السلام وعلیکم جناب۔
سسپنس مئی دو ہزار بیس درکار ہے اگر ممکن ہو تو محفل میں موجود کوئ دوست فراہم کر دیں۔
اشعار کی چند کتابیں ارسال کر دیں
مصنف احمد فراز، ڈاکٹر بشیر بدر، مرزا غالب،
نوازش ہوگی ❤️
خوشخبری، خوشخبری، خوشخبری!
*رہنمائے انگریزی* دوبارہ چھپ کر آگئی ہے
(انگریزی سکھانے والی پہلی کتاب جسے آپ پڑھنے کے ساتھ سُن بھی سکتے ہیں۔)
*امتیازی خصوصیات:*
✦ ہر سبق کا مفت یوٹیوب ویڈیو
✦ ہر نئے لفظ کا ترجمہ و تلفظ
✦ ہر اہم بحث کا عملی نمونہ
✦مشق کے اضافی سوالات
✦سبھی سوالات کے مناسب جوابات
✦ الفاظ، افعال اور دیگر مواد کا ذخیرہ
✦ انگریزی کے ہر فن کےلیے مفید و معاون
*صفحات:*
کتاب کے دو حصے ہیں، صفحات کی مجموعی تعداد 880ہے، کاغذ بہترین نیچرل شیڈ، 70 گرام ہے۔
*قیمت:*
دونوں جلدوں کی مجموعی قیمت *700* ہے، لیکن ابھی رعایتا *530* روپے میں مل رہی ہے(بعد میں قیمت مزید بڑھ سکتی ہے)۔
*زائد عدد آڈر کرنے پر خصوصی رعایت بھی ہے۔*
آڈر کرنے اور بُک کرانے کیلیے دیے گئے نمبر یا کوڈ کو اسکین کرکے قیمت ادا کریں، پھر واٹسپ میں اسکرین شوٹ بھیج دیں، کنفرم ہونے کے بعد اپنا مکمل پتہ بھیج دیں، آڈر ہوتے ہی دو تین دنوں میں کتاب ڈاک کے ذریعہ آپ کے ایڈریس پر بھیج دی جائےگی، پہنچنے میں اکثر ہفتہ سے دس دن لگتے ہیں۔
*رابطہ کریں:*
+91 7667635299
"فاصلہ" - از مصطفی صادق رفیق
یہ کتاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ایک دلچسپ کہانی کی شکل میں پیش کرتی ہے۔
. "شاہ آباد کے سلطان" - از جون اے چسنٹ
. "حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات" - از شیخ محمد یونس الجونپوری
کوئی ایسی کتاب جس میں غزہ پٹی کی جغرافیائی ، انتظامی امور اور تاریخ کا بیان ہو ، چاہیے
Читать полностью…السلام علیکم
انبیاء کی سرزمین : اردن و فلسطین ( سفر نامہ )
مصنف : محمود الرحمن فاروقی ندوی
یہ کتاب چاہیے ۔
دشمن کے شدید ردِ عمل سے واقفیت کے باوجود مجاہدین نے دشمن پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا۔
علامہ محمد بن محمد الاسطل (فلسطینی عالم دین)
میں ان لوگوں میں سے نہیں جو سوشل میڈیا پر چھڑنے والی ہر متنازع گفتگو کا جواب دینے کے لیے میدان میں اتر پڑتے ہیں، اس لیے کہ میں علمی مقام و منصب کا احترام ضروری سمجھتا ہوں اور میرا یہ ماننا ہے کہ غیر مفید یا محدود فائدہ والی باتوں میں وقت ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔
ایک دو دن پہلے بعض احباب کی طرف سے مجھ سے دریافت کیا گیا کہ : اس شخص کی رائے کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے جو یہ کہتا ہے کہ صہیونی دشمن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں تاکہ اسے اتنے شدید ردِ عمل کا موقع نہ ملے۔
خاموشی کے اپنے أصول کو کنارے رکھتے ہوئے، اپنے احساسات کو سرسری طور پر رکھوں گا۔ اس وقت جو صورتِ حال ہے اس میں تفصیل سے جواب دینے کے لیے ذہنی یکسوئی میسر نہیں ہے۔
میں اس ضمن میں ذیل کے صرف چار اسباب آپ کےسامنے رکھتا ہوں۔
پہلی وجہ:
دشمن مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی، اسے یہودی شناخت دینے، اور ہیکل کی تعمیر کے اپنے ایجنڈے پر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اپنے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ماضی میں دو یا تین سالوں میں وہ جو اقدامات کرتا تھا اب وہ دو تین ہفتوں میں ہی وہ سب پورا کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اہلیانِ شہر القدس کو ذلیل و رسوا کرنے، ہراساں کرنے اور ان کے اہلِ علم و فضل کو جیلوں میں بھرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
