کے غائب ہونے پر جو چوتھا ستارہ نمودار ہوا، اس قدر بڑا اور تیز روشنی والا تھا کہ تمام جہان اس کی روشنی سے منور ہو گیا، اس بڑے اور روشن تر ستارے کے غائب ہونے پر کئی چھوٹے چھوٹے روشن ستارے آسمان پر نمودار ہوئے اور قاچولی بہادر کی آنکھ کھل گئی، وہ اس خواب کی تعبیر کے متعلق غور و فکر میں مصروف تھا کہ اس کو پھر نیند آ گئی، اب کی مرتبہ اس نے خواب میں دیکھا کہ خود اس کے گریبان سے ایک ستارہ نکلا اور آسمان پر چمکنے لگا، اس کے بعد دوسرا، اس کے بعد تیسرا، غرض یکے بعد دیگرے سات ستارے نمودار ہوئے، ساتویں ستارے کے بعد ایک بہت بڑا اور نہایت روشن ستارہ نمودار ہوا، جس کی روشنی سے تمام جہان منور ہو گیا، اس بڑے اور روشن ستارے کے غائب ہونے پر کئی چھوٹے چھوٹے ستارے پیدا ہوئے، اس کے بعد قاچولی بہادر کی آنکھ کھل گئی، اس نے اپنے ان دونوں خوابوں کو اپنے باپ سے بیان کیا۔

*تومنہ خان کی تعبیر:*

تومنہ خان نے سن کر کہا کہ قبل خان کی چوتھی پشت میں کوئی عظیم الشان بادشاہ پیدا ہو گا اور تیری آٹھویں پشت میں ایک عظیم الشان بادشاہ پیدا ہو گا اور میری نسل میں عرصہ دراز تک حکومت و سلطنت رہے گی، اس کے بعد تومنہ خان نے قبل خان اور قاچولی بہادر دونوں کو آپس میں متحد و متفق رہنے کی نصیحت کی اور دونوں بیٹوں کے درمیان ایک عہد نامہ لکھوا کر دونوں کے دستخط کرائے اور اپنی بھی مہر لگا کر خزانچی کے سپرد کیا کہ یہ عہد نامہ نسلاً بعد نسل باقی اور محفوظ رہنا چاہیے۔

اس عہد نامہ میں لکھا گیا تھا کہ بادشاہت و حکومت قبل خان کی اولاد میں رہے گی اور فوج کی سپہ سالاری قاچولی بہادر کی اولاد سے مخصوص رہے گی، تومنہ خان کی وفات کے بعد قبل خان تخت حکومت پر بیٹھا، قبل خان کے بعد قویلہ خان، قویلہ خان کے بعد برتان خان اور برتان بہادر کے بعد میسوکا بہادر تخت نشین ہوا۔

*چنگیز خاں کی ولادت:*

20 ذیقعدہ 549ھ کو میسوکا بہادر کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، اسی سال مغولستان کے قاآن اکبر یعنی بادشاہ اعظم کا انتقال ہوا تھا، جس کا نام تموچین تھا، لہٰذا میسوکا بہادر نے اپنے اس بیٹے کا نام تموچین رکھا، جو بعد میں چنگیز خاں کے نام سے مشہور ہوا، ۵۶۲ھ میں میسوکا بہادر فوت ہوا تو تموچین کی عمر صرف تیرہ سال کی تھی، میسوکا بہادر کے بعد تموچین اپنے چھوٹے سے علاقے کا بادشاہ و فرماں روا قرار پایا، مگر لوگوں نے اس کو کم عمر اور کم حیثیت سمجھ کر اس کی سرداری و سروری سے انکار کیا اور بغاوت و سرکشی کے آثار نمایاں ہوئے۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

اس کیانی حکمران خاندان میں افراسیاب بہت مشہور ہے اور فردوسی کے شاہنامے میں اس کے حالات مذکور ہیں، (شاہنامے: صدیوں پہلے گزرے، ایران کے مشہور شاعر فردوسی کی مشہور کتاب جس میں اس نے بادشاہوں وغیرہ کے حالات کا ذکر کیا ہے۔) کیانی خاندان کی یہ شاخ یعنی افراسیاب کی اولاد بھی اسی ملک ترکستان یا توران میں رہ کر ترکوں کے اس قبیلہ تاتار میں مل جل گئی، چونکہ ترکستان ممالک اسلامیہ سے زیادہ قریب تھا اور اسلامی فتوحات وہاں تک پہنچ گئی تھیں، لہٰذا ترکوں کے جس قبیلے نے سب سے پہلے ممالک اسلامیہ میں خروج کیا، وہ یہی قبیلہ تاتار تھا، جو بہت سے چھوٹے چھوٹے قبائل پر مشتمل تھا، ان تاتاری قبائل میں غالباً وہ کیانی قبیلہ جو افراسیاب کی اولاد میں تھا، زیادہ ذی خوصلہ اور معزز سمجھا جاتا ہو گا،. کیونکہ وہ ایک باشوکت سلطنت کی یاد گار تھا، لہٰذا سلجوق اعظم کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ہم افراسیاب کی اولاد میں ہیں۔

سب سے پہلے سلجوقی نامی ایک شخص نے نواح بخارا میں اپنے قبیلے کے ساتھ آ کر اسلام قبول کیا، اسی سلجوق کی اولاد کو ترکوں کا سلجوقی قبیلہ کہتے ہیں، سلجوق کے پانچ بیٹے تھے، جن میں ایک بیٹے کا نام اسرائیل اور ایک کا نام میکائیل رکھا گیا، اسرائیل کو سلطان محمود غزنوی نے کالنجر کے قلعہ میں قید کر کے بھیج دیا تھا، جو محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود کی تخت نشینی کے بعد رہا ہو کر اپنے قبیلہ میں واپس گیا، میکائیل کا بیٹا سلطان طغرل تھا اور طغرل کے دوسرے بھائی چغری بیگ کا بیٹا سلطان الپ ارسلان سلجوقی تھا، جن کے حالات پہلے کسی باب میں بیان ہو چکے ہیں، اس طرح سلجوقی قبیلہ کو اگر افراسیاب کی اولاد میں تسلیم کر لیا جائے تو وہ ترک نہ تھا، بلکہ کیانی قبیلہ تھا، ترکستان میں رہنے والے ترکوں یعنی تاتاریوں نے بھی بار بار ایران و خراسان میں اپنی ترک تاز دکھائی، انہیں میں سے ایک وہ قبیلہ تھا، جس نے سلطنت عثمانیہ کی بنیا ڈالی اور جو ترکان عثمانی کے نام سے مشہور اور جن کے حالات آئندہ بیان ہونے والے ہیں۔

*لفظ مغول کی تحقیق:*

اس جگہ یہ بھی بیان کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبیلہ مغول نام ہے، مغول خان کی اولاد کا اور ہر ایک فرد پر بھی مغول ہی کا لفظ بولا جاتا ہے، مغول کا مخفف مغل ہے، جو لوگ مغل کی جمع مغول سمجھتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، مغول جمع نہیں بلکہ واحد ہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (01)*

*مغولانِ چنگیزی:*

ہلاکو خان کی چڑھائی اور بغداد کی تباہی کا حال پہلے کسی باب میں بیان ہو چکا ہے، سلطنتِ اسلامیہ اندلس کے حالات بھی ہم ختم کر چکے ہیں، خلفائے عباسیہ مصر کا اجمالی تذکرہ بھی اوپر آ چکا ہے، عبیدیینِ مصر کو بھی خلافت و امامت کا دعویٰ تھا، ان کے حالات بھی اس سے پہلے باب میں بیان ہو چکے ہیں، دسویں صدی ہجری کے ابتدائی حصے میں مصر کے آخری عباسی خلیفہ نے سلطان سلیم عثمانی کو خلافت سپرد کی اور اس کے بعد خاندان عثمانیہ کے سلاطین خلفائے اسلام کہلائے، اختصار کو مد نظر رکھنے اور سلسلہ خلافتِ اسلامیہ کو بیان کرنے والے مؤرخ کے لیے جائز تھا کہ وہ ناقابل التفات اور چھوٹی چھوٹی اسلامی حکومتوں کو چھوڑ کر خلافت عثمانیہ کا حال بیان کرکے اپنی تاریخ کو زمانہ موجودہ تک پہنچا دیتا، لیکن میں نے سلطان سلیم عثمانی تک خلافت اسلامیہ کے پہنچنے کا حال بیان کرکے پھر عہد ماضی کی طرف واپس ہونا ضروری سمجھا اور بعض ان اسلامی حکومتوں کا ذکر لازمی خیال کیا جو کسی نہ کسی وجہ سے قابلِ التفات اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے کے لیے ضروری سمجھی جا سکتی تھیں، اس طرح ہم کو سلطنت عثمانیہ کی ابتداء سے پہلے کے تمام اہم اور ضروری حالات سے فارغ ہو جانا چاہیے، اس کے بعد سلطنت عثمانیہ روم اور اس کی معاصر سلطنتوں کے حالات بیان ہوں گے۔

اس سلسلہ میں یہ بھی عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی اسلامی حکومت کا حال میں اس میں نہ لکھوں گا، کیونکہ ہندوستان کی ایک الگ مستقل تاریخ لکھنے کا عزم ہے اور اس میں ہندوستان کی حکومتِ اسلامیہ کے تفصیلی حالات بیان ہوں گے، اس وقت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مغلوں کے خروج کا ذکر کیا جائے، جس کو مؤرخین نے فتنہ تاتار کے نام سے موسوم کیا ہے، اس طرح مغلوں کے تین سو سال کے ابتدائی حالات پڑھنے کے بعد اور شام و ایران کی بعض اسلامی سلطنتوں کے حالات سے فارغ ہوکر ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ شروع کردیں۔

*ترک و مغول و تاتار:*

ایک شبہ کا ازالہ تاریخ پڑھنے والے طالب علم کو تاریخی کتابوں کے مطالعہ میں سب سے بڑی دقت یہ پیش آتی ہے کہ وہ ترک، مغل، تاتار ترکمان، قرا تاتار وغیرہ قوموں میں نہ امتیاز کر سکتا ہے، نہ ان کی تفریق اور اصلیت سے واقف ہو سکتا ہے، وہ کبھی تاریخ میں پڑھتا ہے کہ سلجوقی لوگوں مثلاً الپ ارسلان و طغرل بیگ ترک تھے، پھر وہ چنگیز خان کی نسبت پڑھتا ہے کہ وہ مغل تھا، دوسری جگہ اسی کی نسبت پڑھتا ہے کہ وہ ترک تھا، پھر چنگیز خان کے فتنہ کو وہ فتنہ تاتار کے نام سے موسوم دیکھ کر قیاس کرتا ہے کہ مغل، ترک اور تاتار ایک ہی قوم کا نام ہے، لیکن آگے چل کر وہ مغلوں اور ترکوں کی مخالفت اور لڑائیوں کا حال پڑھتا ہے، جس سے یقین ہوتا ہے کہ مغل اور ترک دو الگ الگ قومیں ہیں، پھر وہ ہندوستان کے مغلوں کی تاریخ پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ بعض سرداروں کو ترک کہا جاتا ہے اور وہ سلاطین مغلیہ سے رشتہ داریاں رکھتے ہیں، پھر دیکھتا ہے کہ مغلوں کو مرزا کہا جاتا ہے اور ان کے نام کے ساتھ بیگ کا خطاب ضرور ہوتا ہے، دوسری طرف تیمور بایزید کو برسر پیکار دیکھتا ہے، مگر ایران کے بادشاہوں کے نام تاریخوں میں پڑھتا ہے تو وہاں بھی مرزا کا لفظ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔

دوسری طرف ترکان عثمانی کے ہاں بھی بک یا بے یا بیگ کا خطاب موجود پایا جاتا ہے، یورپی مؤرخین کبھی کبھی ہندوستان کی سلطنتِ مغلیہ کو ترکی سلطنت کے نام سے یاد کرتے ہیں، غرض مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترکوں اور مغلوں کی تفریق کے متعلق ایک بیان اس جگہ درج کیا جائے، تاکہ تاریخ کے مطالعہ کرنے والے کو معاملات اور واقعات کے سمجھنے میں آئندہ آسانی ہو۔

*ترک کا اطلاق:*

آدم ثانی سیدنا حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹے تھے، جن کے نام حام، سام اور یافث تھے، یافث کی اولاد بلاد مشرقیہ ملک چین وغیرہ میں آباد ہوئی، یافث کی اولاد میں ایک شخص ترک نامی ہوا، اس کی اولاد چین و ترکستان میں پھیل گئی اور وہ سب ترک کہلائے، بعض لوگ غلطی سے افراسیاب کو بھی ترک سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ ایران کے شاہی خاندان کیانی سے تعلق رکھتا اور فریدوں کی اولاد میں سے تھا، چونکہ وہ ترکستان کا بادشاہ تھا، اس لیے غلطی سے لوگوں نے اس کو ترک قوم میں شمار کیا، ترک بن یافث کی اولاد چین وترکستان وختن وغیرہ میں جب خوب پھیل گئی تو انہوں نے امن و امان اور نظام کے قائم رکھنے کے لیے ایک شخص کو اپنا سردار تجویز کرنا ضروری سمجھا، رفتہ رفتہ ان میں بہت سے قبیلے اور گروہ پیدا ہو گئے، ہر قبیلے اور ہر گروہ نے اپنا ایک ایک سردار بنایا اور یہ تمام سردار ایک سب سے بڑے سردار کے ماتحت سمجھے جاتے تھے، لہٰذا ترک بن یافث کی اولاد کے ہر قبیلے پر ترک کا لفظ بولا جاتا تھا اور تمام باشندگان چین و ختن و ترکستان ترک کہلائے جاتے تھے۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

باطنیوں کے ہزار ہا افراد بحیثیت داعی شام و عراق و فارس میں پھیلے ہوئے تھے، کہیں کہیں اعلانیہ انہوں نے اپنی دعوت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، بعض قلعوں پر بھی وہ قابض و متصرف ہو گئے تھے، مگر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہو کر تمام قلعے ان سے چھین لیے اور حکومت و قوت ان سے جدا کرلی، لیکن الموت اور اس کے نواح پر حسن بن صباح کا قبضہ برابر جاری رہا، حسن بن صباح کا صحیح نام و نسب اس طرح ہے: حسن بن علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح الحمیری۔

سلجوقیوں کی خانہ جنگیوں اور ضعف و اختلال نے باطنیوں کی حکومت کو مستقل و پائیدار ہونے کا موقع دیا، جس کو بعد میں فدائیوں کی سلطنت سلطنت اسماعیلیہ، سلطنت حشاشین وغیرہ ناموں سے یاد کیا گیا، حسن بن صباح جس طرح اس سلطنت و حکومت کا بانی تھا، اسی طرح وہ اپنے فرقہ اور مذہب کا بھی بانی سمجھا گیا، اس نے عام باطنیوں کے خلاف بعض نئے نئے طریقے اعمال و عبادات میں ایجاد کیے، اس کے تمام مریدین اس کو سیدنا کہتے تھے، عام طور پر شیخ الجبل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، وہ 35 سال قلعہ الموت پر قابض و حکمران رہا، اس عرصہ میں ایک دن کے لیے بھی اس قلعہ سے باہر نہیں نکلا۔

*حسن بن صباح کی موت:*

90 سال کی عمر پا کر 518ھ میں بتاریخ 28 ربیع الآخر فوت ہوا، اس نے اپنے مریدوں میں وحشی اور پہاڑی لوگوں کی ایک ایسی جماعت بنائی تھی جو حسن بن صباح کے اشارے پر جان دینا اپنا مقصد زندگی تصور کرتے تھے، ان لوگوں کو فدائیوں کی جماعت کہا جاتا تھا، ان فدائیوں کے ذریعہ حسن بن صباح دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں، سپہ سالاروں اور اپنے مخالفوں کو ان کے گھروں میں قتل کرا دیتا تھا، اس طرح اس کی دھاک دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی اور بڑے بڑے بادشاہ اپنے محلوں اور دارالحکومتوں میں اطمینان کے ساتھ نہیں سو سکتے تھے، حسن بن صباح اور اس کی جماعت کو عام طور پر مسلمان نہیں سمجھا جاتا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ یہ ملحدوں کا ایک گروہ تھا، جس کو دین اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا، مگر حیرت ہے کہ ہمارے زمانے کا ایک احمق جو خوش قسمتی سے ایک دشمن اسلام فرقہ کا پیشوا اور لیڈر بھی سمجھا جاتا ہے، حسن بن صباح اور اس کے متبعین ملاحدہ کے اعمال و حرکات کو دین اسلام سے منسوب کر کے تعریض کرتا اور اخباروں میں مضامین شائع کراتا ہے،مگر ذار نہیں شرماتا اور اپنے جہل و نادانی کو علم قرار دے کر فخر و مباہات کی مونچھوں پر تاؤ دیتا ہے۔

دوسری طرف مسلمانوں کی غفلت بھی دیدنی ہے کہ وہ حسن بن صباح کے قائم کیے ہوئے نزاریہ گروہ کی حقیقت و ماہیت اور اعمال و عقائد سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان باطنیہ فدائیہ ظالموں کو بزرگان دین سمجھ کر حیران و ششدر اور اس دشمن اسلام مضمون نگار کے مضامین کو نعمت عظمیٰ قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ ملحدو بے دین اور مسلمانوں کے بد ترین دشمن تھے، دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ بد چلن اور اوباش یا مادر پدر آزاد دہریوں کو موقع مل گیا تھا کہ وہ حکومتِ اسلامیہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنی ایک چھوٹی سی حکومت قائم کر سکیں اور اپنی بد معاشیوں سے شرفائے زمانہ کو تنگ کرنے کا آزاد موقع پائیں۔

