tarikheislamurdu | Unsorted

Telegram-канал tarikheislamurdu - تاریخ اسلام(اردو)

720

یہ چینل ہماری نوجوان نسل کو اپنے آباء کی سنہری تاریخ سے روشناس کرانے کے لئے بنایا گیا ہے، لہذا اسے آپ خود بھی مطالعہ کیجئے اور دوسروں کے ساتھ شیر بھی کیجئے ۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا

Subscribe to a channel

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 82

حضرت ذکوان بن عبد قیس رضی اللہ عنہ:

حضرت ذکوان بن عبد قیس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی تھے، انصار میں وہ سب سے پہلے شخص ہیں، جو اسلام لائے تھے۔

نام و نسب:

ذکوان بن عبد قیس بن خلدہ بن مخلد بن عامر بن رزیق انصاری، زرقی، ذکوان بن عبید بھی انہی کا نام ہے۔ کنیت: آپ کی کنیت ابو سعد ہے۔

قبولیتِ اسلام:

حضرت ذکوان بن عبد قیس رضی اللہ عنہ اور حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ اکھٹے مکہ جا رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ کے متعلق سنا، آستانۂ نبوت پر حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا اور پھر مدینہ واپس آ گئے۔

روایت ہے کہ دونوں بیعتِ عَقَبہ اولیُ اور بیعتِ عَقَبہ ثانیہ پر حاضر ہوئے تھے اور دیگر صحابہ کے ساتھ مدینہ نہیں گئے اور مکہ میں ہی ٹھہر گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی، اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو مہاجر اور انصاری کہا جاتا ہے۔

غَزَوات میں شرکت:

آپ رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک اور غزوۂ احد میں مرتبۂ شہادت پر فائز المرام ہوئے، ابو الحکم بن اخنس بن شریق نے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوکر آپ کو شہید کیا تھا، یہ منظر دیکھ کر سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر وار کیا، یہ گھوڑے پر سوار تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تلوار اس کی ٹانگ پر لگی اور نصف ران سے اس کی ٹانگ کاٹ کر الگ کردی اور اسے گھوڑے سے گرا لیا اور اسے قتل کرکے جہنم رسید کیا۔

شہادت:

حضرت ذکوان بن عبد قیس رضی اللہ عنہ، ابو الحکم بن اخنس ثقفی کے ہاتھوں شہید ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر ابو الحکم بن اخنس ثقفی پر حملہ کیا اور اس کی آدھی ران کاٹ دی تھی اور پھر گھوڑے سے گرا کر ہلاک کر دیا تھا۔ (مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈیا، مصنف: مرحوم سید قاسم محمود، ص: 885)

============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 81

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: رافع، کنیت: ابو عبد اللہ، قبیلۂ اوس سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے: رافع بن خدیج بن رافع بن عدی بن زید جشم بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمر وبن مالک بن اوس، والدہ کا نام حلیمہ بنت عروہ بن مسعود بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ ہے۔

قبیلۂ اوس میں عبدالاشہل اور حارثہ دو برابر کی طاقتیں تھیں، ان میں جنگ و جدل کا بازار گرم رہتا تھا، اسید بن حضیر کے دادا اسماک بن رافع کو انہی لوگوں نے ایک معرکہ میں قتل کیا تھا اور ان کے خاندان کو شہر بدر کردیا تھا، حضیر بن سماک نے بنو حارثہ کا محاصرہ کرکے اپنے باپ کا انتقام لیا اور ان کو شکست دے کر خیبر میں جلا وطن کردیا، بنو حارثہ ایک سال تک خیبر میں سکونت پزیر رہے۔

اس کے بعد حضیر کو رحم آیا اور مدینہ میں بود و باش کرنے کی اجازت دی۔ حضرت رافع رضی اللہ عنہ کے آبا واجداد بنو حارثہ کے رئیس اور سردار تھے، باپ اور چچا کے بعد یہ مسند حضرت رافع رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی اور وہ تمام عمر اس پر متمکن رہے، ہجرت کے وقت صغیر السن تھے۔

غَزَوات میں شرکت:

غزوۂ بدر میں 14 سال عمر تھی، آنحضرت ﷺ کے سامنے لڑائی میں شریک ہونے کے ارادہ سے حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے کمسن خیال کرکے واپس کیا، آنحضرت ﷺ کے سامنے انصار کے لڑکے ہر سال پیش ہوتے تھے، چنانچہ دوسرے سال حضرت رافع رضی اللہ عنہ بھی پیش ہوئے، اس وقت وہ پندرہ سال کے تھے، اس لیے شرکت کی اجازت مل گئی تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

ایک اور صحابی حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بھی لڑکوں کی جماعت میں تھے، ان کو آنحضرت ﷺ نے صغر سنی کی وجہ سے شامل نہیں فرمایا تھا، بولے کہ آپ ﷺ نے رافع کو اجازت دیدی اور مجھ کو چھوڑ دیا، حالانکہ میں کُشتی میں ان کو پچھاڑ دوں گا، آنحضرت ﷺ نے مقابلہ کرایا، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ دیکھنے میں چھوٹے تھے، لیکن طاقتور تھے، حضرت رافع رضی اللہ عنہ کو پچھاڑ دیا، اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان کو بھی میدان جنگ میں جانے کی اجازت دیدی۔ (اسد الغابہ: 2/354)

یہ روایت طبری میں ہے، اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے، لیکن ان میں رافع کے نام کی تصریح نہیں۔
(تاریخ طبری: 3/1392)

اس غزوہ میں ان کے سینہ پر ایک تیر لگا جو ہڈیوں کو توڑ کر اند گھس گیا، لوگوں نے کھینچا تو نوک اندر رہ گئی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری نسبت قیامت میں شہادت دوں گا۔ غزوۂ خندق اور اکثر معرکوں میں شامل رہے، جنگِ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔

وفات:

وفات کے وقت 86 برس کی عمر تھی، تیر کی نوک جو اندر رہ گئی تھی ایک عرصہ کے بعد اس نے زخم پیدا کردیا اور اسی تکلیف سے جان بحق تسلیم ہوئے، نہلانے میں عصر کا وقت آگیا، حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ مغرب سے پیشتر نماز جنازہ پڑھ لینی چاہیے، جنازہ کفنا کر باہر لایا گیا اور اس پر سرخ چادر ڈالی گئی۔ (مسند ابن حنبل: ۴/۱۴۱)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ کے ساتھ آدمیوں کی بڑی کثرت تھی، سن وفات میں اختلاف ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخِ اوسط میں لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں انتقال کیا، باقی مؤرخین کی رائے ہے کہ 74ھ کی ابتداء تھی اور عبدالمالک بن مروان کی خلافت تھی۔

ترکہ:

ترکہ میں حسب ذیل چیزیں چھوڑیں: لونڈی، غلام، اونٹ، زمین۔
(مسند بن حنبل: 4/141)

حلیہ:

مفصل حالات معلوم نہیں، اتنا علم ہے کہ مونچھ باریک رکھتے تھے اور زرد خضاب لگاتے تھے۔

اہل و عیال:

حسب ذیل اولاد چھوڑی، عبد اللہ، رفاعہ، عبدالرحمن، عبید اللہ، سہل، عبید، ان میں اول الذکر اپنی مسجد کے امام تھے، عبید ام ولد سے تولد ہوئے تھے، باقی لڑکے دو بیویوں سے پیدا ہوئے، جن کے نام یہ ہیں: لبنی بنت قرۃ بن علقمہ بن علاثہ، اسماء بنت زیاد بن طرفہ بن معاذ بن حارث بن مالک بن نمر بن قاسط بن ربیعہ، ان لوگوں کی اولاد مدینہ اور بغداد میں سکونت پزیر تھی۔

فضل وکمال:

حدیث کی کتابوں میں ان کے سلسلہ سے 78 روایتیں منقول ہیں، راویوں میں صحابہ اور تابعین دونوں گروہ کے لوگ شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں، حضرت ابن عمرؓ، محمود بن لبید، سائب بن یزید، اسید بن ظہیر، مجاہد، عطار، شعبی، عبایہ بن رفاعہ، عمرہ بنت عبد الرحمن، سعید بن مسیب، نافع بن جبیر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابو النجاشی ،سلیمان بن یسار، عیسیٰ ،عثمان بن سہل، ہریر بن عبد الرحمن، یحییٰ بن اسحاق، ثابت بن انس بن ظہیر، حنظلہ بن قیس، نافع، واسع بن حبان، محمد بن یحییٰ بن حبان، عبید اللہ بن عمرو بن عثمان۔

اخلاق:

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 79

حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: رفاعہ، والد کا نام: رافع، قبیلہ خزرج سے تعلق ہے۔

قبولیتِ اسلام:

حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ، قبیلہ خزرج کے سب سے پہلے مسلمان تھے، بیعتِ عقبہ سے دو سال پہلے 5،6 آدمیوں کے ہمراہ مکہ جاکر آنحضرت ﷺ سے بیعت کی تھی، ماں بھی مسلمان ہوچکی تھیں، ان کا اخیافی بھائی عبداللہ بن ابی کفر و نفاق کا مرجع تھا، لیکن بہن صداقت و راستی کا سراج منیر بنی ہوئی تھیں، حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ اسی مبارک خاندان میں پلے تھے، عقبہ ثانیہ میں اپنے والد کے ساتھ مکہ جاکر آنحضرت ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور دولتِ ایمان سے بہرہ یاب ہوکر مدینہ واپس ہوئے۔

غَزَوَات میں شرکت:

تمام غزوات میں شرکت کی، غزوہ بدر میں اپنے والد حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ اور دو بھائیوں حضرت خلاد بن رافع اور مالک بن رافع رضی اللہ عنہم کے ساتھ شریک تھے، واقعہ جمل اور صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں جنگِ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی، مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعابِ دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔ (زاد المعاد، غزوۂ بدر)

وفات:

41ھ یا 42ھ میں وفات پائی، یہ امیرالمؤمنین سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کا ابتدائی زمانہ تھا۔(اسد الغابہ، مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير الناشر: دار الفكر بيروت)

اولاد:

دو لڑکے چھوڑے حضرت معاذ اور حضرت عبید

فضل وکمال:

حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں، صحیحین میں چند احادیث ہیں، جن میں سے 3 میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ منفرد ہیں، حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کے ماسو احضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابیٔ رسول ﷺ سیدنا حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث سنی تھی، راویوں میں یحییٰ بن خالد (برادر زادہ علی بن یحیییٰ معاذ اور عبید (بیٹے) ہیں۔ (اصحاب بدر، صفحہ: 207، قاضی محمد سلیمان منصور پوری۔)

============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 78

حضرت زاہر بن حرام الاشجعی رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: زاہر، والد کا نام حرام تھا، قبیلہ بنی اشجع سے نسبی تعلق تھا، حجازی بادیہ نشین تھے، آخری عمر میں کوفہ میں جاکر آباد ہوگئے تھے۔

قبولیتِ اسلام:

ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے، قبول اسلام کے بعد غزوۂ بدرِ عظمیٰ میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔ (اسد الغابہ: جلد: 2، صفحہ: 193)

رسول اللہ ﷺ سے محبت:

صحابیٔ رسول ﷺ حضرت زاہر بن حرام الاشجعی رضی اللہ عنہ شہر سے باہر رہنے والے تھے، آنحضرت ﷺ کے لیے بطور ہدیہ شہر کے باہر سے کچھ لایا کرتے تھے، (یعنی ایسی چیزیں جو شہر سے باہر جنگل میں پیدا ہوتی ہیں جیسے ساگ، سبزی، لکڑی اور پھول پھل وغیرہ)

اور جب وہ مدینہ سے باہر اپنی جائے سکونت کو جانے لگتے تو رسول اللہ ﷺ اس کے ساتھ کچھ شہر کا سامان کردیا کرتے تھے آنحضرت ﷺ ان کے بارے میں فرماتے تھے کہ: ”زاہر ہمارا دیہاتی دوست ہے کہ وہ ہمارے لیے باہر کی چیزیں لاتا ہے اور ہم اس کے شہر کے دوست ہیں کہ ہم اس کو شہر کی چیزیں دیتے ہیں۔“

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زاہر الاشجعی رضی اللہ عنہ سے بہت محبت وتعلق رکھتے تھے، ویسے کم صورت شخص تھے، ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بازار میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ اپنا سودا سلف بیچ رہے ہیں، آپ ﷺ نے پیچھے سے ان کی اس طرح کولی بھرلی کہ وہ آپ ﷺ کو دیکھ نہیں سکتے تھے، (یعنی آپ ﷺ نے ان کی بیخبری میں ان کے پیچھے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ ان کی دونوں بغلوں کے نیچے سے نکال کر ان کی آنکھیں چھپالیں، تاکہ وہ پہچان نہ سکے)

حضرت زاہر الاشجعی رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے چھوڑ دو! یہ شخص کون ہے؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے کوشش کرکے کن انکھیوں سے دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لیا، پھر وہ آپ ﷺ کو پہچاننے کے بعد اپنی پیٹھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک سے چمٹانے کی پوری کوشش کرنے لگا، تاکہ زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کرے۔

ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آواز لگانی شروع کردی کہ: کون شخص ہے جو اس غلام کو خریدے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! آپ مجھ کو ناکارہ پائیں گے (یعنی بالکل سستا اور بے کار مال) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: لیکن تم اللہ کے نزدیک ناکارہ نہیں ہو۔ (شرح السنہ)۔

حلیہ:

حضرت زاہر الاشجعی رضی اللہ عنہ کو حسنِ ظاہری سے کوئی حصہ نہ ملا تھا، بہت کم رو صورت تھے، لیکن اس روئے زیبا کے لیے ظاہری خد و خال اور آب ورنگ کی کیا ضرورت تھی، جو رسول اللہ ﷺ کو محبوب تھا۔ (اصحاب بدر، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، صفحہ: 87)

=============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 76

حضرت خُنَیس بن حُذافہ رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: خنیس، کنیت: ابوحذیفہ، مکمل نسب اس طرح ہے: خنیس بن حذافہ بن قیس بن عدی بن سعد بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوئی قرشی۔

پہلے حبشہ میں ہجرت کی، بعد میں مدینہ ہجرت کی، یہ ان اصحاب رسول ﷺ میں شمار ہوتے ہیں کہ ابھی رسول اللہ ﷺ دارِ ارقم میں بھی نہیں گئے تھے اور یہ مسلمان ہوئے، ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا پہلے ان ہی کی زوجیت میں تھیں، ان کے انتقال کے بعد ام المومنین کے زمرہ میں شامل ہوئیں۔ (الطبقات الكبرىٰ)

قبولیتِ اسلام اور ہجرت:

اللّٰہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دارِ ارقم میں پناہ گزین ہونے سے پہلے آپ ﷺ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے اور ہجرتِ ثانیہ میں حبشہ گئے اور پھر وہاں سے مدینہ آئے اور حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے مہمان ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں اور حضرت ابی عبس بن جبیر رضی اللہ عنہ میں مواخاۃ کرا دی۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد: 8،صفحہ: 506)

غَزَوات میں شرکت اور شہادت:

کفر واسلام کے مابین سب سے پہلی لڑی جانے والی فیصلہ کن جنگ غزوہ بدر میں شریک ہوئے، اس کے بعد غزوۂ احد میں زخمی ہوئے، مدینہ منورہ آکر اس زخم کی وجہ سے 3ھ میں شہادت پائی۔

آنحضرت ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیے گئے، وفات کے وقت کوئی اولاد نہ تھی۔ ان کی وفات کے بعد ام المؤمنین سیدہ حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما حضور انور ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ (اصحاب بدر، صفحہ: 86، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور)

=============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 74

حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

نام: خلاد، کنیت: ابو یحیٰ، سلسلۂ نسب یہ ہے: رفاعہ بن رافع بن مالک بن العجلان بن عمرو بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن غضب بن حشم بن خزرج، والدہ کا نام ام مالک بنت ابی بن سلول تھا، بنو حبلی سے تھیں اور عبداللہ بن ابی راس المنافقین کے یہ نواسے تھے۔ ام رافع سے نکاح ہوا تھا۔

قبولیتِ اسلام:

حضرت خلاد رضی اللہ عنہ کے والد حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ، قبیلہ خزرج کے سب سے پہلے مسلمان تھے بیعتِ عقبہ سے دو سال پہلے پانچ چھ آدمیوں کے ہمراہ مکہ جاکر آنحضرت ﷺ سے بیعت کی تھی، ماں بھی مسلمان ہوچکی تھیں، ان کا اخیافی بھائی عبداللہ بن ابی کفر و نفاق کا مرجع تھا، لیکن بہن صداقت و راستی کا سراج منیر بنی ہوئی تھیں، خلاد اسی مبارک خاندان میں پلے تھے۔

صحیح بخاری و مسلم میں حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ کا قصہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ: حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ نے نماز میں رکوع سجدہ اچھی طرح نہیں کیا تھا، اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت خلاد رضی اللہ عنہ سے کہا تو پھر نماز پڑھ، کیونکہ تونے نماز نہیں پڑھی۔ ابن کلبی کی روایت میں ہے کہ یہ شہدائے بدر میں شامل ہیں۔ (الاصابة فی تمییز الصحابہ)

غَزَوات میں شرکت:

تمام غزوات میں شرکت کی، بدر میں اپنے والد حضرت رافع بن مالک اور دو بھائیوں رفاعہ بن رافع اور مالک بن رافع رضی اللہ عنہم کے ساتھ شریک تھے، غزوہ بدر میں ان کا اونٹ کمزور تھا رسول اللہ ﷺ نے اس پر دم کر کے پانی ڈالا تو وہ سب سے تیز ہو گیا۔

وفات:

ان کی وفات عہدِ خلافتِ اموی میں ہوئی۔ (اسد الغابہ ،مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير)

=============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے حضرت امیمہؓ یا ہمینہ بنت خلف کے بطن سے دو اولادیں ہوئیں، سعید اور ام خالد، سعید حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی زندگی میں شہید ہوگئے تھے، ام خالد حضرت زبیرؓ بن عوام سے بیاہی تھیں، خاتم نبوی ﷺ حضرت خالدؓ کی انگوٹھی کا نقش بھی محمد ﷺ تھا، یہ انگوٹھی آنحضرت ﷺ نے ان سے لے لی تھی، جو ہمیشہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں رہی۔(استیعاب: 1/155)

فضل وکمال:

عرب کے عام دستور کے خلاف ان کو لکھنے پڑھنے میں مہارت حاصل تھی، چنانچہ یمن والوں کو جو امان نامہ آنحضرت ﷺ نے دیا تھا، اس کی کتابت ان ہی نے کی تھی، جوکہ ان کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ (ابوداؤد: 2/25)

===========> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 72

حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

نام: خالدؓ، کنیت: ابو سعید، سلسلہ نسب یہ ہے: خالدبن سعید بن العاص بن امیہ ابن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی قرشی اموی، نانہالی تعلق ثقیف سے تھا۔ (الاصابہ: 6/132)

قبولیتِ اسلام:

حضرت خالد رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب بزرگوں میں سے ہیں جو اس وقت مشرف باسلام ہوئے، جب چند بندگانِ خدا کے سوا ساری دنیا توحید کی آواز سے نا آشنا تھی، ان ہی کے اسلام سے ان کے گھر میں اسلام کی روشنی پھیلی، ان کے اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ دعوتِ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں انہوں نے خواب دیکھا کہ یہ ایک آتشیں غار کے کنارے کھڑے ہیں اور ان کے والد ان کو اس میں دھکیل رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ گلا پکڑے ہوئے روک رہے ہیں۔

اس خوابِ پریشان نے آنکھ کھول دی، گھبراکر اُٹھ بیٹھے اور بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی قسم! یہ خواب حقیقت ہے، اور اس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مشرف باسلام ہوگے، اس لیے میں تم کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم فوراً حلقہ بگوشِ اسلام ہوجاؤ اور تمہارے والد اس آتشیں غار میں گریں گے، لیکن تم کو اسلام اس میں گرنے سے بچالے گا۔

چنانچہ حضرت خالدؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا: آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلا شرکتِ غیر، اللہ واحد کی بندگی کرو، مجھ کو اس کا بندہ اور رسول مانو اور ان پتھروں کے (بتوں) کی پوجا چھوڑدو، جو تمہارے نفع اور نقصان کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے، حتی کہ اس سے بھی لا علم ہیں کہ ان کی پرستش کے دعویداروں میں کون ان کی پرستش کرتا ہے اورکون نہیں کرتا، یہ تعلیمات سن کر دل کے ساتھ زبان نے بھی اللہ کی وحدانیت اور آپ ﷺ کی رسالت کی تصدیق کردی۔ (مستدرک حاکم: 3/248)

آزمائش اور استقامت:

اسلام قبول کرنے کے بعد گھر والوں سے چھپ کر آنحضرت ﷺ کے ساتھ دعوتِ اسلام میں مصروف ہوگئے، والد کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کے بھائیوں کو پکڑنے کے لیے بھیجا، وہ ان کو گرفتار کرکے لے گئے، پہلے اسلام چھوڑنے کامطالبہ ہوا، یہاں جواب صاف تھا کہ جان جائے لیکن محمد ﷺ کا مذہب نہیں چھوڑ سکتا، اس جواب پر پہلے زجر و توبیخ شروع ہوئی، جب یہ بےاثر ثابت ہوئی تو زدوکوب کی نوبت آئی اور اس بےدردی سے مارے گئے کہ سر پر پڑتے پڑتے لکڑی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔

جب مارتے مارتے تھک گئے تو پھر باز پرس شروع ہوئی کہ تم نے محمد ﷺ کی حرکتوں کو جانتے ہوئے ان کا ساتھ کیوں دیا؟ تم آنکھوں سے دیکھتے ہوکہ وہ پوری قوم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے معبودوں اور ان کے آباو اجداد کو برا بھلا کہتے ہیں اور اس میں تم بھی ان کی ہمنوائی کرتے ہو، مگر اس مار کے بعد بھی اس بادۂ حق کے سرشار کی زبان سے نکلا کہ خداکی قسم! وہ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور اس میں میں ان کے ساتھ ہوں، جب سنگدل باپ ہر طرح سے تھک چکا تو عاجز ہوکر قید کرکے کھانا پینا بند کردیا اور لوگوں کو منع کردیا کہ کوئی شخص ان سے گفتگو نہ کرے، چنانچہ یہ کئی دن تک بے آب ودانہ تنہائی کی قید جھیلتے رہے، چوتھے دن موقع پاکر بھاگ نکلے اور اطرافِ مکہ میں روپوش ہوگئے۔ (طبقاتِ ابن سعد: جز: 4، قسم 1:68، واستیعاب:1/155)

ہجرتِ حبشہ:

جب مسلمانوں کا دوسرا قافلہ حبشہ جانے لگا تو یہ بھی اپنی اہلیہ حضرت امیمہ یا ہمینہ رضی اللہ عنہا اور بھائی حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر حبشہ چلے گئے، یہیں ان کے صاحبزادہ سعید اور صاحبزادی ام خالد پیدا ہوئیں۔ (اسدالغابہ:2/91)

ہجرتِ مدینہ اور غزوات میں شرکت:

غزوۂ خیبر کے زمانہ میں حبشہ سے مدینہ آئے، اگرچہ آپؓ اس میں شریک نہیں ہوئے تھے؛ لیکن آنحضرت ﷺ نے مالِ غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایا، اس کے بعد عمرۃ القضا، فتحِ مکہ، حنین، طائف اور تبوک وغیرہ سب میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ (الاستیعاب: 1/154)

 ابتدائی غزوات بدر و احد وغیرہ میں شریک نہیں ہوسکے تھے، اس محرومی پر ہمیشہ متأسف رہے، آنحضرت ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ بدرکے شرف سے محروم رہے، آپ ﷺ نے جواب دیا کہ کیا تم کو یہ پسند نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک ہجرت کا شرف حاصل ہو اور تم کو دو کا؟ (ابن سعد: جز: 4، ق 1:72)

مدینہ میں قیام:

مدینہ آنے کے بعد سے آنحضرت ﷺ نے مراسلات کا عہدہ ان کے متعلق کردیا تھا اور وہ تحریری نامہ وپیام کی خدمت انجام دیتے تھے، 9ھ میں بنوثقیف کا جو وفد آیا تھا، اس کے اور آنحضرت ﷺ کے درمیان میں گفتگو کی خدمت ان ہی نے انجام دی تھی اور وفد کے مشرف باسلام ہونے کے بعد معاہدہ بھی ان ہی نے تحریر کیا تھا۔

یمن کی گورنری:

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 71

حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

حنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی۔
بڑے مشہور و معروف جلیل القدر صحابی ہیں، ایک موقع پر سرکارِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ ان کی اور ان جیسوں کی اقتداء کیا کرو۔ (اسد الغابہ: 2/58)

قبولیتِ اسلام:

ان کے قبولیتِ اسلام کا زمانہ متعین طور پر نہیں بتایا جاسکتا، لیکن قیاس یہ ہے کہ آغازِ دعوت اسلام میں اس شرف سے مشرف ہوئے ہوں گے، اس لیے کہ اسی زمانہ میں ان کے گھرانے میں اسلام کا اثر ہوا تھا، ان کے چچا اکثم بن صیفی عرب کے مشہور حکیم تھے، آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے وہ آپ ﷺ کے ظہور کی خبر دیتے تھے، بعثتِ نبوی کے وقت ان کی عمر 90 سال کی تھی، جب انہیں بعثت کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کو ایک خط لکھا، آپ ﷺ نے اس کا جوب مرحمت فرمایا، اکثم اس جواب سے بہت مسرور ہوئے اور اپنے قبیلہ کو جمع کرکے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپ ﷺ پر ایمان لانے کی ترغیب دی، لیکن مالک بن نویرہ نے درمیان میں پڑ کر سب کو منتشر کر دیا۔

مگر اکثم نے اپنے لڑکے اور جن جن لوگوں نے ان کا کہنا مانا سب کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا، لیکن سوئے اتفاق سے آپ تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ (الاستیعاب: 1/106) قیاس یہ ہے کہ اسی زمانہ میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ بھی ایمان لائے ہوں گے، قبولِ اسلام کے بعد مراسلاتِ نبوی ﷺ کی کتابت کا عہدہ سپرد ہوا۔ (اسد الغابہ: 2/66)

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو ربعی تھی، آپ ﷺ نے آپ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو غزوہ طائف سے پہلے بنی ثقیف کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا، آپ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگِ قادسیہ میں شرکت کی، آپ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ کوفہ میں رہائش پزیر رہنے کے بعد قرقیسا چلے گئے، حضرت حنظلہ بن ربیع رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم ﷺ کی کچھ احادیث بھی بیان فرمائی ہیں۔