صرف یہی نہیں، اس کی حرکتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب وہ مسجدِ اقصیِ میں نماز سے لوگوں کو روک رہا ہے، اس کی رکاوٹوں کی وجہ سے لوگ نماز کے لیے مسجد تک نہیں پہونچ سکتے۔ مسجد کے اندر تقریبا 50 علمی حلقے منعقد ہوتے تھے لیکن اب سالوں سے ان پر بھی پابندی عائد ہے۔
مجاہدین کے آپریشن سے چند دن پہلے تقریبا 5 ہزار صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر اس کی بے حرمتی کی۔ کئی دنوں سے ان کی یہی حرکات جاری تھیں۔ مسجد کی بے حرمتی کے ایسے مظاہر گزشتہ بیس سالوں میں بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اور اسے یہودی رنگ دینے کی بڑھتی ہوئی حرکتوں کے رد میں مجاہدین نے اپنے آپریشن کو انجام دیا۔ معرکہ کے نام "طوفان الاقصیٰ" سے ہی اس کا مقصود ظاہر ہوتا ہے۔
دوسری وجہ:
دشمن ہمیں گزشتہ پندرہ سالوں سے دھیرے دھیرے موت کی طرف ڈھکیلنے کے اپنے منصوبے پر کار بند ہے. ہمارے درمیان نوجوانوں کی ایک پوری نسل ایسی ہے جس نے اسی بحران کے درمیان آنکھ کھولی ہے۔ بیس، تیس سال کی عمر کو پہونچے ہوئے اکثر نوجوان زندگی کے ہر گوشے سے دور، روزگار سے محرومی کی زندگی جی رہے ہیں، وہ اپنی تعلیم پوری نہیں کر سکتے، شادی نہیں کر سکتے، گھر نہیں بنا سکتے اور انہیں کوئی روزگار بھی نہیں ملتا۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ میں طرح طرح کی سماجی مشکلات پھیل چکی ہیں، بے روزگاری ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، شادیوں کا سلسلہ رکا سا ہوا ہے، یوں سمجھیں کہ سماجی اور معاشی مسائل کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔
قریبی دنوں میں دسیوں ہزار کی تعداد میں نوجوانوں نے اس امید پر مغربی ممالک کی طرف ہجرت کی کوشش کی کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے روزگار کے کچھ مواقع میسر آئیں گے۔ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل کی طرف جانا چاہتے تھے لیکن بحری راستے میں ایسے دسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں نوجوان سمندر اور مچھلی کا لقمہ بن گئے۔
تیسری وجہ
ہمارے جو افراد دشمن کی قید میں ہیں ان کے ساتھ اس کا رویہ وحشیانہ ہے، وہ ایسی شدید اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں کہ گویا ہر دن کئی کئی بار موت کی چکی میں پیسے جا رہے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ڈیڑھ میٹر کے سیل میں 13 سالوں سے قید ہیں، کچھ قیدیوں کو براز و گندگی سے لت پت سیل میں ڈالا جاتا ہے۔ وہ درد و الم کا مارا، نفسیاتی اذیت سے دوچار قیدی دو تین دن تک لگ کر اس کی صفائی کرتا ہے کہ اس کے بعد اس میں رہ سکے، اس دوران اس کے کپڑے اتارے جاتے ہیں، اسے زدو کوب بھی کیا جاتا ہے۔ پھر جب سیل صاف ہو جاتا ہے تو اسے اسی طرح کے دوسرے گندے سیل میں منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ اذیت کا وہی سلسلہ پھر شروع ہو۔
ماضی قریب میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والا اذیت ناک سلوک برداشت کی حدوں سے بھی باہر جا چکا ہے۔ ان میں یہ إحساس پیدا ہونے لگا ہے کہ امت انہیں بھول بیٹھی ہے، کسی کو ان کی مصیبت اور ان کے حالات کی فکر نہیں بلکہ کسی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔
صہیونی حکومت کے اندر بن غفیر اور اس جیسے دوسرے لوگوں کی قیادت میں انتہا پسند یہودیوں کی مضبوط گرفت کی وجہ سے قیدیوں کی زندگی کو اس طرح جہنم بنا دیا گیا ہے کہ عملا ان کے لیے یہ سب وہ نا قابلِ برداشت ہو چکا ہے۔
جزاک اللہ خیرا
کہہ کر شکریہ ادا کریں تو سنت بھی ادا اور دعا بھی خوب تر
شکریہ میں شکریہ تو ہے دعا نہیں ہے