فدائیوں کی شہرت کا راز صرف اس بات میں مضمر ہے کہ وہ چھپ کر، دھوکہ دے کر، چوری سے یا جس طرح ممکن ہو، بڑے آدمیوں کو قتل کر دیتے تھے، آج کل بھی ہم اخبارات میں یورپ کے انارکسٹوں اور نہلسٹوں کے اعمال و افعال کی حکایتیں کبھی کبھی پڑھتے ہیں، حسن بن صباح کی قائم کی ہوئی سلطنت کو انارکسٹوں کی سلطنت سمجھنا چاہیے۔

*کیا بزرگ امید:*

حسن بن صباح کی موت کے بعد اس کے شاگردوں میں سے ایک شخص جس کا نام کیا بزرگ امید تھا، قلعہ الموت کا حاکم اور حسن بن صباح کا جانشین قرار دیا گیا، کیا بزرگ امید کے خاندان میں یہ حکومت 655ھ تک قائم رہی، کیا بزرگ امید کے بعد اس کا بیٹا محمد بن کیا بزرگ امید، اس کے بعد اس کا بیٹا حسن بن محمد، اس کے بعد اس کا بیٹا محمد ثانی بن حسن، اس کے بعد جلال الدین محمد ثانی ملقب بہ حسن ثالث، اس کے بعد علاؤ الدین محمد بن جلال الدین محمد، اس کے بعد رکن الدین خور شاہ بن علاؤ الدین حکمران ہوا۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ قرامطہ، قسط: (05)*

*دولتِ قرامطۂ باطنیہ (فارس)*

قرامطۂ بحرین کا حال گزشتہ اقساط میں مذکور ہو چکا ہے، ان کی سلطنت کے برباد ہونے کے بعد قرامطہ کے عقائد و اعمال میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی، اگرچہ قرامطہ بحرین کے بادشاہِ اعظم کے اعمال و عقائد دوسرے قرامطہ سے جدا تھے اور اس کو مصر کے عبیدی بادشاہ سے سخت نفرت تھی، لیکن قرامطہ کی عام جماعت مصر کے عبیدی فرماں روا کو محبت و عقیدت کی نظر سے دیکھتی اور اس کو اپنا خلیفہ مانتی تھی، اب جب کہ بحرین کی حکومت ان کے قبضے سے نکل گئی اور عراق و شام میں ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہ رہی تو انہوں نے خفیہ طور پر اپنی انجمنیں قائم کیں اور بظاہر مسلمانوں میں ملے جلے رہے، ان خفیہ جماعتوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی تبلیغ اور اپنی جماعت کے ترقی دینے کا سلسلہ جاری کیا۔

عبیدیوں کی طرح انہوں نے جابجا اپنے داعی مقرر کر دیئے، ان داعیوں کی جماعت اپنے رازوں کو بہت محفوظ رکھتی تھی، زاہدوں اور پیروں کے لباس میں یہ لوگ نظر آتے اور لوگوں کو اپنا مرید بناتے تھے، ان مریدوں میں جس شخص کو وہ اپنے ڈھب کا پاتے اس کو رفیق کا خطاب دیتے اور اپنے مخصوص عقائد تعلیم کرتے رہتے تھے، اس طرح ان میں دو طبقے تھے، ایک داعیوں کا اور دوسرا رفیقوں کا، شام، عراق، فارس اور خراسان میں ہر جگہ داعی پھیل گئے، مصر کے عبیدی بادشاہ نے ان کی سر پرستی اور ہر قسم کی امداد کی، چنانچہ مصر سے ان داعیوں کے پاس خفیہ طور پر ہر قسم کی امداد پہنچتی رہتی تھی اور سلطنتِ اسلامیہ کی بربادی کے لیے عبیدیوں نے اسلامی ممالک میں قرامطہ کے داعیوں کا ایک جال غیر محسوس طریقہ پر پھیلا دیا تھا۔

ادھر سلجوقی خاندان ممالک اسلامیہ پر قابض و متسلط ہو رہا تھا اور اس پوشیدہ دشمن سے قطعاً بے خبر تھا، قرامطہ بحرین کی حکومت کے مٹنے کے بعد قرامطہ کی تمام تعلیم یافتہ اور ہوشیار جماعت داعیوں کے لباس میں تبدیل ہو گئی تھی اور اسی لیے عبیدی سلطنت کو مصر سے عراق و خراسان کی طرف آدمیوں کے بھیجنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، چونکہ یہ لوگ ایک مٹی ہوئی سلطنت کے سو گوار تھے، اس لیے موقع پا کر ڈاکہ ڈالنے اور لوگوں کو قتل کرنے میں انہیں کوئی باک نہ تھا، چنانچہ یہی داعی یا پیر اپنے رفیقوں یعنی خاص مریدوں کی مدد سے رہزنوں اور ڈاکوؤں کے لباس میں بھی تبدیل ہو جاتے تھے۔

انہوں نے اپنے مریدوں کو تعلیم دی تھی کہ ہر اس شخص کا جو ہمارا ہم عقیدہ نہیں ہے قتل کرنا کوئی جرم کا کام نہیں، اس لیے ان کے وجود سے مسلمانوں کو سخت مصائب و شداید میں مبتلا ہونا پڑا، چونکہ ان کی کماحقہ سرکوبی ابتداء میں نہ ہو سکی، اس لیے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے، مسلمان سرداروں کو چھپ چھپ کر قتل کرنا انہوں نے اپنا خاص شیوہ بنا لیا، جس جگہ کوئی حاکم نہایت چست اور چوکس ہوتا، وہاں یہ بالکل خاموش اور روپوش رہتے، لیکن جس جگہ انتظامِ سلطنت کو کسی قدر کمزور پاتے وہاں قتل وغارت کے ہنگاموں سے قیامت برپا کردیتے، چونکہ قرامطہ نے منافقت اور تقیہ کا لباس پہن لیا تھا اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا وہ کار خیر سمجھتے تھے، اس لیے ان کو یہ بھی موقع مل جاتا تھا کہ وہ سلطنت و حکومت کی اہلکاریوں اور سرداریوں پر بھی فائز ہو جاتے تھے۔

چنانچہ نواح ہمدان میں ان کا ایک شخص کسی قلعہ کا قلعہ دار مقرر کر دیا گیا، انہوں نے اس قلعہ کو اپنا مأمن بنا کر اس نواح میں خوب زور شور سے ڈاکہ زنی اور لوٹ مار شروع کردی، چونکہ ان کی جماعت خفیہ طور پر اپنا کام کرتی تھی، اس لیے ان کو باطنیہ گروہ کہنے لگے، ان باطنیوں نے رفتہ رفتہ ترقی کر کے اصفہان کے قلعہ شاہ ور پر قبضہ کر لیا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ باطنیوں کے داعیوں میں ایک مشہور اور ہوشیار شخص عطاش نامی تھا، جو اپنے ہم چشموں میں علم و فضل کے اعتبار سے ممتاز تھا، اسی نے حسن بن صباح کو اپنے عقائد کی تعلیم دی اور اپنا شاگرد خاص بنایا تھا۔

*احمد بن عطاش:*

عطاش کا ایک بیٹا احمد نامی تھا جو باپ کی جگہ اور اپنے اور اپنی جماعت میں قابل تکریم سمجھا جاتا تھا، احمد اپنے گروہ سے رخصت ہو کر اپنی حالت امیر زادوں کی سی بنا کر قلعہ شاہ ور کے قلعہ دار کی خدمت میں گیا اور وہاں نوکر ہو گیا، چند ہی روز میں احمد نے ایسی شائستہ خدمات انجام دیں کہ قلعہ دار نے اس کو اپنا نائب بنا لیا اور تمام سیاہ و سفید کا اختیار اس کو سپرد کر دیا، چند روز کے بعد وہ قلعہ دار فوت ہو گیا تو احمد نے حکومتِ وقت سے قلعہ کی حکومت اور قلعہ داری اپنے نام حاصل کرلی، احمد بن عطاش نے قلعہ کا راستہ بند ہو جانے کے بعد باطنیہ گروہ کے تمام قیدیوں کو جو اس کے حلقہ حکومت میں قید تھے رہا کر دیا اور ان لوگوں نے رہا ہوتے ہی اصفہان کے علاقے میں لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کا بازار گرم کردیا، ادھر احمد نے اصفہان کے قلعہ شاہ ور کی حکومت حاصل کی، ادھر انہیں ایّام میں حسن بن صباح علاقہ طالقان و قزوین میں اپنی سازشوں کا جال پھیلا رہا تھا۔

========> جاری ہے

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ قرامطہ، قسط: (04)*

*ابوالمنصور:*

ابوطاہر قرامطی کے بعد اس کا بڑا بھائی احمد قرامطہ کی سرداری و حکومت پر کامیاب ہوا، اس کو ابوالمنصور کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے، قرامطہ کے ایک گروہ نے ابوالمنصور کی حکومت سے انکار کیا اور ابو طاہر کے بڑے بیٹے سابور کو مستحق حکومت قرار دیا، اس نزاع کے طے کرنے کے لیے تمام قرامطہ نے ابوالقاسم عبیدی کے فیصلے کو قابل تسلیم سمجھ کر افریقہ کو ایلچی روانہ کیے، ابوالقاسم عبیدی نے اپنا فیصلہ لکھ کر بھیجا کہ ابومنصور احمد کو بادشاہ تسلیم کیا جائے اور ابومنصور احمد کے بعد سابور بن ابوطاہر تخت نشین ہوگا، قرامطہ چونکہ اپنے آپ کو مہدی کا ایلچی اور طرفدار کہتے اور عبیداللہ مہدی کو اس کے دعوے کے موافق امام اسماعیل بن جعفر صادق کی اولاد میں سمجھ کر اس کی تکریم کرتے تھے، اس لیے عبیدیین قرامطہ کو اپنا دوست سمجھتے اور قرامطہ عبیدیین کی خلافت کو مانتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ابوالقاسم کے فیصلے کو بخوشی تسلیم کر لیا اور احمد منصور قرامطہ کا بادشاہ بن گیا۔

اس کے بعد جب 334ھ میں ابوالقاسم عبیدی فوت ہوا اور اس کی جگہ اسماعیل عبیدی افریقیہ میں تخت نشین ہوا تو منصور احمد قرمطی نے مبارک باد اور اظہار عقیدت کے لیے ایلچی روانہ کیے، 339ھ میں اسماعیل عبیدی نے قیروان سے بار بار ابومنصور کو لکھا کہ حجر اسود خانہ کعبہ میں واپس بھیج دو تو ابومنصور احمد قرمطی نے حجر اسود کو خانہ کعبہ میں واپس بھیج دیا، ابو منصور کی حکومت میں بیرونی ملکوں پر قرامطہ کے حملے کم ہوئے اور اندرونی انتظامات میں وہ زیادہ مصروف رہا۔

*سابور کا قتل:*

358ھ میں سابور بن ابو طاہر نے اپنے بھائیوں اور ہوا خواہوں کی مدد سے ابومنصور کو گرفتار کرکے قید کر دیا اور خود تخت نشین ہو گیا، مگر سابور کے بھائیوں نے سابور سے بھی مخالفت کی اور انہوں نے حملہ کرکے اپنے چچا ابو منصور کو جیل خانے سے نکال کر پھر تخت پر بٹھا دیا، ابومنصور نے تخت نشین ہو کر سابور کو قتل کیا اور اس کے ہوا خواہوں کو جزیرہ اوال کی طرف جلا وطن کر دیا، 359ھ میں ابو منصور نے وفات پائی، ابومنصور کے بعد اس کا بیٹا ابو علی حسن بن احمد ملقب ’’بہ اعظم‘‘ تخت نشین ہوا، اس نے تخت نشین ہو کر ابوطاہر کے تمام لڑکوں کو جزیرہ اوال میں جلا وطن کر دیا۔

*حسن اعظم قرمطی:*

حسن اعظم قرمطی اپنے خیالات و عقائد میں بہت معتدل تھا، اس کو عبیدیین سے کوئی عقیدت نہ تھی اور خلافتِ عباسیہ سے کوئی نفرت یا عداوت نہ رکھتا تھا، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ابوطاہر نے دمشق پر خراج سالانہ مقرر کردیا تھا اور جو شخص دمشق کا والی ہوتا تھا، وہ خراج کی مقررہ رقم قرامطہ کے بادشاہ کی خدمت میں بھجواتا رہتا تھا، تاکہ قرامطہ کی حملہ آوری اور قتل و غارت سے محفوظ رہے، اعظم کی تخت نشینی کے وقت دمشق کو جعفر بن فلاح کتامی نے بنی طغج سے فتح کر کے اپنی حکومت قائم کر لی تھی، اعظم نے حسب معمول والی دمشق سے خراج سالانہ طلب کیا۔

چونکہ اب تک قرامطہ اور عبیدیہ حکومتوں میں محبت و اتحاد قائم تھا، لہٰذا توقع یہ ہو سکتی تھی کہ دمشق جب کہ دولتِ عبیدیہ میں شامل ہو گیا تو بادشاہ قرامطہ دولت عبیدیہ کے سردار جعفر بن فلاح سے دمشق کا خراج طلب نہ کرے گا، مگر اعظم نے سختی سے خراج کا مطالبہ کیا اور جعفر بن فلاح نے خراج کے دینے سے قطعی انکا کیا، چنانچہ اعظم نے دمشق کی جانب فوج بھیجی، ادھر معز عبیدی کو جو قیروان سے قاہرہ کی جانب آ رہا تھا، یہ حال معلوم ہوا تو اس نے اراکین دولت قرامطہ کے نام خط بھیجا کہ تم اعظم کو سمجھاؤ کہ وہ دمشق سے متعرض نہ ہو، ورنہ پھر ہم ابوطاہر کی اولاد کو تخت سلطنت کا وراث قرار دے کر اعظم کی معزولی کا اعلان کردیں گے۔

اعظم کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اس نے بلا تأمل عبیدیین کی خلافت سے انکار کرکے علم مخالفت بلند کیا اور اپنے ممالک مقبوضہ میں خلافتِ عباسیہ کا خطبہ پڑھوایا، پہلی فوج جو اعظم نے دمشق کی جانب روانہ کی تھی اس کو جعفر کتامی نے 360ھ میں شکست دی، اس کے بعد 361ھ میں اعظم خود فوج لے کر دمشق کی جانب متوجہ ہوا اور میدان جنگ میں جعفر کتامی کو قتل کر کے دمشق پر قبضہ کر لیا، اہل دمشق کو امان دے کر ہر قسم کا انتظام کیا اور فوج لے کر حدود مصر کی طرف بڑھا۔

آئندہ جو واقعات حدود مصر میں پیش آئے اور اعظم کی معز عبیدی سے جو خط و کتابت ہوئی اس کا حال پہلے معز عبیدی کے حالات میں بیان ہو چکا ہے۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ قرامطہ، قسط: (02)*

*حسین مہدی:*

یحییٰ کے بعد اس کے بھائی حسین نے اپنے آپ کو ’’مہدی امیر المؤمنین‘‘ کے لقب سے ملقب کرکے لوگوں کو فراہم کیا اور بادیہ نشین عربوں کی ایک جمعیت لے کر دمشق و شام کے مضافات میں لوٹ مار کا بازار گرم کردیا، سردارانِ خلافت عباسیہ ان کی سرکوبی پر مامور ہوئے، اس کا ایک بیٹا ابوالقاسم بھاگ گیا اور خود ’’مہدی امیر المؤمنین‘‘ گرفتار ہو کر مقتول ہوا، یہ واقعہ 291ھ کا ہے۔

حسین کا بھائی علی بھی فرار ہو کر بچ گیا تھا، اس نے اپنے گرد ایک جماعت بادیہ نشینوں کی جمع کرکے طبریہ کو لوٹ لیا، جب اس کی سرکوبی کے لیے فوج بھیجی گئی تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا اور وہاں اس نے یمن کے ایک علاقے پر قبضہ کر لیا اور شہر صنعاء کو لوٹا، اسی گروہ قرامطہ کے ایک شخص موسوم بہ ابوغانم نے طبریہ کے نواح میں لوٹ مار شروع کی، آخر 293ھ میں ابوغانم بھی مارا گیا، ادھر قرامطہ نے یمن و حجاز و شام میں بدامنی پھیلا رکھی تھی۔

*یحییٰ ثانی:*

ادھر قرمط یعنی یحییٰ بن فرج کے جیل جانے سے غائب ہونے کے بعد ایک اور شخص نے جس کا نام بھی یحییٰ تھا، شہر بحرین کے متصل موضع قطیف میں ظاہر ہو کر 281ھ میں یہ دعویٰ کیا کہ میں امام موعود کا ایلچی ہوں اور بہت جلد امام مہدی ظاہر ہونے والے ہیں، ساتھ ہی اس نے کہا کہ میں امام مہدی کا ایک خط بھی لایا ہوں، یہ سن کر علی بن معلیٰ بن حمدان نے جو غالی شیعہ تھا، قطیف کے تمام شیعوں کو جمع کیا اور امام مہدی کے اس خط کو سنایا، جو یحییٰ نے پیش کیا تھا، اس خط کو سن کر شیعہ لوگ بہت ہی خوش ہوئے، مضافاتِ بحرین میں یہ خبر عام طور پر پھیل گئی اور لوگ امام مہدی کے ساتھ خروج کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے، انہی لوگوں میں ابو سعید حسن بن بہرام جنابی بھی تھا، جو ایک معزز اور سر بر آوردہ شخص تھا، چند روز کے بعد یحییٰ غائب ہو گیا اور ایک دوسرا خط امام مہدی کا لئے ہوئے آیا، جس میں امام مہدی نے یہ حکم لکھا تھا کہ ہر شخص چھتیس چھتیس دینار یحییٰ کو ادا کرے، چنانچہ اس حکم کی تعمیل سب نے بخوشی کی، یہ روپیہ وصول کر کے یحییٰ پھر غائب ہو گیا اور چند روز کے بعد ایک تیسرا خط امام مہدی کا لے کر آیا، اس میں لکھا تھا کہ ہر شخص امام زمان کے لیے اپنے مال کا پانچواں حصہ یحییٰ کے سپرد کر دے، اس حکم کی بھی ان لوگوں نے بخوشی تعمیل کی۔