کاتبِ وحی:

آپ رضی اللہ عنہ مشہور کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے، آپ رضی اللہ عنہ تمام کاتبین کے نائب تھے اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ”الکاتب“ سے جانے جاتے تھے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے آپ کو کاتب النبی ﷺ سے تعبیر کیا ہے۔(التاریخ الکبیر: 2/36) اور امام مسلمؒ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ (الطبقات لمسلم بن حجاج: 280/ب)

رسول اللہ ﷺ اپنا مہر حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایا ہوا یاد دلا دیا کرو! چنانچہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ ہر تیسرے دن سرکارِ دوعالم ﷺ کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتا یاد دلا دیا کرتے تھے اور سرکارِ دوعالم ﷺ ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔  (طبقات بن سعد: 6/36)

آپ رضی اللہ عنہ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب ﷺ ہونے کی صراحت امام ابن حجر، امام ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شیبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی رحمہم اللہ وغیرہم نے کی ہے۔ (الوزراء والکتاب: 13/13)

وفات:

آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں وفات پائی۔ (الاصابہ: 1/361)

صفائے قلب اور قوتِ ایمانی:

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی قوتِ ایمانی اور صفائے قلب کا اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے خطبہ دیا اور اس طرح جنت و دوزخ کا ذکر فرمایا کہ اس کے مناظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ بھی اس خطبہ میں تھے، یہاں سے اٹھ کر گئے تو فطرتِ انسانی کے مطابق تھوڑی دیر میں سب مناظر بھول گئے اور بال بچوں میں پڑکر ہنسنے بولنے لگے، لیکن پھر فوراً متنبہ ہوا، عبرت پزیر دل نے ٹوکا کہ اتنی جلد یہ سبق فراموش ہوگیا۔

اسی وقت روتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا خیر ہے؟ کہا: ابو بکر! حنظلہ منافق ہوگیا، ابھی ابھی رسول اللہ ﷺ کے خطبہ میں جنت دوزخ کا منظر دیکھ کر گھر آیا اور آتے ہی سب کو بھلا کر بیوی بچوں اور مال و دولت کی دلچسپیوں میں مشغول ہوگیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا بھی یہی حال ہے، چلو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلیں؛ چنانچہ دونوں خدمتِ نبوی میں پہنچے، آپ ﷺ نے دیکھ کر پوچھا: حنظلہ کیا ہے؟ عرض کی: یارسول اللہ ﷺ حنظلہ منافق ہوگیا، آپ ﷺ نے جس وقت جنت و دوزخ کا ذکر فرمایا اس وقت معلوم ہوتا تھا کہ دونوں نگاہوں کے سامنے ہیں، خطبہ سن کر گھر گیا تو سب بھلا کر بیوی اور مال وجائداد میں مصروف ہو گیا۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 70

حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

نام: خارجہ، قبیلہ بنو خزرج کے خاندان اغر سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے: خارجہ بن زید بن ابی زہیر بن مالک بن امرأ القیس بن مالک اغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر۔

قبولیتِ اسلام:

عقبہ میں بیعت کی، بیعتِ عقبہ میں اسلام قبول کیا۔

غزوات میں شرکت اور عام حالات:

ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ آکر انہی کے ہاں قیام کیا اور انہی سے مؤاخاۃ ہوئی، خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حبیبہؓ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عقد میں دی، جنگِ بدر میں شریک ہوئے اور امیہ بن خلف کو کئی آدمیوں کے ساتھ مل کر مارا، امیہ کے بیٹے صفوان نے اپنے باپ کے قاتلوں کو تاڑ لیا تھا، چنانچہ دوسرے سال جب غزوہ احد واقع ہوا تو اس کو ان لوگوں کے قتل کی فکر ہوئی، جنگِ احد میں نہایت بہادری سے لڑے اور نیزوں کے دس سے اوپر زخم کھا کر شہید ہوئے۔

شہادت:

حضرت خارجہ رضی اللہ عنہ نہایت بہادری سے لڑے اور دس سے اوپر نیزوں کے زخم کھاکے زمین پر گر گئے، امیہ بن خلف کے بیٹے صفوان نے ان کو شناخت کرکے ناک، کان اور دیگر اعضاء کاٹے اور کہا کہ اب میرا کلیجا ٹھنڈا ہوا، میرے باپ کے عوض محمد ﷺ کے بڑے بڑے بہادر کام آئے، حضرت خارجہ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ بھی اس معرکہ میں دادِ شجاعت دے کر شہید ہوئے تھے، چچا بھتیجے دونوں ایک قبر میں دفن کیے گئے۔

اولاد:

دو اولادیں چھوڑیں، ایک زید جنہوں نے سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں انتقال کیا، دوسری حضرت حبیبہ رضی اللہ عنہا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب تھیں، حضرت ام کلثوم بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ان ہی کے بطن سے تولد ہوئیں، اس بنا پر حضرت خارجہ رضی اللہ عنہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلامی بھائی ہونے کے ساتھ خُسر بھی تھے۔

(اسد الغابۃ: 1330، مؤلف: ابو الحسن ابن الاثير۔ ناشر: دار الفكر بيروت)

=============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

سے ایک دوستانہ معاہدہ طے پاگیا۔ (اسد الغابۃ: تذکرۃ حمزہؓ)

 اسی طرح 2ھ میں غزوۂ عشیرہ پیش آیا، اس میں بھی علمبرداری کا طرۂ افتخار حضرت امیر حمزہ ؓ کے دستار فضل وکمال پر آویزاں تھا، لیکن اس دفعہ بھی کوئی جنگ واقع نہ ہوئی اور صرف بنو مدلج سے امدادِ باہمی کا ایک عہد نامہ طے پایا۔ (طبقاتِ ابن سعد، حصہ مغازی: 19)

غزوۂ بدر میں بہادری کے جوہر دکھانا:

اسی سال بدر کا مشہور معرکہ پیش آیا، صف آرائی کے بعد عتبہ، شیبہ، اور ولید نے کفار کی طرف سے نکل کر مبارز طلبی کی تو غازیانِ دین میں سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے آگے بڑھے، لیکن عتبہ نے پکار کر کہا: "محمد! ﷺ ہم نا جنسوں سے نہیں لڑ سکتے، ہمارے مقابل والوں کو بھیجو" ارشاد ہوا: حمزہ ؓ، علی ؓ، عبیدہ ؓ اٹھو اور آگے بڑھو! حکم کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبرد آزما بہادر نیزے ہلاتے ہوئے اپنے حریف کے مقابل جا کھڑے ہوئے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی حملہ میں عتبہ کو واصل جہنم کیا، حضرت علیؓ بھی اپنے حریف پر غالب آئے، لیکن حضرت ابو عبیدہ ؓ اور ولید میں دیر تک کشمکش جاری رہی، وہ زخمی ہو گئے تو ان دونوں نے ایک ساتھ حملہ کرکے اس کو تہہ تیغ کردیا۔ (صحیح بخاری: کتاب المغازی، باب قتل حمزہ ؓ )

یہ دیکھ کر طعیمہ بن عدی جوشِ انتقام میں آگے بڑھا، لیکن شیرِ خدا نے ایک ہی وار میں اس کو بھی ڈھیر کردیا، مشرکین نے طیش میں آکر عام ہلہ کردیا، دوسری طرف سے مجاہدینِ اسلام بھی اپنے دلاوروں کو نرغہ میں دیکھ کر ٹوٹ پڑے، نہایت گھمسان کا رن پڑا، اسد اللہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے دستار پر شتر مرغ کی کلغی تھی، اس لیے جس طرف گھس جاتے تھے صاف نظر آتے تھے، دونوں ہاتھ میں تلوار تھی اور مردانہ وار دو دستی حملوں سے پرے کا پرا صاف کر رہے تھے، غرض جب تھوڑی دیر میں لشکرِ قریش بہت سے قیدی اور مالِ غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تو بعض قیدیوں نے پوچھا: یہ کلغی لگائے کون ہے؟ لوگوں نے کہا: حمزہ ؓ، بولے: آج ہم کو سب سے زیادہ نقصان اسی نے پہنچایا۔ (اسد الغابۃ: تذکرۃ حمزہ ؓ )

غزوۂ بنی قینقاع میں علمبرداری:

بنو قینقاع نام کی اطرافِ مدینہ میں یہودیوں کی ایک جماعت تھی، چونکہ یہ عبد اللہ بن ابی سلول کے حلیف تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ سے دوستانہ معاہدہ طے پاگیا تھا، لیکن غزوۂ بدر کی کامیابی نے ان کے دلوں میں رشک وحسد کی آگ بھڑکا دی، اور علانیہ سرکشی پر آمادہ ہو گئے، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس عہد شکنی کے باعث اسی سال ماہِ شوال میں ان پر فوج کشی فرمائی اور بزور اطرافِ مدینہ سے جلاوطن کردیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس معرکہ میں علمبرداری کے منصب پر مامور تھے۔ (صحیح بخاری: باب قتل حمزہؓ )

غزوۂ اُحد:

بدر کی شکستِ فاش نے مشرکینِ قریش کے تو سنِ غیرت کے لیے تازیانہ کا کام کیا اور جوشِ انتقام سے بر انگیختہ ہوکر 3ھ میں قریش کا سیلابِ عظیم پھر مدینہ کی طرف بڑھا، حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے اپنے جان نثاروں کے ساتھ نکل کر کوہِ اُحد کے دامن میں اس کو روکا، 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی، کفار کی طرف سے سباع نے بڑھ کر مبارز طلبی کی تو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی شمشیر لہراتے ہوئے میدان میں آئے اور للکار کر کہا: اے سباع! اے ام انمار مضغہ نجس کے بچے! کیا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لڑنے آیا ہے؟ یہ کہہ کر اس زور سے حملہ کیا کہ ایک ہی وار میں اس کا کام تمام ہو گیا۔ (طبقاتِ ابن سعد: قسم اول، جزء ثالث: 07)

اس کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوئی، اس شیرِ خدا نے دوبارہ کفر کے ٹڈی دل میں گھس کر کشتوں کے پشتے لگادیئے اور جس طرف جھک پڑے صفیں کی صفیں الٹ دیں، غرض اس جوش سے لڑے کہ تنہا تیس کافروں کو واصلِ جہنم کردیا۔ (طبقاتِ ابن سعد: قسم اول، جزء ثالث: 07)

شہادت:

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے چونکہ جنگِ بدر میں چن چن کر اکثر صنادیدِ قریش کو تہہِ تیغ کیا تھا، اس لیے تمام مشرکینِ قریش سب سے زیادہ ان کے خون کے پیاسے تھے، چنانچہ جبیر بن مطعم نے ایک غلام کو جس کا نام وحشی تھا، (جو کہ بعد میں مسلمان ہوچکے تھے) اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے انتقام پر خاص طور سے تیار کیا تھا اور اس صلہ میں آزادی کا لالچ دلایا تھا، غرض وہ جنگِ اُحد کے موقع پر ایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھا ہوا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہا تھا، اتفاقاً وہ ایک دفعہ قریب سے گزرے تو اس نے اچانک اس زور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا کہ آر پار ہوگیا، پھر بھی آپ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کی طرف شیر کی طرح جھپٹے، مگر زخموں سے نڈھال ہوکر گر پڑے۔

اس شیرِ خدا کی شہادت پر کفار کی عورتوں نے خوشی و مسرت کے ترانے گائے، حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا بنت عتبہ نے لاش کا مثلہ کیا، حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے سنا تو پوچھا: کیا اس نے کچھ کھایا بھی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں: فرمایا: یارب! حمزہ ؓ کے کسی جزو کو جہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔ (صحیح بخاری: باب قتل حمزہؓ)

تجہیز وتکفین:

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

لاکھ باطل کے ہوں لشکر غم نہ کر
دے صدا اللہُ اکبر غم نہ کر

حالاتِ حاضرہ پر مشتمل ایک انقلابی کلام

شاعر: اشتیاق حیدر قاسمی (انڈیا )
آواز: مفتی زاہد مصطفیٰ صلاحی

ویڈیو لنک 🔽🔽🔽

https://youtu.be/QldqpnGBYqY

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 68

حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

نام: حاطب، والد کا نام: عمرو یا راشد، ابو بلتعہ ان کی کنیت ہے، سلسلہ نسب میں اختلاف ہے، بعض قحطانی النسل قراردیتے ہیں اور بعض بنو نجم بن عدی کا ایک ممبر بتاتے ہیں جو ایامِ جاہلیت میں قبیلہ بنو اسد کے حلیف تھے، تاہم اصحابِ سِیَر کا عام رجحان یہ ہے کہ ان کا آبائی وطن مُلکِ یمن تھا، مکہ میں غلامی یا حلیفانہ تعلق کے باعث سکونت پزیر تھے، قبیلہ بنو اسد بن عبد العزیٰ تھا۔

قبولیتِ اسلام:

قبل از ہجرت ایمان لائے اور جب مدینہ اسلام کا مرکز قرار پایا تو وہ بھی اپنے غلام سعد کے ساتھ مدینہ آئے، یہاں منذر بن محمد انصاری نے ان کو اپنا مہمان بنالیا اور خالد بن رخبلہ سے مواخات ہوئی، ایامِ جاہلیت میں شاعری و شہسواری کے لحاظ سے مخصوص شہرت کے مالک تھے۔

غَزَوات میں شرکت:

غزوۂ بدر، احد، خندق اور تمام مشہور معرکوں میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے۔ (طبقاتِ ابن سعد، قسم: 1، جز 3: 80)

