غیر متعلق پوسٹ کرنے پر آپکو گروپ سے باہر نکالا جا رہا ہے
اور تاحیات پابندی لگائی جا رہی ہے ۔
قاسمی نام کو بٹہ لگا رہے ہیں آپ
"ابن صفی ۔ میرے محبوب مصنف"
تحریر : لبنیٰ رضوان۔
جب سے ابنِ صفی محترم کے بارے میں لکھنے کا سوچا ہے تب سے گومگو کی سی کیفیت کا شکار ہوں، کہاں ابنِ صفی سی اعلٰی شخصیت اور کہاں مجھ جیسی ادنٰی قاری۔
اپنے الفاظ کی کم مائیگی اور بے بسی کا مجھے شدت سے احساس ہے۔ میرے پاس بھاری بھرکم الفاظ نہیں ہیں، اور نہ ہی اندازِ بیاں متاثر کن ہے، گروپ میں اب تک کی پوسٹ شدہ تمام تحاریر پڑھنے کے بعد تو یہ احساس اور بھی جاں گزیں ہوگیا ہے۔ ماشاءاللہ سب نے ایک سے بڑھ کر ایک لکھا اور ان تمام منجھے ہوئے لکھاریوں کے بیچ میری یہ تحریر بیشک بہت ادنٰی و معمولی ہے لیکن میرے جذبات اور احساسات ہر گزبھی معمولی نہیں۔ انہی سچے جذبات سے لبریز یہ تحریر آپ سب کی نذر ہے۔
شروعات کہاں سے کروں؟
مجھے بھی اس شخص پرلکھنا ہے جس پر سینکڑوں لکھنے والے لکھ رہے ہیں، ہزاروں لکھنے والے لکھ چکے ہیں اور نہ جانے کتنے لوگ آگے بھی لکھتے رہیں گے۔
اس عہد پر لکھنا ہے جو میں نے تو نہیں دیکھا لیکن اس کے اثرات آج تک باقی ہیں، اپنی کتابوں میں، اپنے کرداروں میں اور میرے دل میں۔
اس شخص پر لکھنا ہے جس کے بارے میں 'با ادب' نے کہا کہ یہ 'ادب' کی 'بے ادبی' کرتا ہے، یہ وہی لوگ تھے جو رات کی تاریکی میں خود بھی اس کے فن کا نشہ کرنے تھے، یہ اس شخص کا ذکر ہے جس کی زندگی میں جاسوسی ناولوں کو ادب کا درجہ نہ مل سکا، ہاں یہ ذکر میرے محبوب مصنف ابنِ صفی کا ہے۔
ابنِ صفی میرے لیئے صرف ایک شخصیت نہیں وہ میرے لیئے ایک عہد ہیں، میرے محسن ہیں، میرے استاد ہیں، میری تنہائیوں کے ساتھی، میرے دکھ درد کے سانجھی، میرے دوست، میرا معیار، میرے لئے اردو ادب کا ایک درخشاں اور تابندہ ستارہ ہیں۔
میرا ابنِ صفی سے پہلا تعارف:
جب سے آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو اپنے اردگر کھلونے اتنے نہیں دیکھے جتنا کتابوں کا ڈھیر دیکھا، ابو جی کو کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں دیکھا، اپنی مخصوص کرسی پہ مخصوص انداز میں کتاب ہاتھ میں لئے کچھ نہ کچھ پڑھتے پایا، پھر ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ گھر کے بقیہ افراد پر اس کا خاطر خواہ اثر نہ پڑتا۔
بھائی، امی، بہن اور کزنز سب اسی رنگ میں رنگتے چلے گئے، شروع سے ہی یہ بات ذہن میں بیٹھتی چلی گئی کہ کتاب زندگی کا اہم جزو ہے، بھلا کتاب کے بغیر بھی زندگی کوئی زندگی ہے؟ یہ بات میرے ننھے ذہن میں بہت پختگی سے بیٹھتی چلی گئی۔
گھر کے کونے میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹرنک ہوا کرتا تھا، وہاں میری پہلی بار ابنِ صفی سے سرسری سی ملاقات ہوئی، سرسری یوں کہ کتابیں صرف تصویروں کی حد تک کنگھالی گئیں، پھر ایسی بیشمار فریدی اور عمران سیریز وقتاً فوقتاً نظروں سے گزرتی رہیں، لیکن کچی عمر میں جب بھی ایسی کوئی کتاب ہاتھ میں لئے الٹ پلٹ کرتی بہن اور کزنز چھپٹا مار کے مجھ سے چھین لیتیں اور کہتیں کہ تمہاری عمر نہیں ابھی ایسی کتابیں پڑھنے کی، میں خالی ہاتھ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی۔
اس وقت میرے لیئے ابنِ صفی کی کتابیں اس درخت کی مانند تھیں جس کے پاس جانے سے آدم و ہوا کو روکا گیا تھا، پھر ہوا وہی، خواب و خیال میں وہی کتابیں رہنے لگیں، میں بھی دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر کس عمر میں یہ کتابیں پڑھ کر خراب ہونا ٹھیک ہے۔
میری بے چین طبیعت 8 سال کی عمر میں عین اس دن مجھے ان کتابوں کے درمیان لے آئی جب بہن اور کزنز گھر پر نہیں تھیں، میں نے کتاب اٹھائی اور پڑھنا شروع کیا پڑھتے ہوئے اتنا مزا آرہا تھا کہ دروازہ کھلنے اور کسی کے اپنے پشت پر ہونے کو بالکل محسوس نہ کر پائی، اور جب پتا چلا تو پانی سر سے گزر چکا تھا اور بھائی صاحب کی گھورتی نظر میرا پوسٹ مارٹم کیئے دے رہی تھیں، پھر سزا تو ملنی تھی، جانے کتنے عرصے تک کسی کتاب کی شکل نہ دیکھ سکی۔
کچھ سالوں بعد میرے پاؤں پر ایک بہت خطرناک پھوڑا نکلا، جس کے باعث چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا، نہ دن میں سکون تھا نہ رات کو نیند آتی تھی، کھیل کود بھی سب بند ہوگیا، تب حقیقی معنوں میں میرا ابنِ صفی سے تعارف ہوا اور پھر بقول جولیا :
''چل پڑا چرخہ!''
پھر یکے بعد دیگرے میں نے ابنِ صفی کے ناول کئی کئی بار چاٹ ڈالے، مجھے یہ بات بتاتے ہوئے کافی شرمندگی ہو رہی ہے کہ ابتدائی چار یا پانچ ناولوں کے میں نے فریدی کا کوئی ناول نہیں پڑھا، بس ساری محبت اور ساری توجہ عمران نے ہی اپنی جانب کھینچے رکھی۔
مجھے عمران سے کتنی محبت تھی اور ہے، اس حوالے سے میری زندگی میں جو کافی مضحکہ خیز واقعات گزرے وہ ایک الگ ہی داستان ہے، لیکن عمران سے میری دیوانہ وار اندھی محبت کے ایک دو واقعات ضرور شیئر کروں گی۔
میں نے عمران کا ظاہری حلیہ ازبر کر رکھا تھا، اکثر ایک ایسی شخصیت کی تلاش میں رہتی جس کی تھوڑی میں گڑھا ہو، آنکھوں میں ذہانت کی چمک ہو، پیشانی کشادہ ہو اور چہرے پر طاری کردہ خود ساختہ حماقت کے ڈونگرے برستے ہوں۔
گروپ کے ممبران سے دست بستہ گزارش ہے کہ گروپ کے اصول و قواعد پر ایک نظر ڈال لیں ۔
جو کہ پن کی ہوئی ہے ۔
شاید کچھ غلط فہمی ہے
ہم نے تو صالحہ عبد الکریم
اور دوسرے
صبیحہ بانو
نام کے دو کرداروں کی کہانیاں/ واقعات پڑھے ہیں۔
صبیحہ عبدالکریم تو بالکل یاد نہیں۔
صبیحہ عبد الکریم کی کئی تحریریں میں نے بھی پڑھیں ۔ڈائجسٹوں میں ۔
مگر اس نام کا کوئی مصنف آنلائن نہیں مل رہا ۔۔۔
کسی کو پتہ ہو تو روشنی ڈالیں ۔
انکی تصنیفات کا نام ؟
انکی حالات زندگی؟
؟
السلام علیکم رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔۔۔
اردو میں صنف " ماہیاں " پر لکھی ہوئی کوئی کتاب ہوں، جس میں اس کے آغاز و ارتقاء کے تعلق سے ہوں تو ارسال کرے
جزاک اللّہ خیرا کثیرا
کوئی شادی کی تقریب ہو یا بچے کی آمین، میت کا گھر ہو یا برتھ ڈے پارٹی، ہر جگہ تھوڑی میں گڑھے کی کھوج میرا اہم ترین مشن ہوتا، ایک بار کامیابی نصیب ہوئی لیکن جب گڑھا کھوج لیا تب شکل پہ نظر پڑی وہ کوئی ستر سالہ جھریوں زدہ چہرہ تھا، اور ایسے کئی گڑھے اس کے چہرے پر جا بہ جا موجود تھے، بس کیا بتاؤں دل پہ کیسا گھونسا سا پڑا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہمت نہ ہاری عمران کی تلاش ہنوز جاری رکھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھر میں میری شادی کی بات چیت چل رہی تھی تو جو بھی رشتہ آتا میرا پہلا سوال یہی ہوتا کہ کیا اس کا مزاح عمران جیسا ہے؟
میری بہن ہکابکا....
اگلے رشتے پہ پھر وہی سوال....
اس سے اگلے پہ پھر وہی سوال....
اور پھر جب میری بہن کو اندازہ ہوا کہ میں اس سوال کو لے کر خطرناک حد تک سنجیدہ ہوں تو اس کی سٹی گم ہوگئی۔
پھر مسلسل ایک ہی تکرار سے تنگ آکر اس نے ایک دن مجھ سے کہا کہ عمران کے انتظار میں بیٹھی رہیں تو کنواری مرجاؤ گی لیکن عمران نہیں ملے گا، بس پھر دل پہ پتھر رکھ کر شادی کی ہامی بھر لی اور سوچا کہ عمران نہ سہی میرے میاں عمران کے فین تو ہوں گے ہی اس سے گزارہ ہوجائے گا، لیکن یہاں بھی قسمت کھوٹی نکلی ارے فین ہونا تو دور کی بات وہ تو عمران کا نام تک نہیں جانتے تھے۔
شادی کے بعد عمران تو نہ ملا لیکن بوغا کی پوری "کٹنی" ٹیم ضرور مل گئی، ایسی دلدوز حقیقت کا سامنا کرنے کے بعد طبیعت کی درستی میں کچھ افاقہ تو ہوا لیکن راز کی بات چپکے سے بتا دوں کہ عمران کی تلاش اب بھی جاری ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ یہ ابنِ صفی کا خاصہ ہے کہ لوگ ان کے کرداروں میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے، ابنِ صفی نے اپنے کرداروں کی بنت ہی ایسی رکھی ہے کہ کوئی بھی اس جال میں پھنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ اردو ادب میں ابنِ صفی کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ صحیح حق دار تھے، میری ناقص رائے میں ابنِ صفی ایک عام قاری کے مصنف تھے، یہ ہی وجہ ہے کہ ہر طبقے میں انھیں بے پناہ پڑھا گیا اور سراہا گیا، یہ مقامِ فیض صرف انھی کو حاصل تھا کہ ان کی کتابیں "بیسٹ سیلر" ہوا کرتی تھیں، ان کا لکھا ہوا فکشن آج کئی دہائیوں بعد بھی اپنے کرداروں کی طرح زندہ جاوید ہے، کسی مشہور ادیب نے ان کے بارے میں کہا تھا۔
"ابنِ صفی نے ایسا فکشن لکھا ہے جس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔"
آج تیسری نسل میں بھی ان کی کتابیں ایسی ہی مشہور و مقبول ہیں جیسے ان کی زندگی میں تھیں، پورے برصغیر میں کوئی ایک بھی مصنف جاسوسی ادب میں اس قدر معیاری اضافہ نہیں سکا، ان کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو کاپی کرنے کے لیے درجنوں مصنفوں نے خود ان کے کرداروں پر ہاتھ صاف کئے لیکن ان مصنفین کا لکھا ہوا ابنِ صفی کے مقابلے میں خاک بھی نہیں۔
میں نے ابنِ صفی سے کیا سیکھا؟
جو کچھ بھی سیکھا وہ زندگی میں بہت جگہ میرے کام آیا۔
*میں نے ابنِ صفی کے کرداروں سے کسی بھی حال میں ہمت نہ ہارنا سیکھا۔
*اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا سیکھا۔
*اپنے وطن سے عقیدت اور محبت سیکھی۔
*کردار کی مضبوطی سیکھی۔
*ہر قسم کی سچویشن میں مزاح کے سہارے شگفتگی پیدا کرنا سیکھی۔
*بہترین اور با محاورہ اردو سیکھی۔
مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اچھا ادب پڑھنے کا رجحان مجھے ابنِ صفی کے ناولز سے ملا، اس سے پہلے کوئی سا بھی لٹریچر پڑھ لیا کرتی تھی لیکن ابنِ صفی نے میرا ایک معیار دیا اور مجھے ہمیشہ اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہے۔
اپنے محبوب مصنف کے لئے مجھ جیسی ادنٰی قاری اور تو کچھ نہیں کر سکتی، کیونکہ بس میں ہی کچھ نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جب بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی ہوں اپنے محبوب مصنف کو کبھی نہیں بھولتی، ان سے اتنی اپنائیت اور دلی وابستگی محسوس ہوتی ہے گویا میرے والد ہوں۔
اللہ پاک میرے پیارے مصنف کو اگلے جہاں میں آسانیاں عطا کرے انہیں جنت کے باغوں میں سے باغ عطا کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں....آمین
#لبنیٰ_رضوان