السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کلیات بشیر بدر
مل جائے تو مشکور ہوں گے ۔
جزاک اللہ
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
ایک مشہور شعر پر گفتگو
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ گلستان بنا دیا۔
کسی بھی شعر کی خوبصورتی اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ کس قدر برجستگی کے ساتھ کہا گیا ہے ۔ شعر جہاں تصنع یا آورد کا شکار ہوا، وہیں اس کا حسن ختم ہوجاتا ہے ۔ مذکورہ شعر میں کمال کی برجستگی ہے، کچھ بھی تصنع آمیز نہیں، ایک فطری انداز اور رویہ ہے۔
یوں تو یہ شعر تمثیل کا ہے اور یہی اس شعر کے دونوں مصرعوں میں ہے بھی، لیکن اس سے پرے کچھ اؤر ہے جو اس شعر کے حسن میں اصلا اضافے کا سبب ہے ۔ پہلے مصرعے میں "جان پڑنے" کا محاورہ اور دوسرے مصرعے میں "لب کشا ہونے" کا محاورہ ۔ جان پڑنے کا سیدھا سادہ مطلب ہے تازگی آنا، رونق بڑھ جانا، کلیجہ ٹھنڈا ہونا وغیرہ ۔ یہ محاورہ عموماً کچھ اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ فلاں کے محفل میں آنے سے جان پڑ گئی ۔ بارش ہوئی تو سوکھی زمینوں میں جان پڑ گئی، دوا پڑتے ہی مرجھائے ہوئے پتوں میں جان پڑ گئی وغیرہ ۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو اس میں سبب اؤر مسبب دونوں کام کر رہا ہے یہ اؤر بات کہ یہاں مجاز مرسل کا کوئی قضیہ نہیں ہے ۔ یہاں بطور شرط اؤر مشروط ہے ۔ اسی سے محبوب کے مسکراہٹ کی تمیز ہوسکتی تھی، اسی سے بتایا جاسکتا تھا کہ اس کی مسکراہٹ میں دلکشی کیوں ہے ۔ مسکراتا تو ہر کوئی ہے مگر شاعر بتا رہا ہے کہ اس کا انداز جداگانہ کیوں ہے اگر یوں نہیں ہوتا تو کلیوں میں جان نہیں پڑتی ۔ عام طور پر تمیز کے لیے موازنہ ، تقابل اور تفضیل کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن یہاں شاعر کی یہی انفرادیت ہے کہ اس نے ان سب کے بجائے محبوب کے مسکراہٹ کی تمیز کے لیے ایک الگ راستہ نکال لیا ۔
لب کشا ہونا یہاں بطور محاورہ استعمال ہوا ہے ۔ محاورے کی شناخت یہی ہوتی ہے کہ وہ فعل پر ختم ہوتا ہے اور اپنے مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے یہاں یہ شرائط موجود ہیں ۔ اسی لیے لب کشا ہونے کا مفہوم صرف ہونٹ ہلانا یا کھولنا نہیں ہے بلکہ گفتگو کرنا اؤر بات کرنا ہے وگرنہ "گلستان بنانے" کا تصور، تصور ہی رہ جائے گا ۔معنی کے اعتبار سے یہاں سیاقاً ایک اؤر قرینہ موجود ہے جسے آپ مجاز مرسل سے تعیبر کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں لب کشا یعنی سبب بول کر گفتگو یعنی مسبب مراد لیا گیا ہے ۔ لفظ "بنا دیا" تو ایک طرح سے اعلانیہ اظہار ہے کہ یہاں مسبب موجود ہے کیونکہ کچھ بھی بنادینے کا تصور صرف مسبب سے ہی وابستہ ہوسکتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم گلستان بنا دینے کا مفہوم صرف یوں سمجھتے ہیں کہ اس نے گفتگو کی تو الفاظ کے اس قدر پھول بکھیرے کہ گلستان بن گیا مگر بات صرف اتنی نہیں ہے ۔ ہر گفتگو کے لیے سماعت درکار ہوتی ہے اور محبوب بات کرے تو ہجوم لگنا بدیہی ہے یہی اصل اشارہ ہے ۔ ورنہ محض گلستان بنا دینا گفتگو کا تو کوئی خاصہ نہیں ۔ عام طور پر دیکھیں گے کہ اس طرح کے جتنے اشعار اشعار جہاں لب کشا ہونے کا تصور ہے ان میں بین السطور ہجوم کا معنی پوشیدہ ہوتا ہے جیسے علامہ اقبال کا یہ شعر:
کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تُو
لب کُشا ہو جا، سرودِ بربطِ عالم ہے تُو
"سرود بربط عالم" کا بین السطور کیا کہہ رہا ہے۔؟
القصہ میں نے عمدا پوری گفتگو میں کہیں بھی شاعر کا نام نہیں لیا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مشہور شعر کس شاعر کا ہے ۔ ضرور بتائیں مگر "ریختہ" دیکھ کر نہیں ۔
سیف ازہر
سیر الاولیاء ۔
میرخورد ۔
خواجگان چشت کے تذکرے پرمشتمل مستندو قدیم ترین کتاب کا نظر ثانی شدہ اردو ترجمہ
سرحدیں اسی طرح کام کرتی ہیں
ہندوستانی پنجاب اور پڑوسی ملک کے لاہور میں بس 102 کلو میٹر کا فاصلہ ہے لیکن نہ صرف آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہے بلکہ سو کلو میٹر کی اس قلیل مسافت سے آنے والی ہر چیز غیر ملکی کہلاتی ہے، جبکہ کشمیر سے دو ہزار کلو میٹر کا سفر طئے کرکے حیدرآباد آنے والے سیب اور خشک میوہ جات ملکی ہیں، سرحدیں اسی طرح کام کرتی ہیں...
سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے جو قومی اعتبار سے پنجابی ہیں 2018 میں ہماچل پردیش کے علاقے کسولی منعقدہ ایک ادبی کانفرنس میں کہا تھا "میں ٹامل ناڈو کے مقابلہ پاکستان میں زیادہ اپنا پن محسوس کرتا ہوں"، سدھو نے ثقافتی و تہذیبی اضداد کے تناظر میں یہ بات کہی تھی، ایک پنجابی؛ جنوبی ہند کے قیام و طعام رہن سہن کے مقابلے پاکستان میں زیادہ زیادہ آرام محسوس کرے گا کہ ماقبل آزادی وہ علاقہ پنجاب کا ہی حصہ تھا، عقلی اعتبار سے سابق کرکٹر کی یہ بات قابلِ ہضم تھی لیکن سرحد کے دیوانوں کا ہاضمہ خراب ہوگیا اور سدھو لعن طعن کا شکار ہوگئے...
یہ تو زمینی سرحد کا معاملہ تھا، انسانی فطرت کی قلبی و مزاجی سرحد بھی اسی طرح کام کرتی ہے، اپنے ہم مسلک، ہم نظریہ، ہم خیال افراد کی بات درست ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے چاہے اس کے لئے دور کی کوڑی ہی لانی کیوں نہ پڑے جبکہ اپنے مخالف کی معقول بات بھی نظر انداز کردی جاتی ہے بلکہ بسا اوقات صرف اس بنیاد پر کہ وہ ہمارا مخالف ہے اس کے خیالات کا رد بھی لازم گردانا جاتا ہے، یقینا سرحدیں اسی طرح کام کرتی ہیں...
🖋️ مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ
سترہ اگست دو ہزار چوبیس
ایک ناول سلسلہ وار لیکن کم اقساط والا کسی سائنسی ڈائجسٹ میں پڑھنا یاد ہے جس میں ایک سائنس دان کیمرے سے تصویر لیکر سامنے والے کو مار سکتا تھا، وہ جس کی تصویر لیتا اس کو ناقابل شناخت بیکٹیریا لگ جاتا اور آناً فاناً ختم...
کچھ کچھ تو مجھے یاد ہے سب یاد نہیں ہے
بیت المقدس کو فتح کرنے والے دونوں مسلم فاتحین نے نہ تو ایسی کتابیں پڑھیں اور نہ لکھیں
تاریخ کے اوراق سے ثابت حقیقت
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اگر عرب-اسرائیل جنگ, حماس اور انتفادہ کے بارے میں کوئی کتاب ارسال کریں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔
ابن صیاد کے متعلق ایک کتابچہ پڑھا تھا، غالباً مفتی ابولبابہ شاہ منصور کا مرتبہ ہے، نام یاد نہیں ہے۔
اگر کسی کو معلوم ہو تو برائے مہربانی وہ کتاب ارسال کریں
جزاکم اللہ خیرا
فرہنگ آصفیہ۔۔۔۔مولوی سید احمد دہلوی کی کتاب مکمل چار جلدیں ارسل فرمائے۔۔۔۔جزاک اللہ
Читать полностью…