دربارِ مصر میں تبلیغِ اسلام:

غزوۂ حدیبیہ سے واپس آکر 6ھ میں رسول اللہ ﷺ نے ان کو مقوقس والیٔ مصر کے پاس مُبلغِ اسلام بنا کر بھیجا، رقعۂ دعوت کا مضمون یہ تھا:

"أَمّا بَعْدُ فَإِنّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللّهُ أَجْرَكَ مَرّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلّيْت فَإِنّ عَلَيْكَ إثْمَ الْقِبْطِ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلّا نَعْبُدَ إِلّا اللّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّهِ" (زاد المعاد، باب الکتاب الی ہرقل، جز: 3، ص: 603)

”میں تم کو دعوتِ اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام قبول کرو گے تو تم محفوظ رہو گے اور خدا تم کو دوگنا اجر دے گا اور اگر روگردانی کرو گے تو تمام قبطیوں کا گناہ تم پر عائد ہوگا، اے اہلِ کتاب! تم ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں باہم مساوی ہے، یعنی ہم لوگ صرف ایک خدا کی پرستش کریں، کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے بعض اپنے بعض کو خدا کے آگے پروردگار نہ بنائے۔“

حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے مصر پہنچ کر مقوقس کے دربار میں نامۂ مبارک پیش فرمایا اور حسبِ ذیل مکالمہ سے اس کو اسلام کی ترغیب دی:

حضرت حاطبؓ: تم سے پہلے یہاں ایک ایسا فرماں رواگزرا ہے جو بزعمِ خود اپنے آپ کو خدائے برتر سمجھتا تھا، لیکن حق سبحانہ وتعالیٰ نے اس کو دنیا وآخرت کے عذاب میں گرفتار کرکے عبرتناک انتقام لیا، تم کو غیروں سے عبرت حاصل کرنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ تم خود مرقعِ عبرت بن جاؤ۔

مقوقس: ہم ایک مذہب کے پابند ہیں جس کو اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتے جب تک کوئی دوسرا مذہب اس سے بہتر ثابت نہ ہوجائے۔

حضرت حاطبؓ: ہم تم کو دینِ اسلام کی دعوتِ دیتے ہیں جو تمام مذاہب میں سب سے زیادہ مکمل ہے، اس نبی نے جب لوگوں کو اس کی دعوت دی تو قریش نے سخت مخالفت کی، اس طرح یہودیوں نے سب سے زیادہ عداوت ظاہر کی، لیکن نصاریٰ نسبتاً قریب تر تھے، قسم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے محمد ﷺ کی بشارت دی ہے اور جس طرح تم یہودیوں کو انجیل کی طرف بلاتے ہو، اسی طرح ہم تم کو قرآن کی دعوت دیتے ہیں۔

انبیاء علیہم السلام کے زمانۂ بعثت میں جو قوم موجود ہوتی ہے وہ ان کی اُمت ہوتی ہے اور اس پر ان کی اطاعت فرض ہے، چونکہ تم نے ایک نبی کا زمانہ پایا ہے، اس لیے اس پر ایمان لانا ضروری ہے، ہم تم کو دین مسیح سے پھیرتے نہیں، بلکہ اسی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ (زاد المعاد: 2\75)

مقو قس: قریش نے جب ان کو اپنے شہر سے نکال دیا، تو انہوں نے بددعاء کیوں نہ کی؟

حضرت حاطبؓ: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام بن مریم رسولِ خدا ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انہوں نے صلیب پر کیوں اپنی قوم کے لیے بددعاء نہیں فرمائی؟

اس دلنشین جواب پر مقوقس نے بے اختیار صدائے تحسین وآفرین بلند کی اور بولا: بیشک! تم حکیم ہو اور ایک حکیم کی طرف سے آئے ہو۔ (اسد الغابہ، تذکرۂ حاطب بن ابی بلتعہؓ) میں نے جہاں تک غور کیا ہے، یہ نبی کسی لغو کام کا حکم نہیں دیتا اور نہ پسندیدہ امور سے باز رکھتا ہے، میں نہ تو اس کو گمراہ جادوگر کہہ سکتا ہوں اور نہ جھوٹا کاہن، اس میں نبوت کی بہت سی نشانیاں ہیں، میں عنقریب اس پر غور کروں گا، اس کے بعد اس نے آنحضرت ﷺ کا نامۂ مبارک لے کر ہاتھی دانت کے ایک ڈبہ میں بند کیا اور مہر لگا کر اپنی پیشِ خدمت کنیز کی حفاظت میں دیا۔

مقوقس نے حضرت حاطبؓ کو نہایت عزت واحترام سے رخصت کیا، اور آنحضرت ﷺ کے لیے گراں قدر تحائف ساتھ کردیئے، جن میں حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور سیرین نامی دولونڈیاں دُلدُل نامی ایک خچر اور بہت سے قیمتی کپڑے تھے۔ (زاد المعاد: 2\75)

غزوۂ فتحِ مکہ:

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

بن حارثہ رضی اللہ عنہ مارے گئے، حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے پھر جوش دلایا کہ شرفا یوں ہی جان دیتے ہیں۔

حضرت جریرؓ نے بھی اپنے قبیلہ کو للکارا کہ برادرانِ بجیلہ! تم کو دشمنوں پر سب سے پہلے حملہ آور ہونا چاہیے، اگر خدا نے کامیاب کیا تو تم اس زمین کے سب سے زیادہ حق دار ہوگے، ان دونوں کی للکار پر مسلمانوں نے تیسرا حملہ کیا، اس حملہ میں ایرانی افسر مہران مارا گیا اور ایرانیوں نے میدان خالی کردیا۔

جنگِ یرموک میں بہادری:

اس سلسلہ کی مشہور جنگِ یرموک میں حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے بڑے کارنامے دکھائے، اس جنگ کے آغاز ہی میں مسلمانوں کے دو افسر شہید کردیئے گئے، یہ صورت دیکھ کر حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلہ بجیلہ کو لے کر حملہ کیا، ان کے ساتھ قبیلہ ازد نے بھی حملہ کردیا، بڑی گھمسان کی لڑائی ہوئی، عجمی پیچھے ہٹتے ہٹتے رستم کے پاس پہنچ گئے اور رستم سواری سے اتر پڑا، اور پیدل بڑھ کر بڑا پُر زور حملہ کیا، اس کے ساتھ اور افسرانِ فوج بھی آگے بڑھے اور مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، اس موقع پر مشہو بہادر ابو محجن ثقفی نے بڑی بہادری دکھائی، حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی پسپائی دیکھی تو دوسرے افسروں سے کہلا بھیجا کہ میمنہ کی جانب سے ایرانیوں کے قلب پر متفقہ حملہ کرنا چاہیے۔

ان کے مشورہ پر مسلمانوں نے ہر طرف سے سمٹ کر اس زور کا حملہ کیا کہ ایرانیوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں اور وہ نہایت بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے، اس پسائی میں رستم مارا گیا اور ایرانی دِیرِ کعب تک پچھڑتے چلے گئے، اس درمیان میں ان کا امدادی دستہ پہنچ گیا اور وہ از سرِ نو منظم ہوکر صف آرا ہوگئے اور نخارستان مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا، حضرت زبیرؓ نے اس کا کام تمام کردیا، دوسری طرف حضرت قیس بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے افسر کو مارا، اور مسلمان ہر چہار جانب سے ایرانیوں پر ٹوٹ پڑے، ان کے افسر مارے جاچکے تھے، اس لیے وہ زیادہ دیر تک میدان میں نہ ٹھہر سکے اور پسپا ہوکر پیچھے ہٹنے لگے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ تعاقب کرتے ہوئے بہت آگے نکل گئے، ایرانیوں نے تنہا پاکر گھوڑے سے نیچے گرادیا، اس درمیان میں ان کے ساتھی پہنچ گئے، صورتِ حال دیکھ کر ایرانی انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ (تاریخ کی کتابوں میں جنگِ یرموک کے واقعات نہایت مفصل ہیں، ہم نے اخبار الطوال سے صرف اسی قدر نقل کیا ہے۔)

جنگِ یرموک کے بعد کسریٰ کا پایہ تخت مدائن فتح ہوا، اس کے بعد حضرت عمرو بن مالک رضی اللہ عنہ نے جَلولا کی مہم سر کی اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو چار ہزار مسلح فوج کے ساتھ جلولاء کی حفاظت پر متعین کرکے اپنے مستقر پر چلے گئے۔ جلولا کے پاس ہی حلوان ایرانیوں کا ایک بڑا مرکز تھا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت جریر رضی اللہ عنہ کے پاس 3 ہزار فوج بھیجی کہ وہ حلوان پر حملہ کرکے اس خطرہ کو دور کریں، چنانچہ وہ چار ہزار پہلی اور 3 ہزار یہ جدید فوج لے کر حلوان پہنچے اور بلا کسی خون ریزی کے اس پر قبضہ کر لیا۔  (بلاذری: 309)

تُستَر کی شکست کے بعد یزدگرد شاہِ ایران نے اپنے ملک کے مشہور بہادر مروان شاہ کو ایک لشکرِ جرار کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ پر مامور کیا، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس تیاری کی اطلاع دی، پہلے آپ رضی اللہ عنہ نے خود اس جنگ میں شرکت کا ارادہ کیا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے سے رک گئے اور تمام فوجی چھاؤنیوں میں احکام بھیجے کہ ہر جگہ کی فوجیں میدان میں پہنچ جائیں اور حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ان کا سپہ سالار بنا کر بھیجا، یہ مقابلہ نہایت سخت تھا، اس لیے حضرت عمرؓ نے حضرت نعمان بن مقرنؓ کے علاوہ اور چار اشخاص کو بھی سپہ سالاری کے لیے نامزد کردیا تھا، ان میں ایک حضرت جریرؓ بھی تھے، مسلمانوں اور ایرانیوں کا یہ معرکہ تاریخی شمار کیا جاتا ہے، اس میں حضرت نعمان ؓ نے شہادت پائی، مگر کامیابی مسلمانوں کو ہوئی۔

ان لڑائیوں کے علاوہ حضرت جریرؓ اس سلسلہ کی اور لڑائیوں میں بھی شریک تھے، حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں ہمدان کے گورنر تھے، ان کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کی بیعت کرلی اور اپنے رقبۂ حکومت میں ان کی بیعت لے کر ان کے پاس کوفہ چلے آئے، جنگ صفین میں کوئی حصہ نہ لیا اور بقیہ زندگی قرقییا کے گوشۂ عافیت میں بسر کی۔ (اخبار الطوال: 166)

وفات:

54ھ میں قرقییا میں وفات پائی۔ (الاصابہ: 1/242)

حلیہ:

قد دراز تھا اور اس قدر حسین وجمیل تھے کہ حضرت عمرؓ ان کو امتِ اسلامیہ کا یوسف کہا کرتے تھے۔

اولاد:

وفات کے بعد پانچ لڑکے عمر، منذر، عبیداللہ، ایوب اور ابراہیم یادگار چھوڑے۔ (الاستیعاب: 1/11)

فضل وکمال:

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 66

حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

نام: ثابت، کنیت: ابوزید، قبیلہ اشہل سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے: ثابت بن ضحاک بن خلیفہ بن ثعلبہ بن عدی بن کعب بن عبد الاشہل، بعثت نبوی کے تیسرے سال تولد ہوئے، بعض لوگوں نے 3ھ سالِ ولادت قرار دیا ہے، لیکن یہ قطعا غلط ہے۔

غزوات میں شرکت:

غزوہ حمراء الاسد میں شریک تھے، غزوۂ خندق میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ سوار تھے اور صحیح مسلم کی روایت کے بموجب بیعتِ رضوان میں شرکت کی تھی، ابن مندہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے ان کی شرکتِ بدر تسلیم کی ہے، عجب نہیں کہ یہ خیال صحیح ہو، امام ترمذی نے بھی بدر میں شریک ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔

ابن سعد کی روایت کے بموجب غزوۂ احد کی شرکت بھی ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ انہوں نے حمراء الاسد کے ذکر میں ضمناً یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس غزوہ میں صرف وہی لوگ شریک تھے جنہوں نے غزوہ احد میں شرکت کی تھی۔ (طبقاتِ ابن سعد: 43)

وفات:

عہدِ نبوی ﷺ کے بعد شام کی سکونت اختیار کی، پھر شام سے  بصرہ منتقل ہوگئے اور وہیں پر مستقل سکونت پزیر ہوگئے، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں انتقال فرمایا، بعضوں نے 46ھ کی تصریح کی ہے۔ (مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص: 568)

اولاد:

ایک بیٹا چھوڑا، زید نام تھا، اسی بنا پر بعض نے ان کو حضرت زید بن ثابت صحابی مشہور کا والد سمجھا ہے، لیکن یہ غلطی ہے، حضرت زید بن ثابتؓ کے والد جاہلیت میں فوت ہوئے اور کفر کی حالت میں مارے گئے، اس کے ماسواء حضرت زیدؓ خود ان کے ہمسن تھے اور اس بنا پر یہ ان کے والد کیونکر ہوسکتے ہیں؟

یہ خیال اس لحاظ سے بھی ناقابل التفات ہے کہ حضرت ابو قلابہؓ نے ان سے یہ روایتیں کی ہیں اور ابو قلابہؓ 64ھ سے پیشتر کسی طرح روایت کے قابل نہیں ہوسکتے تھے، کیونکہ انہوں نے 69 ھ کے بعد تحصیل میں قدم رکھا تھا اور حضرت زید بن ثابتؓ کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ 48ھ میں فوت ہوچکے تھے۔

