واااووو نائس رائٹر
لیکن
ابھی اس کی بیٹی گھر پہ بھابھی کے پاس ہے، یہ بھی یاد رکھئے۔😆
عائزہ کو جیسے سردی لگ رہی تھی شہیر نے اپنی جیکٹ اتار کر عائزہ پہ دی لیکن عائزہ کو بہت تیز بخار تھا
عائزہ نیند میں بول رہی تھی مجھے طلاق کیوں دی سعد
شہیر سن رہا تھا
درد سے سر پھٹ رہا ہے دبا دو
نیند میں بول رہی تھی
کے شہیر شاہ پاس بیٹھا سر دبانے لگا
لاہور پہنچ تھے کے عائزہ کی آنکھ کھل گئی
شہیر کو اپنے اتنا قریب دیکھ کر ڈر گئی شہیر نے اہنا ہاتھ عائزہ کے سر پہ رکھا ہوا تھا
عائزہ گھبرا کر اٹھی شہیر کو ایک تھپڑ مار دیا
ڈر گئی تھی تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی
سب لوگ ان کی طرف دیکھنے لگے تھے
شہیر کو غصہ بہت آیا لیکن پہلی دفعہ کوئی لڑکی شہیر کو اچھی لگی تھی ۔اپنی بیٹی شہیر کی گود سے اٹھا کر بولی شرم امی چاہئے آپ کو
شہیر کچھ کہتا کے عائزہ غصے سے اٹھ کر دروازے کی طرف جانے لگی
ٹرین رکی سب اتر گئے
دیکھتے ہی دیکھتے عائزہ کہیں گم ہو گئی
شہیر ٹرین سے باہر آیا
اس کا ڈرائیور پہنچ چکا تھا لینے شہیر کو
شہیر کے دل و دماغ میں عائزہ بس چکی تھی
اور وہ چھوٹی سی بیٹی بلکل کوئی پرنسس لگ رہی ہو جیسے
شہیر اس بیٹی کو پھر گود میں اٹھانا چاہتا تھا لیکن وہ لڑکی کون کہاں گئی کچھ معلوم نہ تھا
عائزہ اپنے بھائی کے گھر پہنچی بھابھی لوگ حیران تھے عائزہ دو مہینے کی بیٹی لیکر آ گئی
عائزہ نے سب کچھ بتایا سعد نے بیٹی پیدا کرنے پہ طلاق دے دی
بھائی نے حوصلہ دیا ہم۔بات کریں گے اس سے عدالت جائیں گے
لیکن عائزہ نے منع کر دیا
وہ پڑھی لکھی تھی کسی پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی
بھائی سے کہنے لگی بھائی جان آپ بس اگر مجھے اس گھرمیں رہنے کی تھوڑی سی جگہ دے دیں بس
بھابھی کی طرف دیکھ بولی میں آپ کے گھر کا سارا کام کیا کروں گی بھابھی آپ پریشان نہ ہوں بس کچھ دن تک میں کوئی نوکری ڈھونڈ لوں گی
کچھ دن گزرے
عائزہ نے ایک جگہ دیکھا ایک کپمنی کو اسسٹنٹ مینجر کی ضرورت ہے
تنخواہ اچھی ہے گھر بھی دے۔
یہ ناول درکار ہے
دو اجنبی
میں نے کتنی بار کہا ہے میری کمپنی میں کام کرنے والے ہر انسان کو وقت کا پابند ہونا چاہیئے
یہاں کیا ہو رہا ہے
جنگل بنا رکھا ہے میرے آفس کو
میرے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں آپ سب لوگ
اور اکرم چاچا آپ 9 دن کہاں غائب تھے
چاچا کھانستے ہوئے بولے سر میری بیٹی کی شادی تھی
شہیر شاہ غصے میں بولے چاچا آفس میں کسی کو بتایا آپ نے
اور میڈم سمیرا آپ بتائیں 9 بجے آفس آ رہی ہیں
یہ کیا ہو رہا ہے سب میں صرف 20 دن کے لیئے امریکہ گیا تھا
سب کو جاب سے نکالوں گا آج
سب سٹاف ممبر پلیز میٹنگ روم میں آئیں
شہیر شاہ کے غصے کا سب کو علم تھا
شہر شاہ بہت سخت مزاج انسان تھا
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اچانک سے سر کیسے واپس آ گئے
سر تو دو مہینے کے لیئے گئے تھے نا