*ابوسعید جنابی:*

ابوسعید جنابی چونکہ ایک سر بر آوردہ شخص تھا، اس نے شہر بحرین میں بھی جا کر دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا اور لوگوں کو اپنا ہم خیال یعنی امام زمان کا منتظر بنایا، رفتہ رفتہ بادیہ نشین عربوں کا ایک گروہ کثیر ابوسعید کی طرف متوجہ ہو گیا اور وہ قرامطہ بھی جو یحییٰ قرمط کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے، آ آ کر یحییٰ کے گرد جمع ہونے لگے، ابوسعید نے اپنی تمام جماعت کو ایک باقاعدہ فوج کی شکل میں ترتیب دیا اور اس فوج کو ہمراہ لے کر قطیف سے بصرہ کی جانب روانہ ہوا، بصرہ کے عامل احمد بن محمد بن یحییٰ کو جب ابوسعید کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا تو اس نے اپنے آپ کو کمزور پا کر دربار خلافت کو اس واقعہ کی اطلاع دی، دربار خلافت سے عباس بن عمر غنوی والی فارس کے نام حکم پہنچا کہ بصرہ کو بچاؤ، چنانچہ عباس بن عمر غنوی دو ہزار سوار لے کر روانہ ہوا، جب عباس اور ابوسعید کا مقابلہ ہوا تو ابوسعید نے عباس کو گرفتار کر کے اس کے لشکر گاہ کو لوٹ لیا، چند روز کے بعد عباس کو تو رہا کر دیا، مگر اس کے ہمراہیوں کو جو گرفتار ہوتے تھے قتل کر دیا۔

اس کامیابی سے ابوسعید کا دل بڑھ گیا اور اس نے ہجر پر حملہ کرکے اس کو فتح کر لیا اور اپنی حکومت کی بنیاد قائم کی، ابو سعید اور اس کی جماعت کے اعمال و عقائد بھی بہت کچھ وہی تھے جو اوپر قرمط یحییٰ کے بیان ہوئے، اس لیے یہ بھی قرمط ہی کے نام سے موسوم ہوئے، ابوسعید نے اپنی حکومت کی بنیاد قائم کر کے اپنے بیٹے سعید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا، یہ بات ابوسعید کے چھوٹے بھائی ابوطاہر سلیمان کو ناگوار گزری، اس نے ابوسعید کو قتل کردیا اور خود اس گروہ قرامطہ کا حکمران بن گیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومت عبیدیین، قسط: (15)*

*دولت عبیدیہ پر تبصرہ:*

دولت عبیدیین دو سو ستر سال تک قائم رہی، ابتداء عبیدیوں کی حکومت افریقیہ یعنی ملک مغرب میں قائم ہوئی، پھر مصر پر قابض ہوکر انہوں نے قاہرہ کو دارالسلطنت بنایا، مراکش کی سلطنتِ ادریسیہ کو بھی لوگ عام طور پر علویوں اور شیعوں کی سلطنت سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ادریسیہ سلطنت نسباً بربری اور اس لئے نیم شیعہ یا برائے نام شیعہ سلطنت تھی، ادریسیوں کے اعمال و عبادات و عقائد میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس کو سنیوں کے مقابلے میں مابہ الامتیاز قرار دیا جا سکے، نہ ادریسیوں کو سنیوں سے کوئی عداوت و نفرت تھی، نہ ان کے عقائد و عبادات میں کوئی فرق تھا، بجز اس کے کہ اس سلطنت کی ابتداء ادریس اول سے ہوئی تھی جس نے محبت اہل بیت کے مشہور ہتھیار سے کام لے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔

اس کے بعد ادریسیوں میں کوئی شیعی خصوصیت نہیں دیکھی گئی، ہاں عبیدیین کی حکومت ضرور شیعی حکومت تھی، لیکن نسباً وہ علوی حکومت ہرگز نہ تھی، عبیداللہ کا دادا تاریخ الخلفا سیوطی کی روایت کے موافق مجوسی اور ذات کا لوہار و تیر گر تھا، عبیداللہ مہدی نے ملک مغرب میں جا کر علوی فاطمی ہونے کا دعویٰ کیا، مگر علماء نسب نے اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا، ایک مرتبہ عزیز عبیدی نے اندلس کے اموی خلیفہ کے نام ایک خط بھیجا جس میں ہجو و دشنام درج تھیں، خلیفہ اموی نے اس کے جواب میں عزیز عبیدی کو لکھا کہ تجھ کو چونکہ ہمارا نسب معلوم تھا، اس لئے تو نے ہجو کی، اگر ہم کو تیرا نسب معلوم ہوتا تو ہم بھی تیری طرح تیرے بزرگوں کی نسبت ہجو کرتے، عزیز کو یہ جواب بہت ہی گراں گزرا، مگر کوئی جواب نہ دے سکا۔

عبیدیین کو عام طور پر لوگ فاطمیین کے نام سے یاد کرتے ہیں، حالانکہ یہ بڑی جہالت اور غلطی ہے، عبیدیین عام طور پر اسماعیلی شیعہ تھے، انہیں کو باطنیہ بھی کہتے ہیں، انہیں کی ایک شاخ فارس کی وہ سلطنت تھی جو حسن بن صباح نے قائم کی تھی، جس کا دارالحکومت قلعۃ الموت تھا، اسی کو فدائیوں کی حکومت بھی کہتے ہیں، وہ بھی علوی نہ تھے۔

عبیدیین کی حکومت میں ہزارہا صلحاء محض اس لئے مقتول ہوئے کہ وہ صحابہ کرام کو برا نہ کہتے تھے، (اسی سے ان کی خباثتِ ذہن و فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، صحابہ کرامؓ پر سب و شتم ایک مخصوص گروہ کا شعار تھا اور ہے، جناب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ جن کو اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا خطاب مرحمت فرمایا تھا، ان کے بارے میں امت کو یہ تنبیہہ اور نصیحت فرمائی تھی کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہنا اور ان کو گالیاں نہ دینا، یعنی ان پر سب و شتم نہ کرنا۔ (ترمذی بہ حوالہ مشکوٰۃ المصابیح المحقق الالبانیؒ، کتاب المناقب و الفضائل، حدیث: 6014)

عبیدیین سے اسلام کو کوئی نفع نہیں پہنچا اور ان کا کوئی جنگی، علمی، اخلاقی کارنامہ ایسا نہیں جس پر فخر کیا جا سکے، بعض علماء نے عبیدیین کو خارج از اسلام اور مرتد بھی قرار دیا ہے، ان میں سے بعض مثلاً عزیز عبیدی نے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کیا تھا، شراب خوری کو یہ لوگ جائز سمجھتے تھے، اسی قسم کی بہت سی باتیں ان کے عہد حکومت میں پائی جاتی تھیں، جن کے سبب ان کو علماء اسلام نے ننگ اسلام سمجھا ہے، بہرحال! عبیدیین کی سلطنت کے تاریخی حالات جو کچھ تھے وہ بیان ہو چکے، اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرامطہ بحرین اور ان کی دولت و حکومت کے حالات بھی عبیدیین کے بعد درج کردیئے جائیں۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومت عبیدیین، قسط: (14)*

*صلاح الدین ایوبیؒ بحیثیت وزیراعظم مصر:*

عاضد نے اس کے بھتیجے صلاح الدین کو عہدۂ وزارت عطا کیا، صلاح الدین ایوبیؒ نے بھی اپنی وفاداری اور تعلقات کو سلطان نورالدین محمود زنگیؒ سے برابر قائم رکھا، شیرکوہ کی وزارت سے عاضد بہت خوش تھا اور تمام سیاہ و سفید کا اختیار اس کو دے دیا تھا، اسی طرح صلاح الدین ایوبیؒ کو بھی کلی طور پر اختیارات حکمرانی حاصل تھے، شیرکوہ اور صلاح الدین ایوبیؒ دونوں امام شافعی رحمہ اللہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، صلاح الدین ایوبیؒ نے شیعہ قاضیوں کو موقوف کرکے شافعی قضاۃ مامور کئے۔

مدرسہ شافعیہ اور مدرسہ مالکیہ کی بنیاد رکھی، 564ھ میں جب شیرکوہ نے عیسائی فوجوں کو مصر سے نکال کر خود بطور وزیراعظم مصر کا انتظام شروع کیا تو عیسائیوں کو وہ خراج ملنا بھی موقوف ہو گیا، جو وہ مصر سے حاصل کرنے لگے تھے، نیز عیسائیوں کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ دمشق و قاہرہ کی اسلامی حکومتوں میں جب اتحاد قائم ہو گیا ہے تو اب بیت المقدس پر قبضہ قائم رکھنا دشوار ہے، لہذا انہوں نے صقلیہ اور اندلس کے پادریوں کو پیغام بھیجا کہ بیت المقدس کے بچانے اور عیسائی حکومت کے یہاں قائم رکھنے کے لئے امداد کی سخت ضرورت ہے، چنانچہ ان ملکوں میں پادریوں نے جہاد کے وعظ کہنے شروع کئے اور اندلس وغیرہ سے عیسائی فوجیں روانہ ہو کر ساحل شام پر آ آ کر اترنا شروع ہوئیں، عیسائیوں نے یورپ سے ہر قسم کی امداد پا کر اور خوب طاقتور ہو کر 565ھ میں دمیاط کا محاصرہ کر لیا، دمیاط کے عامل شمس الخواص منکور نامی نے صلاح الدین ایوبیؒ کو مطلع کیا۔

ادھر مصر میں شیعہ لوگ وزیرالسلطنت صلاح الدین ایوبیؒ سے ناراض تھے، صلاح الدین ایوبیؒ نے ایک افسر بہاؤالدین قراقوش کو فوج دے کر دمیاط کی طرف بھیجا اور سلطان نورالدین محمودؒ کو لکھا کہ میں شیعوں اور سوڈانیوں کی وجہ سے مصر کو نہیں چھوڑ سکتا، اس لئے خود دمیاط کی طرف نہیں جا سکا، آپ بھی دمیاط کی طرف التفات مبذول رکھیں، چنانچہ سلطان نورالدین محمودؒ نے فوراً دمیاط کی جانب تھوڑی سی فوج بھیجی اور عیسائیوں کی توجہ اور طاقت کے تقسیم کرنے کے لیے ساحل شام کے عیسائی علاقوں پر حملہ آوری شروع کردی، نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی یعنی صلیبی جنگجو پچاس دن کے محاصرے کے بعد دمیاط کو چھوڑ کر اپنے شہروں کی طرف واپس آئے تو ان کو بھی سلطان نورالدینؒ کے حملوں سے خراب و ویران پایا، اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اپنے باپ نجم الدین ایوب کو ملک شام سے مصر بلوایا، بادشاہ عاضد خود نجم الدین ایوب سے ملنے آیا اور بہت کچھ تواضح و مدارات کی، بادشاہ عاضد ہمیشہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے کاموں کا مداح رہتا تھا اور خود اس نے امور سلطنت سے بے تعلقی اختیار کرلی تھی، مصر کے شیعوں کو صلاح الدین ایوبیؒ کا اقتدار و اعزاز اور اختیار و طاقت بے حد گراں گزرتی تھی، صلاح الدین ایوبیؒ کی وجہ سے مصر میں دم بدم شیعیت کو تنزل اور سنی مذہب کو ترقی تھی۔

آخر عمارہ یمنی، زبیدی، عویرش قاضی القضاۃ معزول، عبدالصمد، کاتب، مؤتمن الخلافۃ سردار خدام قصر سلطانی وغیرہ نے مل کر ایک سازش کی اور یہ رائے قرار پائی کہ مصر کے ملک کو عیسائیوں کے سپرد کردیا جائے اور عیسائی سفیر کو بلوا کر بادشاہ عاضد سے اس کی خفیہ ملاقات کرائی جائے، چنانچہ ان لوگوں نے ایک طرف عاضد کو ہموار کرنے کی کوشش کی، دوسری طرف عیسائیوں سے خط و کتابت کرکے ان کے سفیر کو پوشیدہ طور پر بلوایا، اتفاقاً ان لوگوں کا ایک خط جو انہوں نے عیسائی بادشاہ کے پاس روانہ کیا تھا، راستے میں پکڑا گیا اور صلاح الدین ایوبیؒ کی خدمت میں پیش ہوا، صلاح الدینؒ نے مجرموں کا نہایت احتیاط کے ساتھ پتہ لگایا اور سب کو گرفتار کرکے دربار عام میں ان کے اظہار قلم بند کئے، جب وہ سب مجرم ثابت ہوئے تو ان کو قتل کیا اور بہاؤالدین قراش کو محل سرائے سلطانی کا داروغہ مقرر کیا۔

سلطان العادل یعنی سلطان نورالدین محمودؒ پہلے سے صلاح الدین ایوبیؒ کو لکھتے رہتے تھے کہ تم مصر میں خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ پڑھواؤ، مگر صلاح الدینؒ یہ معذرت کردیا کرتا تھا کہ اگر عاضد عبیدی کا نام خطبہ سے نکال دیا گیا تو اندیشہ ہے کہ مصر میں سخت فساد اور فتنہ برپا ہو جائے، صلاح الدینؒ کا یہ اندیشہ غیر معقول نہ تھا، کیونکہ سوڈانیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں موجود تھی، جو ترکوں کی مخالفت اور شیعہ سازشی لوگوں کی حمایت پر مستعدی کا اظہار کیا کرتے تھے۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومت عبیدیین، قسط: (13)*

*سلطان نور الدین محمد زنگیؒ کی مصر کی طرف توجہ:*

شاور نے شام میں پہنچ کر الملک العادل نورالدین محمود زنگی رحمہ اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر مصر کے تمام حالات بیان کیے اور امداد کی درخواست کرکے یہ وعدہ کیا کہ اگر مجھ کو مصر کی وزارت پر پھر بحال کرادیا گیا تو میں امرائے لشکر کی امدادی جاگیروں کے علاوہ مصر کے ایک حصے پر دولت نوریہ کا قبضہ کرا دوں گا، سلطان نورالدین نے بہت غور و تأمل کے بعد اپنے سپہ سالار اسدالدین شیرکوہ کو ماہ جمادی الآخر 559ھ میں شاور کے ساتھ مع ایک فوج کے بھیج دیا، اسدالدین کو ہدایت کی گئی کہ مصر پہنچ کر ضرغام کو معزول کرکے شاور کو وزارت کے عہدے پر بحال کر دیا جائے اور جو کوئی اس کام میں مزاحم ہو اس سے جنگ کی جائے، شاور و شیرکوہ کو مصر کی جانب روانہ کر کے سلطان نورالدینؒ خود عیسائیوں کی طرف فوج لے کر روانہ ہو گئے تاکہ عیسائی اپنی سرحد کے قریب شیرکوہ کی فوج پر حملہ آور نہ ہوں، شیرکوہ اور شاور بلبیس تک بڑھتے چلے گئے، بلبیس کے مقام پر ضرغام کے بھائی ناصر الدین فخر الدین مصری فوج لے کر مقابلہ پر آئے، شیرکوہ نے دونوں کو شکست دے کر گرفتار کر لیا اور فاتحانہ قاہرہ میں داخل ہوا، ضرغام وزارت چھوڑ کر بھاگ نکلا، مگر راستہ میں گرفتار ہو کر مقتول ہوا، اسی طرح ناصر الدین و فخر الدین بھی قتل کردیئے گئے۔

شاور پھر وزیر اعظم بن گیا، اب وزیراعظم بن جانے کے بعد شاور نے شیرکوہ کے ساتھ بد عہدی کی اور اپنا کوئی وعدہ پورا نہ کیا، مجبوراً شیرکوہ مصر سے شام کی طرف واپس ہوا اور شاور کو اس کے حال پر چھوڑ دیا، شاور نے بجائے اس کے کہ اس احسان کا کوئی معاوضہ ادا کرتا یا کم از کم احسان مندی کا اظہار اخلاقی طور پر کرتا، دولت نوریہ کی مخالفت میں عیسائیوں سے ساز باز شروع کر دی، یہ حالت دیکھ کر شیرکوہ نے سلطان نورالدین سے اجازت لے کر 562ھ میں مصر پر فوج کشی کی، مصر پر فوج کشی کرنا اس لیے دشوار کام تھا کہ راستے میں عیسائی مقبوضات میں ہو کر گزرنا پڑتا تھا، مگر شیرکوہ اپنی فوجوں کو صاف نکال کر لے گیا اور مصر کے بعض شہروں پر قبضہ کر لیا۔