فضل وکمال:

حضرت ثابتؓ کے سلسلہ سے جو روایتیں مروی ہیں، ان کی تعداد 14 ہے، راویوں کے زمرہ میں حضرت ابو قلابہؓ اور حضرت عبدالرحمن بن معقل داخل ہیں۔

=============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

امر بالمعروف اور اطاعتِ رسول ﷺ معدنِ اخلاق کے تابناک جواہر پارے ہیں، ایک مرتبہ نعمان انصاری کے غلام نے چوہارے کا ایک چھوٹا سا درخت کسی کے باغ سے اکھیڑ دیا، مروان کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا، اس نے چوری کا جرم عائد کرکے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرلیا، تو حضرت رافع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ پھل میں قطع ید نہیں۔ (مسند ابن حنبل:۴/۱۴۱)

مروان نے ایک مرتبہ خطبہ دیا، جس میں کہا کہ مکہ حرم ہے، حضرت رافع رضی اللہ عنہ موجود تھے، پکار کر کہا: اگر مکہ حرم ہے تو مدینہ بھی حرم ہے اور اس کو رسول اللہ ﷺ نے حرم قرار دیا ہے، میرے پاس حدیث لکھی ہوئی ہے، اگر چاہو تو دکھا سکتا ہوں، مروان نے جواب دیا: ہاں! وہ حدیث میں نے سنی ہے۔ (مسند: ۴/۱۴۱)

اطاعت رسول ﷺ کے لئے واقعات ذیل کافی ہیں: ایک مرتبہ ان کے چچا ظہیر نے آکر بیان کیا کہ آج آنحضرت ﷺ نے ایک چیز کی ممانعت فرمائی ہے، حالانکہ ہم لوگوں کو اس سے کچھ آسانی تھی، حضرت رافع رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: عم محترم! جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہی حق ہے۔ (صحیح مسلم: ۱/۶۱۶)

==============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 80

حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: رافع، کنیت: ابو مالک و ابو رفاعہ، قبیلہ خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے: رافع بن مالک بن العجلان بن عمرو بن عامر بن زریق بن عامر بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔

قبولیتِ اسلام:

انصارِ مدینہ میں سب سے پہلے جس گروہ نے آنحضرت ﷺ کی قیام گاہ پر حاضر ہوکر اسلام قبول کیا، ان میں سے سب سے پہلے شخص حضرت رافع رضی اللہ عنہ تھے، آپ رضی اللہ عنہ بنو زریق کے نقیب مقرر کیے گئے اور اشاعتِ اسلام میں بڑی سرگرمی دکھائی۔

بنی زریق کی مسجد میں سب سے پہلے قرآن پاک آپ رضی اللہ عنہ نے پڑھایا، جو سورۃ نازل ہوتی آپ رضی اللہ عنہ فوراً لکھ کر لوگوں کو سناتے۔ غزوہ احد میں شہید ہوئے، قبیلۂ خزرج کے 6 آدمی جن میں یہ دونوں آدمی بھی تھے، عمرہ کی غرض سے مکہ گئے تھے، آنحضرت ﷺ ان کے قیام گاہ پر تشریف لائے اور اسلام کی تبلیغ کی تو سب سے پہلے اس دعوت کو انہی دونوں نے لبیک کہا۔ یہ اسد الغابہ کی روایت ہے۔

طبقات میں ہے کہ صرف دو شخص گئے تھے ان کو آنحضرت ﷺ کی خبر ملی تو خدمت میں حاضر ہوکر مذہبِ اسلام اختیار کرنے کا شرف حاصل کیا، ان دونوں بزرگوں میں بھی جیسا کہ سعد بن عبدالحمید کا قول ہے، حضرت رافع ؓ نے پہلے بیعت کی تھی۔

اسلام قبول کرکے پلٹے تو مدینہ میں نہایت سرگرمی سے اشاعتِ اسلام کی خدمت انجام دی، مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں:

”فلما قدموا المدينة ذكروا لقومهم الإسلام ودعوهم إليه، فشفا فيهم، فلم تبق دار من دور الأنصار إلا وفيها ذكر من رسول الله صلى الله عليه وسلم۔“ (اسد الغابه، باب رافع بن مالک بن العجلان:1/352)

”یعنی جب یہ لوگ مدینہ آئے اور اپنی قوم میں اسلام کا چرچا کیا، اس کی دعوت دی تو اسلام تمام انصار میں پھیل گیا، اب کوئی گھر نہ تھا جہاں رسول اللہ ﷺ کا ذکر خیر نہ ہوتا ہو۔“

دوسرے سال حضرت رافع رضی اللہ عنہ 12 آدمیوں کے ساتھ اور تیسرے سال 70 آدمیوں کے ساتھ مکہ گئے اور اس اخیر بیعت میں بنو زریق کے نقیب منتخب ہوئے، صحیح بخاری میں حضرت رافعؓ کے عقبہ میں شریک ہونے کا ذکر آیا ہے، چنانچہ ان کا قول ہے:
مَا يَسُرُّنِي أَنِّي شَهِدْتُ بَدْرًا بِالْعَقَبَةِ۔ (صحیح بخاری، شہدو الملائکۃ بدرا، حدیث نمبر: ۳۶۹۳)

یعنی مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ عقبہؓ کے مقابلہ میں بدر میں شریک ہوتا۔

غَزَوَات میں شرکت:

حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی اسلامی زندگی کے دوران صرف دو لڑائیاں پیش آئیں، غزوۂ بدر اور غزوۂ احد، بدر میں ان کی شرکت مشکوک ہے، ابن اسحاق نے ان کو اصحاب بدر میں شمار نہیں کیاہے اور موسیٰ بن عقبہ نے امام بن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ وہ شریک تھے، اس باب میں بہترین حکم خود ان کا قول ہو سکتا ہے، بخاری کی جو عبارت ہے کہ "مجھے یہ خوش نہیں آتا کہ عقبہ کے مقابلہ میں میں بدر میں شریک ہوتا" اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شریک بدر نہ تھے۔

شہادت:

شوال 3ھ میں غزوۂ احد میں شہادت پائی۔

دینی خدمات:

اشاعتِ اسلام کے علاوہ اور بھی متعدد مذہبی خدمات انجام دیں، سورۂ یوسف مدینہ میں سب سے پہلے انہوں نے پہنچائی، مسجد بنی زریق میں مدینہ کی تمام مسجدوں سے قبل قرآن مجید پڑھا گیا، اس کے پڑھنے والے یہی بزرگ تھے، بیعت سے واپسی کے وقت آنحضرت ﷺ پر مکہ میں جس قدر قرآن نازل ہوا تھا لکھ کر ساتھ لیتے آئے تھے اور اپنی قوم کو جمع کرکے سنایا تھا۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ مکہ میں مقیم ہوگئے تھے، جب سورہ طہ نازل ہوئی تو لکھ کر مدینہ لائے، غرض یہ عظیم الشان کارنامے انصار کے اس جلیل المنزلت بزرگ کے تھے، جس نے دولتِ ایمان کے لازوال خزانے کو سب سے پہلے اپنے آغوش میں جگہ دی۔

===========> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

الکمال نشریات
الکمال نشریات ٹیلی گرام چینل، بزم حافظ کمال الدین شہیدؒ، الیاس گوٹھ کراچی کے زیر اہتمام ایک اسلامی نشریاتی ادارہ ہے،سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر دین کی خدمت کے جذبے کے ساتھ بنائے گئے اس چینل کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں ہمارا دست وبازو بنئے، جزاک اللّه
/channel/alkamalnashriyat

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 77

حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: زیاد، کنیت: ابو عبد اللہ، قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے: زیاد بن لبید بن ثعلبہ بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔

قبولیتِ اسلام:

بیعتِ عقبہ میں شریک تھے، جب مدینہ میں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو انصار کی ایک جماعت جو چار آدمیوں پر مشتمل تھی، مکہ پہنچی جس میں ایک حضرت زیاد رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہاں سے بہت سے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس آئے، اس بنا پر یہ لوگ انصاری بھی تھے اور مہاجر بھی۔

غَزَوات میں شرکت:

غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور تمام غزوات میں شریک تھے۔ 9ھ میں آنحضرت ﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا۔ (الاستیعاب: 1/246، حالات معاذ بن جبل)

حضرت زیادؓ حضرَموت کے عامل تھے، صدقات وصول کرنے کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا، آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جب اہلِ یمن مرتد ہو گئے اور زکوٰۃ بند کردی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زیاد رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں لکھا، انہوں نے شاہانِ کِندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی، اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا، حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

”وکان لہ بلاء حسن فی قتال اھل الردۃ۔“
یعنی انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔
(تہذیب التہذیب: 3/383)

عہدِ خلافت صدیقیؓ اور عہدِ خلافتِ فاروقیؓ میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی، بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔
(یعقوبی: 2/186)

وفات:

41ھ میں انتقال ہوا، یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کا پہلا سال تھا۔ (الاستیعاب: 1/246،حالات معاذ بن جبل)

فضل وکمال:

حضرت زیاد رضی اللہ عنہ فقہائے صحابہؓ میں تھے، (اصحاب بدر، صفحہ: 144، قاضی محمد سلیمان منصور پوری،)

صحیح ترمذی میں ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اب علم کے اٹھنے کا وقت آپہنچا، حضرت زیادؓ نے عرض کیا: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اب تو علم لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کر چکا، ارشاد ہوا:

”ثکلتک امک یا زیاد! ان کنت لاراک من افقہ رجل بالمدینۃ اولیس الیھود والنصاریٰ یقرؤن التوراۃ والانجیل ولا ینغعون بشئی“

یعنی اے زیاد! تیری ماں تجھ کو روئے میں تجھ کو نہایت سمجھ دار شخص خیال کرتا تھا، کیا دیکھتے نہیں کہ یہودو نصاریٰ تورات وانجیل پڑھتے ہیں، لیکن ان سے کچھ نفع نہیں اٹھاتے۔

حضرت عبادہؓ نے اس حدیث کو سنا تو فرمایا: سچ ہے، سب سے پہلے خشوع اٹھ رہا ہے۔ (تہذیب: 3/383 )

آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں روایت کیں، حلقہ روایت میں عوف بن مالک، جبیر بن نفیر، سالم بن ابی الجعدان کی مسند فضل و کمال کے حاشیہ نشین ہیں۔ (الاصابہ: 2/3)

=============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 75

حضرت خلاد بن سوید رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

نام: خلاد، قبیلۂ خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے: خلاد بن سوید بن ثعلبہ بن عمرو بن حارثہ بن امرا القیس بن مالک اغر بن ثعلبہ بن کعب بن الخزرج بن الحارث بن الخزرج الاکبر

قبولیتِ اسلام:

عقبہ ثانیہ سے قبل مسلمان ہوئے اور بیعت میں شرکت کی۔

غَزَوات میں شرکت اور شہادت:

غزوۂ بدر، غزوۂ احد، اور غزوۂ خندق میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب تھے، غزوہ بنو قریظہ کی جنگ میں غزوہ کی نیت سے نکلے، ایک قلعہ کے نیچے کھڑے تھے، بنانہ (حکم القرضی کی بیوی تھی) نامی ایک یہودی عورت نے دیکھ لیا اور اس زور سے چکی گرائی کہ سر پھٹ گیا، اسی وجہ سے شہید ہو گیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ان کو دو شہیدوں کا ثواب ملے گا، لڑائی ختم ہونے کے بعد جب قبیلۂ قریظہ اسیر ہوکر سامنے آیا تو آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو ڈھونڈ کر قصاصاً قتل کروادیا، حالانکہ اس واقعہ میں عورتیں قتل سے محفوظ رہی تھیں۔

اولاد:

دو لڑکے چھوڑے اور دونوں صحابی تھے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ
(الاصابہ: 2/14 و اسد الغابہ: 3/121)

==============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 73

حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: خزیمہ، کنیت: ابو عمارہ، لقب: ذوالشہادتین، سلسلۂ نسب یہ ہے: خزیمہ بن ثابت بن فاکہہ بن ثعلبہ بن ساعدہ بن عامر بن عیان بن عامر بن خطمہ (عبد اللہ) بن جشم بن مالک بن اوس، والدہ کا نام کبشہ بنت اوس تھا اور قبیلہ خزرج کے خاندان ساعدہ سے تھیں۔

قبولیتِ اسلام:

ہجرت سے پیشتر مشرف باسلام ہوئے اور حضرت عمیر بن عدی بن خوشہ رضی اللہ عنہ کو لے کر اپنے قبیلہ (خطمہ) کے بت توڑے۔

غَزَوات میں شرکت اور شہادت:

حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے تمام غزوات میں شرکت کی، فتح مکہ میں بنو خطمہ کا عَلَم ان کے پاس تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دونوں لڑائیوں میں ان کے ساتھ تھے، جنگِ جمل میں محض رفاقت کی، لیکن حکمت عملی کے تحت لڑائی میں حصہ نہیں لیا، لیکن حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس معرکہ میں لڑتے ہوئے شہادت حاصل کی، یہ 37ھ کا واقعہ ہے۔ (مسند احمد: جلد نہم: حدیث نمبر: 1942)

ذوالشہادتین:

آنحضرت ﷺ نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا، آپ ﷺ نے ابھی دام ادا نہیں کیے تھے کہ بدو نے کسی اور سے قیمت طے کرلی اور رسول اللہ ﷺ کے مطالبہ پر جواب دیا کہ میں نے گھوڑا آپ کے ہاتھ نہیں بیچا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے خرید چکا ہوں، جس پر اس بدو نے کہا کہ گواہ لائیے! اس پر اور سب مسلمان تو خاموش رہے، لیکن حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر کہا: میں گواہ ہوں کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ گھوڑا فروخت کیا ہے۔

چونکہ سودا کرتے وقت حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ وہاں موجود نہ تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم کس طرح گواہی دیتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: میں آپ کی بات کی تصدیق کرتا ہوں، اس پر حضور ﷺ نے خوش ہو کر ان کو ذوالشہادتین کا لقب دیا، یعنی ان کی شہادت (گواہی) دو آدمیوں کی شہادت (گواہی) کے برابر کر دی، آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی 38 احادیث بیان کی ہیں، جو کتب احادیث میں موجود ہیں۔ (سنن نسائی: جلد سوم: حدیث نمبر: 956)

فضائل:

حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے فخر و فضیلت کے لیے یہ واقعہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی جبین مبارک کا بوسہ لے رہا ہوں، اس کو انہوں نے آپ ﷺ سے بیان کیا تو فرمایا کہ: آپ اپنے خواب کی تصدیق کرسکتے ہو، چنانچہ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر پیشانی اطہر کا بوسہ لیا۔
(مسند: 5/214)

اولاد:

حسب ذیل اولاد چھوڑی، عمارہ، عمرو، عمرہ

اخلاق:

جوشِ ایمان اور حبِ رسول ﷺ بیاض اسلام کے چمکتے ہوئے حروف ہیں، جوش ایمان کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے ہوسکتا ہے:
آنحضرت ﷺ نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا اور دام طے کر کے چلے آئے، لوگوں کو اس کی خبر نہ تھی، اس لئے خریداری کے لئے اس کی قیمت بڑھا کر دی، اس شخص نے آنحضرت ﷺ کو آواز دی کہ لینا ہو تو لو ورنہ میں دوسرے سے سودا کر چکا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم تو میرے ہاتھ فروخت کر چکے ہو، بولا واللہ میں نے نہیں بیچا اور اگر بیچا ہو تو کوئی گواہ لاؤ، مسلمان اس گفتگو کو سن کر جمع ہو گئے اور کہا: رسول اللہ ﷺ سچ کہتے ہیں، حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اور کہا میں گواہ ہوں تم نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ فروخت کیا تھا، اس جرأت پر خود آنحضرت ﷺ کو حیرت ہوئی، فرمایا: "لم تشھد؟" تم کس طرح گواہی دیتے ہو؟ عرض کیا: "بتصدیقاتک یا رسول اللہ" آپ کی بات کی تصدیق کر رہا ہوں۔

آنحضرت ﷺ نے اسی روز سے خزیمہ کی شہادت دو آدمیوں کی شہادت کے برابر کر دی اور ان کی یہ خصوصیت، ذوالشہادتین ان کا لقب پڑ گیا۔ (مسند بن حنبل: ۱۵/۲۱۵،۲۱۶)

بخاری شریف میں بھی ضمناً اس واقعہ کا ذکر آیا ہے، حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ جب ہم نے مصاحف نقل کئے تو سورہ احزاب کی ایک آیت جس کو ہم آنحضرت ﷺ سے سنتے تھے نہیں پائی، یہ آیت حضرت خزیمہؓ انصاری کے پاس تھی، جن کی شہادت (گواہی) رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں کے برابر کی تھی وہ آیت یہ ہے:

مِنْ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ (صحیح بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ۹/۳۷۵)

اوس و خزرج میں جب باہم مفاخرت ہوئی تو اوسیوں نے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کا نام بھی فخر کے طور پر پیش کیا تھا۔(الاصابہ: ۲/۱۱۱) ان کے فخر و فضیلت کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی جبین مبارک کا بوسہ لے رہا ہوں، اس کو انہوں نے آپ ﷺ سے بیان کیا تو فرمایا کہ آپ اپنے خواب کی تصدیق کر سکتے ہو، چنانچہ حضرت خزیمہؓ نے اٹھ کر پیشانی اطہر کا بوسہ لیا۔ (مسند: ۵/۲۱۴)

بعض روایتوں میں ہے کہ سجدہ کرتے دیکھا تھا اور آنحضرت ﷺ نے اپنی جبین مقدس سے ان کی پیشانی مَس کی۔ (مسند: ۵/۲۱۵) اس طرح ان کے اس خواب کی تعبیر پوری ہوئی۔

============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے کنبہ بھر میں حکومت کی صلاحیت تھی، اس لیے آنحضرت ﷺ نے تینوں بھائیوں کو حکومت کے عہدوں پر ممتاز کیا تھا، حضرت آبان رضی اللہ عنہ کو بحرین پر، حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کو تیماء پر اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو یمن پر مامور کیا، یہ تینوں تاحیاتِ نبوی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، آپ ﷺ کی وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ بھیجنا چاہا اور فرمایا کہ تم لوگ آنحضرت ﷺ کے مقرر کردہ عامل ہو، تم سے زیادہ کون اس عہدہ کا مستحق ہوسکتا ہے؟ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ (الاستیعاب: 1/155)


حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں فتنۂ ارتداد کے خلاف سرگرمی:

حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دو مہینہ تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی مگر پھر حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دو مہینے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر بیعت کرلی، حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں فتنہ ارتداد کی روک تھام میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا، مشہور مرتد عمرو بن معدیکرب زبیدی کو جو اسود عنسی کے حلقہ میں تھا، زخمی کیا اوراس کی تلوار اور گھوڑا چھین لیا، مگر وہ بچ کر بھاگ گیا۔ (ابن اثیر: 2/288)

 فتنہ ارتداد فرو ہونے کے بعد شام کی فوج کشی کے سلسلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار بنایا؛ لیکن بعض صحابہ کرام کے کہنے پر سپہ سالاری کے عہدہ سے تنزل کرکے تیماء کی امدادی فوج کے دستہ کا امیر بنادیا اور ان کی جگہ پر یزید بن حضرت ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا تقرر کیا اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایتیں دے کر تیماء روانہ کیا کہ راستہ میں ان مسلمانوں کو جو پہلے ارتداد کی شورش میں نہ شریک ہوئے ہوں ساتھ لے لینا اور بغیر میرے حکم ملے ہوئے خود حملہ کی ابتدا نہ کرنا، رومیوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے بہت سے عربی قبائل کو لے کر مختلف اطراف میں چھاپے مارنا شروع کردیے، حضرت خالدؓ نے دربارِ خلافت میں اطلاع بھیجی، وہاں سے مقابلہ کا حکم آیا، لیکن حضرت خالدؓ کے بڑھتے بڑھتے رومی منتشر ہوگئے اور عربی قبائل جو ان کے ساتھ ہوگئے تھے، پھر اسلام لے آئے۔

حضرت خالدؓ نے دوبارہ اطلاع بھیجی، آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ابھی پیش قدمی جاری رکھو، مگر اس طرح کہ دشمن عقب سے حملہ نہ کرسکیں، اس حکم کے مطابق یہ آگے بڑے، باہان رومی مقابلہ کو نکلا، لیکن شکست کھائی، انہوں نے اس کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجی، نیز مزید امدادی فوج طلب کی۔ (ابن اثیر: 2/208)

اسی دوران عام لشکر کشی ہوئی، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ، حضرت ذوالکلاع رضی اللہ عنہ اور حضرت ولید رضی اللہ عنہ، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے بھیجے گئے، ان کے پہنچتے ہی حضرت خالدؓ رومیوں کے مقابلہ میں نکلے، باہان بطریق رومی اپنی فوج کو دمشق کی طرف ہٹا لےگیا، لیکن یہ برابر بڑھتے ہوئے چلے گئے اور دمشق دواقوصہ کے درمیان میں خیمہ زن ہوئے، باہان کا مسلح دستہ تاک میں لگا ہوا تھا، اس نے ہر چہار طرف سے ناکہ بندی کردی اور خود حملہ کرنے کے لیے بڑھا، راستہ میں حضرت خالدؓ کے صاحبزادہ سعید ملے ان کو گھیر کر شہید کردیا، حضرت خالدؓ کو خبر ہوئی تو وہ ایسے سراسمیہ ہوئے کہ پیش قدمی روک کر پیچھے ہٹ آئے، اور حضرت عکرمہؓ نے ہوشیاری کے ساتھ باہان کو ان کے تعاقب سے روک دیا اور حضرت خالدؓ ذوالمروہ میں آکر مقیم ہوگئے۔

پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ گئے، حضرت ابوبکرؓ نے ان کی کمزوری پر مناسب تنبیہ کی اور فرمایا واقعی عمرؓ اور علیؓ ان کا زیادہ تجربہ رکھتے تھے، کاش! میں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا ہوتا۔ (طبری: 2084تا2086)

اس کے بعد برابر لڑائیوں میں شریک ہوتے رہے اور گزشتہ کمزوری کی تلافی میں بڑے جوش سے لڑتے تھے، چنانچہ فحل، دمشق وغیرہ میں بڑی جانبازی دکھائی۔

شہادت:

فحل کی مہم کے بعد اسلامی فوج نے مرج صفر کا رخ کیا، اسی درمیان میں حضرت خالدؓ نے ام حکیم سے عقد کرلیا اور مرج صفر پہنچ کر اہلیہ سے ملنے کا قصدکیا، انہوں نے کہا: اس معرکہ کے بعد اطمینان سے ملنا زیادہ بہتر ہے، انہوں نے جواب دیا: میرا دل کہتا ہے کہ اس لڑائی میں شہادت پاجاؤں گا، غرض مرج صفر ہی میں اہلیہ سے ملاقات کی اور صبح کو احباب کی دعوت کی، ابھی لوگ کھانے سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ رومی میدان میں آگئے، ایک رومی نے مبارز طلبی کی، حضرت خالدؓ مقابلہ کے لیے نکلے اور نکلتے ہی شہید ہوگئے۔

ان کی نئی نویلی دلہن کا یہ سبق آموز واقعہ قابل ذکر ہے کہ جزع فزع اور سوگ نشینی کے بجائے شوہر کے خون کے انتقام کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی اور مردوں کے دوش بدوش لڑ کر سات رومیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ (فتوح البلدان، بلاذری: 125، تفصیل ابن سعد سے ماخوذ ہے)

اولاد:

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: حنظلہ! اگر تم لوگ اسی حالت پر ہمیشہ قائم رہتے جس حالت میں میرے پاس سے اٹھ کر گئے تھے، تو ملائکہ آسمانی تمہارے جلسہ گاہوں، تمہارے راستوں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کرتے، لیکن حنظلہ کوئی گھڑی کیسی ہوئی ہے اور کوئی کیسی۔ (مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص: 820)

==============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

آقا ﷺ پہ دل و جان ہے قربان ہمارا
اور ختم نبوت ﷺ پہ ہے ایمان ہمارا

ختم نبوت کے موضوع پر حافظ عبدالرحمن حذیفی کی مسحور کن آواز میں بہترین نشید، ویڈیو پسند آئے تو لائک کریں، کمنٹ کریں اور اپنے دوست احباب کے ساتھ شئر کریں اور ہاں چینل کو ضرور سبسکرائب کریں، شکریہ

ویڈیو لنک: https://youtu.be/M4egxWLhgdA

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

اختتامِ جنگ کے بعد شہدائے اسلام کی تجہیز و تکفین شروع ہوئی، حضرت سرورِ کائنات ﷺ اپنے عمِ محترم کی لاش پر تشریف لائے، دیکھ کر بےاختیار دل بھر آیا اور مخاطب ہوکر فرمایا: تم پر خدا کی رحمت ہے، کیونکہ تم رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے، نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے، اگر مجھے صفیہ رضی اللہ عنہا کے رنج و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہیں اسی طرح چھوڑ دیتا کہ درند اور پرند کھا جائیں اور تم قیامت میں ان ہی کے شکم سے اُٹھائے جاؤ، خداکی قسم! مجھ پر تمہارا انتقام واجب ہے، میں تمہارے عوض ستر کافروں کا مثلہ کروں گا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد وحی الٰہی نے اس انتقام کی ممانعت کردی، اس لیے کفارۂ یمین اداکرکے صبر و شکیبائی اختیار فرمائی۔ (صحیح بخاری: کتاب فرض الخُمس)

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن تھیں، بھائی کی شہادت کا حال سنا تو روتے ہوئے جنازہ کے پاس آئیں، لیکن آنحضرت ﷺ نے دیکھنے نہ دیا اور تسلی وتشفی دے کر واپس فرمایا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے صاحبزادہ حضرت زبیر ؓ کو دو چادریں دے گئی تھیں کہ ان سے کفن کا کام لیا جائے، لیکن پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بےگور وکفن تھی، اس لیے انہوں نے دونوں شہیدانِ ملت میں ایک ایک چادر تقسیم کردی، اس ایک چادر سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر برہنہ ہو جاتا تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چادر سے چہرہ چھپاؤ اور پاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو، غرض سید الشہداء کا جنازہ تیار ہوا، سرورِ کائنات ﷺ نے خود نماز پڑھائی، اس کے بعد ایک ایک کرکے شہدائے اُحد کے جنازے ان کے پہلو میں رکھے گئے، اور آپ ﷺ نے علاحدہ علاحدہ ہر ایک پر نماز پڑھائی، اس طرح تقریباً نمازوں کے بعد غازیانِ دین نے بصد اندوہ والم اس شیر خدا کو اسی میدان میں سپرد خاک کیا۔ (طبقاتِ ابن سعد قسم اول، جزء ثالث: 07)