میٹنگ روم میں شہیر شاہ سب کا انتظار کر رہے تھے
سب سٹاف ممبر آگئے
مینجر صاحب میں کس چیز کی تنخواہ دیتا ہوں آپ کو
ورکر تو دور آپ لوگ خود وقت کے پابند نہیں ہیں
ہاتھ جوڑ کر شہیر شاہ جذبات میں بولے میں ایسے لوگوں کے ساتھ کام۔نہیں کر سکتا
آپ جا سکتے ہیں کل۔سے آفس آنے کی ضرورت نہیں ہے
مینجر اکمل صاحب نے سوری بولا سر
آج ہم۔کو معافی دے دیں پھر کبھی شکایت کا موقع نہ دیں گے
شہیر شاہ غصے والا ضرور تھا لیکن وہ دل کا ہیرا تھا
پل بھر میں غصہ ختم ہو جاتا تھا
سب اپنے اپنے کیبن میں جا کر کام کرنے لگے
شہیر شاہ کا غصہ کم ہوا تو
اپنے آفس سے باہر آئے چاچا اکرم ہاتھ میں جھاڑو لیئے صفائی کر رہے تھے
چاچا اکرم۔کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے
چاچا کیسے ہیں آپ
چاچا اکرم۔مسکرانے لگا شہیر صاحب ہم۔ٹھیک
شیہرشاہ نے چاچا کو ان کی بیٹی کی شادی کی مبارکباد دی
پھر کہنے لگا چاچا معاف کرنا ہم۔آپ کو تو پتہ ہے غصے میں کچھ بھی بول دیتا ہوں
چاچا اکرم مسکرانے لگا بیٹا 7 سال سے جانتا ہوں تم کو ہم۔سمجھتے ہیں آپ کو
شہیر شاہ کوئی بڑی عمر کا نہ تھا وہ ابھی 28 سال کا نوجوان لڑکا تھا
بہت خوبصورت اپنی محنت پہ اس نے اپنا بزنس اسٹارٹ کیاتھا جو آج لاکھوں کما رہا ہے اور ہزاروں لوگوں کے پیٹ بھر رہا تھا
شیہر شاہ اکلوتی اولاد تھا ماں باپ کی باپ تو 20 سال پہلے ہی دنیا سے چل بسا تھا
ماں نے پڑھا لکھا کر اس قابل کیا تھا
لیکن یہاں شہیر شاہ اچھا انسان تھا وہی کچھ برائیاں بھی تھی شہیر میں
شہیر شراب چرس سگریٹ جیسے نشے بھی کیا کرتا تھا
اپنے دماغ کو سکون دینے کے لیئے شہیر نشہ کرتا تھا
اپنا گھر گاڑیاں پیسہ اوقات سے زیادہ تھا
نہ جانے کتنے بڑے بڑے خاندان سے رشتے آ چکے تھے لیکن شہیر شاہ انکار کر دیتا نہ جانے اسے کیسی لڑکی چاہیئے تھی
ہر خوبصورت لڑکی کو ٹھکرا دیتا
ماں نے بہت سمجھایا بیٹا تم۔کو شادی کر لینی چاہیئے اب
لیکن جناب کو نہ جانے کیوں شادی والے لفظ پہ غصہ آتا
گھر آیا اپنے نوکر کو بولا مجھے کوئ ڈسٹرب نہ۔کرے
شراب کی بوتل۔کھولی اور پینے لگا
نشے میں ڈوب گیا پھر نصرت کی غزل سنتے سنتے سو گیا
نشے میں ڈوب کر سویا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ماں بننے والی ہوں سعد مجھے ڈاکٹر پاس لے جاو
عائزہ اپنے شوہر کو بول رہی تھی
سعد نے عائزہ کی طرف دیکھا
عائزہ میری بات سن لو میرے بھائی کی بھی 5 بیٹیاں ہیں
دوسرے بھائی کی 7 بیٹیاں ہیں اور اگر تم نے بھی بیٹی پیدا کی تو گھر نہ آنا ہسپتال سے ہی کہیں چلی جانا سمجھی
عائزہ غصے سے بولی سعد میرے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ تمہارا ہے بیٹی ہے یا بیٹا
میں ماں ہوں تو تم باپ
بیٹی یا بیٹا اللہ کے ہاتھ ہے میرے نہیں ۔تم مرد یہ بات سمجھتے کیوں نہیں ہو
عائزہ سمجھدار اور باحیا لڑکی تھی لیکن اجنبی لوگوں میں بیاہی گئی تھی