*مصریوں کی عیسائیوں سے امداد طلبی:*

شاور نے فوراً عیسائیوں سے امداد طلب کی، عیسائی تو ایسے زرین موقع کے منتظر ہی تھے، وہ فوراً شاور کی مدد کے لیے فوجیں لے کر پہنچ گئے، شاور اور عیسائیوں کی متفقہ فوج کے مقابلے میں اسدالدین شیرکوہ کی مٹھی بھر فوج جس کی تعداد دو ہزار سے بھی کم تھی، کوئی حقیقت ہی نہ رکھتی تھی، مگر اس نے اللہ پر بھروسہ کرکے مقابلہ کیا اور دونوں فوجوں کو شکست دے کر بھگا دیا، شیرکوہ کی مصر میں پہلے سے دھاک بیٹھی ہوئی تھی، وہ اپنے مقبوضہ علاقے پر مستقل بندوبست کرتا ہوا اسکندریہ کی طرف بڑھا، اہل شہر نے فوراً شہر حوالے کر دیا، شیرکوہ نے اسکندریہ میں اپنے بھتیجے صلاح الدین بن نجم الدین ایوب کو حاکم مقرر کیا اور خود صعید کی طرف بڑھا اور وہ مصری فوجیں جو قاہرہ میں جمع ہو رہی تھیں، انہوں نے شیرکوہ کے اسکندریہ سے صعید کی طرف روانہ ہونے کی خبر سنتے ہی اسکندریہ پر حملہ کی تیاری کی اور قاہرہ سے کوچ کیا، شیرکوہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ مصریوں اور عیسائیوں نے متفقہ طور پر اسکندریہ پر حملہ کیا ہے تو وہ اپنے بھتیجے صلاح الدین کی امداد کے لیے فوراً اسکندریہ کی طرف لوٹا، شاور نے اس عرصہ میں ایک خاص سازشی جال پھیلا کر شیرکوہ کی ہمراہی فوج کے بعض سرداروں کو مائل کر لیا تھا اور وہ سردار لڑائی میں سرد مہری سے کام لینے لگے تھے، شیرکوہ کو اس سازش کا حال معلوم ہو گیا۔

ادھر شاور کی طرف سے شیرکوہ کے پاس پیغام پہنچا کہ تم ہم سے تاوان جنگ وصول کرلو اور اسکندریہ کو چھوڑ کر اپنے ملک کو واپس چلے جاؤ، تمام حالات اور نتائج و عواقب پر غور کرنے کے بعد شیرکوہ نے شاور کی اس درخواست کو قبول کر لینا ہی مناسب سمجھا، چنانچہ وہ اسکندریہ چھوڑ کر اور تاوان جنگ لے کر شام کی طرف واپس ہوا۔

*ناعاقبت اندیشی کے نتائج:*

یہ واقعہ 562ھ ماہ ذیقعدہ وقوع پزیر ہوا، شاور کی اس ناعاقبت اندیشی کے نتائج بہت برے نکلے، جو اس نے عیسائیوں کو مصر میں بلا کر کی، شیرکوہ کے واپس چلے جانے کے بعد عیسائی لشکر نے مصر میں مستقل قیام کرنے اور عیسائیوں نے مصر پر قبضہ کرنے کی بنیاد ڈالی، چنانچہ انہوں نے شاور کے سامنے مندرجہ ذیل شرائط پیش کیے اور شاور نیز عاضد عبیدی کو وہ شرائط قبول و منظور کرنے پڑے۔
(۱) عیسائی فوجیں قاہرہ میں مقیم رہیں گی۔
(۲) عیسائیوں کی طرف سے ایک ناظم قاہرہ میں رہا کرے گا۔
(۳) شہر پناہ کے دروازوں پر عیسائیوں کا قبضہ رہے گا۔
(۴) حکومتِ مصر ایک لاکھ دینار سالانہ بیت المقدس کے عیسائی بادشاہ کو ادا کیا کرے گی۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومت عبیدیین، قسط: (12)*

*حافظ عبیدی:*

حافظ عبیدی نے تخت نشین ہو کر یکے بعد دیگرے بہت سے وزیروں کو قتل کیا، ہر ایک وزیر موقع پا کر اور امور سلطنت پر مستولی ہونے کے بعد مخالفت کا اظہار کرتا اور قتل ہوتا تھا، آخر اس نے اپنے بیٹے کو وزیر بنایا، اس نے بھی موقع پا کر باپ کے خلاف خود تخت نشین ہونے کی سازش و کوشش کی، آخر حافظ عبیدی نے رضوان نامی ایک سنی المذہب کو اپنا وزیر بنایا، کچھ دنوں کے بعد رضوان بھی شیعوں اور امامیوں کی مسلسل مخالفتوں کے باعث اس عہدے سے دست کش ہوا، یہ واقعہ 543ھ کا ہے، اس کے بعد حافظ عبیدی نے کسی کو اپنا وزیر نہیں بنایا۔

*وفات:*

آخر 544ھ میں حافظ لدین اللہ ستر سال کی عمر میں فوت ہوا، اس کی جگہ اس کا بیٹا ابومنصور اسماعیل تخت نشین ہوا اور ’’ظافر باللہ‘‘ اپنا لقب تجویز کیا۔

*ظافر بن حافظ عبیدی*

ظافر نے تخت نشین ہو کر عادل بن سلار، والی اسکندریہ کو اپنا وزیر بنایا، عادل نے نظم و نسق سلطنت اپنے ہاتھ میں لے کر ظافر کو شاہ شطرنج بنا دیا، 548ھ میں عیسائیوں نے عسقلان کا محاصرہ کیا، اہل عسقلان نے محصور ہو کر دربار قاہرہ میں امداد و اعانت کی درخواست بھیجی، یہاں سے وزیرالسلطنت عادل نے اپنے ربیب عباس بن ابی الفتوح کو فوج دے کر عسقلان سے عیسائیوں کا محاصرہ اٹھانے کی غرض سے روانہ کیا، یہاں ظافر اور عباس میں یہ سازش ہو گئی تھی کہ عادل کو قتل کیا جائے، چنانچہ عباس خود فوج لے کر بلبیس میں جا کر مقیم ہوا، ادھر عباس کے نو عمر بیٹے نصیر نے عادل کا سوتے ہوئے کام تمام کر دیا، عادل کے قتل کی خبر سن کر عباس قاہرہ میں واپس چلا آیا اور قلمدان وزارت اس کو سپرد ہوا، اہل عسقلان کی کسی نے خبر نہ لی، انہوں نے مجبور ہو کر اپنے آپ کو عیسائیوں کے حوالے کر دیا اور عیسائیوں نے عسقلان پر قابض ہو کر دولت عبیدیہ کی کمزوری و نالائقی کے راز کو اور بھی فاش کر دیا۔

نصیر بن عباس جس کا نام اوپر ابھی آ چکا ہے، ظافر عبیدی کا ندیم خاص اور روز و شب کا مصاحب و جلیس تھا، اس کے اور ظافر کے تعلقات کی نسبت لوگوں میں برے برے خیالات کا اظہار ہوتا تھا۔

*ظافر کا قتل:*

نصیر نے ایک روز ماہ محرم 549ھ میں ظافر کی ضیافت کی، ظافر نصیر کے یہاں آیا، نصیر نے ظافر اور اس کے ہمراہیوں کو قتل کرا کر اسی مکان میں دفن کردیا، دوسرے دن وزیر السلطنت عباس بن ابی الفتوح حسب دستور قصر سلطنت میں گیا اور خدام سے بادشاہ ظافر کا دریافت کیا، انہوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، اس کے بعد عباس واپس چلا آیا، خدام محل سرائے عباس کے واپس جانے پر ظافر کے بھائی جبرئیل اور یوسف کے پاس گئے اور ظافر کے نصیر کے مکان پر جانے اور وہاں سے اب تک واپس نہ آنے کا حال بیان کیا، یوسف اور جبرئیل نے کہا کہ تم اس کیفیت کو وزیر السلطنت عباس سے جا کر بیان کرو، خدام نے عباس کے پاس آ کر یہ حال سنایا، عباس نے کہا: معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یوسف اور جبرئیل کی سازش سے بادشاہ ظافر قتل کیا گیا ہے، چنانچہ اس نے فوراً ظافر کے ان دونوں بھائیوں کو گرفتار کرا کر بلوایا اور فوراً قتل کرادیا، ساتھ ہی حسن بن حافظ کے دونوں لڑکوں کو بھی قتل کرادیا، اس کے بعد محل سرائے سلطانی میں جا کر ظافر کے بیٹے عیسیٰ ابوالقاسم کو زبردستی گود میں اٹھا لایا، تخت سلطنت پر لا کر بٹھایا اور ’’فائز بنصر اللہ‘‘ کا لقب تجویز کرکے لوگوں سے ان کے نام پر بیعت لی۔

خاندان سلطنت کے پانچ آدمیوں کے اس طرح مقتول ہونے پر بیگمات سلطنت نے صالح بن زریک کے پاس پوشیدہ طور پر ایلچی روانہ کیے، جو ان دنوں اثمونین و بنسہ کا عامل تھا اور تمام حالات سے اس کو اطلاع دے کر عباس کی بیخ کنی کی درخواست کی، چنانچہ صالح بن زریک فوجیں فراہم کر کے قاہرہ کی طرف روانہ ہوا، عباس یہ دیکھ کر کہ اہل قاہرہ بھی میرے مخالف ہو گئے ہیں، قاہرہ سے اپنے بیٹے نصیر اور اپنے دوست اسامہ بن منقذ کو ہمراہ لے کر اپنی خاص جمعیت کے ساتھ شام و عراق کے قصد سے روانہ ہوا، اثنائے راہ میں عیسائیوں سے مقابلہ ہو گیا، لڑائی میں عباس کام آیا، نصیر گرفتار ہوا اور اسامہ بچ کر نکل گیا اور ملک شام میں پہنچ گیا، اسامہ کے نکل جانے کے بعد صالح قاہرہ میں بماہ ربیع الثانی 559ھ پہنچا، نصیر کے مکان میں سے ظافر کی لاش کو کھود کر نکالا اور شاہی قبرستان میں دفن کیا اور ظافر کے بیٹے فائز کی بیعت کی، فائز نے اس کو ’’الملک الطالح‘‘ کا خطاب دیا۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (06)*

*جلال الدین ابن خوارزم:*
 
جلال الدین ابن خوارزم شاہ اپنے باپ کی وفات کے بعد بحیرۂ کاسپین کے جزیرہ سے روانہ ہوکر شہر تبریز میں آیا، یہاں بعض بہادر دوستوں کو اپنے ساتھ ملایا، مغلوں نے اس کو گرفتار کرنا چاہا، لیکن مغلوں کی صفوں کو چیر کر مع ہمراہیوں کے نکل گیا، وہاں سے روانہ ہو کر غزنین پہنچا، یہاں اس کو اپنے ہمدردوں اور دوستوں کی ایک جمعیت مل گئی، اس نواح میں جو مغلیہ فوج تھی، اس نے حملہ کیا، جلال الدین نے اس کو شکست دے کر بھگا دیا اور یہ غالباً پہلی شکست تھی جو چنگیز خان کی فوج کو جلال الدین کے مقابلے میں حاصل ہوئی، اس خبر کو سن کر چنگیز خان قلعہ طالقان سے روانہ ہوکر بامیان پہنچا، یہاں اس کا ایک پوتا یعنی چغتائی خان کا بیٹا ایک تیر کے لگنے سے ہلاک ہوا۔

چنگیز خان نے بامیان کے زن و مرد کے قتل عام کا حکم دیا، یہاں تک کہ اگر کوئی عورت حاملہ تھی تو اس کو قتل کرکے اس کے پیٹ میں سے بچے کو نکال کر اس بچہ کی بھی گردن کاٹی گئی، سلطان جلال الدین نے مغلوں کی فوج کو شکست فاش دے کر بہت جلد اپنی طاقت کو درست اور مضبوط کرلیا اور چنگیز خان کے مقابلے کے لئے مستعد ہوگیا، اگر خوارزم شاہ کی جگہ جلال الدین ہوتا تو یقیناً مغلوں کو چیرہ دستی کا یہ موقع ہرگز نہ مل سکتا، مگر خوارزم شاہ کی پست ہمتی اور بے وقوفی نے اپنے عظیم الشان لشکر سے کوئی کام بھی نہ لینے دیا اور آباد شہروں کو مغلوں کی خون آشام تلوار سے قتل ہونے کے لئے بے گناہ چھوڑ دیا۔

سلطان جلال الدین جمعیت فراہم کرکے چنگیز خان کے مقابلہ پر مستعد ہوگیا، مگر بدقسمتی سے اس جمعیت میں بعض ایسے سردار موجود تھے، جو عین وقت پر دھوکا دے کر مغلوں سے جا ملے اور سلطان جلال الدین کے پاس صرف سات سو آدمی رہ گئے، انہی سے لڑتا بھڑتا دریائے سندھ کے ساحل کی طرف سلطان جلال الدین متوجہ ہوا، چنگیز خان بھی اپنا لشکر عظیم لئے ہوئے وہاں پہنچ گیا، جلال الدین نے دریائے سندھ کو اپنی پشت پر رکھ کر لشکر مغول کا مقابلہ کیا، مغلوں نے کمان کی شکل میں محاصرہ کر کے ہنگامۂ کار زار گرم کیا، مگر جلال الدین نے اس بہادری اور جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا کہ چنگیز خان اور اس کی لاتعداد فوج کے دانت کھٹے کردئیے، سلطان جلال الدین جب حملہ آور ہوتا تھا مغلوں کی صفوں کو دور تک پیچھے ہٹا دیتا تھا، مگر وہ پھر فراہم ہو کر بڑھتے اور پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ حملہ آور ہوتے تھے، اپنی جمعیت کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے سبب اس معرکہ آرائی میں سلطان جلال الدین کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی، مگر سلطان جلال الدین کی شجاعت و بہادری کا سکہ چنگیز خان کے دل پر بیٹھ گیا، یہاں تک کہ ان کے سات سو بہادروں میں سے بھی جب صرف ایک سو کے قریب باقی رہ گئے تو سلطان جلال الدین نے اپنی زرہ اتار کر پھینک دی اور اپنا تاج ہاتھ میں لے کر گھوڑا دریائے سندھ میں ڈال دیا، اس کے بقیہ ہمراہیوں نے بھی اپنے سلطان کی تقلید کی، چنگیز خاں نے چاہا کہ مغلوں کا لشکر بھی اس کا تعاقب کرے اور اس بہادر شخص کو گرفتار کر کے لائے، لیکن اس بحر ذخار میں گھوڑا ڈالنا کوئی آسان کام نہ تھا، چنانچہ چنگیز خان اور مغل دریائے سندھ کے کنارے پر رک گئے، اور دریائے سندھ کے اندر ان مٹھی بھر بہادروں پر تیروں کا مینہ برساتے رہے، یہاں تک کہ صرف سات آدمی مع سلطان جلال الدین کے کنارے پر پہنچ گئے، باقی سب دریا کے اندر مغلوں کے تیروں سے شہید ہو گئے۔

سلطان جلال الدین نے اس کنارے پر پہنچ کر اپنے کپڑے اتار کر جھاڑیوں پر سکھانے کے لئے ڈال دئیے، نیزہ زمین پر گاڑ کر اس کی نوک پر اپنا تاج رکھ دیا اور اس کے نیچے دم لینے لگا اور گھوڑے کے زین کو اتار کر خشک ہونے کے لئے سامنے رکھ دیا۔

چنگیز خان دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور حیران تھا، اپنے تمام بیٹوں اور سرداروں کو جو اس کے لشکر میں موجود تھے، سامنے بلا کر کہنے لگا کہ میں نے آج تک ایسا بہادر اور باہمت شخص نہیں دیکھا، اس کے ہمراہی بھی اس کی مانند بے نظیر بہادر ہیں، اتنے بڑے عظیم الشان دریا کو اس طرح عبور کرنا بھی انہی کا کام تھا، اگر یہ شخص زندہ رہا تو مجھ کو اندیشہ ہے کہ دنیا سے مغلوں کا نام و نشان گم کر دے گا، جس طرح ممکن ہو، اس کے قتل کرنے کی تدبیر سوچی جائے، مگر بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان متأسف و مغموم دریائے سندھ کے کنارے سے واپس چلا گیا، یہ واقعہ 620ھ کو وقوع پزیر ہوا۔

اس کے بعد سلطان جلال الدین نے سندھ میں کچھ فتوحات حاصل کیں اور اس کے ہوا خواہ یہاں آ آ کر اس کے ساتھ شامل ہوتے رہے، چند روز کے بعد سلطان جلال الدین دریا کو عبور کرکے کرمان کی جانب پہنچا وہاں سے شیراز گیا، اسی عرصہ میں حسن بن صباح کے ملحد فدائیوں کو متواتر ہزیمتیں دے کر ان کے قریباً تمام قلعوں کو سوائے قلعہ الموت کے منہدم کردیا، فدائی یا باطنی گروہ مغلوں کی اس حملہ آوری کے وقت بہت مطمئن اور مسرور تھے اور مسلمانوں کے

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (05)*

*چنگیز خاں کی ممالک اسلامیہ کی طرف توجہ:*

615ھ میں چنگیز خان فوج لے کر ممالک اسلامیہ کی طرف متوجہ ہوا اور مقام انزار کے قریب پہنچ کر جوجی خان اوکتائی خان اور چغتائی خان تینوں بیٹوں کو انزار کے محاصرے پر مامور کیا اور الاق نویان و منکوبوقا کو خجند اور نباکت کی جانب فوج دے کر روانہ کیا اور خود اپنے چھوٹے بیٹے تولی خان کو ہمراہ لے کر بخارا کی طرف متوجہ ہوا، مغلوں کے اس حملہ کا حال سن کر خوارزم شاہ نے ساٹھ ہزار فوج حاکم انزار کی مدد کے لئے روانہ کی اور تیس ہزار سوار بخارا کی طرف بھیجے، دو لاکھ دس ہزار فوج سمرقند کی حفاظت پر مامور کی اور ساٹھ ہزار آدمی برج اور قلعہ کی تعمیر و استحکام کے لئے مقرر کئے اور خود سمرقند سے خراسان کی طرف روانہ ہوا۔