آنحضرت ﷺ کا حزن وملال:

سرورِ کائنات ﷺ کو اس سانحہ پر شدید قلق تھا، مدینہ منورہ تشریف لائے اور بنی عبدِ اشہل کی عورتوں کو اپنے اپنے اعزہ و اقارب پر روتے سنا تو فرمایا: افسوس! حمزہ ؓ کے لیے رونے والیاں بھی نہیں، انصار نے یہ سن کر اپنی عورتوں کو آستانہ نبوت پر بھیج دیا، جنہوں نے نہایت رقت آمیز طریقہ سے سیدالشہداء ؓ پر گریہ وزاری شروع کی، اسی حالت میں آنحضرت ﷺ کی آنکھ لگ گئی، کچھ دیر کے بعد بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ اب تک رو رہی ہیں، فرمایا: کیا خوب! یہ سب اب تک یہیں بیٹھی رو رہی ہیں، انہیں حکم دو کہ واپس جائیں اور آج کے بعد پھر کسی مرنے والے پر نہ روئیں۔

اخلاق:

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے اخلاق میں سپاہیانہ خصائل نہایت نمایاں تھے، شجاعت وجانبازی اور بہادری ان کے مخصوص اوصاف تھے، حضرت امیر حمزہ ؓ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تمام نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، چنانچہ شہادت کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کی لاش سے مخاطب ہوکر اس طرح ان محاسن کی داد دی تھی۔ "تم پر خدا کی رحمت ہو، کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے تم قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے، نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔"

ازواج و اولاد:

حضرت حمزہ ؓ نے متعدد شادیاں کیں، بیویوں کے نام یہ ہیں: بنت الملہ، خولہ بنت قیس، سلمیٰ بنت عمیس، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے اولاد ہوئی، لڑکوں کے نام یہ ہیں: ابویعلیٰ، عامر، عمارہ، آخر الذکر دونوں لاولد فوت ہوئے، ابویعلیٰ سے چند اولادیں ہوئیں، لیکن وہ سب بچپن ہی میں قضا کرگئیں، اس طرح حضرت حمزہ ؓ کا سلسلہ نسل شروع ہی میں منقطع ہو گیا۔

سلمیٰ بنت عمیس کے بطن سے امامہ نامی ایک لڑکی بھی تھی، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مراجعت فرمائی تو بھائی بھائی کہہ کر اس نے پیچھا کیا، حضرت حمزہ ؓ کے رشتہ داروں میں سے حضرت علی ؓ، حضرت جعفر ؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے ان کو اپنی اپنی تربیت میں لینے کا دعویٰ پیش کیا، لیکن آپ ﷺ نے حضرت جعفر ؓ کے حق میں فیصلہ دیا، کیونکہ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس امامہ کی حقیقی خالہ تھیں، حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ کو امامہ سے شادی کرلینے کی ترغیب دی تھی، لیکن آپ ﷺ نے انکار کردیا اور فرمایا: حمزہ ؓ میرے رضاعی بھائی تھے۔

===========> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 69

حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ:

نام و نسب:

نام: حمزہ، کنیت: ابو یعلیٰ اور ابو عمارہ، لقب: اسد اللہ، آنحضرت ﷺ کے چچا تھے، ماں کی طرف سے یہ تعلق تھا کہ ان کی والدہ ہالہ بنت وہب سرورِ کائنات ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی چچازاد بہن تھیں، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔

اس نسبی تعلق کے علاوہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے رضاعی بھائی بھی تھے، یعنی ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کو دودھ پلایا تھا، عمر میں حضور انور ﷺ سے دو برس بڑے تھے، شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن ہی سے شوق تھا، سیر و شکار سے بھی غیر معمولی دلچسپی تھی؛ چنانچہ زندگی کا بڑا حصہ اسی مشغلہ میں بسر ہوا۔

قبولیتِ اسلام:

دعوتِ توحید کی صدا اگرچہ ایک عرصہ سے مکہ کی گھاٹیوں میں گونج رہی تھی، تاہم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے سپاہی منش کو ان باتوں سے کیا تعلق؟ انہیں صحرا نوردی اور سیر وشکار سے کب فرصت تھی جو شرک و توحید کی حقانیت پر غور کرتے؛ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے عجیب طرح سے ان کی رہنمائی کی۔

ایک روز حسبِ معمول شکار سے واپس آ رہے تھے، کوہِ صفا کے پاس پہنچے تو ایک لونڈی نے کہا: "ابو عمارہ! کاش تھوڑی دیر پہلے تم اپنے بھتیجے محمد ﷺ کا حال دیکھتے، وہ خانہ کعبہ میں اپنے مذہب کا وعظ کہہ رہے تھے کہ ابو جہل نے نہایت سخت گالیاں دیں اور بہت بری طرح ستایا، لیکن محمد ﷺ نے کچھ جواب نہ دیا اور بےبسی کے ساتھ لوٹ گئے۔

یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت میں جوش آگیا، تیزی کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے، ان کا قاعدہ تھا کہ شکار سے واپس آتے ہوئے کوئی راہ میں مل جاتا تو کھڑے ہوکر ضرور اس سے دو دو باتیں کرلیتے تھے، لیکن اس وقت جوشِ انتقام نے مغضوب الغضب کر دیا تھا، کسی طرف متوجہ نہ ہوئے اور سیدھے خانہ کعبہ پہنچ کر ابو جہل کے سر پر زور سے اپنی کمان دے ماری جس سے وہ زخمی ہوگیا، یہ دیکھ کر بنی مخزوم کے چند آدمی ابو جہل کی مدد کے لیے دوڑے اور بولے: حمزہ! شاید تم بھی بددین ہوگئے؟ فرمایا: "جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہوگئی تو کون سی چیز اس سے باز رکھ سکتی ہے؟ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے رسول ﷺ ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں سب حق ہے، خدا کی قسم! اب میں اس سے پھر نہیں سکتا، اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دیکھ لو، ابو جہل نے کہا ابو عمارہ کو چھوڑ دو، خدا کی قسم! میں نے ابھی اس کے بھتیجے کو سخت گالیاں دی ہیں۔ (طبقاتِ ابن سعد، قسم اول، جزء ثالث)

یہ اسلام کا وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ﷺ ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین تھے اور مومنین کا حلقہ صرف چند کمزور ناتواں ہستیوں پر محدود تھا، لیکن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اضافہ سے دفعۃً حالت بدل گئی اور کفار کی مطلق العنان دست درازیوں اور ایذا رسانیوں کا سدِ باب ہو گیا، کیونکہ ان کی شجاعت وجانبازی کا تمام مکہ لوہا مانتا تھا۔ (طبقاتِ ابن سعد، حصہ: مغازی)

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آستانہ نبوی ﷺ پر دستک دی، چونکہ شمشیر بکف تھے، اس لیے صحابہ کرام کو تردد ہوا، لیکن اس شیرِ خدا نے کہا: کچھ مضائقہ نہیں، آنے دو! اگر مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا، غرض وہ اندر داخل ہوئے اور کلمہ توحید ان کی زبان پر تھا اور مسلمان جوشِ مسرت سے اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ (طبقات ابن سعد، حصہ: مغازی: 3)

مواخات:

مکہ کی مواخات میں حضرت خیرالانام ﷺ کے محبوب غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلامی بھائی قرار پائے، ان کو حضرت زید رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت ہوگئی تھی کہ غزوات میں تشریف لے جاتے تو ان ہی کو ہر قسم کی وصیت کرجاتے تھے۔ (طبقاتِ ابن سعد، ص: 08)

ہجرت:

بعثت کے تیرہویں سال تمام صحابہ کرام ؓ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، جہاں ان کو زورِ بازو اور خدا داد شجاعت کے جوہر دکھانے کا نہایت اچھا موقع ہاتھ آیا، چنانچہ پہلا اسلامی پھریرا ان ہی کو عنایت ہوا اور تین آدمیوں کے ساتھ ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کیے گئے کہ قریشی قافلوں کے سدِّ راہ ہوں، غرض وہاں پہنچ کر ابو جہل کے قافلہ سے جس میں تین سو سوار تھے مڈ بھیڑ ہوئی اور طرفین نے جنگ کے لیے صف بندی کی، لیکن مجدی بن عمرو الجہنی نے بیچ بچاؤ کرکے لڑائی روک دی اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بغیر کشت وخون واپس آئے۔ (ابو داؤد: 1/ 263)

غزوات میں شرکت:

اسی سال ماہِ صفر میں خود سرورِ کائنات ﷺ نے سب سے پہلی دفعہ تقریباً ساٹھ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ قریش مکہ کی نقل وحرکت میں سدِراہ ہونے کے لیے ابوا پر فوج کشی فرمائی، حضرت حمزہ ؓ علمبردار تھے اور تمام فوج کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی، لیکن قریش کا قافلہ آگے بڑھ چکا تھا، اس لیے جنگ وجدل کا موقع پیش نہ آیا، تاہم اس مہم کا سب سے زیادہ نتیجہ خیز اثر یہ تھا کہ بنو خمرہ

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

8ھ میں جب فتحِ مکہ کی تیاریاں ہوئیں اور اہلِ کو بےخبر رکھنے کے لیے تمام احتیاطی تدبیریں عمل میں لائی گئیں، حضرت حاطب ؓ اگرچہ مکہ کے رہنے والے نہ تھے، تاہم ایامِ جاہلیت میں قریش سے جو تعلقات پیدا ہوگئے تھے اس نے ان کو احبابِ قدیم کی مواسات پر برانگیختہ کیا، انہوں نے ان تیاریوں کے متعلق خط لکھ کر ایک عورت کی معرفت مکہ کی طرف روانہ فرمایا، لیکن کشافِ غیب نے قبل از وقت اس راز کو طشتِ از بام کردیا، آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ کو حکم دیا کہ روضہ خاخ کے پاس جاکر اس عورت سے خط چھین لائیں۔

غرض خط گرفتار ہوکر آیا اور پڑھا گیا تو آپ ﷺ نے تعجب سے فرمایا: حاطبؓ! یہ کیا ہے؟ عرض کیا: "یارسول اللہ! میرے معاملہ میں عجلت نہ فرمائیے، میں قریشی نہیں ہوں، تاہم ایامِ جاہلیت میں ان سے تعلقات پیدا ہوگئے تھے، چونکہ تمام مہاجرین اپنے مکی، اعزہ واقارب کی حمایت ومساعدت کرتے رہتے ہیں، اس لیے میں نے بھی چاہا کہ اگر نسبی تعلق نہیں ہے تو کم سے کم اس احسان کا معاوضہ ادا کردوں جو قریش میرے رشتہ داروں کے ساتھ مرعی رکھتے ہیں، میں نے یہ کام مذہب سے مرتد ہوکر یا کفر کو اسلام پر ترجیح دے کر نہیں کیا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۂ فتح)

رسول اللہ ﷺ نے حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جو کچھ سچی بات تھی، اس نے ظاہر کردی، اس لیے اس کو کوئی برانہ کہے، حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ یہ خدا اور رسول اور مسلمانوں کی خیانت کا مرتکب ہوا ہے، اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں،ارشاد ہوا: کیا وہ معرکۂ بدر میں شریک نہ تھا؟ خدا نے تمام اہلِ بدر کو اجازت دے دی ہے کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے، رحمۃ للعالمین ﷺ کی اس شانِ درگزر پر حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ 
(صحیح بخاری: باب فضل مَن شَہِدَ بدرا)

اس واقعہ کے بعد اعدائے اسلام سے الفت ومودت کی ممانعت کی گئی اورقرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی: 

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ" (الممتحنة: ۱)

"اے وہ لوگو! جو کہ ایمان لائے ہو، میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ، تم ان کی طرف محبت سے پیش آتے ہو، حالانکہ تمہارے پاس جو (مذہب) حق آیا ہے اس کا انہوں نے انکار کیا۔"

مصر کی سفارت:

آنحضرت ﷺ کے بعد خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو دوبارہ مقوقس کے دربار میں بھیج کر ان کی وساطت سے ایک معاہدہ ترتیب دیا جو حضرت عمروبن العاص ؓ کے حملۂ مصر تک طرفین کا معمول بہ تھا۔ (الاستیعاب: ۱/۱۳۵)

وفات:

پینسٹھ سال عمر پائی، 30ھ میں مدینہ منورہ میں وفات ہوئی۔ خلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی، اور مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع نے سپردِ خاک کیا۔(اسد الغابہ، جلد: 1، صفحہ: 496، حصہ دوم)

اخلاق:

وفا شعاری، احسان پذیری اور صاف گوئی ان کے مخصوص اوصاف ہیں، احباب اور رشتہ داروں کا بےحد خیال رکھتے تھے، فتحِ مکہ کے موقع میں انہوں نے مشرکین کو جو خط لکھا وہ در حقیقت ان ہی جذبات پر مبنی تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی نیتِ خیر وصاف گوئی کو ملحوظ رکھ کر ان سے درگزر فرمایا۔ (الاستیعاب: جلد: 1، ص: 135)

ذریعۂ معاش:

تجارت اصلی ذریعۂ معاش تھی، انہوں نے کھانے کی ایک دکان سے نہایت کثیر نفع حاصل کیا، چنانچہ وفات کے وقت چار ہزار دینار نقد اور بہت سے مکانات چھوڑے۔ (طبقاتِ ابن سعد)