ماں باپ تھے نہیں بھائی لوگوں نے شادی کروائی تھی لیکن سچ یہ بھی ہے کے آج کل بھائی صرف شادی سے پہلے ہوتے ہیں
شادی کے بعد بھائی اجنبی بن جاتے ہیں
عائزہ بہت پریشان تھی سعد کے اس رویئے سے
رات کو سعد کے پاس لیٹ کر بولی سعد
ایسی بات کیوں کرتے ہو
کیا بیٹی ہوئی تو مجھے چھوڑ دو گے سعد نے کروٹ بدلی
ہاں عائزہ بیٹی ہوئی تو واپس نہ آنا اس گھر میں سمجھی
میں تم کو طلاق دے دوں گا
عائزہ بہت پریشان تھی یا میرے اللہ سعد کو سمجھ عطا فرما
یا بیٹا دے دے ہم کو
نہیں تو میرا گھر اجڑ جائے گا
کبھی کبھی خدا وہ کرتا ہے جو ہمارے گماں میں بھی نہیں ہوتا
اللہ بہتر جانے والا ہے
اس کے ہرکام۔میں بہتری ہوتی ہے کچھ راز چھپے ہوتے ہیں جو وقت آنے پہ کھلتے ہیں ہماری عقل سوجھ بوجھ پہ
عائزہ کو درد شروع ہوا ہسپتال لے گئے
عائزہ کے دل و دماغ میں دعائیں تھی یا اللہ بیٹا عطا کرنا
ورنہ میرا گھر اجڑ جائے گا
اور پھر بچے کی رونے کی آواز سنائی دی
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اگر عرب-اسرائیل جنگ, حماس اور انتفادہ کے بارے میں کوئی کتاب ارسال کریں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔
جنسی ترغیبات سے بچنے کے لئے کلیسائے روم نے ازمنۂ وسطی میں نہانے دھونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ خیال یہ تھا کہ جسم کو صاف ستھرا رکھنے سے نفسانی خواہش بھڑک اٹھتی ہے۔ غلاظت کی تعریف کی جاتی تھی اور جسم کی بد بو کو ”تقدّس کی خوشبو“ کہتے تھے۔
ولیّہ پالا کا قول ہے، ”جسم اور کپڑوں کی صفائی کا مطلب ہے رُوح کی کی آلائش۔“ جوؤں کو ”خدا کے موتی“ کہا جاتا تھا۔ خیال یہ تھا کہ جس شخص کے بدن میں جتنی زیادہ جوؤں ہوں اتنا ہی زیادہ وہ مقدّس ہوتا ہے۔
جنسیاتی مطالعے
سید علی عباس جلالپوری
اب جن نے فرمائش کی ہے وہی بتاسکتے ہیں
ہم تو سسپنس سرگزشت کے پی ڈی یف شماروں میں ہی خوش ہوں
وہ ڈائجسٹ بھی جگہ کی قلت کی وجہ سے جلادئے گئے
ممکن ہو تو سسپنس، سرگزشت، جاسوسی کے ڈائجسٹ کے شماروں میں تلاش کریں
شاید کہ مل جائے
یاد آتا ہے کہ عرصہ قبل ُھما ڈائجسٹ میں اس طرز کی ایک کہانی پڑھی تھی
ایک شخص ایک غیرمعمولی کیمرے سے فوکس کرکے سامنے والے کی سوچ پر قبضہ کرلیتا ہے
عائزہ کی جاب شہیر کے آفس میں لگی ہوگی اور پھر دونوں میں پیار ہوا ہوگا اور اخیر میں دونوں کی شادی ہو گئی ہوگی
کہانی ختم
ایک نرس باہر آئی سعد کو خوشخبری دی مبارک ہو سر اللہ نے آپ کو بہت پیار بیٹی دی ہے
سعد نے جیسے ہی سنا غصے سے اٹھا ہسپتال سے چلا گیا
عائزہ کو پتا چلا بیٹی ہوئی ہے وہ اپنا انجام۔جان چکی تھی
بیٹی عائزہ کی گود میں رکھی
عائزہ کی آنکھیں چھلک گئی آنسو سے بہت پیاری سی کلی گلاب کی
عائزہ نے سینے سے لگایا چومنے لگی
ڈاکٹر نے پوچھا آپ کے ساتھ جو آئے تھے وہ کہاں گئے ۔
عائزہ ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگی
وہ اب کبھی واپس نہیں آئیں گے
ڈاکٹرز حیران تھے ایسا کیوں لیکن ہسپتال کا بل کون دے گا
عائزہ نے اپنے بیگ کی طرف اشارہ کیا
ایک نرس سٹاف نے بیگ عائزہ کو دیا
عائزہ نے 50 ہزار نکالے جتنا بل ہے آپ لے لیں
30 ہزار بل بنا تھا
پھر عائزہ کو دوسرے کمرےمیں شفٹ کر دیا
سعد نے فون کیا اور طلاق دے دی
عائزہ میرے لیئے تم اب مر چکی ہو اجنبی ہو اب کبھی میرا نام بھی نہ لینا اپنی بیٹی کو لے کر دفعہ ہو جاو
عائزہ کہاں جاتی کہاں رہتی
بھیگی پلکوں سے مرد کی غیرت کو دیکھ رہی تھی
مرد کیوں اتنے بے حس ہوتے ہیں
جب چاہیں عورت کو چھوڑ دیں پھر جب چاہیں کسی دوسری عورت کو اپنا لیں
برسوں کی محبت کو پیروں تلے روندنے میں دیر نہیں کرتے
عورت جسم پہ الگ سے مرد کو برداشت کرے اور روح پہ الگ سے
عورت نوکرانی بھی بنے اور کھلونا بھی
عورت زبان بھی نہ کھولے اور سب کچھ سمجھے بھی
واہ سعد جیسے مرد تیری اس بے حسی پہ لعنت
عائزہ خیالوں میں گم۔تھی اپنی دوست کو فون کیا
اس کو بتایا سعد نے مجھے طلاق دے دی ہے
دوست حیران تھی طلاق لیکن کیوں
عائزہ رونے لگی کیوں کے ایک بیٹی نے بیٹی کو جنم دیا ہے نا اسلیئے
دوست کے گھر گئی کچھ دن وہاں رہی
پھر سوچا بھائی لوگوں کے پاس لاہور چلی جاتی ہوں
ان کو بتاوں گی سب کچھ شاہد کے کوئی اب جینے کا راستہ نکل آئے
عائزہ پڑھی لکھی تھی
نماز بہت ادا کی اپنی دوست کو کہنے لگی میں لاہور جانا چاہتی ہوں اپنے بھائی کے پاس وہاں جا کر کوئی جاب کر لوں گی
سعد نے طلاق دینے کے بعد خبر نہ لی عائزہ کہاں ہے کہاں بھٹک رہی ہے
بھوکی پیاسی مر تو نہیں گئی آخر سعد مرد تھا مڑ کر کیسے دیکھتا
رونا عورت کو ہوتا ہے تڑپنا عورت کو پڑتا ہے
درد عورت سہتی ہے تھپڑ عورت کو مارا جاتا ہے
گالی بھی عورت سنتی ہے
اور طلاق دے کر رسوا بھی عورت ہوتی ہے
ہمدردی مرد سے کرتے ہیں لوگ پھر طوائف بھی عورت کہلاتی ہے
عائزہ کراچی سے لاہور کے لیئے روانہ ہوئی بیٹی ابھی صرف دو ماہ کی تھی
ٹرین کی ٹکٹ لی ٹرین میں جا بیٹھی ۔۔۔۔
شہیر شاہ کراچی گیا تھا میٹنگ کے لیئے لیکن اب واپسی کئ کے لیئے ائیرپورٹ سے کوئی فلائٹ کی ٹکٹ نہ مل رہی تھی شاید کوئی حادثہ پیش آنے کی وجہ سے
شہیر کی دو دن بعد لاہور بھی میٹنگ تھی
شہیر نے سوچا ٹرین میں ہی چلا جاتا ہوں
ٹکٹ لی ٹرین میں بیٹھ گیا بلکل عائزہ کے سامنے والی سیٹ پہ بیٹھ گیا
عائزہ بیٹی کو گود میں اٹھائے بیٹھی ہوئی تھی
ٹرین چل پڑی رات کا وقت تھا
شہیر شاہ دیکھ رہا تھا سب لوگ سو رہے ہیں لیکن عائزہ کہیں سوچ میں گم تھی
رات کا/ایک بج گیا عائزہ آنسو چھپاتے ہوئے رو رہی تھی
شہیر بھی نگاہیں چرا کر دیکھ رہا تھا
اتنی خوبصورت لڑکی اتنی پیاری بیٹی اس کی یہ رو کیوں رہی ہے
بہت بار کوشش کی پوچھنے کی لیکن خاموش رہا
رات بھر ٹرین چلتی رہی پھر ایک اسٹیشن پہ آ کر رکی
شہیر شاہ ٹرین سے اترا کچھ کھانے کے لیئے لیا پھر واپس آ کر بیٹھ گیا
لیکن عائزہ وہی بیٹھی رہی بیٹی رو رہی تھی
شاید بیٹی کو بھوک لگی تھی
بچی کو روتے 15 منٹ گزر گئے عائزہ چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن بچی روئے جا رہی تھی ہمت کر کے شہیر نے عائزہ کو کہا مجھے دیں میں چپ کرواتا ہوں
پہلے عائزہ نے منع کر دیا پھر شہیر بیٹی تھما دی
جیسے ہی شہیر کے ہاتھوں میں آئی بچی چپ کر گئی
شہیر مسکرانے لگا میری بیٹی کو بھوک لگی ہے کیا
آپ کی ماما کو بھوک لگی ہے کیا
شہیر جو کھانا اپنے لیئے لے کر آیا تھا عائزہ کو دیا کھا لیں
عائزہ نے کافی انکار کیا آخر بھوک لگی تھی کھانا کھانے لگی
ٹرین کو چلنے میں ابھی وقت تھا
شہیر بچی کو لیکر ٹرین سے نیچے اترا
عائزہ کھڑکی سے دیکھ رہی تھی
شہیر کچھ کھانے کا مزید سامان لیا
لیکن عائزہ گھبرا گئی تھی کہیں یہ اجنبی میری بیٹی کو لے کر نہ بھاگ جائے
خیر شہیر واپس آیا
بچی شہیر کے کندھے سے لگ کر سو گئی تھی
عائزہ نے کہا مجھے دے دیں بچی
شہیر مسکرانے لگا آپ کچھ دیر سو جائیں ساری رات نہیں سوئی آپ
عائزہ تھک چکی تھی سو گئی ٹرین چل پڑی تھی
بچی بہت سکون سے سوئی ہوئی تھی شہیر کی گود میں
شہیر فون پہ بات کر رہا تھا
والگا سے گنگا
مصنف ۔ راہل سنکرتیاین
مترجم۔ عاصم علی شاہ/ طفیل احمد خان ۔۔۔
ہندی کے مشہور ادیب و تاریخ دان راہل سنکراتائین کی یہ لازوال تخلیق بیس ابواب پرمشتمل ہے۔ راہل جی نے دریائے وولگا کے کنارے رہنے والے آریاؤں کا سرسبز چراگاہوں کے اجڑ جانے پر دریائے وولگا سے دریائے گنگا تک کا سفر بیان کیا ہے۔
ایک نہایت دلچسپ تاریخی سفر نامہ جو ہمیں یہ بھی دکھاتا ہے کہ ہزاروں برس پر پھیلے ہوئے اسی سفرکے دوران عورت کے زیر انتظام سماج نے کن وجوہات کی بنا پر اور آلات پیداوار کی تبدیلی کے ساتھ کس طرح پدری سماج یا مرد کے سماج کا رنگ اختیارکیا۔ آپ کتاب کا لب و لہجہ ملاحظہ فرمائیں۔
“وولگا کے کنارے ایک بہت بڑے جھونپڑے میں نشا خاندان کی اولاد رہتی ہے۔ یہ ایک بوڑھی دادی کا نام ہے۔ یہ قبیلہ ایک ساتھ شکارکرتا ہے، ایک ساتھ پھل اور شہد جمع کرتا ہے۔ سارے قبیلے کی ایک مالکہ ہے اور سارے قبیلے کا گزارا ایک سنچالن کرتی ہے۔ اس سنچالن سے قبیلے کے آدمیوں کی زندگی کا کوئی حصہ چُھوٹا ہوا نہیں ہے۔ شکار ، ناچ ، محبت ، گھر بنانا ، چمڑے کا لباس تیارکرنا۔ سبھی کام سنچالن یا قبیلے کی کمیٹی کرتی ہے جس میں قبیلے کی ماں کے مخصوص کام ہیں۔
🌹🌹🌹🌹🌹
https://www.youtube.com/watch?v=4csU3FgT9pE
ٹیلی گرام چیٹ کا بیک اپ لینے کا طریقہ
از کرم اس ویڈیو کو شئیر کریں
telegram.me/ImpoINFO
کچھ شمارے صراف دوارا ریختیائے گئے ہیں، اگر ماہ و سال یا کہانی کا نام یاد ہو تو بتائیں، دیکھتے ہیں۔
Читать полностью…ایک ناول ہے جسکا مرکزی کردار آلہ تسخیر دماغ بناتا ہے جسکا دماغ چاہتا ہے اپنے قبضے میں کر لیتا ہے اگر کسی بھائی کو معلوم ہو تو بتائیں
دیوتا محی الدین نواب کا ناول الگ ہے
کیا کوئی ایسا گروپ ہے جس میں ناول یونیکوڈ پوسٹ کئے جاتے ہوں... جہاں سے کاپی ہو سکیں
Читать полностью…