*خوارزم شاہ کی بزدلی:*

خوارزم شاہ سے بڑی غلطی یا بزدلی یہ ظاہر ہوتی کہ اس نے باوجود اتنی بڑی فوج کے خود چنگیز خاں کا مقابلہ نہ کیا، بلکہ میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹ آیا، اپنے بادشاہ کو خراسان کا عازم دیکھ کر یقیناً فوج کے دل چھوٹ گئے ہوں گے، اس پر طُرہ یہ کہ جب سمرقند سے چلنے لگا تو خندق پر پہنچ کر کہنے لگا کہ ہم پر اتنی بڑی قوم نے حملہ کیا ہے کہ اگر وہ صرف اپنے تازیانے ڈالیں تو سمرقند کی یہ خندق تمام و کمال پُر ہو جائے، یہ سن کر سمرقند کے محافظ لشکر پر مغلوں کی اور بھی ہیبت طاری ہو گئی۔

خوارزم شاہ سمرقند سے روانہ ہو کر بلخ پہنچا اور اپنے اہل و عیال اور خزانے کو ماژندران بھیج دیا، بلخ میں آ کر امراء اور سرداروں سے مشورہ کیا کہ مغلوں کے مقابلے میں کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں؟ خوارزم شاہ کے سات بیٹے تھے، ان میں سے ایک بیٹے نے جس کا نام جلال الدین تھا، باپ کو خائف و ترساں دیکھ کر کہا کہ آپ اگر عراق کی طرف جانا چاہتے ہیں تو شوق سے چلے جائیے، فوج کی سرداری مجھ کو عنایت کیجئے، میں فوج لے کر دشمن پر حملہ کرتا ہوں اور ان شاء اللہ تعالیٰ دریائے جیحون کے پار جا کر اپنا خیمہ نصب کروں گا، ماوراء النہر کی حفاظت میرے سپرد کیجئے اور آپ عراق و خراسان کو سنبھالئے، مگر خوارزم شاہ نے اس بات کو پسند نہ کیا، بلخ سے ہرات کی طرف روانہ ہوا۔

اسی اثناء میں خبر پہنچی کہ مغلوں نے بخارا فتح کر کے وہاں کے تمام باشندوں کو قتل کردیا، یہ سن کر اور بھی زیادہ پریشان و ہراسان ہوا اور ہرات سے نیشاپور جا کر مقیم ہوا، مغلوں نے ابھی تک دریائے جیحون کو عبور کرنے کی جرأت نہیں کی، بلکہ وہ ماوراء النہر ہی میں مصروف تاخت و تاراج رہے اور خوارزم شاہ نیشاپور میں مصروف عیش و نشاط رہا۔

ماہ صفر 617ھ میں چنگیز خان کے ایک سردار نے تیس ہزار فوج کے ساتھ دریائے جیحون کو عبور کیا، یہ خبر سن کر خوارزم شاہ سخت پریشان ہوا اور اپنے اہل و عیال اور خزانہ کو قلعہ قارون میں بھیج کر خود نیشاپور سے اسفراین چلا گیا، مغلوں نے جب دیکھا کہ خوارزم شاہ مقابلہ پر نہیں آتا اور ہمارے خوف سے بھاگتا پھرتا ہے تو ان کے حوصلے بہت بلند ہو گئے، انہوں نے بڑھ کر خوارزم شاہ کا تعاقب شروع کردیا، خوارزم شاہ مغلوں کے آگے آگے بھاگتا ہوا قارون وژ میں جہاں اس کے اہل و عیال اور خزانہ موجود تھا پہنچا، لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے دوسری طرف سے مغلوں نے اس کا محاصرہ کر لیا تھا، وہاں سے خوارزم شاہ بھاگتا ہوا استر آباد اور استر آباد سے آمل پہنچا۔

*خوارزم شاہ کی وفات:*

وہاں سے ایک جزیرہ میں جا کر پناہ گزیں ہوا، یہاں اس کے پاس خبر پہنچی کہ مغلوں نے قلعہ قارون وژ فتح کر کے خزائن و اموال اور اس کے اہل و عیال پر قبضہ کر لیا ہے، یہ خبر سن کر اس کو سخت صدمہ ہوا اور اسی رنج و ملال میں فوت ہوگیا، جن کپڑوں کو پہنے ہوئے فوت ہوا تھا انہی میں دفن کر دیا گیا، کفن بھی میسر نہ ہوا۔

اب مغلوں نے تمام خراسان و ایران میں ادھم مچادی اور قتل و غارت سے قیامت برپا کردی، خوارزم شاہ کے بیٹے بھی جو جابجا صوبوں کی حکومت پر مامور تھے، مغلوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے، صرف ایک بیٹا جلال الدین جو سب بھائیوں میں بہادر اور ذی ہوش اور عالی حوصلہ تھا باقی رہ گیا۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (04)*

*سلطان محمد خوارزم شاہ:*

یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطان محمد خوارزم شاہ ایران و خراسان و کابل و ترکستان وغیرہ ممالک پر قابض و مستولی ہو کر خلافت بغداد کے انہدام و بربادی کے ارادے کر رہا تھا اور برّاعظم ایشیاء میں سب سے زیادہ طاقتور زبردست مسلمان بادشاہ سمجھا جاتا تھا، عباسی خلیفہ ناصرلدین اللہ اور محمد خوارزم شاہ کے درمیان ناچاقی نے جب یہاں تک نوبت پہنچائی کہ خوارزم شاہ نے بغداد پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو خلیفہ نے شیخ شہاب الدین سہروردی کو سفیر بنا کر خوارزم شاہ کی خدمت میں روانہ کیا، شیخ ممدوح نے سلطان کے دربار میں پہنچ کر مناسب تقریر کی اور اس کو بغداد پر چڑھائی کرنے سے باز رہنے کی نصیحت کی۔

خوارزم شاہ نے کہا کہ شیخ صاحب! آپ عباسیوں کے بہت مداح اور خیر خواہ ہیں، لہٰذا آپ بغداد کو واپس تشریف لے جائیے، میں تو علویوں کو عباسیوں پر ترجیح دیتا ہوں اور عباسی خلافت کو مٹا کر علویوں کی امداد کرنا چاہتا ہوں، میں ضرور بغداد پر چڑھائی کروں گا۔

*خوارزم کے لئے تین بزرگوں کی بددعا:*

شیخ شہاب الدین سہروردی وہاں سے ناکام واپس ہوئے اور خوارزم شاہ کے لئے بددعا کی کہ الٰہی! اس پر ظالموں کو مسلط کر۔ خوارزم شاہ نے فوج لے کر کوچ کیا، مگر راستے میں اس قدر برف باری ہوئی کہ فوج کا راستہ بند ہو گیا اور سخت مجبوری کے عالم میں خوارزم شاہ نے چڑھائی کو دوسرے سال پر ملتوی کیا اور راستے ہی سے لوٹ گیا، اتفاقاً ایک روز حالت بدمستی میں حکم دیا کہ شیخ مجدالدین کو قتل کر دو! چنانچہ وہ شہید کر دئیے گئے، اگلے دن جب ہوش میں آیا تو اپنی اس حرکت پر پشیمان ہو کر خوں بہا شیخ نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں بھیجا، انہوں نے کہا کہ شیخ شہید کا خوں بہا تو میرا اور تیرا سر ہے اور ساتھ ہی ہزار ہا مسلمانوں کے سر اس خوں بہا میں کاٹے جائیں گے، لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی اور شیخ مجد الدین اور نجم الدین کی بددعاؤں کا نتیجہ تھا کہ خوارزم شاہ پر آفت نازل ہوئی۔

*چنگیز خاں کا سلطان خوارزم سے اقدام صلح:*

تفصیل اس کی یہ ہے کہ چنگیز خان نے منغولستان کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو مٹا کر ایک زبردست سلطنت قائم کر لی تو اس نے مناسب سمجھا کہ اپنے مدمقابل سلطان محمد خوارزم شاہ سے صلح اور دوستی کا عہد قائم کر لو، کیونکہ دونوں کی حدود ایک دوسرے سے مل گئی تھیں، چنگیز خان نے اپنے ایلچیوں کے ہاتھ محمد خوارزم شاہ کی خدمت میں ایک خط بھیجا، جس میں لکھا تھا کہ میں نے اس قدر وسیع ممالک فتح کر لئے ہیں اور میرے زیر فرمان اس قدر جنگ جو قبائل ہیں کہ اب مجھ کو دوسرے ملکوں کے فتح کرنے کی آرزو اور تمنا نہیں ہے، اسی طرح تم بھی بہت سے ملکوں پر قابض و متصرف اور بہت بڑے بادشاہ ہو، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم تم دونوں آپس میں محبت و دوستی کا عہد کریں، تاکہ ہر ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن رہیں اور صلاح و فلاحِ خلائق میں اطمینان کے ساتھ مصروف ہو جائیں۔ اس خط میں چنگیز خان نے یہ بھی لکھا تھا کہ میں تم کو اپنے بیٹے کی طرح عزیز سمجھوں گا۔

اس خط کو پڑھ کر محمد خوارزم شاہ نے بظاہر چنگیز خان کے سفیروں کی خاطر مدارات کی اور دوستی کا عہدنامہ لکھ دیا، مگر خط کے اس آخری لفظ یعنی بیٹے والے فقرے کو اس نے ناپسند کیا اور اپنی تحقیر سمجھا، عہدنامہ میں طرفین نے تجارت کی آزادی کو تسلیم کیا اور تاجر ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے لگے، چنگیز خان اگرچہ کافر تھا، مگر ہم کو اس کی اس دانائی کی داد دینی چاہیے کہ اس نے ایک زبردست بادشاہ کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے آشتی میں ابتدا کی، یہ بات بھی اس کی دانائی کی دلیل ہے کہ عہدنامہ صلح میں اسی کی خواہش سے تاجروں کے آنے جانے کی آزادی کا ذکر کیا گیا، بظاہر اس وقت تک چنگیز خان کا کوئی ارادہ ممالک اسلامیہ پر تاخت و تاراج کا نہیں معلوم ہوتا تھا۔

اس صلح نامہ کے بعد خلیفہ ناصرلدین اللہ عباسی کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے ایک شخص کا سر منڈوا کر اس پر ایک خطبہ چنگیز خان کے نام نقش کیا، یعنی جلد میں نوک نشتر سے گود کر سرمہ بھر دیا گیا تھا، اس عجیب و غریب خط میں لکھا تھا کہ تم سلطان محمد خوارزم شاہ پر حملہ کرو اور ہم کو اپنا ہمدرد تصور کرو۔ اس طرح منڈے ہوئے سر پر جب خط لکھا گیا تو چند روزہ انتظار کے بعد بال سر پر جم آئے اور اس شخص کو چنگیز خان کی طرف روانہ کر دیا گیا، جب وہ شخص چنگیز خان کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ میں خلیفہ کا ایلچی ہوں اور خلیفہ کا پیغام میرے سر پر منقوش ہے، میرے سر کے بال منڈوا دو اور خلیفہ کا پیغام پڑھ لو، چنانچہ اس کا سر منڈوا کر چنگیز خان نے خلیفہ کا پیغام پڑھا اور ایلچی سے معذرت کی کہ میں صلح کر چکا ہوں، اس لیے اپنے عہد کے خلاف چڑھائی اور لڑائی خوارزم شاہ سے نہیں کر سکتا۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*چنگیز خاں کا خواب:*

اسی حالت میں تموچین نے خواب میں دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھوں میں تلواریں ہیں، جب اس نے اپنے دونوں ہاتھ مشرق و مغرب کی طرف پھیلائے تو دونوں تلواروں کے سرے افق مشرق اور افق مغرب تک پہنچ گئے، یہ خواب اس نے اپنی ماں سے بیان کیا تو اس کو یقین ہو گیا کہ میرا یہ بیٹا مشرق و مغرب کے تمام لوگوں کو آگاہ کرے گا اور اس کے ہاتھ سے بڑی خونریزی ہو گی۔ اسی طرح اس کی ماں کو معلوم تھا کہ پیدا ہونے کے وقت تموچین کے ہاتھ کی دونوں مٹھیاں بند تھیں، ان کو کھول کر دیکھا تو اس کے دونوں ہاتھوں میں منجمد خون تھا، اس خون کو دیکھ کر اس وقت بھی سب نے یہی رائے قائم کی تھی کہ یہ لڑکا بڑا خوں ریز ہو گا، لوگوں کی سرکشی یہاں تک پہنچی کہ سوائے ایک شخص امیر قراچا کے جو قاچولی بہادر کی اولاد سے تھا، باقی تمام اولاد قاچولی بہادر کی بھی تموچین سے باغی ہو گئی۔

تموچین نے اپنے ملک کے متصلہ ملک کے فرماں روا سے جس کا نام اونگ خاں تھا، امداد چاہی اور اس کی پناہ میں خود چلا گیا، اونگ خان نے تموچین کی خوب خاطر مدارات اور تسلی و تشفی کی اور اپنے بیٹوں کی طرح اس کی خبر گیری کرنے لگا، مگر چند روز کے بعد کچھ جمعیت بہم پہنچا کر چنگیز خان نے اپنے اس محسن اونگ خان کے خلاف کارروائی شروع کی اور اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک درہ میں مضبوط ہو بیٹھا اور اپنی مخالفت کا اعلان کیا، آخر لڑائی ہوئی، اس لڑائی میں اتفاقاً امیر قراچار کے تیر سے اونگ خان سخت زخمی ہو کر منہزم ہوا اور ایک دوسرے سردار یانگ خان نے بحالت فرار اس کو قتل کرادیا۔

اب توقع یہ تھی کہ یانگ خان اور تموچین کے درمیان صلح رہے گی، کیونکہ اونگ خان کو قتل کر کے یانگ خان نے تموچین کی امداد کی تھی، مگر چنگیز خان نے اس فتح کے بعد اپنے گرد بہت جلد قبائل کو جمع کرلیا اور لوگوں نے اس کو بہادر دیکھ کر بخوشی اس کی سرداری تسلیم کرنی شروع کی، ایک شائستہ جمعیت لے کر چنگیز خان نے یانگ خان کے علاقہ پر فوج کشی شروع کردی، لڑائی میں یانگ خان بھی مقتول ہوا اور چنگیز خان نے ایک وسیع مملکت پر قبضہ کر لیا، ان فتوحات کے بعد یکایک تموچین قبائل مغلیہ کا مرجع و مرکز بن گیا اور اس کی طاقت مغولستان کے قاآن اکبر کی مدمقابل بن گئی۔

*نام کی تبدیلی:*

اسی اثناء میں ایک شخص جس کا نام تنکیری تھا اور مغل اس کو بڑا عابد و زاہد اور قابلِ تکریم سمجھتا تھا، چنگیز خان کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ایک سرخ آدمی کو جو سرخ لباس میں سرخ گھوڑے پر سوار تھا، دیکھا اس نے مجھ سے کہا کہ تو میسوکا بہادر کے بیٹے سے جا کر کہہ دے کہ وہ آج کے بعد سے اپنا نام تموچین تبدیل کرکے اپنے آپ کو چنگیز خان کے نام سے موسوم کرے، اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ چنگیز خان کو بہت سے ملکوں کا بادشاہ بنائے، تنکیری کے اس کلام کو سن کر اگرچہ چنگیز خان نے اس کو دروغ گو تصور کیا، مگر اس کی بات کا تسلیم کرلینا اس نے مناسب سمجھا اور اپنے آپ کو چنگیز خان کے نام سے موسوم کیا، ترکی زبان میں چنگیز خان کے معنیٰ بادشاہ کے تھے، یا شاید چنگیز خان کے بعد یہ نام بادشاہ کا مترادف قرار پایا، چند روز کے بعد تنکیری کا کسی بات پر چنگیز خان کے ایک مصاحب سے جھگڑا ہو گیا، اس نے تنکیری کی گردن پکڑ کر اور اٹھا کر اس روز سے زمین پر پٹکا کہ تنکیری کا دم نکل گیا۔

اس کے بعد رفتہ رفتہ تمام قبائل مغلیہ اور مغولستان پر چنگیز خان کا قبضہ ہو گیا اور قاآن اکبر بعد مقابلہ منہزم ہو کر مقتول ہوا، سب نے چنگیز خاں کو قاآن اکبر تسلیم کیا، اس کے بعد چنگیز خاں قبائل تاتار کی طرف متوجہ ہوا، تاتاریوں کے بادشاہ نے مقابلہ میں اپنے آپ کو کمزور پایا اور اپنی لڑکی کی شادی چنگیز خاں سے کرکے صلح نامہ تحریر کردیا، اس کے بعد تاتاری سرداروں نے اپنے بادشاہ سے بغاوت اختیار کی، اس نے مجبور ہو کر چنگیز خاں سے امداد طلب کی، بہت کشت و خون ہوا، تاتاری بادشاہ خود ہی زہر کھا کر مر گیا اور چنگیز خاں کا ملک ختا کے اکثر حصے پر قبضہ ہو گیا، چنگیز خاں درحقیقت مغلوں میں بڑا بیدار مغز اور بہادر آدمی تھا، اس کے کاموں سے جو اس نے اپنی مدت العمر میں انجام دیئے، اس کی دانائی اور ذہانت کا ثبوت ملتا ہے، وہ اپنی خوں ریزی کے لیے شہرت عظیم رکھتا ہے، مگر اس زمانے کی دنیا کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ وہ اپنے آپ کو خون ریزی سے نہ بچا سکا۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ مغولان، قسط (02)*

*قرا تاتار:*

مغول و تاتار ایک دوسرے سے جدا ہو کر اور جدا جدا ملکوں میں سکونت اختیار کرکے ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے اور چڑھائیاں کرتے رہے، جب تک کیانی خاندان ملک توران پر حکمران رہا، اس نے تاتاریوں کا ساتھ دیا اور مغول ہمیشہ مغلوب ومقتول ہوتے رہے اور ان کو کبھی تاتاریوں پر چیرہ دستی حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، ان لڑائیوں میں مغلوں کی اکثر عورتیں تاتاریوں کے قبضے میں آ جاتی تھیں، ان عورتوں سے جو اولاد پیدا ہوتی تھی اس اولاد کو تاتاری لوگ باندی کا بچہ سمجھتے اور اپنے ترکہ کا وارث نہیں بناتے تھے۔

رفتہ رفتہ اس قسم کے لوگوں کی کثرت ہوئی اور ان کی شادیاں اسی قسم کے پرستار زادوں میں ہونے لگیں، اس طرح ایک الگ قوم تیار ہو گئی جس کو قرا تاتار کا خطاب دیا گیا، بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ انہی لوگوں کو ترکمان کہا جاتا ہے، یہ تاتاریوں کی مغلوں سے نفرت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے مغل عورتوں کی اولاد کو اپنا ہمسر نہ سمجھا، ورنہ حقیقتاً مغل اور تاتار ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔

*ایک غلط فہمی کا ازالہ:*

بعض لوگ غلطی سے قوم اوزبک کو تاتاری قوم سمجھتے ہیں، حالانکہ اوزبک چنگیز خان کی اولاد میں سے ایک قبیلہ کا نام ہے، یہ غلط فہمی غالباً اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ہندوستان کے سلاطین مغلیہ کی قبیلہ اوزبک کے کئی فرماں رواؤں سے لڑائیاں ہوئی ہیں اور وہ اوزبک اس زمانے میں ملک ترکستان کے بادشاہ تھے، ان کو ترکستان کا بادشاہ دیکھ کر آج کل کے تاریخ دانوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ تاتاری تھے، ہاں تاتاری لوگوں کی سلطنت عثمانیہ سلطنت ہے، قبائل مغولیہ میں قچاق، ایغور، خلج، قاچار، افشار، جلائر، ارلات، دو غلات، قنقرات، سلدوز، ارغون، قوچین، ترخانی، طغانی، قاقشال وغیرہ بہت سی شاخیں ہیں، جن کی تفصیل بیان کرنے کی اس جگہ ضرورت نہیں۔

یہ بات اب بخوبی سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ ترک ایک ایسا عام لفظ ہے جو مغلوں اور تاتاریوں کے ہر ایک قبیلہ پر بولا جا سکتا ہے، کیونکہ تاتار اور مغل دونوں ایک ہی قبیلہ ترک کی دو شاخیں ہیں، مغلوں کا اصل وطن چین و منگولیا تھا اور تاتاریوں کا وطن ترکسان تھا، بعد میں تاتاریوں کو ترک کہنے لگے اور لفظ ترک کی عمومیت محدود ہو کر تاتار کی مترادف رہ گئی، اس طرح تاتار کا لفظ عرف عام سے غائب ہو گیا اور ترک و مغل دونوں قوموں کے نام مشہور ہوئے۔

اب بعض مؤرخین نے اصلیت کی بنا پر مغلوں کو بھی ترک کے نام سے یاد کیا، کیونکہ وہ ترک بن یافث کی اولاد سے ہیں، بعض نے سلجوقیوں کو بھی ترک کہا اور بعض نے سلاطین عثمانیہ کو بھی اسی وجہ سے مغلوں کا ہم قوم قرار دیا، غرض اوپر کے بیان کو اگر بغور پڑھ لیا جائے تو تاریخ کے مطالعہ کرنے والے کی بہت سی دقتیں حل ہو سکتی ہیں۔

اب ہم کو فتنۂ مغولان چنگیزی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، لیکن اس سے پہلے یہ بات اور ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ تاتاریوں کی قوم جو مغلوں سے زبردست ہونے کی وجہ سے مغلوں کو اپنے علاقے سے باہر قدم رکھنے کا موقع نہیں دیتی تھی، ترکستان سے نکل کر خراسان، ایران، عراق، شام، ایشیائے کوچک تک پھیل گئی تھی اور اس قوم کے بہادر أولوالعزم افرادو قبائل ممالک اسلامیہ میں بڑے بڑے مناصب اور عہدوں پر فائز ہوکر اپنے قدیمی وطن ترکستان کا خیال چھوڑ چکے تھے۔

ان میں ہر قسم کی تہذیب و شائستگی بھی آ گئی تھی اور مغول قوم کا پشتینی دشمن ان کے راستے سے الگ ہو چکا تھا، لہٰذا وقت آ گیا تھا کہ یہ قوم بھی اپنے انتہائی جہل و بدتمیزی اور سفاکی و بد تہذیبی کے ساتھ اپنے کوہستانی مامن اور قدیمی وطن کو چھوڑ کر متمدن دنیا میں نکلے اور غافلوں کیے لیے تازیانہ عبرت ثابت ہو۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*  

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*ترکان غز:*

انہی ترک قبائل میں سے بعض قبائل نے دریائے جیحون کو عبور کر کے عہدِ اسلامیہ میں ملک فارس و خراسان وغیرہ کے اندر رہزنی و ڈاکہ زنی اختیار کی، ان قبائل کو ترکان غز کے نام سے موسوم کرتے ہیں، یورپ و افریقہ اور مراکش تک ان ترکانِ غز کے پہنچنے کا ثبوت ملتا ہے۔

*سلجوقی:*

انہیں ترک قبائل میں سے ایک قبیلہ وہ تھا جس کو سلجوقی کہا جاتا ہے، غالباً ترک ابن یافث کی اولاد میں ترکوں کے اسی قبیلہ نے سب سے پہلے اسلام کو قبول کیا، اور ان میں طغرل والپ ارسلان وغیرہ بڑے بڑے عالی جاہ سلاطین ہوئے، جن کی شہرت و عظمت نے تمام دنیا کا احاطہ کر لیا۔

*مغول و تاتار:*

سلجوقیوں کے مسلمان ہونے اور خراسان کی جانب خروج کرنے سے پہلے ترکوں کے درمیان دو اور نئے قبیلے دو حقیقی بھائیوں کے نام سے نامزد ہو چکے تھے، جن کے نام مغول اور تاتار تھے، سلجوقیوں کے مسلمان ہونے اور شہرت و عظمت حاصل کرنے کے وقت یہ دونوں قبیلے ناقابل التفات اور بہت ہی بے حقیقت اور کم حیثیت تھے، رفتہ رفتہ مغول و تاتار کی اولاد میں ترقی اور نفوس کی کثرت ہوئی اور دونوں قبیلوں نے الگ ملکوں اور صوبوں میں سکونت اختیار کی اور ان میں جدا جدا سرداریاں قائم ہوئیں، ترک بن یافث کی اولاد یعنی ترکوں میں ایک شخص النجہ خان نامی تھا، اس کے دو بیٹے توام متولد ہوئے، ایک کا نام مغول اور دوسرے کا نام تاتار رکھا، ان دونوں سے مغول اور تاتار قومیں پیدا ہوئیں، مغول خان کا بیٹا قرا خان اور قرا خان کا بیٹا ارغون خان تھا، جو اپنے قبیلے میں سردار سمجھا جاتا تھا، اسی ارغون خان کے عہد میں اس کے قبیلہ کے ایک شخص نے گاڑی ایجاد کی جو بار برداری کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی، ارغون خان نے اس ایجاد کو بہت پسند کیا اور اس کے موجد کو قانقلی کا خطاب دیا، چنانچہ ترکی زبان میں گاڑی کو قانقلی کہا جاتا ہے اور اس شخص کی اولاد کو قبیلہ قانقلی سے نامزد کیا گیا۔

ارغو خان کے بہت سے بیٹے پیدا ہوئے، ایک بیٹے کا نام تنگیز خان تھا، تنگیز خان کا بیٹا منگلی خاں اور منگلی خاں کا بیٹا ایل خان تھا، ایل خاں کے بیٹے کا نام قیان تھا، قیان خان کی اولاد سے مغلوں کی قوم قیات نامزد ہوئی، قیان خاں کے بعد اس کا بیٹا تیمور تاش باپ کا جانشین ہوا، تیمور تاش کا بیٹا منگلی خان اور منگلی خان کا بیٹا یلدوز خان کا جونیہ بہادر تھا، جونیہ بہادر کے ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام الان قوار کھا گیا، الان قوا کی شادی اپنے چچا زاد بھائی دوبو بیان نامی سے ہوئی، دوبو بیان کے نطفہ سے الان قوا کے دو بیٹے یلکدائی اور یک جدائی پیدا ہوئے، الان قوا کا شوہر دوبو بیان اپنے قبیلہ کا افسر اور حکمران تھا، ان دو بیٹوں کو کم سنی کی حالت میں چھوڑ کر دوبو بیان فوت ہو گیا، قبیلہ مغول نے اپنے سردار کے فوت ہونے پر اس کی بیوہ الان قوا کو اپنے قبیلہ کی سرداری تفویض کی۔

الان قوا کے تین بیٹے پیدا ہوئے، جن کے نام بوقون قیقی یوسفین سالجی اور بوز بخرقاآن رکھے گئے، اس طرح الان قوا کے پانچ بیٹے ہو گئے، یلکدائی اور یکجدائی کی اولاد تو قبیلہ درلیکن کے نام سے موسوم ہوئی، بوقون قیقی کی اولاد قوم قیقین کے نام سے اور یوسفین سالجی کی اولاد قوم سالجیوت کے نام سے مشہور ہوئی، بوز بخر قاآن کی اولاد بوز بخری کہلائی، الان قوا کی وفات کے بعد بوز بخر اپنی ماں کا جانشین اور قبائل مغول کا حاکم ہوا، بوز بخر اپنے آپ کو آفتاب کا بیٹا کہا کرتا تھا اور ابو مسلم خراسانی مروی کے زمانہ میں موجود تھا، اسی بوز بخر کی اولاد میں چنگیز خان اور تیمور اور مغلوں کے اکثر مشہور قبائل پیدا ہوئے، چنگیز خان اور تیمور کا نسبی تعلق معلوم کرنے کے لیے ذیل کے شجرہ پر نظر ڈالو۔

*شجرہ نسب:*

اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ترک بن یافث کی اولاد میں ایک شخص النجہ خان تھا۔ جس کے دو توام بیٹے مغول خان اور تاتار خان پیدا ہوئے تھے، انہیں دونوں بھائیوں کی اولاد مغول اور تاتاری دو قومیں بنیں، یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ان دونوں قوموں نے اپنے لیے الگ الگ مقام سکونت تجویز کیے، قبیلہ مغول تو چین کے ملک میں آباد ہوا اور اس کے نام سے ملک کا نام مغولستان یا منگولیا مشہور ہوا، قبیلہ تاتار نے دریائے جیحون کے کنارے سکونت اختیار کی اور اس کے نام سے ملک تاتار یا ترکستان کہلایا، اس ملک پر چونکہ فریدوں کے بیٹے تور کی حکومت تھی، اس لیے اس کو توران کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*رکن الدین خور شاہ:*

رکن الدین خور شاہ فدائیوں کا آخری بادشاہ تھا، جس کو ہلاکو خاں چنگیزی نے بربادی بغداد سے ایک سال پیشتر 655ھ میں گرفتار کرکے فدائیوں کی دولت و حکومت کا خاتمہ کر دیا، حسن بن صباح کے بعد قلعہ الموت اور اس کے مضافات پر فدائیوں کی حکومت قائم رہی، مگر سو سال تک وہ اپنی مملکت میں کوئی ترقی اور وسعت پیدا نہیں کر سکے، جب چنگیز خان تاتاریوں کے وحشی گروہ کو لے کر ممالک اسلامیہ کو تاخت و تاراج کرنے لگا تو ان فدائیوں نے بھی ہاتھ پاؤں نکالے اور اپنے رقبہ حکومت کو وسیع کرنا شروع کیا، لیکن ابھی یہ پورے طور پر اپنے حوصلے نہ نکال چکے تھے کہ جلال الدین بن علاؤ الدین خوارزم شاہ نے ان پر چڑھائی کرکے ان کے زور و قوت کو توڑ دیا اور قلعہ الموت میں ان کو محصور کر کے تمام دوسرے قلعوں کو ان سے چھین کر ویران و منہدم کر دیا اور دولت فدائیہ کی حالت بہت ہی سقیم ہو گئی، آخر ہلاکو خان نے اس مریض نیم جان کو قید ہستی سے آزاد کیا۔

*فدائیوں کے مقتولین:*

ان ملحد فدائیوں کے ہاتھ سے جو لوگ قتل ہوئے، ان میں خواجہ نظام الملک طوسی، وزیر اعظم سلطان الپ ارسلان و ملک شاہ سلجوقی، فخر الملک بن خواجہ نظام الملک، جناب شمس تبریزی، پیر طریقت مولوی رومی، نظام الملک معود بن علی خوارزم شاہ، سلطان شہاب الدین غوری اور بعض عیسائی سلاطین یورپ خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور حضرت امام فخر الدین رازیؒ کو بھی ملاحدہ نے قتل کی دھمکی دی تھی، مگر وہ بچ گئے۔

*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ قرامطہ، قسط: (06)*

*حسن بن صباح:*

حسن بن صباح ملک شاہ بن الپ ارسلان سلجوقی کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی کا ہم سبق رہ چکا تھا، اس نے نظام الملک کے ذریعہ دربار سلطانی میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر پھر وہاں اپنا رہنا مناسب نہ سمجھ کر نظام الملک کے ایک رشتہ دار ابو مسلم قلعہ دار‘ رے کی خدمت میں چلا آیا اور اس کی مصاحبت میں داخل ہو کر اپنی سازشوں کا جال پھیلانا شروع کیا، اتفاقاً ابو مسلم کو معلوم ہو گیا کہ حسن بن صباح کے پاس دولت عبیدیہ مصر کے جاسوس آتے جاتے ہیں، اس نے حسن بن صباح سے اس کے متعلق استفسار کیا، حسن بن صباح کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ میری سازش کا راز افشا ہو چکا ہے تو وہ وہاں سے چھپ کر فرار ہو گیا اور مستنصر عبیدی کے پاس مصر پہنچا، مستنصر عبیدی نے حسن بن صباح کی خوب خاطر مدارات کی، حسن بن صباح نے مستنصر کے ہاتھ پر بیعت کی، مستنصر نے حسن بن صباح کو داعی الکبیر کا عہدہ عطا کرکے فارس و عراق کی طرف روانہ کیا کہ وہاں جا کر لوگوں کو میری امامت و خلافت کی دعوت دو۔

مستنصر عبیدی کے تین بیٹے تھے، احمد، نزار اور ابو القاسم۔ رخصت ہوتے وقت حسن بن صباح نے مستنصر سے دریافت کیا کہ آپ کے بعد میرا امام کون ہو گا؟ مستنصر نے جواب دیا کہ میرا بیٹا نزار تمہارا امام ہو گا، چنانچہ مستنصر نے نزار ہی کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا، مستنصر کی وفات کے بعد وزیر السلطنت اور مستنصر کی بہن نے سازش کر کے ابوالقاسم کو تخت سلطنت پر بٹھایا اور وہی مصر کا فرماں روا ہوا، مگر حسن بن صباح نے اس کی امامت کو تسلیم نہ کیا اور نزار ہی کو مستحق امامت مانتا رہا، اسی لیے حسن بن صباح کی جماعت کو نزاریہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حسن بن صباح مصر سے رخصت ہو کر ایشیائے کو چک اور موصل ہوتا ہوا خراسان پہنچا، یہاں علاقہ طالقان و کہستان کی حکومت پر جو گورنر مامور تھا، اس نے اپنی طرف سے قلعہ الموت کی حکومت ایک علوی کو سپرد کر رکھی تھی، حسن بن صباح اس علوی کے پاس پہنچا، اس نے حسن بن صباح کی بے حد تعظیم و تکریم کی اور اپنے پاس ٹھہرایا، حسن بن صباح ایک عزیز و مکرم مہمان کی حیثیت اور ایک عابد و زاہد باخدا انسان کی حالت میں عرصہ دارز تک قلعہ الموت (الموت میں الف اور لام دونوں مفتوح ہیں) میں مقیم رہ کر در پردہ اس قلعہ پر قبضہ کرنے کی تدبیروں میں مصروف رہا اور جب اس کی تدبیریں مکمل ہوگئیں تو علوی کو قلعہ سے نکال کر خود قلعہ پر قابض و متصرف ہو گیا۔

یہ زمانہ ملک شاہ سلجوقی کی حکومت کا تھا، ملک شاہ کے وزیر نظام الملک طوسی نے اس خبر کو سن کر ایک فوج حسن بن صباح کی سرکوبی اور قلعہ الموت کے محاصرہ پر روانہ کی، حسن بن صباح نے اپنے گروہ کے بہت سے آدمیوں کو فراہم کر کے کافی مضبوطی کرلی تھی، لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، ابھی یہ سلسلۂ جنگ جاری ہی تھا کہ حسن بن صباح نے باطنیہ کے ایک گروہ کو نظام الملک کے قتل پر مامور کیا، چنانچہ اس گروہ نے موقع پا کر نظام الملک کو قتل کردیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فوج جو نظام الملک نے بھیجی تھی واپس چلی گئی، اس کامیابی کے بعد حسن بن صباح اور اس کے دوستوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے اور بلا تامل ارد گرد کے علاقے پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔

انہی ایّام میں ایک شخص منور نامی جو سامانی خاندان سے تھا، کہستان کا گورنر یا ناظم تھا، اس کی ایک سلجوقی وائسرائے سے مخالفت ہو گئی، دونوں کی نزاع نے یہاں تک طول کھینچا کہ منور نے حسن بن صباح سے امداد طلب کی، حسن بن صباح نے بلا تامل اپنی فوج بھیج کر کہستان پر قبضہ کر لیا، اسی طرح رفتہ رفتہ حسن بن صباح کی طاقت و شوکت نے ترقی اختیار کی، ادھر ملک شاہ کی وفات کے بعد سلجوقی سرداروں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہو گیا، بجائے اس کے کہ وہ حسن بن صباح کا استیصال کرتے، اپنی خانہ جنگیوں میں اس سے مدد طلب کرنے لگے، اس طرح حسن بن صباح کی حکومت و سلطنت کا سکہ جم گیا، سلطان برکیارق نے اپنے بھائی محمد کے مقابلہ میں ان باطنیوں سے امداد طلب کر کے اور بھی زیادہ ان کی عظمت کو بڑھادیا، مگر چند ہی روز کے بعد سلطان برکیارق کو ان باطنیوں کے قتل عام کا حکم دینا پڑا۔

ادھر احمد بن عطاش نے قلعہ شاہ در پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کرلی تھی، آخر سلجوقیوں نے احمد بن عطاش اور اس کے ساتھیوں کو ہر طرف سے محاصرہ کرکے مجبور کردیا، بہت سے باطنیوں نے سلطان سلجوقی سے اس شرط پر امان کی درخواست کی کہ ہم سب حسن بن صباح کے پاس قلعہ الموت میں چلے جائیں گے اور نواح اصفہان کو بالکل خالی کردیں گے، چنانچہ ان کو اسی شرط پر حسن بن صباح کے پاس جانے کی اجازت دی گئی، احمد بن عطاش کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا اور اس کی کھال میں بھس بھرا گیا، اس کی بیوی نے خود کشی کر لی، اس طرح باطنیہ اصفہان کا تو خاتمہ ہو گیا، مگر حسن بن صباح کی طاقت و جمعیت میں خوب اضافہ ہو گیا، کیونکہ اب وہی تمام باطنیوں کا مرکز اور قبلہ توجہ رہ گیا تھا۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

جس زمانے میں اعظم قرمطی شام و مصر کی طرف مصروف تھا، اس زمانے میں معز عبیدی نے خطوط بھیج کر ابو طاہر کے بیٹوں کو جو جزیرہ اوال میں نظر بند تھے، ترغیب دی کہ تم اس وقت بحرین میں آ کر احساء پر قبضہ کر لو اور خود بادشاہ بن جاؤ اور ایک اعلان اپنی طرف سے ملک بحرین میں شائع کرادیا۔ کہ ہم نے اعظم کو معزول کر کے ابو طاہر کے بیٹوں کو بحرین کی حکومت عطا کر دی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابوطاہر کے بیٹوں نے آ کر احساء کو تاخت و تاراج کر ڈالا، یہ حال دیکھ کر بغداد کے خلیفہ طائع عباسی نے ابو طاہر کے بیٹوں کو خط لکھا کہ تم آپس میں فتنہ و فساد برپا نہ کرو اور ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور اس بغاوت سے باز رہو، مگر اس کا کوئی اثر ان پر نہ ہوا، آخر اعظم نے احساء کی طرف واپس آ کر سب کو درست کیا اور خلیفہ طائع عباسی کے فرستادوں نے آ کر ان میں مصالحت کرا دی۔

363ھ میں معز عبیدی کی فوجوں نے تمام ملک شام پر قبضہ کر لیا، اعظم قرمطی فوجیں مرتب کر کے ملک شام کی طرف آیا، تمام ملک شام سے عبیدی فوجوں کو شکست دے دے کر بھگا دیا اور مصر پر حملہ آور ہو کر بلبیس تک پہنچ گیا، معز عبیدی نے اعظم قرمطی کی فوج کے ایک بڑے حصے اور بعض عرب سرداروں کو لالچ دے کر اپنی طرف مائل کر لیا، اس لیے حسن اعظم کو شکست ہوئی اور وہ احساء کی طرف واپس چلا آیا اور شام پر عرب سرداروں کا قبصہ ہو گیا، دمشق پر بعض ترکی سردار قبضہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، معز عبیدی 365ھ میں خود دمشق کی طرف روانہ ہوا، اتفاقاً راستے ہی میں فوت ہو گیا، اعظم قرمطی نے 366ھ میں حملہ کر کے ملک شام کو پھر فتح کر لیا، اس حملہ میں افتگین نامی ترکی سردار اس کے ساتھ تھا، آخر عزیز عبیدی سے حدود مصر میں معرکہ آرائی کی نوبت آئی جیسا کہ پہلے عزیز عبیدی کے حالات میں بیان ہو چکا ہے۔

افتگین تو گرفتار ہوگیا اور اعظم اپنے دارالسلطنت احساء کی جانب چلا آیا، چونکہ اعظم نے خلافتِ عباسیہ کی اطاعت قبول کرلی تھی اور اس کو عبیدیین سے سخت نفرت تھی، اس لیے قرامطہ اس سے کبیدہ خاطر اور افسردہ دل رہتے تھے، ادھر عبیدیوں کی طرف سے قرامطہ کے عام لوگوں میں غیر محسوس طور پر اعظم کے خلاف تبلیغی سلسلہ جاری تھا، لہٰذا قرامطہ نے اعطم کے خلاف ایک بغاوت برپا کر دی، یہ بغاوت اس لیے زیادہ کامیاب ہو سکی کہ اعظم اپنے دارالسلطنت سے دور ملک شام میں زیادہ مصروف رہا، اگر وہ دارالسلطنت کو نہ چھوڑتا تو کوئی بغاوت اس کے خلاف کامیاب نہ ہو سکتی تھی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جب اعظم شام کی طرف سے واپس احساء میں آیا تو تمام اہل شہر کو اپنا مخالف و سرکش پایا، اس کی رکابی فوج بھی باغیوں میں شامل ہو گئی، انہوں نے اعظم کو گرفتار کر کے ابوسعید جنابی کے تمام خاندان کو حکومت و سلطنت سے محروم کرکے اپنے گروہ میں سے جعفر و اسحٰق دو شخصوں کو مشترکہ طور پر تخت حکومت پر بٹھا دیا اور اعظم اور اس کی اولاد اور رشتہ داروں کو جزیرہ ادال میں جلا وطن کر دیا، اس جزیرہ میں ابوطاہر کی اولاد پہلے سے بحالت جلا وطنی موجود تھی اور ان کی تعداد زیادہ تھی، انہوں نے ان نئے جلا وطنوں کو جزیرہ میں قدم رکھتے ہی حملہ کر کے قتل کر ڈالا۔

*جعفر و اسحاق:*

جعفر و اسحاق مل کر قرامطہ پر حکومت کرنے لگے اور انہوں نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی خلافتِ عباسیہ کی اطاعت سے منحرف ہوکر عبیدیین کی خلافت کو تسلیم کیا اور عبیدی بادشاہ کا خطبہ اپنے مقبوضہ ممالک میں جاری کیا، اس کے بعد انہوں نے کوفہ پر حملہ کیا اور قابض ہوگئے، صمصام الدولہ بن بویہ نے ایک فوج قرامطہ کی سرکوبی کے لیے کوفہ کی جانب روانہ کی، قرامطہ نے اس فوج کو شکست دے کر بھگا دیا اور قادسیہ تک اس کا تعاقب کیا، اس کے بعد جعفر واسحاق کے درمیان نااتفاقی پیدا ہوئی اور ہر ایک اس کوشش میں مصروف ہوا کہ اپنے حریف کو مٹا کر تنہا بادشاہت کرے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرامطہ کے گروہ میں اضمحلال و کمزوری کے آثار نمایاں ہو گئے، آخر دوسرے قرامطہ سردار بھی اپنی بادشاہت قائم کرنے کی فکر میں مصروف ہو گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اصغر بن ابوالحسن تغلبی بحرین پر اور بنی مکرم عمان پر قابض ہو گئے، انہوں نے خلافت عباسیہ کی اطاعت قبول کر لی اور تغلبی خاندان نے 375ھ تک بحرین سے قرامطہ کا نام و نشان مٹا دیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ قرامطہ، قسط: (03)*

*ابوطاہر قرامطی:*

ابوطاہر نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر 287ھ میں بصرہ پر حملہ کیا اور بصرہ کو اچھی طرح لوٹ مار سے پامال کرکے بحرین کی طرف واپس ہوا، اس خبر کو سن کر دارالخلافہ بغداد میں بڑی تشویش پیدا ہوئی ور خلیفہ مقتدر نے بصرہ کی شہر پناہ کے درست کرنے کا حکم دیا، ابوطاہر کامیابی کے ساتھ علاقہ بحرین میں حکومت کرتا رہا، اسی دوران اس نے عبیداللہ مہدی سے بھی خط و کتابت کی اور عبیداللہ مہدی نے اس کی حکومت و سلطنت کو بہ نظر اطمینان دیکھا، 311ھ میں ابوطاہر نے بصرہ پر دوبارہ حملہ کرکے اس کو ویران کر دیا، جامع مسجد بالکل منہدم کردی گئی، جو عرصہ تک مسمار پڑی رہی، بازاروں کو لوٹ کر خاک سیاہ کر دیا۔ (یہ قرامطی بہت ہی خبیث اور گمراہ تھے، بیت اللہ شریف کی بے حرمتی کی تو عام مساجد کا انہدام تو شاید ان کے نزدیک معمولی بات تھی۔)

*ابوطاہر کی غارتگری:*

312ھ میں ابوطاہر حاجیوں کے قافلے لوٹنے کے لیے نکلا، شاہی سپہ سالار ابوالہیحا بن حمدون کو جو قافلہ کے ہمراہ تھا، گرفتار کرلیا اور حاجیوں کو خوب لوٹا اور ہجر کی جانب واپس گیا، 314ھ میں ابوطاہر نے عراق کی طرف فوج کشی کی، کوفہ اور نواح کوفہ کو بصرہ کی مانند قتل و غارت سے تباہ و برباد کردیا، یہاں سے بحرین کی طرف واپس جا کر شہر احساء کی آبادی و تعمیر کا کام شروع کیا، اپنے اور اپنے ہمراہیوں کے لیے محلات و قصور تعمیر کرائے اور اس کو اپنا دارالسلطنت بنایا۔

315ھ میں ابوطاہر نے عمان پر حملہ کیا، حاکم عمان بھاگ کر بہ راہ دریا فارس چلا گیا اور ابوطاہر نے عمان کے صوبے کو اپنی مملکت میں شامل کیا، 316ھ میں اس نے شمال کی جانب حملہ آوری شروع کی، خلیفہ مقتدر عباسی نے آذر بائیجان سے یوسف بن ابی الساج کو طلب فرما کر واسط کی سند حکومت عطا کی اور ابوطاہر سے جنگ کرنے کا حکم دیا، کوفہ کے باہر یوسف اور ابوطاہر کا مقابلہ ہوا، سخت معرکہ آرائی کے بعد یوسف کی فوج کو شکست ہوئی اور یوسف کو ابوطاہر نے گرفتار کر لیا، بغداد میں اس خبر سے سخت پریشانی پیدا ہوئی، ابوطاہر کوفہ سے انبار کی جانب روانہ ہوا، دربار خلافت سے اس کی روک تھام کے لیے مونس خادم، مظفر اور ہارون وغیرہ سردار مامور ہوئے، مگر ابوطاہر کے مقابلے میں سب شکست کھا کر واپس بغداد آئے اور ابوطاہر رحبہ کی طرف بڑھا، رحبہ کو بھی خوب پامال و ویران کیا، اس کے بعد صوبہ جزیرہ کو متواتر اپنے حملوں سے پامال کرتا پھرا اور کوئی اس کو نہ روک سکا، اس کے بعد وہ جزیرہ کے اکثر قبائل پر خراج سالانہ مقرر کرکے احساء چلا گیا اور بہت سے لوگ قرمطی مذہب میں داخل ہو گئے۔

*مکہ معظمہ پر چڑھائی:*
 
317ھ میں ابو طاہر نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی، بہت سے حاجیوں کو قتل کیا اور مکہ کو خوب لوٹا، میزاب اور خانہ کعبہ کے دروازے کو اکھیڑ ڈالا، غلاف کعبہ اتار کر اپنے لشکر میں تقسیم کردیا اور حجر اسود کو نکال کر اپنے ساتھ ہجر کی طرف لے گیا اور چلتے وقت اعلان کر گیا کہ آئندہ حج ہمارے یہاں ہوا کرے گا، حجراسود کے واپس کرنے کے لیے لوگوں نے ابو طاہر سے بہت خط و کتابت کی اور بعض سرداروں نے پچاس ہزار دینار اس کے معاوضے میں دینے چاہے، مگر ابوطاہر نے اس کو واپس نہ کیا۔

ابو طاہر نے اس کے بعد مسلسل اپنی حملہ آوریوں کے سلسلے کو جاری رکھا اور عراق و شام کو اپنی تاخت و تاراج سے برباد کرتا رہا، یہاں تک کہ اہل دمشق پر بھی اس نے سالانہ ٹیکس مقرر کیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومتِ قرامطہ، قسط: (01)*

*قرامطہ بحرین:*

*یحییٰ بن فرج قرمط کے احوال:*

بحرین ایک ملک کا نام ہے، جس کے مشرق میں خلیج فارس، جنوب میں عمان، مغرب میں ملک یمامہ اور شمال میں صوبہ بصرہ ہے، اس ملک میں بحرین نام کا ایک شہر ہے، اسی شہر کے نام سے اس ملک کا نام بحرین مشہور ہوا، اس ملک میں ایک دوسرا شہر ہجر ہے، لہٰذا کبھی ملک بحرین کو ملک ہجر کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں، ایک تیسرا مشہور شہر اس ملک میں حضیریہ تھا، جس کو قرامطہ نے ویران کر کے اس کی جگہ احسا آباد کیا، چنانچہ اس ملک کا نام احساء بھی لیا جاتا ہے، شہر احساء ہی قرامطہ کا مرکز و منبع تھا، جیسا کہ آگے بیان ہوتا ہے، قرامطہ کا تذکرہ دوسری جلد میں مجمل طور پر بیان ہو چکا ہے۔

عبیدیین اور قرامطہ کا ظہور ایک ہی زمانے میں ہوا، دونوں شیعہ اسماعیلیہ اور بظاہر ایک ہی سے عقائد واعمال کے وارث تھے، 275ھ میں ایک شخص یحییٰ بن فرج مضافاتِ کوفہ میں ظاہر ہوا، وہ اپنے آپ کو قرمطہ کے نام سے موسوم کرتا اور کہتا تھا کہ میں مہدی موعود کا ایلچی ہوں، اپنے اوقات زیادہ تر زہد و عبادت میں بسر کرتا اور لذات دنیوی سے دور ومہجور رہتا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس کی طرف مائل ہونے لگے، وہ ہر ایک معتقد ومرید سے ایک دینار امام مہدی موعود کے لیے وصول کیا کرتا تھا، جب اس کے مریدین کی تعداد بڑھ گئی تو اس نے ان میں سے بعض کو اپنا نقیب مقرر کر کے ملک میں ادھر ادھر روانہ کیا کہ لوگوں کو اس کی طرف مائل و متوجہ کریں، گورنر کوفہ نے ان حالات سے مطلع ہو کر قرمطہ کو گرفتار کرکے قید کردیا، چند روز کے بعد محافظین کو غافل پا کر قرمطہ جیل خانے سے بھاگ گیا اور کسی کو پتہ نہ چلا کہ کہاں گیا اور کیا ہوا؟ اس طرح غائب ہو جانے سے اس کے مریدین و معتقدین اور بھی زیادہ اس کے قائل ہو گئے اور ان کو یقینِ کامل ہو گیا کہ وہ ضرور امام مہدی موعود کا ایلچی تھا۔

قرمطہ نے اپنے معتقدین کو جن عقائد واعمال کی تعلیم دی تھی، وہ بہت ہی عجیب و غریب تھے، نماز بھی اور ہی قسم کی تھی، روزے بھی رمضان کے نہیں، بلکہ سال کے خاص خاص مہینوں کے خاص خاص ایّام میں رکھے جاتے تھے، شراب کو اس نے حلال بتا کر نبیذ کو حرام ٹھہرایا تھا، غسلِ جنابت کے لیے صرف وضو کافی تھا، دمدار اور پانچ انگلیوں والے جانور حرام تھے، چند روز کے بعد یحییٰ بن فرج یعنی قرمطہ پھر نمودار ہوا اور اپنے آپ کو ’’قائم بالحق‘‘ کے لقب سے ملقب کرکے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے لگا۔

احمد بن محمد طائی والی کوفہ نے فوج لے کر اس پر حملہ کیا اور اس کی جمعیت کو منتشر وپریشان کر دیا، بعض قبائل عرب اس کے معتقد ہو گئے۔ اور 290ھ میں اس جماعت نے دمشق پر حملہ کیا، دمشق کے حاکم بلخ نے متعدد لڑائیوں کے بعد یحییٰ کو قتل اور اس کی جماعت کو منتشر کر دیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

مذکورہ سازش کے شرکاء کو جب صلاح الدینؒ نے قتل کیا تو ان سوڈانیوں نے جو پچاس ہزار کی تعداد میں تھے، صلاح الدینؒ اور ترکوں کی فوج کے خلاف ہتھیار سنبھال لئے، قصرِ سلطنت اور قصرِ وزارت کے درمیان ترکوں اور سوڈانیوں میں جنگ عظیم برپا ہوئی، ترک غالب ہوئے، سوڈانی بہت سے مقتول اور باقی مفرور ہوئے، ان کے گھروں کو ترکوں نے لوٹ لیا، صلاح الدین ایوبیؒ نے سوڈانیوں کو امن عطا کرکے ان کے گھروں میں آباد کرادیا، اس طرح سوڈانیوں کا زور بھی ٹوٹ گیا، اب سلطان العادل نے پھر صلاح الدینؒ کو لکھا کہ عاضد کے نام کا خطبہ موقوف کرکے خلیفۂ مستضیٔ عباسی کے نام کا خطبہ پڑھواؤ، یہ وہ زمانہ تھا کہ بادشاہ عاضد بیمار اور مرض الموت میں گرفتار تھا، چنانچہ اس حکم کی تعمیل محرم 567ھ کے پہلے جمعہ کو جامع مسجد قاہرہ کے ممبر پر بغداد کے عباسی خلیفہ کا خطبہ پڑھا گیا اور کسی شخص نے اس کو ناپسند نہ کیا، اگلے جمعہ کو صلاح الدینؒ کے گشتی فرمان کے موافق تمام ملک مصر کی مسجدوں میں خلیفہ بغداد کا خطبہ پڑھا گیا۔

*عاضد عبیدی کی وفات:*

اسی عرصہ میں 10 محرم 567ھ کو بادشاہ عاضد عبیدی نے وفات پائی، صلاح الدین ایوبیؒ نے قصر سلطانی کے تمام مال و اسباب کا جائزہ لیا، اس کے ساتھ ہی دولت عبیدیین کا خاتمہ ہو گیا اور ملک مصر پھر خلافت عباسیہ بغداد کی حدود میں داخل ہوا، صلاح الدین ایوبیؒ کے خلیفہ بغداد کی طرف سے حکومت مصر کی سند خطاب سلطانی اور خلعت و علم آ گیا اور دولت عبیدیین کے بعد مصر میں دولت ایوبیہ کی ابتداء ہوئی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

جب اس طرح عیسائیوں نے مصر میں اپنے قدم جما لیے تو انہوں نے سلطنتِ مصر کے کاموں میں دخل اندازی شروع کی، بلبیس کو عیسائی حکومت میں شامل کر لیا، پھر دارالسلطنت قاہرہ پر قبضہ کرنے پر آمادہ ہو گئے اور شاور کو اپنا طرف دار بنا کر عیسائی فوجیں بڑی تعداد میں بلوالیں اور بجائے ایک لاکھ دینار کے دو لاکھ دینار اور بمقدار کثیر غلہ کا مطالبہ کیا، عاضد عبیدی بادشاہ مصر کو یہ رنگ دیکھ کر بہت فکر ہوئی۔

*عاضد کی سلطان نورالدین زنگیؒ سے امداد طلبی:*

اس نے ایک قاصد سلطان نورالدین محمود علیہ الرحمہ کے پاس بھیجا اور درخواست کی کہ عیسائیوں کو جو مصر پر مستولی ہو گئے ہیں، خارج کرنے میں مدد کیجیے اور بلا توقف فوجیں بھیجئے، شاور کو جب یہ حال معلوم ہوا کہ عاضد نے سلطان نورالدین سے امداد طلب کی ہے تو اس نے عاضد کو سمجھانے اور اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ ترکوں کے مقابلے میں عیسائیوں کا باج گزار بن جانا اچھا ہے، مگر عاضد نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا، سلطان نورالدین محمود نے اپنے سپہ سالار شیرکوہ کو تیاری کا حکم دیا اور اس کے ساتھ اس کے بھتیجے صلاح الدین اور دوسرے سرداروں کو بھی روانہ کیا، چنانچہ اسدالدین شیر کوہ مع لشکر و سرداران فوج مصر کی جانب روانہ ہوا، ماہ جمادی الاول 564ھ میں قاہرہ کے قریب پہنچا، عیسائی لشکر یہ سنتے ہی قاہرہ سے فرار ہوا، شیرکوہ نے عیسائی لشکر گاہ کو لوٹا اور بادشاہ عاضد کی خدمت میں حاضر ہوا، عاضد نے شیر کوہ کو خلعت عطا کیا اور بڑی عزت کے ساتھ پیش آیا، شیرکوہ اور اس کے لشکر کو مہمان رکھا اور ایک روز موقع پا کر شیرکوہ سے کہا کہ شاور چونکہ عیسائیوں کا خیر خواہ اور ہمارا دشمن ہے اس کو قتل کر دو، چنانچہ شیرکوہ نے اپنے سرداروں کو شاور کے قتل کر دینے کا حکم دیا اور شاور کا سر اتار کر عاضد کی خدمت میں پیش کردیا گیا، عاضد نے شیر کوہ کو وزارت کا عہدہ دے کر ’’امیرالجیوش‘‘ اور ’’منصور‘‘ کا خطاب دیا۔

شیرکوہ کا تعلق سلطان نورالدین محمود سے بھی بدستور باقی تھا اور وہ سلطان نورالدین محمود کی اجازت ہی سے مصر میں بطور وزیراعظم کام کرتا تھا، چند ہی مہینے کے بعد 565ھ میں شیر کوہ کا انتقال ہو گیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*فائز بن ظافر عبیدی:*

صالح نے وزیر السلطنت ہو کر امور سلطنت کا بندوبست شروع کیا، اس کے بعد عیسائیوں سے خط و کتابت کر کے نصیر بن عباس کو زر معاوضہ دے کر حاصل کیا، جب نصیر کو عیسائیوں نے روپیہ لے کر قاہرہ پہنچادیا تو صالح نے اس کو قتل کرکے اس کی لاش کو منظر عام پر لٹکا دیا، صالح امامیہ (شیعہ) مذہب کا سختی سے پابند اور دولت عبیدیہ کا بڑا خیر خواہ تھا، اس نے نصیر کے قتل سے فارغ ہو کر ان سرکش سرداروں کی طرف توجہ مبذول کی جو مزاحمت و مخالفت کی جرأت رکھتے تھے، ان میں دو سردار خاص طور پر قابل توجہ تھے، ایک تاج الملوک قائماز دوسرا ابن غالب، ان دونوں کی گرفتاری پر صالح نے فوجوں اور سرداروں کو مامور کیا، یہ دونوں قبل از وقت واقف ہو کر مصر سے فرار ہو گئے، ان کے مکانات لوٹ لیے گئے، یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر دوسرے تمام سردار بھی سہم گئے اور اطاعت و فرماں برداری کی گردنیں سب نے جھکا دیں، صالح نے قصر سلطنت کے دربان، خدام اور تمام آدمی اپنے آوردے مقرر کیے اور پرانے آدمیوں کو ہٹا دیا، اس کے بعد تمام معاملات پر حاوی و مستولی ہونے کے بعد وہ قصر سلطانی کا قیمتی سامان بھی اپنے مکان میں لے آیا، فائز عبیدی کی پھوپھی نے صالح کے اقتدار کو حد سے زیادہ بڑھتا ہوا دیکھ کر صالح کی بیخ کنی اور قتل کی تدبیریں سوچنی ضروری سمجھیں۔

صالح کو اس کا حال معلوم ہو گیا، اس نے خود قصر سلطنت میں جا کر فائز کی پھوپھی کو قتل کرا دیا، جس سال فائز تخت حکومت پر بٹھایا گیا ہے اسی سال الملک العادل سلطان نور الدین محمود زنگی نے دمشق کو بنو تتش کے قبضے سے نکال لیا تھا اور عیسائیوں کی سزا دہی کی کوششوں میں مصروف تھا۔

*وفات:*

چھ مہینے کی برائے نام حکومت کے بعد بادشاہ فائز عبیدی نے 555ھ میں وفات پائی، وزیر السلطنت صالح بن زریک نے خدام کو حکم دیا کہ وہ خاندان سلطنت کے لڑکوں کو پیش کریں، تاکہ ان میں سے کسی ایک کو تخت سلطنت کے لیے منتخب کیا جائے، چنانچہ ابو محمد عبداللہ بن یوسف بن حافظ عبیدی کو تخت سلطنت پر بٹھا کر اس کا لقب ’’عاضد لدین اللہ‘‘ تجویز کیا، عاضد اس وقت سن بلوغ کے قریب پہنچ چکا تھا، عاضد کو تخت سلطنت پر بٹھا کر وزیر السلطنت صالح نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا۔

*عاضد بن یوسف عبیدی:*

عاضد چونکہ صالح کے ہاتھ میں تھا، عاضد برائے نام بادشاہ سمجھا جاتا تھا، حقیقتاً بادشاہی وزیر السلطنت صالح کے ہاتھ میں تھی، یہ بات امرائے سلطنت کو گراں گزرتی تھی، عاضد کی چھوٹی پھوپھی نے جو اپنی مقتول بہن کا انتقام صالح سے لینا چاہتی تھی، صالح کے قتل کا بیڑا اٹھایا، اس نے امرائے سوڈانیہ کو صالح کے قتل پر آمادہ کیا، چنانچہ ایک سردار نے موقع پا کر صالح پر نیزے کا وار کیا، وہ زخمی ہو کر گر پڑا اور اپنے مکان پر آ کر تھوڑی دیر کے بعد مر گیا، مرنے سے پہلے عاضد عبیدی کو وصیت کر گیا کہ میرے بیٹے زریک کو وزیر السلطنت بنانا، چنانچہ عاضد نے صالح کے بیٹے کو قلمدان وزارت سپرد کرکے ’’عادل‘‘ کا خطاب دیا، عادل نے وزیر ہو کر عاضد کی اجازت سے اپنے باپ کے قصاص میں عاضد کی پھوپھی اور سوڈانی سردار کو قتل کیا، اس کے بعد عادل امور سلطنت کی انجام دہی میں مصروف ہوا، اس نے صعید کے والی شاور سعدی کو معزول کرکے اس کی جگہ امیر بن رقعہ کو صعید کا والی مقرر کیا، شاور یہ خبر سن کر مقابلہ پر مستعد ہو گیا اور فوراً فوجیں لے کر قاہرہ کی طرف چل دیا، عادل اس کے مقابلے کی تاب نہ لا سکا اور قاہرہ سے نکل بھاگا، شاور 558ھ میں مظفر و منصور قاہرہ کے اندر داخل ہوا، زریک عادل گرفتار ہو کر آیا اور ایک سالہ وزارت کے بعد مقتول ہوا، شاور آتے ہی دار الوزارت پر قابض و متصرف ہوا، عاضد نے اس کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ عطا کردیا، نو مہینے کے بعد ضرغام نامی ایک شخص نے جو محل سرائے کا داروغہ تھا، قوت پا کر شاور کو قاہرہ سے نکال دیا اور خود دارالوزارت پر قابض ہو گیا، شاور مصر سے نکل کر شام کی طرف روانہ ہوا، ضرغام نے شاور کے بیٹے علی کو جو قاہرہ میں تھا، گرفتار کر کے قتل کر دیا اور بہت سے امیروں کو جن سے اس کو مخالفت کا اندیشہ تھا قتل کیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

*عہدِ حکومت عبیدیین، قسط: (11)*

*ابوعلی آمر عبیدی:*

ابوعلی کی تخت نشینی کے بعد مہمات سلطنت تمام و کمال وزیر السلطنت کے ہاتھ میں آ گئے، اگرچہ پہلے بھی وہ سیاہ و سفید کا مختار تھا اور مستعلی اس کے خلاف کچھ نہ کرتا تھا، 496ھ میں وزیرالسلطنت نے فوجیں آراستہ کرکے اپنے باپ بدر جمالی کے غلام سعدالدولہ کی سرداری میں عیسائیوں کے مقابلہ کو روانہ کیں، مقام رملہ اور یافہ کے درمیان جنگ ہوئی، مصری فوجیں شکست کھا کر بھاگیں اور عیسائیوں نے مصریوں کے لشکر گاہ کو لوٹ لیا اور بہت سوں کو گرفتار کیا وزیرالسلطنت کو یہ حال معلوم ہوا تو اس نے اپنے بیٹے شرف المعالی کو ایک نہایت زبردست فوج دے کر روانہ کیا، رملہ کے قریب لڑائی ہوئی، اس معرکہ میں عیسائیوں کو شکست ہوئی، شرف المعالی نے بڑھ کر رملہ کا محاصرہ کرلیا، پندرہ یوم کے محاصرہ کے بعد رملہ فتح ہوا۔ چار سو عیسائی مقتول اور تین سو گرفتار ہوئے، عیسائی سردار رملہ سے یافہ چلا گیا اور بیت المقدس کی زیارت کے لئے جو عیسائی یورپ سے ابھی آئے تھے، ان کو ہمراہ لے کر شرف الملک کی طرف بڑھا، شرف الملک عیسائیوں کے حملہ کی خبر سن کر بلا جنگ مصر کی طرف چلا گیا، عیسائیوں نے آگے بڑھ کر عسقلان پر بلا مقابلہ و مقاتلہ قبضہ کر لیا، اس کے بعد مصری فوج نے پھر حملہ کیا اور عسقلان کو عیسائیوں سے چھین لیا، یہ ذی الحجہ 496ھ کا واقعہ ہے۔

اس کے بعد 498ھ میں پھر ایک مرتبہ مصری فوجیوں نے عیسائیوں پر حملہ کیا اور دمشق کی ترکی فوج نے بھی مصری فوج کا ساتھ دیا، مگر اس لڑائی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ساحل شام کے شہروں میں طرابلس، صور، صیدا اور بیروت مصری حکومت کے ماتحت تھے، 503ھ میں عیسائیوں کے جنگی بیڑے آئے اور انہوں نے ان تمام شہروں کو یکے بعد دیگرے فتح کرکے تمام ساحل شام پر اپنے قبضہ کو مکمل کرلیا، عیسائیوں نے بیت المقدس کو فتح کرکے وہاں اپنا ایک بادشاہ مقرر کیا اور ملک شام کا جس قدر علاقہ انہوں نے فتح کرلیا تھا، وہ سب بیت المقدس کی اس عیسائی سلطنت میں شامل ہوا، اس طرح ملک شام کے اندر ایک چھوٹی سی عیسائی سلطنت قائم ہو گئی تھی اور وہ اس لئے بہت زبردست تھی کہ اس کو مسلسل براعظم یورپ کے ملکوں سے فوجی و مالی امداد پہنچتی رہتی تھی، ان عیسائیوں کے مقابلے میں مصر کی سلطنت عبیدی سے کچھ نہ ہو سکا۔

حالانکہ عیسائیوں نے زیادہ تر انہی شہروں اور اسی حصہ ملک پر قبضہ کیا تھا جو سلطنت مصر کے قبضے میں تھا، دمشق کو جو سلجوقی سرداروں کی حکومت میں تھا، عیسائی فتح نہ کر سکے اور نہ ان کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ ملک شام کے مشرقی حصے کی طمع کریں، سلجوقی سردار اور سلجوقی سلاطین اس زمانے میں خانہ جنگیوں میں مصروف تھے، اگر وہ اپنی خانہ جنگیوں کو ملتوی کر کے عیسائیوں کی طرف متوجہ ہو جاتے تو بڑی آسانی سے ان کو مار کر نکال دیتے اور بیت المقدس میں ان کے قدم نہ جمنے دیتے، بہرحال! عیسائیوں کی سلطنت یا ریاست شام کے مغربی ساحل پر اس لئے قائم ہو سکی کہ سلجوقی امراء آپس میں لڑ رہے تھے اور مصر کی دولتِ عبیدیہ نے اپنی کمزوری اور ناعاقبت اندیشی سے عیسائیوں کو چیرہ دستی کا موقع دیا۔

515ھ میں آمر عبیدی نے وزیرالسلطنت کے بڑھے ہوئے اقتدار کو ناپسند کرکے اسے دھوکے سے قتل کر دیا اور ایک دوسرا وزیر مقرر کرکے اس کو جلال الاسلام کا خطاب دیا، چار سال کے بعد جلال الاسلام سے بھی ناراض ہوا اور 519ھ میں جلال الاسلام، اس کے بھائی مؤتمن اور اس کے ہوا خواہ نجیب الدولہ کو بھی قتل کر دیا۔

*آمر عبیدی کا قتل:*

آخر 524ھ میں قرامطہ یا خودکش حملہ آوروں کے ایک گروہ نے سواری کے وقت حملہ کر کے آمرعبیدی کو قتل کر دیا، چونکہ اس نے کوئی بیٹا نہ چھوڑا تھا، اس لئے اس کے چچا زاد بھائی عبدالمجید نے تخت نشین ہوکر اپنا لقب ’’حافظ لدین اللہ‘‘ رکھا، لوگوں نے حافظ لدین اللہ کے ہاتھوں پر اس شرط کے ساتھ بیعت کی کہ آمر کی حاملہ بیوی کے پیٹ سے اگر لڑکا پیدا ہوا تو وہ مستحق حکومت سمجھا جائے گا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Читать полностью…
Subscribe to a channel