حلیہ:

موزوں اندام، چہرہ خوبصورت، انگلیاں موٹی اور قد کسی قدر چھوٹا تھا۔ (طبقاتِ ابن سعد، جلد: 3، ص: 80)

===========> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

اگرچہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ آخری زمانہ میں مشرف با سلام ہوئے اور فیضانِ نبوی سے استفادہ کا کم موقع ملا، تاہم جو لمحات بھی میسر آئے، ان سے پورا فائدہ اٹھایا، اس لیے اس کمیٔ صحبت کے باوجود ان سے سو حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے آٹھ متفق علیہ ہیں اور ایک میں امام بخاری اور سات میں امام مسلم منفرد ہیں۔ (تہذیب التہذیب: 2/73)

ان سے روایت کرنے والوں کا دائرہ بھی خاصا وسیع ہے؛چنانچہ ان کے لڑکوں میں منذر، عبید اللہ، ایوب، ابراہیم اور لڑکوں کے علاوہ ابو ذرعہ بن عمر، انس، ابو وائل، زید بن وہب، زیاد بن علاقہ شبعی، قیس بن ابی حازم، حمام بن حارث، اور ابو ظبیان حصین بن جندب نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں۔ (تہذیب الکمال: 61)

بارگاہِ نبوی ﷺ میں پزیرائی:

بارگاہِ نبوی میں حضرت جریرؓ کی بڑی پزیرائی تھی، رسول اللہ ﷺ انہیں بہت مانتے تھے اور بڑے احترام سے ان کے ساتھ پیش آتے تھے، ان کے بیٹھنے کے لیے ردائے مبارک بچھا دیتے تھے۔ (تہذیب التہذیب: 1/73)

جب بھی درِ دولت پر حاضر ہوتے، کبھی شرفِ بار یابی سے محروم نہ رہتے، جب آپ ﷺ انہیں دیکھتے تھے تو مسکرادیتے تھے۔(تہذیب الکمال: 61)

غائبانہ ان کا ذکرِ خیر فرماتے تھے، ان کا بیان ہے کہ جب میں مدینہ پہنچا تو مدینہ کے باہر سواری بٹھا کر کپڑا رکھنے کا تھیلا کھولا اور حُلہ پہن کر داخل ہوا، اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، میں نے سلام کیا، لوگوں نے آنکھوں سے میری طرف اشارہ کیا، میں نے اپنے پاس کے آدمی سے پوچھا: عبد اللہ! کیا رسول اللہ ﷺ میرا تذکرہ فرماتے تھے، انہوں نے کہا: ہاں، ابھی ابھی نہایت اچھے الفاظ میں تمہارا تذکرہ فرمایا، آپ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، دورانِ خطبہ فرمایا کہ اس دروازہ یا اس کھڑکی سے تمہارے پاس یمن کا بہترین شخص داخل ہوگا، اس کے چہرہ پر بادشاہی کی علامت ہوگی، میں نے اس عزت افزائی پر خدا کا شکر ادا کیا۔

حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی خوبیوں اور رسول اللہ ﷺ کے اُن کی توقیر کرنے کی وجہ سے خلفاء راشدینؓ بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ خدا تم پر رحمت نازل فرمائے، تم جاہلیت میں بھی اچھے سردار تھے اور اسلام میں بھی اچھے سردار ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائلِ جریرؓ بن عبد اللہ)

=============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

حیاتِ صحابہؓ کے درخشاں پہلو، قسط: 67

حضرت جریر بن عبداللہ البَجَلی رضی اللہ عنہ:

نام ونسب:

نام: جریر، کنیت: ابو عمر، نسب نامہ یہ ہے: جریر بن عبد اللہ بن جابر بن مالک بن نضر بن ثعلبہ بن جشم بن عوف بن خزیمہ بن حرب بن علی بن مالک بن سعد بن نذریر قسر بن عبقر بن انمار بن اراش بن عمرو بن غوث بجلی، جریر یمن کے شاہی خاندان کے رکن اور قبیلہ بجیلہ کے سردار تھے۔

قبولیتِ اسلام:

بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ وفاتِ نبوی کے کُل چالیس روز پیشتر مشرف باسلام ہوئے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، بروایتِ صحیح وہ حجۃ الوداع میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب تھے، اس لیے وفات سے کم از کم چار پانچ ماہ پیشتر ان کا اسلام ماننا پڑے گا اور واقدی کے بیان کے مطابق رمضان میں اسلام لائے، اس روایت کی رو سے آنحضرت ﷺ کی وفات کے سات مہینہ پیشتر ان کا اسلام لانا ثابت ہوتا ہے، بہر حال! اس قدر یقینی ہے کہ وہ وفاتِ نبوی سے کئی مہینہ پیشتر اسلام لا چکے تھے۔

جب یہ قبول اسلام کے لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا: اسلام قبول کرنے کے لیے، آپ ﷺ نے ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور مسلمانوں سے فرمایا: جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت کیا کرو، اس کے بعد حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اسلام کے لیے ہاتھ بڑھایا اور کہا: میں اسلام پر بیعت کرتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا، پھر فرمایا: جو شخص انسان پر رحم نہیں کرتا اس پر خدا رحم نہیں کرتا، اور بلا شرکتِ غیر خدائے واحد کی پرستش، فرض نمازوں کی پابندی، مفروضہ زکوۃ کی ادائیگی، مسلمانوں کی نعمت اور کافروں سے برأت پر بیعت لی۔

حجۃ الوداع میں حاضری:

قبولِ اسلام کے بعد سب سے اول آنحضرت ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک ہوئے، اس میں مجمع کو خاموش کرنے کی خدمت ان کے سپرد تھی۔

سریہ ذی الحُلَیفہ کی قیادت:

فتح مکہ کے بعد قریب قریب عرب کے تمام قبیلے اسلام کے حلقۂ اثر میں آگئے تھے، لیکن بعضوں میں صدیوں کے اعتقاد کی وجہ سے توہم پرستی باقی تھی، اور صنم کدوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے، اس وہم کو دور کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ نے کئی صنم کدے گرادیئے، یمن کے صنم کدہ ذی الحلیفہ کو جو کعبہ یمانی کے نام سے مشہور تھا، ڈھانے کی خدمت حضرت جریرؓ کے سپرد فرمائی۔

ایک دن آپ ﷺ نے حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم ذی الحلیفہ کو ڈھا کر مجھے مطمئن نہ کرو گے؟ عرض کیا: بسر و چشم حاضر ہوں؛ لیکن گھوڑے کی پیٹھ پر جم کے نہیں بیٹھ سکتا، یہ عذر سن کر آپ ﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور دعا دی کہ: خدایا ان کو گھوڑے کی پیٹھ پر جمادے اور ہادی ومہدی بنا۔

حضرت جریرؓ رسول اللہ ﷺ کی ان دعاؤں کو لےکر 150 سواروں کے دستہ کے ساتھ یمن پہنچے اور ذی الحلیفہ کے صنم کدہ کو جلا کر خاکستر کردیا اور ابو ارطاۃ کو اطلاع کے لیے مدینہ بھیجا، انہوں نے آکر آنحضرت ﷺ کو مژدہ سنایا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم نے ذی الحلیفہ کو جلا کر خاکستر کردیا ہے، یہ خبر سن کر آپ ﷺ نے اس سریہ کے سوار اور پیدل کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۂ ذی الحلیفہ)

ابھی حضرت جریر رضی اللہ عنہ یمن ہی میں تھے کہ آنحضرت ﷺ کا وصال ہوگیا، لیکن انہیں اس کی خبر نہ ہوئی، ایک دن یہ یمن کے دو آدمیوں ذو کلاع اور ذو عمر کو حدیث نبوی ﷺ سنا رہے تھے کہ انہوں نے کہا: تم اپنے جس ساتھی کا حال سنا رہے ہو، وہ تین دن ہوئے وفات پاگیا، یہ وحشتناک خبر سن کر حضرت جریر رضی اللہ عنہ روانہ ہو گئے، راستہ میں مدینہ کے سوار ملے، ان سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا وصال ہوگیا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے۔

عہدِ فاروقی ؓ میں عراق جنگ میں فوجی قیادت:

عہدِ خلافتِ صدیقیؓ میں غالباً انہوں نے خاموشی کی زندگی بسر کی، حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عراق کی فوج کشی میں شریک ہوئے، عراق پر عہدِ خلافتِ صدیقیؓ ہی میں فوج کشی ہوچکی تھی، اس سلسلہ کی مشہور جنگ واقعۂ جسر میں جو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی، مسلمانوں کو نہایت سخت شکست ہوئی اور بہت سے مسلمان شہید ہوئے، اس لیے حضرت عمرؓ نے عراقی افواج کی امداد کے لیے تمام قبائلِ عرب کو جمع کیا اور ہر قبیلہ کے سردار کو اس کے قبیلہ کا افسر بناکر عراق روانہ کیا، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو قبیلہ بجیلہ کی سرداری ملی۔

چنانچہ یہ اپنے قبیلہ کے ساتھ عراق پہنچے اور مقام ثعلبہ میں حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے جو ایرانیوں کے مقابلہ میں تھے ملے، مقامِ حیرہ میں مسلمانوں اور ایرانیوں کا مقابلہ ہوا، اس مقابلہ میں حضرت جریر رضی اللہ عنہ میمنہ کے افسر تھے، میمنہ میسرہ اور قلب کو لے کر ایرانیوں پر حملہ کیا، ایرانیوں نے بھی برابر کا جواب دیا اور مسلمان پھٹ کر الگ ہوگئے، حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے للکارا، ان کی للکار پر وہ پھر سنبھل کر حملہ آور ہوئے، اس حملہ میں عرب کے مشہور بہادر حضرت مسعود

Читать полностью…

تاریخ اسلام(اردو)

آپ رضی اللہ عنہ کو اتباع سنت کا بڑا لحاظ تھا اور جس سنت پر ایک مرتبہ عمل شروع کردیتے، اس پر ہمیشہ مواظبت کرتے۔

حصولِ ثواب کے لیے کام:

ایک مرتبہ روح بن زنباع آپ کی خدمت میں گئے تو دیکھا کہ گھوڑے کے لیے جَو صاف کر رہے ہیں اور گھر کے تمام لوگ آپ کے گرد بیٹھے ہوئے ہیں، روح نے عرض کیا: کیا ان لوگوں میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اس کام کو کرسکے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ ٹھیک ہے؛ لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ:

مَامِنْ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يُنَقِّي لِفَرَسِهِ شَعِيرًا ثُمَّ يُعَلِّقُهُ عَلَيْهِ إِلَّاكُتِبَ لَهُ بِكُلِّ حَبَّةٍ حَسَنَةٌ۔ (مسند احمد بن حنبل، حَدِيثُ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، حدیث نمبر: 16996، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة)

ترجمہ:
جب کوئی مسلمان اپنے گھوڑے کے لیے دانہ صاف کرتا ہے اور پھر اس کو کھلاتا ہے تو ہردانہ کے بدلے اسے ایک نیکی ملتی ہے، اس لیے میں خود اپنے ہاتھ سے کام کرتا ہوں؛ تاکہ ثواب سے محروم نہ رہ جاؤں۔

عبادت:

آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اُن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں تھا جو زہد وتقویٰ، عبادت وریاضت میں ضرب المثل تھے، مشکل ہی سے کبھی آپ رضی اللہ عنہ کی نمازِ تہجد ناغہ ہوتی، تہجد میں بسا اوقات ایک آیت اتنی بار دہراتے کہ پوری رات ختم ہوجاتی، ایک مرتبہ آپ تہجد میں جب اس آیت:

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ۔ (سورۃ الجاثیۃ: 21)

ترجمہ:
"جولوگ برے کام کرتے ہیں، کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان کے برابر رکھیں گے؛ جنہوں نے ایمان وعملِ صالح کو اختیار کیا کہ ان سب کا مرنا جینا برابر ہوجائے۔"

پر پہنچے توا سی کو رات بھر دہراتے رہے؛ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ (اصابہ۔ الغابہ۔ نسائی میں بھی یہ روایت ہے) محمد بن سیرین بیان فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کردیتے تھے۔ (تہذیب التہذیب، ذکر تمیم) انہوں نے ایک بہت قیمتی جوڑا خریدا تھا جس روز ان کوشبِ قدر کی توقع ہوتی تھی اسے اس روز پہنتے تھے۔ (صفوۃ الصفوۃ: 1/310)

بایں ہمہ اپنی عبادت کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ آپ رات میں کتنی نمازیں پڑھتے ہیں؟ آپ اس سوال پر بہت نارض ہوئے اور فرمایا کہ ایک رکعت نماز جسے میں رات کی تنہائی میں پڑھوں، وہ مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں رات بھر نماز پڑھوں اور صبح کو سب سے بیان کرتا پھروں۔ (صفوۃ الصفوۃ: 1/310)

مسجد میں روشنی کی ابتداء:

یہ آپ کا بہت بڑا شرف ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد میں روشنی کی سنتِ حسنہ جاری کی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تمیم داری رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسجد میں چراغ جلانے اور روشنی کرنے کی ابتدا کی۔
(ابن ماجہ، باب المساجد: 56)

حلیہ ولباس:

خوش پوش، خوش وضع اور خوبصورت آدمی تھے۔ (اسدالغابہ:1/215)

============> سلسلہ جاری ہے ۔۔۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel